Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 12 دسمبر، 2013

فوجی کی بیوی -5


وقت جلدی سے گذرنے لگا اور 1980آگیا، تین جنوری کو یہ ایک مہینے کی چھٹی پر اچانک آگئے۔ حالانکہ چند دن پہلے ان کا خط ملا انہوں نے اس میں ذکر تک نہیں کیا۔ سب اس اچانک سرپرائز پر خوش ہو گئے۔ میں نے پوچھا کہ کیاآپ کو خط لکھنے کا وقت نہیں ملتا جو آپ ایک صفحے کا مشکل سے سادہ خط لکھتے ہیں۔ تب معلوم ہوا کہ جس علاقے میں یہ ہیں وہاں سے خط آرمی پوسٹ آفس کے ذریعے جاتے ہیں اور وہ ہر خط کو نہیں بلکہ کچھ خطوں کو کھول کر سنسر کرتے ہیں۔ لہذا سادہ خط لکھنا ان کی مجبوری ہے۔  

میرپورخاص میں دو تین دن رہنے کے بعد  انہوں نے پروگرام بنایا کہ، کراچی جاکر میرے اور ان کے رشتہ داروں سے ملنا ہے۔ گویا یہ ایک قسم کا ہنی مون ٹرپ تھا۔
پانچ جنوری کو دوپہر ڈھائی بجے، میرپورخاص سے حیدرآباد جانے والی ٹرین پر ہمارا پروگرام تھا۔ اب چونکہ ایک دن پہلے ہی تیاری شروع کی امی کے گھر سے جاکر میں اپنے کپڑے لائی تو امی نے کہا کہ ہمارے گھر سے کھانا کھا کر جانا، لہذا دس بجے آجانا۔ جب  چلنے لگے تو میں نے اپنا سوٹ کیس نکالا انہوں نے پوچھا اس میں کیا  ہے میں نے بتایا میرے کپڑے ہیں۔ یہ ایک بڑا سا سوٹ کیس تھا۔ کوئٹہ کی ہوا ابھی نہیں چلی تھی لہذا کم سردی تھی اور امید تھی کہ ہمارے کراچی ہوتے چل پڑے گی تو میں گرم کپڑے بھی رکھے۔ انہوں نے کہا سوٹ کیس کھولو۔ میں نے سوٹ کیس کھولا۔ انہوں نے میرا ایک سوئیٹر نکالا اور تین جوڑے اور کہا یہ کافی ہیں۔ میں پریشان کہ شادی کے بعد پہلی دفعہ کراچی جارہی ہوں اور صرف تین جوڑے؟
میں نے پوچھا،”بس، صرف یہی؟“
کہنے لگے، "ہم ہفتے بعد واپس آجائیں گے لہذا  اتنا سامان کون  اٹھائے گا۔ ؟ "
اب کیا کرتی، تین سوٹ ایک سوئیٹر ان کے بیگ میں ٹھونسا، جس میں ان کی ایک سوئیٹر اور دو کرتے اور پاجامے ایک پینٹ پر پہنے والی قمیض اور بس۔
 
