میجر جنرل راؤ فرمان علی
وہ
10 برس سے زائد عرصے تک مشرقی پاکستان میں مختلف ذمہ داریاں نبھاتے رہے جس
میں انٹیلیجینس اور سیاسی جوڑ توڑ کے امور بھی شامل تھے۔ ڈائری لکھنے کے
شوقین تھے۔ ان کی قبضہ شدہ ڈائری میں یہ جملہ بھی تھا ’مشرقی پاکستان کے سبزہ زار کو سرخ کرنا ہو گا۔‘
حسن
ظہیر نے اپنی کتاب ’دی سیپریشن آف ایسٹ پاکستان‘ میں راؤ صاحب کو ڈھاکہ
میں 24 مارچ کی رات کو شروع ہونے والے آپریشن سرچ لائٹ کا اہم ذمہ دار قرار
دیا۔
جنرل
نیازی نے اپنی کتاب میں الزام لگایا کہ ہتھیار ڈالنے سے دو روز پہلے راؤ
فرمان علی نے قید میں موجود 200 کے لگ بھگ بنگالی دانشوروں اور اساتذہ کو
قتل کروا دیا۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ یہ واردات فوج نے کی یا البدر اور
الشمس رضاکاروں کے ذریعے ہوئی۔
سنہ
1973 میں قید سے واپسی پر راؤ فرمان علی کو ریٹائر کر دیا گیا۔ تاہم ان کی
پنشن، رینکس اور تمغے بحال رہے۔ جولائی 1977 میں ضیا الحق نے اقتدار
سنبھالنے کے بعد جو الیکشن سیل بنایا اس میں بھی فعال رہے۔
پھر
ضیا کابینہ میں دو برس پٹرولیم اور قدرتی وسائل کے وفاقی وزیر رہے۔ انھوں
نے اپنی کتاب ’پاکستان کیسے تقسیم ہوا‘ میں اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش
کی۔
کچھ اور بھی کردار ہیں جن کا کمیشن کی رپورٹ میں تذکرہ تو ہے لیکن کسی طرح کی کارروائی کی واضح سفارش نہیں کی گئی جیسے:
لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان
لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب علی خان کے استعفے کے بعد انھیں ایسٹرن کمان کے سربراہ کے طور پر ڈھاکہ بھیجا گیا۔
24 اور 25 مارچ کی درمیانی شب آپریشن سرچ لائٹ انھوں نے ہی شروع کیا۔ ان سے یہ فقرہ منسوب ہے کہ ’مجھے لوگ نہیں زمین چاہیے۔‘
اپریل کے پہلے ہفتے میں ان کی جگہ جنرل نیازی نے لے لی اور ٹکا خان کو ملتان کور سونپ دی گئی۔
تین
مارچ 1972 کو بھٹو حکومت نے ٹکا خان کو فور سٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دے
کر کمانڈر انچیف کا عہدہ ختم کر کے پہلا چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا۔ جنرل
ضیا کے دور میں وہ پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل بنے۔ کئی مرتبہ گرفتار بھی
ہوئے۔ بینظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت میں گورنر پنجاب رہے۔
28
مارچ 2002 کو ٹکا خان کی وفات ہوئی۔ ان کے جنازے میں اعلیٰ سویلین و فوجی
قیادت شریک ہوئی اور فوجی اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا۔ بے نظیر بھٹو نے اپنے
تعزیتی پیغام میں کہا ’وہ ملک کے اعلیٰ عہدوں پر سخت محنت اور قانون کی
حکمرانی کے سبب پہنچے۔‘
بریگیڈیئر جہانزیب ارباب کمانڈر 57 بریگیڈ
حمود
الرحمان کمیشن کے روبرو گواہوں نے ان پر لوٹ مار، قتل وغارت میں ملوث ہونے
کے الزامات لگائے۔
بقول جنرل نیازی بدعنوانیوں کی پاداش میں بریگیڈیئر ارباب اور ان کے ساتھی
جونیئر افسروں کے کورٹ مارشل کی سفارش کی گئی اور انھیں مغربی پاکستان واپس
بھیج دیا گیا۔
جنرل
ضیا الحق کے مارشل لا کے بعد جنرل ارباب بحثیت کمانڈر فائیو کور سندھ کے
مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور گورنر رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد متحدہ عرب امارات
