جنوری میں کی 5 تاریخ کو اسلام آباد سے عدیس ابابا آنا پڑا ۔
14 مارچ کو چم چم (نواسی) کی سالگرہ تھی ۔ بڑھیا نے 10 مارچ کو وارننگ دی کہ آپ کی بال بہت بڑھ گئے ہیں ، کٹوا لیں ۔
"نہیں ٹھیک ہیں زیادہ نہیں بڑھے " میں نے جواب دیا ۔
"نہیں بُرے لگ رہے ہیں ، کٹوا لیں لوگ یا کہیں گے " بڑھیا بولی ۔
" کون سے لوگ ؟" میں نے اکتائے ہوئے لہجے میں پوچھا
" ارے وہی جو سالگرہ پر آئے گے " بڑھیا بولی '
" وہ کون سا میرے رشتے کے لئے آرہے ہیں " میں نے جواب دیا۔
" کچھ خدا کا خوف کرو ، اِس عمر میں بھی رشتے کا سوجھ رہا ہے ؟" بڑھیا نے جھاڑا ۔
" جب ، اِس عمر میں مصطفیٰ کھر اپنی گود میں اپنے ڈیڑھ سال کے بچے کو اُٹھا سکتا ہے ، تو میں نے کیا جرم کیا ہے ؟ ویسے بھی جب میں نے آپ کے کہنے پر ، ایتھوپیئن نائی سے بال کٹوائے تھے تو اُس نے کون سا ہیرو بنا دیا تھا ؟" میں نے جوابی وار کیا ۔
" اچھے تو بال کاٹے تھے ، ایتھوپیا میں وہی کٹ کاٹیں گے جو یہاں کا رواج ہے " بڑھیا بولی ۔
" پپا ، آپ ہلٹن چلے جائیں وہاں کا باربر اچھا ہے " بیٹی نے رائے دی ۔
" وہاں کیا خوبی ہے ؟ ہے تو وہ بھی ایتھو پیئن " میں نے جواب دیا ۔
" آپ انجوائے کریں گے "۔ یہ کہہ کر اُس نے ہلٹن فون ملایا اور 13 تاریخ شام 3 بجے کی بکنگ کروا دی ۔
" ارے بھئ آج کیوں نہیں ؟" میں نے پوچھا ۔
" پپا وہاں ، اپائنٹمنٹ لینا پڑتی ہے " بیٹی بولی ۔
" اُنہوں نے بال کاٹنے ہیں یا دانت نکالنا ہے " میں نے پوچھا ۔
" شکر کریں ، آپ کو تین دن بعد اپائنٹمنٹ مل گئی عورتوں کو ہفتہ پہلے بکنگ کروانا پڑتی ہے " بیٹی بولی ۔
13 تاریخ کو بیٹی کو میسج آیا ،" آپ کی اپائنٹمنٹ منسوخ ہو گئی ہے ، آئیندہ تاریخ آپ کو بتا دی جائے گی ۔
چنانچہ اِس بوڑھے نے سکون کا سانس لیا ، ڈی ایچ اے ، ون میں ٹینکی کے نیچے نائی کی دُکان سے 100 روپے میں بال کٹوانے والا ، 400 ایتھوپیئن روپوں میں بال کیسے کٹوا سکتا ؟
چلو اب چھٹی ، واپسی اپریل میں دبئی جا کر ، پاکستانی باربر سے بال کٹوائیں گے ۔
مارچ گذرا تو معلوم ہوا ایتھوپیا سے باہر نکلنے والے سارے راستے بند !