ان کے امی، ابو، دونوں بہنوں سے مل کر نکلے دونوں چھوٹے بھائی بھی ساتھ تھے ایک نے بیگ اٹھایا اور امی کے گھر پہنچے۔ دونوں بھابیاں ان کے پیچھے کہ یہ کیا سامان ہے کراچی میں ڈھیر سارے رشتہ دار ہیں سب کے گھر نئی دلہن ایک ہی جوڑاپہن کر جائے گی۔ امی کے گھر بھی میرے کپڑے پڑے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ سوٹ کیس اٹھا سکتی ہے تو بے شک دو سوٹ کیس دے دیں میں تو نہیں اٹھاؤں گا۔  چھوٹی بھابی پریشان، امی نے سمجھایا۔ کہ نعیم ٹھیک تو کہہ رہے ہیں کہ کیا ضرورت ہے ہفتے کے لئے مہینے بھر کے کپڑے لے جانے کی؟ کھانا کھایا۔ گھر سے ریلوے سٹیشن تک کا سفر بیس منٹ کا تھا  اور اگر والکرٹ کی طرف سے جائیں تو  دس بارہ منٹ لگتے۔ ان کا پروگرام تھا  دوبجے نکل کر آرام سے پہنچ جائیں گے۔ ساڑھے بارہ بجے کھانے سے فارغ  ہوئے کہ دورازے پر گھنٹی بجی۔ معلوم ہوا کہ اباجان نے تانگے والے کوکہا تھا وہ آگیا یہ حیران کہ اتنی جلدی جاکرکیا کریں گے۔ خیر بڑی مشکل سے یہ تیار ہوئے۔ابا جان بضد کہ ہمیں سٹیشن پر چھوڑ کر آئیں گے، یہ کہیں کہ خالو، کیوں پریشان ہو رہے ہیں۔ بڑی مشکل سے اباجان راضی ہوئے ِ ان کے دونوں بھائی کہیں کہ وہ بھی ساتھ جائیں گے اور ہمیں سٹیشن پر چھوڑ کر واپس آجائیں گے۔ انہوں نے منع کر دیا،بلکہ ان کا سب سے چھوٹا بھائی، میرے پیچھے پڑا ہوا تھا کہ بھائی سے کہہ کر مجھے بھی کراچی ساتھ لے چلو۔ بہرحال ہم تانگے میں بیٹھے۔ ہمارے گھر سے آدھا میل دور پانی کی ٹینک کے پاس سے ِ میرواہ، ڈگری اور جیمس آباد جانے والی سڑک گذرتی۔ تانگہ جب وہاں پہنچاتو ایک خوبصورت سے بس اقبال کمپنی کی آکر رکی اور آوازآئی حیدر آباد کراچی،  حیدر آباد کراچی،  انہوں نے تانگے والے کو کہا روکو۔ہم بس سے جائیں گے۔ تانگے والے نے پوچھا آپ سٹیشن نہیں جائیں گے۔ انہوں کہا نہیں آپ واپس جائیں تو وہ کہنے لگا کہ باقی پیسے میں آپ کو دوں یا شیخ صاحب کو؟ انہوں نے کہا ان کو دے دینا۔  ہم دونوں بس میں سوار ہو گئے۔  بس آدھی بھری ہوئی تھی۔
انہوں نے مجھے عورتوں والی سیٹ پر بٹھایا اور خود مجھ سے دو سیٹ پیچھے کسی کے ساتھ بیٹھ گئے۔ مجھے سخت غصہ آیا کہ  پیچھے دو افراد کی سیٹ خالی تھی ہم دونوں وہاں بیٹھ جاتے۔ اب سارے راستے میں چپ بیٹھ کرڈھائی گھنٹے کا سفر کروں۔ ٹنڈو الہ یار میں آدھی بس خالی ہو گئی یہ جہاں بیٹھے تھے انہوں نے مجھے وہاں بلا لیا۔ معلوم ہوا کہ ان کے دو جاننے والے بس میں بیٹھے تھے ایک تو ان کے کلاس فیلو تھے اور دوسرے ان کے ابا کے دوست۔ لہذا شرم کی وجہ سے یہ میرے ساتھ نہیں بیٹھے۔ ٹنڈو الہ یار میں بسیں تقریباً بیس منٹ رکتی ہیں۔ جو پرانے سفر کرنے والے ہیں وہ  حیدرآباد جانے کے لئے ٹنڈو الہ یار تک کا ٹکٹ لیتے اور سٹاپ پر اتر کر سب سے اگلی بس میں بیٹھ جاتے اس طرح آدھے گھنٹے کی بچت ہو جاتی۔ ہماری بس سب سے آگے آئی۔ تو عورتوں کی سیٹ پر عورتیں آکر بیٹھ گئیں۔ جو نہی بس چلنے کے لئے آگے بڑھی  تو ان کے استاد  الطاف صاحب اور ان کی بیگم بس میں سوار ہوئیں۔ انہوں نے میرے ساتھ، ان کی بیگم کو بٹھا دیا اور خود کھڑے ہوگئے۔ ان کے استاد کو ایک سیٹ مل گئی۔  مجھے پریشانی، بس کا بونٹ جو اندر ہوتا ہے وہ خالی مگر یہ اس پر نہ بیٹھے۔ ٹنڈو الہ یارسے ٹنڈو جام موڑ تک انہوں نے کھڑے ہو کر سفر کیا۔ حیدرآبادشہر میں داخل ہوئے تو ان کو سیٹ مل گئی۔ بس ریلوے سٹیشن کے پاس رکی۔ہم دونوں اترے اور وہاں سے رکشامیں بیٹھ کر ، حیدرآباد کینٹ میں ان کے ابو کے فیملی فرینڈ کے بیٹے مظہر حسین جو ایم۔ ای۔ ایس میں ایس۔ڈی۔ او،  تھے وہاں پہنچے۔ مظہربھائی آفس گئے تھے ان کی بیگم پروین باجی گھر پر تھیں بہت خوش ہوئیں۔ یہ توکھانا کھا کر سو گئے تو پروین باجی مجھے لے محلے میں اپنی تین سہیلیوں کے گھر لے کر گئیں۔ مظہر بھائی اور پروین باجی آپس میں کزن تھے اور راولپنڈی میں ٹنچ بھاٹہ میں جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے تھے، ہماری شادی پر، پروین باجی، ان کے چھوٹے دیور اور جیٹھ  اپنی بیٹی کے ساتھ آئے تھے۔پانچ بجے،مظہر بھائی بھی آگئے۔

باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ آج آفیسر میں تمبولا ہے۔ انہوں نے فوراً پروگرام بنا لیا۔مظہر بھائی نے معذرت کر لی۔ مغرب کے بعد ہم دونوں گھر  آفیسر میس پہنچے۔ تھوڑے لوگ آئے تھے۔ انہوں نے آفیسرز میس دکھایا۔ میس میں داخل ہونے کے بعد  الٹے ہاتھ پر قائد اعظم کی تصویر تھی اس کے نیچے ایک میز پر ایک بڑا سا رجسٹر پڑا تھا جس کے غالباً پہلے صفحے پر وزیر اعظم محترم ذوالفقار علی بھٹو کے ہری سیاہی سے دستخط تھے۔ کیوں کہ انہوں نے اس میس کا افتتاح کیا تھا اور ہری رنگ کی ایک لکیر نیچے تک کھینچی ہوئی تھی۔تاکہ وزیر اعظم کے بعد کوئی اور دستخط نہ کرے اور دوسرے صفحے پرسیکنڈ لیفٹنٹ فاروق احمد کے دستخط تھے جس نے وزیر اعظم کی تقلید میں اپنے دستخط کر کے نیچے ایک نیلی لکیر کھینچ دی۔ اس کے ساتھ کیا ہوا ِ مؤرخ یہ بتانے سے قاصر ہے لیکن سنا ہے کہ بریگیڈ کمانڈر نے سیکنڈ لیفٹننٹ کو بلوایا اور خوب جھاڑا۔

میس گھوم کر باہر نکلے اور لان میں جاکر بیٹھ گئے۔ نعیم دو کارڈ لے آئے لیڈیز اوربچوں کے لئے کارڈ مفت تھا  اور مردوں   کے لئے کارڈ کی قیمت ایک روپیہ۔ مجھے سمجھانے لگے کہ تمبولا کیسے کھیلا جاتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد کھیل شروع ہوا میں کنفیوز ہو گئی اور نعیم سے پوچھا کہ یہ کیا سیدھی طرح نمبر نہیں بول سکتے۔ نعیم، مجھے نمبر بتاتے میرا کوئی نمبر نہیں کٹ رہا تھا۔ آفیسرز اور ان کے بچے نعرے لگا رہے تھے کہ یہ نمبر نکالو۔ کھلانے والے نے اعلان کیا کہ جس کا کوئی نمبر نہیں کٹا ہو وہ کھڑا ہوجائے۔ میں شرمندگی سے کھڑی نہ ہوں کہ باقی لوگ کیا کہیں گے۔ اس نے دوبارہ اعلان کیا کہ بدقسمت لوگ کھڑے ہوجائیں۔ تو مجھ سمیت کوئی بارہ  افراد کھڑے ہو گئے جن میں تین عورتیں بھی تھیں۔ مجھے حوصلہ ہوا۔ اگلا نمبر بولا گیا۔ پانچ افراد بیٹھ گئے۔ پھر نمبر بولا تو دو افراد بیٹھ گئے۔اب دو عورتیں اور تین افراد کھڑے تھے۔پھر نمبر بولا گیا۔ ایک خاتون بیٹھ گئیں۔ کسی نے نعرہ لگایا ”نعیم میری ہمدردی تمھارے ساتھ ہیں“، یہ نعیم کے کورس میٹ  کیپٹن جاوید تھے۔ اگلے دو نمبر کے  بعد صرف میں کھڑی تھی۔ میجر ابرار جو تمبولا کھلا رہے تھے۔
انہوں نے کہا،”لیڈیز اینڈ جنٹلمین، آج کے پہلے ہاؤس کی پہلی بدقسمت خاتون“۔
کیپٹن جاوید نے دوبارہ نعرہ لگایا، ”نیولی ویڈ“۔
جس پر میجر ابرار نے کہا، ”کہ اپنے شوہر نامدار کے ساتھ تشریف لائیں“ ہم دونوں ساتھ گئے، انہوں نے، تمبولے کا تحفہ اور ”آج کے مہمان“ کا ایک تحفہ دیا۔

 سب نے تالیاں بجائیں۔  اپنی نشست پر آکر تحفہ کھولا۔ ایک بڑا مگ تھا اور دوسرا خوبصورت سا گلدان۔
تمبولا، ایک کھیل ہے جو انگریزوں نے مہینے میں ایک دفعہ اپنے گھروں سے دور فوج کی ملازمت میں رہنے والوں اور سول سروسز کے آفیسروں کے لئے ایک اچھی شام گذارنے کے لئے ایجاد کیا۔ سب اپنے اپنے کارڈ خریدتے ہر کارڈ پر خانوں کی تین لائین ہوتیں ہیں۔ اور ہر لائین میں پانچ نمبر لکھے ہوتے۔ پہلی لائین، دوسری لائین، تیسری لائین۔ کل پندرہ نمبر۔ کھلانے والے کے تھیلے میں پیتل کی ڈسک پر لکھے ہوئے کل 90نمبر ہوتے۔ کھیل میں دلچپسی کے لئے مختلف انعام رکھے جاتی ہیں ہیں۔
جن میں ”خوش قسمت“  جس کے پہلے کوئی سے پانچ نمبر کٹ جائیں۔
 ”بد قسمت“ جس کا کوئی نمبر نہ کٹے۔
  ”ٹاپ لائین“ جس کی پہلی لائین کے تمام پانچ نمبر کٹ جائیں۔
اسی طرح ”سنٹر  اور باٹم لائن“
پھر ”اہرام“  پہلی لائین کا ایک نمبر، دوسری لائن کے دو نمبر اور تیسری لائین کے تین نمبر۔ اسی طرح ”الٹا اہرام“۔
  پھر ”چار کونے اور بُل“  یعنی پہلی لائین اور تیسری  لائین کے کونے کے  نمبر اور درمیانی لائین کا بیچ کا نمبر۔
  پھر فل ہاؤس  یعنی جس کے سب سے پہلے تمام پندرہ نمبر کٹ جائیں۔
پھر  ”سنو بال“  اس میں پہلے تیس نمبر میں جس کے کارڈ کے تمام نمبر کٹ جائیں یہ اس شام کا آخری کھیل ہوتا ہے ۔
 ہاں اس گیم میں ہر ہاؤس  میں  خریدے گئے ٹکٹوں کی آدھی رقم مختلف انعاموں کے لئے اور آدھی رقم ”سنو بال“ کے لئے رکھ لی جاتی۔ نمبر پکارا جاتا اور کھیلنے والے اپنے کارڈ سے نمبر کاٹتے رہتے۔ کھلانے والا  اپنے سامنے رکھے ہوئے بورڈ پر نکلا ہوا نمبر اس کے اپنے خانے میں رکھتا جاتا  اور ہر نمبر کے ساتھ کوئی نہ کوئی واقع، جگہ یا مشہو ر فوجی یونٹ کانام یا اعزاز منسوب ہوتا۔ مثلا۔ نمبر 21نکلتا تو  ”رائل سلیوٹ“  ٹو اینڈ ون،  ٹوئینٹی ون کہا جاتا ہے۔ 88 کو ”ٹو فیٹ لیڈیز“ ایٹ اینڈ ایٹ، ایٹی ایٹ کہا جاتا۔ کھیلنے والوں  کے نمبر کٹتے جاتے۔ شور مچاتا جاتا۔ جو کھیلتے وہ تو نعرے لگاتے اور نہ کھیلنے والے بھی، فوج کے خشک ماحول کی ماہانہ گھٹن نکالنے کے لئے ان کا ساتھ دیتے۔ جس کے نمبرپہلے کٹ جاتے
جس کا  انعام نکلتا تو ایک ساتھ بیٹھاہوا گروپ  آفیسر میس یا کلب کا لان سر پر اٹھا لیتا۔
تمبولا، فوجی آفیسروں کا مقبول کھیل تھا۔  جہاں دس آفیسرز میس میں جمع ہوئے۔ وہاں تمبولا،لازمی ہوتا، جس طرح ہر کھیل، جواریوں کے ہاتھ تباہ ہوتا ہے اسی طرح تمبولا کے ساتھ بھی ہوا۔ کراچی فلیٹ کلب میں پاکستان کا سب سے بڑا تمبولا کھیلا جاتا۔ ہزاروں لوگ کھیلتے۔”سنو بال ہاؤس“ بیس ہزار تک کا شاید کھیلا جاتا۔ 1977کے بعد، تمبولے کو جواء قرار دے کر اسے ”قابل دست اندازیء پولیس“ قرار دے دیا۔  جنانچہ فوج میں بھی کچھ عرصہ تمبولا بند رہا ۔ پھر خیال آیا کہ اس طرح تو گذارا نہیں ہوگا۔ فوج کا ماحول اور گھٹن زدہ ہو گیا۔ اب صرف آفیسرز، کسی کی پوسٹنگ پر دیئے گئے کھانوں پر اپنی بیگمات کے ساتھ جمع ہوتے۔ بچوں کا آپس میں میل جول، سکول یا پڑوس میں رہ گیا۔ چنانچہ،”بنگو“ کے نام سے  اسلامی کھیل متعارف کرایا گیا۔ سارا جسم وہی تھا صرف نام کا برقع پہنا کر رقم کے بجائے گفٹ انعام میں ملنے لگے۔
جن میں، ”چھوٹے  انعام“  مگ، گلدان، فریم شدہ سینری  یا پینٹنگ  اور بڑا نعام، ہاؤس میں جمع رقم کے مطابق، کٹلری سیٹ، کافی سیٹ یا ٹی سیٹ پر مشتمل ہوتا، ہاں شور مچانے اور نعرے مارنے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن  1977 سے 1980تک
زمانہ کافی آگے آچکا تھا۔ 
پہلے ہاؤس کے بعد ہمارا گروپ بھی بن گیا۔ دو نعیم کے کورس میٹ، کیپٹن  بٹ،  کپٹن جاوید، جو  اپنی بیوی اور خوبصورت سے گول مٹول ایک سالہ بیٹے  جہانزیب کے ساتھ۔ ایک کیپٹن سعید جو سی ایم ایچ میں کوارٹرماسٹر تھے اور ان سے ڈیڑھ سال سینئر تھے یعنی 51لانگ کورس کے اور پی ایم اے میں اورنگ زیب کمپنی کے تھے۔جس میں نعیم ”پہلی ٹرم“ میں تھے۔ بعد میں کیپٹن سعید فارن سروسزز  کے لئے سلیکٹ ہو گئے وہ اپنی بیوی اور بہن کے ساتھ آئے تھے۔ ہماری ٹیبل پر آگئے۔ کیوں کہ سب سے جونئیر ہم لوگ تھے۔باقی سینئر آفیسرز تھے۔ ان کے یونٹ کے میجر ”طارق“ جو کشمیر میں ان کے ساتھ تھے اور حیدرآباد کے رہنے والے تھے اپنی بیوی اور تین۔ چھوٹی بیٹیوں۔ ماریہ۔(دس سال)۔ کنزہ (آٹھ سال) اور جویریہ (پانچ سال) یہ  پہلے ہاؤس  کے بعد آئے تھے۔