میں پاکستانی سفیر بھی رہے۔
وائس ایڈمرل مظفر حسن
1969
سے دو مارچ 1972 تک بحریہ کے سربراہ رہے۔ انھیں، فوج کے سربراہ گل حسن اور
فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل رحیم خان کے ساتھ فوج کی جیگ برانچ کی سفارش
پر مراعات ضبط کرکے عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔
دورانِ
جنگ انھیں فضائیہ سے مدد نہ ملنے کی مسلسل شکایت رہی۔ اس بارے میں فضائیہ
کے سربراہ ایئر مارشل رحیم خان کا یہ فقرہ بہت مشہور ہوا جو انھوں نے مظفر
حسن سے کہا: ’اولڈ بوائے۔۔۔ جنگوں میں ایسا ہوتا ہے۔ مجھے افسوس ہے تمہارے
جہاز ڈوب گئے۔۔‘
ایئر مارشل عبدالرحیم خان
دورانِ
جنگ پاک فضائیہ کے سربراہ رہے۔ بھٹو کو اقتدار کی منتقلی میں گل حسن کے
ساتھ اہم کردار ادا کیا۔ مگر تین مارچ 1972 کو جیگ برانچ کی سفارش پر برطرف
ہوئے اور مراعات ضبط ہو گئیں۔
بھٹو
نے تالیفِ قلب کے لیے سپین میں سفیر بنا دیا لیکن 13 اپریل 1977 کو
انتخابات میں دھاندلی کے خلاف احتجاجاً سفارت سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد
امریکہ میں بس گئے اور وہیں 28 فروری 1990 کو انتقال ہوا۔
کچھ افسروں کے پاس اہم ذمہ داریاں تھیں لیکن ان کا کردار زیرِ بحث نا آ سکا جیسے:
میجر جنرل اکبر خان
166
سے 1971 تک ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی رہے۔ انھوں نے یحیی خان کے نیشنل
سیکورٹی ایڈوائزر جنرل غلام عمر کے ساتھ مل کر 1970 کے انتخابات میں حسبِ
منشا نتائج حاصل کرنے کے لئے خاصی تگ و دو کی۔
کردار نبھانے سے انکار
مگر کچھ ایسے جرنیل بھی تھے جنھوں نے آنکھ بند کر کے ڈرامے کے کردار نبھانے سے انکار کر دیا جیسے:
جنرل یعقوب علی خان
صاحبزادہ یعقوب علی خان کو مشرقی پاکستان کے حوالے سے حکومتی حکمتِ عملی سے اختلاف تھا۔
جب
مشرقی پاکستان میں ایجی ٹیشن زوروں پر تھا تو یہ ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ
اورمارشل لا ایڈمنسٹریٹر زون بی تھے۔ انھوں نے سات مارچ 1971کو فوجی قیادت
کی مشرقی پاکستان کے تناظر میں سیاسی و عسکری حکمتِ عملی سے اختلاف کرتے
ہوئے استعفیٰ دے دیا۔
ایڈمرل ایس ایم احسن
ان
کا شمار پاکستانی بحریہ کے معماروں میں ہوتا ہے۔ سات مارچ 1971 کو یحییٰ
حکومت کی مشرقی پاکستان سے متعلق پالیسوں پر اختلاف کرتے ہوئے وہاں کی
گورنری سے استعفیٰ دے دیا۔
پنڈی
کی فوجی قیادت کے سامنے وہ تنِ تنہا مشرقی پاکستان کا سیاسی مقدمہ لڑتے
رہے جس پر انھیں ’ایک مشکل آدمی‘ اور ’بنگالیوں کے ہاتھوں بکنے والا‘ جیسے
طعنے بھی سننے پڑے۔
ریٹائرمنٹ
کے بعد وہ پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کے سربراہ بھی رہے۔ انھوں نے پورٹ
قاسم کی بنیاد رکھی۔ آخری زندگی گوشہ نشینی میں گزاری اور چار دسمبر 1989
کو وفات ہوئی۔ اعلیٰ سول و فوجی قیادت کی موجودگی میں اعزاز کے ساتھ کراچی
کے فوجی قبرستان میں تدفین ہوئی۔
اور
ہزاروں ایسے فوجی جوان اور افسر بھی تھے جنھیں محلاتی سازشوں اور پیچ و خم
کی کوئی خبر نہیں تھی۔ جن کا نام دوستوں اور دشمنوں نے عزت سے یاد رکھا۔
جیسے فلائٹ لیفٹیننٹ راشد منہاس، میجر محمد اکرم، میجر شبیر شریف، سوار
محمد حسین، لانس نائیک محفوظ وغیرہ۔
بیوروکریٹس اور سیاستدان
کچھ
بیورو کریٹس نے یحییٰ حکومت کے ہر اقدام کی رطب السانی میں زمین آسمان ایک
کر رکھے تھے۔ اس وقت زیادہ اصحاب کے تذکرے کی گنجائش نہیں۔ بطور نمونہ ایک
نام کافی ہے جیسے، روئیداد خان۔
روئیداد خان
روئیداد خان مشرقی پاکستان کے فوجی آپریشن کے آغاز سے جون 1972 تک سیکریٹری اطلاعات رہے۔
ان کا شمار پاکستان کے سدا بہار بیورو کریٹس میں تھا۔ انھوں نے پانچ صدور کے ساتھ کام کیا۔
یحییٰ
حکومت کے دوران انھوں نے بطور سیکریٹری اطلاعات اس بات کو یقینی بنایا کہ
مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی بھنک مغربی پاکستان والوں کو نہ
پڑ جائے۔
انھوں
نے پاکستان ٹیلی ویژن کے مینجنگ ڈائریکٹر اسلم اظہر کو ایک دستاویزی فلم
’دی گریٹ بٹریل‘ بنانے کا کام سونپا جس کی شوٹنگ مشرقی پاکستان کے مختلف
علاقوں میں کی گئی۔
اس
فلم کا مقصد مکتی باہنی کے مظالم اجاگر کرنا تھا۔ چونکہ یہ فلم آپریشن
شروع ہونے کے چار ماہ بعد جولائی میں شوٹ ہوئی لہٰذا اس میں جو لاشیں اور
کھوپڑیاں دکھائی گئیں ان کے بارے میں یہ طے نہ ہو سکا کہ انھیں کس نے مارا
ہے۔ لہٰذا اس فلم کی سکریننگ کا منصوبہ کر کے اسے محمکہ اطلاعات کے ڈبوں
میں بند کر دیا گیا۔
روئیداد
خان مشرقی پاکستان کے فوجی آپریشن کے مارچ میں آغاز سے جون 1972 تک
سیکریٹری اطلاعات رہے۔ اور پھر بھٹو حکومت نے انھیں کسی اور محکمے کی ذمہ
داری سونپ دی۔ جنرل ضیا الحق کے طویل عرصے سکریٹری داخلہ رہے۔
جب
بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت برطرف ہوئی تو عبوری حکومت میں احتسابی سیل کے
نگراں رہے۔ انھوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد ’پاکستان، اے ڈریم گون ساور‘ لکھی۔
برٹش اور امریکن پیپرز کو بھی کتابی شکل دی۔
جہاں
تک سیاسی جماعتوں کا معاملہ ہے تو سوائے اصغر خان، ولی خان، جی ایم سید
اور ملک غلام جیلانی کے مغربی پاکستان میں کم و بیش سب نے مشرقی پاکستان کے
بارے میں سرکاری کہانی کو بلا سوال و جواب ہضم کر لیا۔
26
مارچ کو ڈھاکہ سے کراچی پہنچنے پر ذوالفقار علی بھٹو نے کہا ’خدا کا شکر
ہے پاکستان بچ گیا۔‘
مئی 1971 میں امیرِ جماعتِ اسلامی مولانا مودودی نے
کہا ’ہماری بہادر افواج نے پاکستان بچا لیا۔‘
یحییٰ
حکومت نے مشرقی پاکستان میں قومی اسمبلی کی 78 اور صوبائی اسمبلی کی 193
نشستوں کو خالی قرار دے کر ضمنی انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔ لیکن امن و
امان کی صورتِ حال کے سبب یہ ممکن نہ ہو سکا۔
چنانچہ
ان نشستوں کو ایسٹرن کمانڈ کے ہیڈ کوارٹر میں بندر بانٹ کر کے جماعتِ
اسلامی، مسلم لیگ کے دھڑوں اور پیپلز پارٹی میں تقسیم کر دیا گیا۔ لیکن بعد
میں یہ عمل قالین کے نیچے خاموشی سے دبا دیا گیا۔
حمود
الرحمان کمیشن رپورٹ کو دبانے اور سیاسی جماعتوں کی خاموش و اعلانیہ تائید
سے آئندہ کے لیے یہ بات طے ہو گئی کہ احتساب اور پاکستان دو مختلف
اصطلاحیں رہیں گی۔
سنہ
1977 میں حکومت کا تختہ الٹا جانا، بھٹو کی پھانسی، بعد میں آنے والی
حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ، بناسپتی اتحادوں کی تشکیل، کارگل اور مشرف کا برسر
اقتدار آنا اور ہر حکومت پر غیر یقینی کے باوردی سائے۔۔۔
اس سب کے ڈانڈے
اکہتر کے سال میں ہونے والے واقعات سے آنکھیں موندنے سے جا ملتے ہیں۔ چاہے
کوئی پسند کرے یا نا کرے۔ (منقول)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دیگر مضامین : -