اور بال تھے کہ روزانہ کے حساب سے بڑھ رہے تھے ۔
صبح سو کر اُٹھتا اور شیشے میں خود کو دیکھتا تو ایسا معلوم ہوتا جیسے رات کو بالوں میں بم پھٹا ہے ۔
کبھی دل میں آتا کہ سر کو خود احتسابی کے عمل سے گذارا جائے ۔ لیکن پھر ڈر لگتا - کہ کہیں نیب کی طرح اگر احتساب کا عمل زیادہ ہو گیا ، تو سر منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا ۔
آج کی بات ہے ، کہ بڑھیا نے تھیلا دے کر کہا : "یہ سامان لے آئیں "
بوڑھا سامان لینے محلّے کی مارکیٹ چلا گیا ، وہاں باربر کی دُکان پر دیکھی کھلی ہوئی تھی -
تجسس کے مارے دکان میں گیا ۔ کوئی نہیں تھا ، واپس مڑا تو سامنے کافی شاپ پر بیٹھا نوجوان تیزی سے میرے طرف بڑھا ۔ اور ٹوٹی پھوٹی انگلش میں پوچھا ۔
" بال کٹوانے ہیں ؟"
" جی ، مگر مجھے کرونا سے ڈر لگتا ہے " میں نے کہا ۔
" نو نو سر ۔ میرے پاس سینیٹائزر ہے ۔ آپ فکر مت کرو ۔ تمام سامان کرونا پروف ہے ۔ کل کمیٹی والے چیک کر کے گئے ہیں" اُس نے کہا ۔
اور بوڑھے کو کرسی پر بیٹھنے کو کہا ۔
نوجوان بارباربر سے سامان نکالا ، اُسے ایک ٹرے میں ڈالا اور ایک بوتل سے لکوئڈ اُنڈیلا ، کمرے میں سپرٹ کی بو بھر گئی ۔ پھر اُس نے میرے ہاتھوں پر سینی ٹائزر سے سرے کیا ، میرے بالوں پر سپرے کیا ، خود گلوز پہنے ، ماسک لگایا ۔ ایک خود ساختہ چولہے میں سپرٹ ڈال کر آگ لگائی اور اپنی بال کاٹنے کی مشین اور اُس کی لوہے کی گراری کو آگ سے گذارا ۔
آگ بند کرنے کے بعد اُس نے سپرے سے ماحول میں اُڑنے والے کرونا کے جراثیم کو نیست و نابود کیا-
بوڑھے نے کرسی کے ہینڈلز پر دو دفعہ سپرے کروایا اور بوڑھے سے پوچھا ،
" کس قسم کی ہیر کٹ کرنی ہے "
اور ہیر کٹ کےچارٹ کی طرف اشارہ کیا ۔
بوڑھے نے غور سے تمام نوجونوں کے ہیر سٹائل کی تصاویر دیکھیں اور سب سے نیچے بائیں سے دوسرے نوجوان کی طرف اشارہ کر کے کہا ،
" ایسی " اور بوڑھا آنکھیں بند کرکے کرسی پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔
مشین کی گھر گھر سے تین ماہ کے بڑھے ہوئے بال گھاس کی طرح کٹ کر گرنے لگے ۔
اُس نے بعد جو بوڑھے کا سر بنا ۔
وہ ایسا تھا ، نوجوان باربر سے پوچھا ۔"
کتنے پیسے ؟"
" 50 بر " وہ بولا۔
کہاں 400 بر اور کہاں 50 بر ؟؟
چنانچہ مبلغ 100 ایتھوپئین بر ، جو پاکستان کے مطابق 500 روپے تقریباً بنتے تھے دے کر شکریہ ادا کرنے کے بعد سامان خرید کر گھر آیا ۔
بڑھیا نے درہازہ کھولا ، اور حیران ہو کر پوچھا ،
" یہ کیا ؟ کیا ہیر کٹ کروائی ہے ؟ "
" جی ، بال بڑھ گئے تھے ، سوچا کروالوں" میں بولا ۔
"یہ کیسی کروائی ہے ؟ اِس سے بہتر تھا گنجے ہو جاتے " بڑھیا نے طنز کیا ۔
"اور آپ کو کرونا کا ڈر نہیں لگا "
" کرونا ، گنجا ہونے کے ڈر سے ایتھوپیئن نائی کی دکان میں نہیں گھستا " میں نے جواب دیا۔
" کتنے بُرے بال کاٹے ہیں بد بخت نے" بڑھیا بولی "اچھا جائیں گرم پانی سے خوب نہائیں "
" ارے بیوی گھر کی کھیتی ہے مہینے بعد پھر کٹنے کے قابل ہوگی " میں نے مزاحیہ انداز میں کہا
" ٹھیک ہے اگلی دفعہ میں کاٹوں گی " بڑھیا بولی
" چالیس سال ہو گئے ہیں حجامت بناتے ہوئے اب بھی دل نہیں بھرا " یہ کہہ کر باتھ روم کی طرف بڑھ گیا ۔
تیا ر کے بعد شیشے میں دیکھا ،"کیوں دوستو ! بال کچھ بُرے نہیں کاٹے؟ "
14 مارچ کو چم چم (نواسی) کی سالگرہ تھی ۔ بڑھیا نے 10 مارچ کو وارننگ دی کہ آپ کی بال بہت بڑھ گئے ہیں ، کٹوا لیں ۔
"نہیں ٹھیک ہیں زیادہ نہیں بڑھے " میں نے جواب دیا ۔
"نہیں بُرے لگ رہے ہیں ، کٹوا لیں لوگ یا کہیں گے " بڑھیا بولی ۔
" کون سے لوگ ؟" میں نے اکتائے ہوئے لہجے میں پوچھا
" ارے وہی جو سالگرہ پر آئے گے " بڑھیا بولی '
" وہ کون سا میرے رشتے کے لئے آرہے ہیں " میں نے جواب دیا۔
" کچھ خدا کا خوف کرو ، اِس عمر میں بھی رشتے کا سوجھ رہا ہے ؟" بڑھیا نے جھاڑا ۔
" جب ، اِس عمر میں مصطفیٰ کھر اپنی گود میں اپنے ڈیڑھ سال کے بچے کو اُٹھا سکتا ہے ، تو میں نے کیا جرم کیا ہے ؟ ویسے بھی جب میں نے آپ کے کہنے پر ، ایتھوپیئن نائی سے بال کٹوائے تھے تو اُس نے کون سا ہیرو بنا دیا تھا ؟" میں نے جوابی وار کیا ۔
" اچھے تو بال کاٹے تھے ، ایتھوپیا میں وہی کٹ کاٹیں گے جو یہاں کا رواج ہے " بڑھیا بولی ۔
" پپا ، آپ ہلٹن چلے جائیں وہاں کا باربر اچھا ہے " بیٹی نے رائے دی ۔
" وہاں کیا خوبی ہے ؟ ہے تو وہ بھی ایتھو پیئن " میں نے جواب دیا ۔
" آپ انجوائے کریں گے "۔ یہ کہہ کر اُس نے ہلٹن فون ملایا اور 13 تاریخ شام 3 بجے کی بکنگ کروا دی ۔
" ارے بھئ آج کیوں نہیں ؟" میں نے پوچھا ۔
" پپا وہاں ، اپائنٹمنٹ لینا پڑتی ہے " بیٹی بولی ۔
" اُنہوں نے بال کاٹنے ہیں یا دانت نکالنا ہے " میں نے پوچھا ۔
" شکر کریں ، آپ کو تین دن بعد اپائنٹمنٹ مل گئی عورتوں کو ہفتہ پہلے بکنگ کروانا پڑتی ہے " بیٹی بولی ۔
13 تاریخ کو بیٹی کو میسج آیا ،" آپ کی اپائنٹمنٹ منسوخ ہو گئی ہے ، آئیندہ تاریخ آپ کو بتا دی جائے گی ۔
چنانچہ اِس بوڑھے نے سکون کا سانس لیا ، ڈی ایچ اے ، ون میں ٹینکی کے نیچے نائی کی دُکان سے 100 روپے میں بال کٹوانے والا ، 400 ایتھوپیئن روپوں میں بال کیسے کٹوا سکتا ؟
چلو اب چھٹی ، واپسی اپریل میں دبئی جا کر ، پاکستانی باربر سے بال کٹوائیں گے ۔
مارچ گذرا تو معلوم ہوا ایتھوپیا سے باہر نکلنے والے سارے راستے بند !
