خلاصه یہ کہ حضرت حسین عمر بن سعد کےلشکریوں کو تلواریں مارتے ، قتل کرتے
، اٹھا اٹھا کے پھینکتے تھے اور لشکری ان کے سامنے سے اس طرح بھاگتے تھے
جیسے شیر کے سامنے سے گورخر اور جیسے بھیڑیوں کے سامنے سے بھیڑوں کا گلہ
بھاگ جاتا ہے اور یہ سارے لشکری میدان جنگ میں پراگندہ اور منتشر ہو گیے
پہلے ہی حملے میں حسین نے ایک ہزار تو سو کافروں کو قتل کر دیا اور زخمی اس
کے علاوہ بتاتے ہیں .(ناسخ التواریخ صفحہ 299 جلد 6 از کتاب دوئم .)
اور سنیے 1900 کافروں کو قتل کرنے کے بعد خیمے کی جانب پلٹ کر آئے اور کلام منظوم زبان سے ادا کے .دو چار نہیں اکٹھے 35 شعر آپ کی زبان سے ادا کروا دیئے جو ابو محنف نے اپنی کتاب میں درج کیے ہیں .ایک شعر کا ترجمہ سنیئے .
میرے ماں باپ شمس و قمر ہیں اور میں چاند سورج کا بیٹا ہوں اور چمکدار ستارہ ہوں .
آپ خود غور کریں کہ اس موقعہ پر حسبی اور نسبی تعلق داریوں کے اظہار کا کیا موقعہ تھا ( یہ ان خالص عجمی ذہنیت کے راویوں کی اختراع ہے ) اور ذرا دم لے کر پھر جو حملہ کیا تو خلق کثیر کو قتل کر ڈالا .(مقتل ابی محنف صفحہ 88 ).
ابو محنف نے قتل ہونے والوں کی تعداد تو نہیں بتائی البتہ مجاہد اعظم نے حضرت حسین اور ان کے ساتھیوں کے ہاتھوں مرنے والوں کی تعداد کا ذکر کرتے ہوے لکھا ہے .
حضرت حسین نے متواتر کئی حملے کئے اور ہر حملے میں دس دس ہزار لاشیں بچھا دیں اور اسرار شہادت میں یہ بھی لکھتے ہیں
حضرت حسین کے ہاتھوں 3 لاکھ
حضرت عباس کے ہاتھوں 25 ہزار
اور آپ کے دوسرے ساتھیوں کے ہاتھوں بھی 25 ہزار
اس طرح کل ساڑے تین لاکھ کوفی قتل ہوئے ..(مقتل ابی محنف صفحہ 266 ).
ان لغو بیانوں سے صاف ظاہر ہے کہ معرکہ آرائیوں کے یہ سارے قصے عجمی ذہنیت کے تراشے ہوئے ہیں .
آپ ایک اور لطیفہ سنیے تین لاکھ آدمی مارنے والے حضرت حسین کو جب ایک تیر لگا تو بے ہوش ہو کر گر پڑے کمزوری سے اٹھا نہ گیا اور رو رو کے بین کرنے لگے اسی ابو محنف نے (صفحہ 89 پر) بین کے یہ الفاظ حضرت حسین کی زبان سے ادا کروائے ہیں
.ہاۓ نانا ،
واۓ محمّد ،
ہاۓ ابا ،
ہاۓ علی ،
ہاۓ بھیا ،
واۓ حسن ،
ہاۓ غریب الوطنی ،
واۓ شدت پیاس ،
ہاۓ مدد ،
واۓ مدد گاروں کی قلت ،
ہاۓ مظلوم قتل ہوتا ہوں ، حالانکہ میرے نانا محمّد ہیں ،
ہاۓ پیاسا ذبح ہوتا ہوں ، حالانکہ میرے باپ علی ہیں ،
ہاۓ مردہ پھینکے جاتے ہیں ، حالانکہ میری ماں فاطمہ الزہرہ ہیں.(مقتل ابی محنف صفحہ 89)
معاذ الله ثم معاذ الله حضرت حسین کی ذات سے کیا لغو کلمات منسوب کئے ہیں
کسی جنگجو عرب کی زبان سے مرتے وقت ایسے کلمات ادا نہیں ہو سکتے اور یہ بین اور واویلا تو خالص عجمی ذہنیت ہے۔
اب ذرا ناسخ التواریخ کی روایت جس میں حسین کے ہاتھوں ابن سعد کے لشکریوں کے مارے جانے کی کم سے کم تعداد بیان ہوئی ہے جانچ کر دیکھئے .
