Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 20 مئی، 2020

پی آئی اے کی پرواز PK-705

 پی آئی اے کی پرواز PK-705

 ایک المناک افتتاحی سفر

 20 May 1965 

انیس سو ساٹھ کی دہائی پی آئی اے کے عروج کا زمانہ تھا۔ دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں اس کا نام لیا جاتا تھا۔ انہی دنوں 20 مئی 1965 کو پی آئی اے نے اپنی افتتاحی پرواز کراچی سے لندن کے لیے روانہ کی۔ یہ پرواز دہران (سعودی عرب)، قاہرہ (مصر) اور جنیوا (سوئٹزر لینڈ) پر رک کر آگے لندن پہنچنی تھی۔

وہ جہاز جدید بوئنگ تھا اور اِس میں   تھا اور اس میں کل 127 مسافر اور عملہ سوار تھا۔ ان میں نامور صحافی، مختلف ممالک کے مہمان، ٹریول ایجنسیوں کے نمائندے اور پی آئی اے کا بہترین عملہ شامل تھا۔ سب سے مشہور چہرہ ایئر ہوسٹس مومی درانی تھیں، جنہیں اس زمانے میں “پی آئی اے کا چہرہ” کہا جاتا تھا۔تصویر میں کھڑی ہوئی مومی درانی مشہور موسیقار سہیل رعنا کی سالی تھی 

  حادثہ کیسے ہوا جب جہاز قاہرہ ایئرپورٹ پر اترنے کے قریب تھا تو پائلٹ نے بتایا کہ جہاز کے فلیپس میں خرابی آگئی ہے۔ جہاز نے ایک چکر لگایا اور پھر رن وے 34 پر اترنے کی کوشش کی، مگر اونچائی برقرار نہ رکھ سکا اور زمین سے پہلے ہی ٹکرا گیا۔ جہاز کا دایاں پر فوراً آگ پکڑ گیا اور لمحوں میں پورا جہاز شعلوں میں گھِر گیا۔ اس بھیانک حادثے میں صرف چھ افراد زندہ بچے۔ باقی سب — صحافی، مسافر، عملہ — ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔ ان میں چین کے بڑے جہاز ساز ہوانگ ژی چیان بھی شامل تھے۔

   زندہ بچ جانے والوں میں شوکت اے میکلائی بھی تھے، جو اپنی اہلیہ بانو کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ وہ یاد کرتے ہیں: “یہ ہمارا تیئسواں ہنی مون تھا۔ بانو فرسٹ کلاس میں تھیں اور میں پیچھے اکانومی میں۔ جیسے ہی جہاز اترنے لگا، میں نے جہاز کے دائیں پر کو جلتے دیکھا اور پھر بے ہوش ہوگیا۔ جب آنکھ کھلی تو میں اپنی مدد کے بجائے اپنا ہی نام پکار رہا تھا۔ ایک زخمی نوجوان، جو خود بھی لہولہان تھا، مجھے کھینچ کر باہر لے آیا۔ اردگرد لاشیں اور سامان بکھرا پڑا تھا۔ میری بیوی بھی ان میں تھی۔ دل پتھر ہوگیا تھا، کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ اس لمحے اللہ سے دعا کی کہ اگر زندگی ملی تو دوسروں کے لیے جیوں گا، جیسے کل کبھی آئے گا ہی نہیں۔” 

 حادثے کے بعد کا منظر اصل تکلیف حادثے کے بعد شروع ہوئی۔ شوکت میکلائی بتاتے ہیں: “ہم نے دیکھا لوگ دور سے دوڑتے آرہے ہیں۔ ہم سمجھے مدد کے لیے آ رہے ہیں۔ وہ ‘اللہ اکبر’ کہہ کر پہنچے مگر زخمیوں کو اٹھانے کے بجائے سامان اور بیگ اٹھا کر چلتے بنے۔” مدد پانچ چھ گھنٹے بعد پہنچی۔ تب تک کئی زخمی تڑپ تڑپ کر جان دے چکے تھے۔ مصری حکام اتنے بڑے حادثے کے لیے تیار ہی نہ تھے۔ سب سے پہلے جو ہیلی کاپٹر آیا اس میں اسٹریچر تک نہیں تھا۔ آخر میں صرف چھ لوگ بچ پائے۔ باقی سب قاہرہ کی مٹی میں دفن ہوگئے۔

 جب زندہ بچنے والے کراچی واپس آئے تو عوام نے ان کے زندہ بچ جانے کو معجزہ سمجھا اور یادگار استقبال کیا۔ شوکت میکلائی کے لیے یہ زندگی کا سب سے بڑا موڑ تھا۔ اچانک بیوی کے بغیر، تین بچوں کا باپ، لیکن ہمت اور ایمان کے ساتھ انہوں نے نیا سفر شروع کیا۔ یاد رہے کہ شوکت مکلائی 95 برس کی عمر میں 2014 میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

 آج بھی  پی آئی اے کے جہاز کی  تباہئ جیسے واقعات یہ سبق دیتے ہیں کہ زندگی بہت نازک ہے، کل کا کوئی یقین نہیں۔ ایسے حادثات میں اصل امتحان یہ بھی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو انسانیت دکھائی جائے، نہ کہ مشکل میں گھرے لوگوں کو بے یارو مددگار تڑپتا چھوڑ دیا جائے۔٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