اور بال تھے کہ روزانہ کے حساب سے بڑھ رہے تھے ۔
صبح سو کر اُٹھتا اور شیشے میں خود کو دیکھتا تو ایسا معلوم ہوتا جیسے رات کو بالوں میں بم پھٹا ہے ۔
کبھی دل میں آتا کہ سر کو خود احتسابی کے عمل سے گذارا جائے ۔ لیکن پھر ڈر لگتا - کہ کہیں نیب کی طرح اگر احتساب کا عمل زیادہ ہو گیا ، تو سر منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا ۔
آج کی بات ہے ، کہ بڑھیا نے تھیلا دے کر کہا : "یہ سامان لے آئیں "
بوڑھا سامان لینے محلّے کی مارکیٹ چلا گیا ، وہاں باربر کی دُکان پر دیکھی کھلی ہوئی تھی -
تجسس کے مارے دکان میں گیا ۔ کوئی نہیں تھا ، واپس مڑا تو سامنے کافی شاپ پر بیٹھا نوجوان تیزی سے میرے طرف بڑھا ۔ اور ٹوٹی پھوٹی انگلش میں پوچھا ۔
" بال کٹوانے ہیں ؟"
" جی ، مگر مجھے کرونا سے ڈر لگتا ہے " میں نے کہا ۔
" نو نو سر ۔ میرے پاس سینیٹائزر ہے ۔ آپ فکر مت کرو ۔ تمام سامان کرونا پروف ہے ۔ کل کمیٹی والے چیک کر کے گئے ہیں" اُس نے کہا ۔
اور بوڑھے کو کرسی پر بیٹھنے کو کہا ۔
نوجوان بارباربر سے سامان نکالا ، اُسے ایک ٹرے میں ڈالا اور ایک بوتل سے لکوئڈ اُنڈیلا ، کمرے میں سپرٹ کی بو بھر گئی ۔ پھر اُس نے میرے ہاتھوں پر سینی ٹائزر سے سرے کیا ، میرے بالوں پر سپرے کیا ، خود گلوز پہنے ، ماسک لگایا ۔ ایک خود ساختہ چولہے میں سپرٹ ڈال کر آگ لگائی اور اپنی بال کاٹنے کی مشین اور اُس کی لوہے کی گراری کو آگ سے گذارا ۔
آگ بند کرنے کے بعد اُس نے سپرے سے ماحول میں اُڑنے والے کرونا کے جراثیم کو نیست و نابود کیا-
بوڑھے نے کرسی کے ہینڈلز پر دو دفعہ سپرے کروایا اور بوڑھے سے پوچھا ،
" کس قسم کی ہیر کٹ کرنی ہے "
اور ہیر کٹ کےچارٹ کی طرف اشارہ کیا ۔
بوڑھے نے غور سے تمام نوجونوں کے ہیر سٹائل کی تصاویر دیکھیں اور سب سے نیچے بائیں سے دوسرے نوجوان کی طرف اشارہ کر کے کہا ،
" ایسی " اور بوڑھا آنکھیں بند کرکے کرسی پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔
مشین کی گھر گھر سے تین ماہ کے بڑھے ہوئے بال گھاس کی طرح کٹ کر گرنے لگے ۔
اُس نے بعد جو بوڑھے کا سر بنا ۔
وہ ایسا تھا ، نوجوان باربر سے پوچھا ۔"
کتنے پیسے ؟"
" 50 بر " وہ بولا۔
کہاں 400 بر اور کہاں 50 بر ؟؟
چنانچہ مبلغ 100 ایتھوپئین بر ، جو پاکستان کے مطابق 500 روپے تقریباً بنتے تھے دے کر شکریہ ادا کرنے کے بعد سامان خرید کر گھر آیا ۔
بڑھیا نے درہازہ کھولا ، اور حیران ہو کر پوچھا ،
" یہ کیا ؟ کیا ہیر کٹ کروائی ہے ؟ "
" جی ، بال بڑھ گئے تھے ، سوچا کروالوں" میں بولا ۔
"یہ کیسی کروائی ہے ؟ اِس سے بہتر تھا گنجے ہو جاتے " بڑھیا نے طنز کیا ۔
"اور آپ کو کرونا کا ڈر نہیں لگا "
" کرونا ، گنجا ہونے کے ڈر سے ایتھوپیئن نائی کی دکان میں نہیں گھستا " میں نے جواب دیا۔
" کتنے بُرے بال کاٹے ہیں بد بخت نے" بڑھیا بولی "اچھا جائیں گرم پانی سے خوب نہائیں "
" ارے بیوی گھر کی کھیتی ہے مہینے بعد پھر کٹنے کے قابل ہوگی " میں نے مزاحیہ انداز میں کہا
" ٹھیک ہے اگلی دفعہ میں کاٹوں گی " بڑھیا بولی
" چالیس سال ہو گئے ہیں حجامت بناتے ہوئے اب بھی دل نہیں بھرا " یہ کہہ کر باتھ روم کی طرف بڑھ گیا ۔
تیا ر کے بعد شیشے میں دیکھا ،"کیوں دوستو ! بال کچھ بُرے نہیں کاٹے؟ "
٭٭٭٭واپس ٭٭٭
مزید پڑھیں :
٭- شیرٹن ایتھوپیا کا سیلون اور ڈی ایچ اے کا سلون
٭- شیرٹن ایتھوپیا کا سیلون اور ڈی ایچ اے کا سلون
٭٭٭٭واپس ٭٭٭
MashaAllah
جواب دیںحذف کریں