عمر بن سعد اور ان کے فوجیوں کے مسلمان ہونے پر تو کسی کو انکار نہیں ہے راویوں کے فرمانے سے اگر" کفار " میں ان کو شامل سمجھیں تو ایک ایک فوجی سے مقابلے کے بعد آپ کو 1900 فوجی قتل کرنے میں کتنا وقت لگا ہو گا .
گیری بھائی اپنی جوانی میں قدیم فنون سپہ گری کے ماہر تھے اور تلوار بازی میں تو ان کا ایک مقام تھا وہ اس روایت کو پڑھ کر جتنے ہنستے ہیں میں آپ کو بیان نہیں کر سکتا ، وہ فرماتے ہیں کہ
" اگر 1900 آدمی اپنی گردنیں اپنی خوشی سے کٹوانے کے لئے زمین پر گھٹنوں کے بل اوندھے پڑے ہوں یعنی ایک گردن کاٹی اسے ذرا ہٹایا تا کہ لاشوں کا ڈھیر نہ لگے تو ایک منٹ ایک قتل کے حساب سے حضرت حسین کو 1900 آدمیوں کو قتل کرنے کے لئے ساڑے بتیس گھنٹے لگاتار اس قتال میں لگنے چاہئیں."
یعنی پورا دن پوری رات گزر جانے کے باوجود بھی مزید ساڑے آٹھ گھنٹے درکار ہیں.اور درمیان میں 9 عدد نمازیں ، پانچ کھانے کے وقفے اور رفاح حاجت کے اوقات اس میں شامل نہیں کئے گئے اور حضرت حسین کی عمر اس وقت 55 برس کی بیان کی جاتی ہے .اسی طرح ایک حملے میں 10 ہزار آدمی قتل کرنے کے لئے مسلسل سات دن درکار ہوتے ہیں وہ بھی بغیر کسی وقفے کے.
اور ایسے کئی حملے آپ سے منسوب کئے گئے ہیں اسی طرح تین لاکھ آدمی قتل کرنے کے لئے 5 ہزار گھنٹے لگاتار یا تقریبا سات مہینے درکار ہیں اور وہ بھی بغیر کسی وقفے کے.
طبری اور دیگر مورخین نے ابو محنف کی روایتوں کے مطابق بیان کیا ہے کہ یہ حادثہ پس اتنی دیر میں ختم ہو گیا کہ جتنی دیر قیلولہ میں آنکھ جھپک جاۓ یعنی کم و بیش آدھے گھنٹے میں.
اور اس کی تائید ان کے اپنے اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ دونوں طرف سے مرنے والوں کی تعداد 72 اور 88 تھی.
برادران مسلم اور 60 یا 65 کوفیوں کا فوجی دستہ کے سپاہیوں پر نا عاقبت اندیشانہ اور اچانک حملہ کر دینے سے یہ المناک واقعہ یکا یک اور غیر متوقه پیش آ کر آدھ گھنٹے میں ختم ہو گیا.
دوسرے گیری بھائی اس بات پر بہت حیران ہیں کہ کربلا کے علاوہ اس سے پہلے معرکوں میں کبھی حضرت حسین کا نام تک تاریخوں میں نہیں سنا،
حضرت ابو بکر کے عہد میں تو آپ چھوٹے تھے .پورے دور فاروقی اور حضرت عثمان کا زمانہ خلافت اور اپنے والد کے عہد خلافت میں بھی نہیں سنا کہ آپ نے کسی جنگ میں کوئی کارنامہ انجام دیا یا کوئی ملک فتح کیا یا کسی جنگ میں شریک بھی ہوئے سواۓ جہاد قسطنطینہ کے .
اگر اس بارے میں کسی نے کچھ پڑھا ہو تو ہماری مدد ضرور فرمایئے .
کیونکہ ایک ایسا بہادر جس نے ہیرو شیما اور ناگا ساکی سے بھی زیادہ اور بغیر ایٹم بم چلاۓ ساڑے تین لاکھ آدمیوں کو کربلا میں قتل کر دیا اور وہ بھی ایک تلوار سے تو اس کے لئے ایک آدھ شہر یا ملک فتح کرنا تو بہت معمولی بات تھی .