 پہلا ہاؤس کھیلنے کے بعد میں نے انکار کر دیا۔ کیوں کہ مجھے نمبر سمجھ نہیں آتے تھے۔ میرا کارڈ نعیم ہی کاٹتے رہے۔ تینوں بچیوں کے آنے سے میں ان کے ساتھ مصروف ہو گئی۔ ماریہ اور کنزہ بہت تیز تھیں اورذہین بھی۔ کوئی نمبر پکارا جاتا، تو میں انہیں تنگ کرنے کے لئے کوئی دوسرا نمبر بتاتی لیکن مجال ہے کہ ان کی توجہ میں کوئی فرق آیا ہو۔ ہاؤس مکمل ہونے کے بعد سب، کارڈ مجھے دے دیتے۔ میں سب کو میز پر بچھا کر جویریہ کے ساتھ، جو نمبر پکارا جاتا میں کاٹتی رہتی۔ کوئی نہ کوئی کارڈ پورا کٹ جا تا۔ جویریہ کی خوشی قابل دید ہوتی۔
  جویریہ زور سے پکارتی ”یس“۔
جس کا مطلب ہوتا کہ ہمارا کارڈ کٹ گیا ہے۔ جس پر لوگ ہماری طرف متوجہ ہو جاتے۔ تھوڑی دیر تک جب ہماری ٹیبل سے کوئی نہ کھڑا ہوتا تو، ”بوگی، بوگی“ کا شور  مچتا لیکن جویریہ اپنی ”ماما“کو کارڈ دکھاتی ”مسز طارق“ اپنے بیگ سے دو ٹافیاں نکالتیں اور جویریہ کو دیتیں۔ جویریہ ایک مجھے دیتی اور ایک خود کھاتی۔ تیسرے ہاؤس کے بعد  کیپٹن جاوید کی مسز کپٹن سعید کی مسز اور ان کی بہن بھی ہمارے ساتھ شامل ہوگئیں۔ انہیں بھی نمبر سمجھ نہیں آتے جس کی وجہ سے وہ بور ہونے لگیں۔ اب وہ میرے ساتھ گپیں لگانا چاہیں اور جویریہ شور مچائے۔ کہ میں اس کے ساتھ ”بنگو“ کھیلوں۔ سب مردوں نے ”ویٹرز“ کو آرڈر دے کر ”چپس، پکوڑے، تکے اور کولڈ ڈرنکس منگوائیں۔ نعیم کو میجر طارق نے منع کر دیا۔ جوتھے ہاؤس کے دوران ویٹر کھانے کا سامان لے آیا ِ ہم تینوں کے علاوہ، باقی چھ افراد انہماک  سے ”بنگو“ کھیلنے اور کھانے میں 
مصروف تھے اور میں دیگر خواتین کے ساتھ باتیں کرنے کے علاوہ،جویریہ کے ساتھ، اس کے کارڈ کٹوا رہی تھی۔

پانچواں ہاؤس ”سنو بال“ تھا۔ اسے کے لئے کوئی کارڈ فری نہیں تھا۔ قیمت وہی ایک روپیہ۔ اس وقت تک کھیل اپنے جوبن پر پہنچ چکا تھا۔ مجھے اور باقی تینوں خواتین نے بھی کھیلنے کا پروگرام بنایا کیوں کہ انعام میں چھ افراد کاکٹلری سیٹ تھا۔ ایک شیٹ  پر چھ کوپن ہوتے ہیں جس میں پورے 90نمبر ہوتے ہیں۔ سب نے ایک ایک شیٹ خریدی،اورتو اور دونوں بچیوں نے دو دو کوپن کی ضد کی۔ نعیم تو دو کارڈ لائے،
کیپٹن  جاوید نے چوٹ کی، ”یار کنجوسی مت دکھاخود نہیں تو بھابھی کے لئے ایک شیٹ  لے لے“۔
”نعیم نے کہا کہ یہ آج کاا نعام لے چکی ہیں اور میرا انعام آج تک نہیں نکلا تو خواہ مخواہ پیسے ضائع کرنے کی کیا -ضرورت؟۔ خوشی کے لئے کھیلو جوئے کیلئے نہیں“۔
میجر طارق فوراً چمک کر بولے، ”فتویٰ مت دے۔ امیر المؤمنین نے جائز کر دیا ہے“۔

باقی اب پھر خواتین اپنے اپنے مردوں کے ساتھ بیٹھ گئیں۔ جویریہ کو بھی معلوم تھا کہ اس ہاؤس میں تنگ نہیں کرنا اس کی امی نے اسے اپنے پاس بلایا، لیکن وہ میرے ساتھ چپکی رہی۔