ہیرو شیما میں ایٹم چلنے کے بعد فوری ہلاکتوں کی تعداد 66000 تھی اور 255000 کل آبادی تھی .اسی طرح ناگا ساکی کی کل آبادی 195000 تھی اور فوری ہلاکتوں کی تعداد 39000 تھی .ذیل میں اس کا ایک چارٹ ضرور ملاحظہ فرمائیے.جس سے اندازہ ہو گا کہ حسین نے صرف ایک تلوار سے وہ کارنامہ کیا جو دو ایٹم بموں کی تباہی سے بھی چار گنا زیادہ تھا.
اور سنیے 1900 کافروں کو قتل کرنے کے بعد خیمے کی جانب پلٹ کر آئے اور کلام منظوم زبان سے ادا کے .دو چار نہیں اکٹھے 35 شعر آپ کی زبان سے ادا کروا دیئے جو ابو محنف نے اپنی کتاب میں درج کیے ہیں .ایک شعر کا ترجمہ سنیئے .
میرے ماں باپ شمس و قمر ہیں اور میں چاند سورج کا بیٹا ہوں اور چمکدار ستارہ ہوں .
آپ خود غور کریں کہ اس موقعہ پر حسبی اور نسبی تعلق داریوں کے اظہار کا کیا موقعہ تھا ( یہ ان خالص عجمی ذہنیت کے راویوں کی اختراع ہے ) اور ذرا دم لے کر پھر جو حملہ کیا تو خلق کثیر کو قتل کر ڈالا .(مقتل ابی محنف صفحہ 88 ).
ابو محنف نے قتل ہونے والوں کی تعداد تو نہیں بتائی البتہ مجاہد اعظم نے حضرت حسین اور ان کے ساتھیوں کے ہاتھوں مرنے والوں کی تعداد کا ذکر کرتے ہوے لکھا ہے .
حضرت حسین نے متواتر کئی حملے کئے اور ہر حملے میں دس دس ہزار لاشیں بچھا دیں اور اسرار شہادت میں یہ بھی لکھتے ہیں
حضرت حسین کے ہاتھوں 3 لاکھ
حضرت عباس کے ہاتھوں 25 ہزار
اور آپ کے دوسرے ساتھیوں کے ہاتھوں بھی 25 ہزار
اس طرح کل ساڑے تین لاکھ کوفی قتل ہوئے ..(مقتل ابی محنف صفحہ 266 ).
ان لغو بیانوں سے صاف ظاہر ہے کہ معرکہ آرائیوں کے یہ سارے قصے عجمی ذہنیت کے تراشے ہوئے ہیں .
آپ ایک اور لطیفہ سنیے تین لاکھ آدمی مارنے والے حضرت حسین کو جب ایک تیر لگا تو بے ہوش ہو کر گر پڑے کمزوری سے اٹھا نہ گیا اور رو رو کے بین کرنے لگے اسی ابو محنف نے (صفحہ 89 پر) بین کے یہ الفاظ حضرت حسین کی زبان سے ادا کروائے ہیں
.ہاۓ نانا ،
واۓ محمّد ،
ہاۓ ابا ،
ہاۓ علی ،
ہاۓ بھیا ،
واۓ حسن ،
ہاۓ غریب الوطنی ،
واۓ شدت پیاس ،
ہاۓ مدد ،
واۓ مدد گاروں کی قلت ،
ہاۓ مظلوم قتل ہوتا ہوں ، حالانکہ میرے نانا محمّد ہیں ،
ہاۓ پیاسا ذبح ہوتا ہوں ، حالانکہ میرے باپ علی ہیں ،
ہاۓ مردہ پھینکے جاتے ہیں ، حالانکہ میری ماں فاطمہ الزہرہ ہیں.(مقتل ابی محنف صفحہ 89)
معاذ الله ثم معاذ الله حضرت حسین کی ذات سے کیا لغو کلمات منسوب کئے ہیں
کسی جنگجو عرب کی زبان سے مرتے وقت ایسے کلمات ادا نہیں ہو سکتے اور یہ بین اور واویلا تو خالص عجمی ذہنیت ہے۔
اب ذرا ناسخ التواریخ کی روایت جس میں حسین کے ہاتھوں ابن سعد کے لشکریوں کے مارے جانے کی کم سے کم تعداد بیان ہوئی ہے جانچ کر دیکھئے .
عمر بن سعد اور ان کے فوجیوں کے مسلمان ہونے پر تو کسی کو انکار نہیں ہے راویوں کے فرمانے سے اگر" کفار " میں ان کو شامل سمجھیں تو ایک ایک فوجی سے مقابلے کے بعد آپ کو 1900 فوجی قتل کرنے میں کتنا وقت لگا ہو گا .