سنو بال شروع ہوا اور25 نمبروں  کے بعد میرا صرف ایک نمبر 54رہ گیا تھا۔جو نعیم کا پی ایم اے کا کورس تھا۔ سب کی توجہ ہم پرہوگئی۔ جویریہ دعائیں مانگنے لگی۔ میری بھی عجیب حالت۔ ہر نمبر نکلنے سے پہلے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی۔
 آخری نمبر سے پہلے میجر ابرار نے پوچھاAny body sweating ?,
    پورے گروپ نے نعرہ لگایا ”یس“۔  
میجر ابرار نے نمبر نکالا اور بولے، " Guess which Number"
شور مچا، 54۔
 لیکن نمبر تھا 11۔
مجھے نہیں معلوم کہ آپ  پڑھتے ہوئے کیسا محسوس کر رہے ہیں۔ لیکن یہ لکھتے ہوئے۔ میں اس وقت، حیدرآبا د آفیسرز میس کے لان میں بیٹھی ہوئی ہوں ، یک دم خاموشی چھا گئی ہے ۔ ٹھنڈی سڑک سے گذرنے والے رکشے کی ٹرٹراہٹ ، خاموشی میں جل تھل پیدا کرتی ہے اور پھر خاموشی اور ان سب پر حاوی میری  ”سانس“ ہے  جو اس وقت نکلی تھی۔ سب نے ہمدردی کی، لیکن میں سوچ رہی تھی کہ کیا میں واقعی، ”بد قسمت“ ہوں۔ میں نے نعیم سے،رندھی ہوئی آواز میں پوچھا۔ وہ بولے، ”بے وقوف، یہ ایک کھیل ہے انعام نکل گیا تو بہتر ورنہ کھیل کو تو انجوئے کیا۔ اچھا چلو کھڑی ہوجاؤ“۔ کیوں میں نے پوچھا۔  میجر ابرار نے اعلان کیا ہے کہ جن کا آخری نمبر رہ گیا ہے وہ کھڑے ہو جائیں۔

مجھ سمیت تین افراد کھڑے ہو گئے۔  صرف میرا 54 نمبر تھا ان دونوں کے 44،  میجر ابرار نے پھر کہا کہ جن کے دو نمبر رہتے ہوں وہ کھڑے ہوں۔ پانچ افراد  اور کھڑے ہو گئے۔  54اور  26 کے تین،  44 اور 26 کے دو ۔ گویا تین نمبر میجر ابرار نے پوچھا کیا 93نمبر تک”سنو بال“ بڑھا دیں۔  سب نے  ہاں، ہاں کا شور مچایا۔ میجر ابرار نے تھیلے کو ہلا کر نمبر نکالا اور ہمارے صبر کا امتحان لیتے رہے کسی کا بھی نمبر نہیں نکلا۔  اب انعام تو دینا تھا۔ کٹلری سیٹ کے بجائے۔ ٹی سیٹ کا اعلان ہوا۔ اب ہاؤس باقی سات نمبروں میں نکلنا تھا۔  چھٹا نمبر پکارا گیا۔ 54 ۔ہمارے گروپ  نے بلند آواز میں نعرہ مارا ”گریٹ“ اور یوں  ٹی سیٹ کی حقدار میں ٹہری۔  اس کے بعد،  ٹوکن کے پیچھے نام لکھ کر  ”لکی ڈرا“ کے لئے ڈالنے تھے۔ مردوں اور عورتوں کے الگ الگ بکس تھے۔ ہمارے گروپ نے تمام کوپن کے پیچھے  جویریہ کا نام لکھ کر جویریہ سے بکس میں ڈلوادیا۔  لیڈیز کا انعام،  جویریہ کا نکلا۔  اور اس طرح میری زندگی کہ پہلی شام میرے لئے یادگار بن گئی۔ 





٭٭٭٭٭٭٭ ٭٭٭٭٭

 پچھلا مضمون ۔ ۔فوجی کی بیوی - 4  ٭٭ ٭٭  اگلا مضمون ۔ ۔ فوجی کی بیوی -6 - زیرِطباعت
 
٭٭٭٭٭٭٭ ٭٭٭٭٭

ہونہار بِروا - 1




1 تبصرہ:

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