گیری بھائی اپنی جوانی میں قدیم فنون سپہ گری کے ماہر تھے اور تلوار بازی میں تو ان کا ایک مقام تھا وہ اس روایت کو پڑھ کر جتنے ہنستے ہیں میں آپ کو بیان نہیں کر سکتا ، وہ فرماتے ہیں کہ
" اگر 1900 آدمی اپنی گردنیں اپنی خوشی سے کٹوانے کے لئے زمین پر گھٹنوں کے بل اوندھے پڑے ہوں یعنی ایک گردن کاٹی اسے ذرا ہٹایا تا کہ لاشوں کا ڈھیر نہ لگے تو ایک منٹ ایک قتل کے حساب سے حضرت حسین کو 1900 آدمیوں کو قتل کرنے کے لئے ساڑے بتیس گھنٹے لگاتار اس قتال میں لگنے چاہئیں."
یعنی پورا دن پوری رات گزر جانے کے باوجود بھی مزید ساڑے آٹھ گھنٹے درکار ہیں.اور درمیان میں 9 عدد نمازیں ، پانچ کھانے کے وقفے اور رفاح حاجت کے اوقات اس میں شامل نہیں کئے گئے اور حضرت حسین کی عمر اس وقت 55 برس کی بیان کی جاتی ہے .اسی طرح ایک حملے میں 10 ہزار آدمی قتل کرنے کے لئے مسلسل سات دن درکار ہوتے ہیں وہ بھی بغیر کسی وقفے کے.
اور ایسے کئی حملے آپ سے منسوب کئے گئے ہیں اسی طرح تین لاکھ آدمی قتل کرنے کے لئے 5 ہزار گھنٹے لگاتار یا تقریبا سات مہینے درکار ہیں اور وہ بھی بغیر کسی وقفے کے.
طبری اور دیگر مورخین نے ابو محنف کی روایتوں کے مطابق بیان کیا ہے کہ یہ حادثہ پس اتنی دیر میں ختم ہو گیا کہ جتنی دیر قیلولہ میں آنکھ جھپک جاۓ یعنی کم و بیش آدھے گھنٹے میں.
اور اس کی تائید ان کے اپنے اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ دونوں طرف سے مرنے والوں کی تعداد 72 اور 88 تھی.
برادران مسلم اور 60 یا 65 کوفیوں کا فوجی دستہ کے سپاہیوں پر نا عاقبت اندیشانہ اور اچانک حملہ کر دینے سے یہ المناک واقعہ یکا یک اور غیر متوقه پیش آ کر آدھ گھنٹے میں ختم ہو گیا.
دوسرے گیری بھائی اس بات پر بہت حیران ہیں کہ کربلا کے علاوہ اس سے پہلے معرکوں میں کبھی حضرت حسین کا نام تک تاریخوں میں نہیں سنا،
حضرت ابو بکر کے عہد میں تو آپ چھوٹے تھے .پورے دور فاروقی اور حضرت عثمان کا زمانہ خلافت اور اپنے والد کے عہد خلافت میں بھی نہیں سنا کہ آپ نے کسی جنگ میں کوئی کارنامہ انجام دیا یا کوئی ملک فتح کیا یا کسی جنگ میں شریک بھی ہوئے سواۓ جہاد قسطنطینہ کے .
اگر اس بارے میں کسی نے کچھ پڑھا ہو تو ہماری مدد ضرور فرمایئے .
کیونکہ ایک ایسا بہادر جس نے ہیرو شیما اور ناگا ساکی سے بھی زیادہ اور بغیر ایٹم بم چلاۓ ساڑے تین لاکھ آدمیوں کو کربلا میں قتل کر دیا اور وہ بھی ایک تلوار سے تو اس کے لئے ایک آدھ شہر یا ملک فتح کرنا تو بہت معمولی بات تھی .
ہیرو شیما میں ایٹم چلنے کے بعد فوری ہلاکتوں کی تعداد 66000 تھی اور 255000 کل آبادی تھی .اسی طرح ناگا ساکی کی کل آبادی 195000 تھی اور فوری ہلاکتوں کی تعداد 39000 تھی .ذیل میں اس کا ایک چارٹ ضرور ملاحظہ فرمائیے.جس سے اندازہ ہو گا کہ حسین نے صرف ایک تلوار سے وہ کارنامہ کیا جو دو ایٹم بموں کی تباہی سے بھی چار گنا زیادہ تھا.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں