وہ بچی تھی
چھوٹی سی پیاری سی
میری نواسی عالی جیسی
اپنے باپ کی گود میں سہمی سی
نرم و نازک کونپل کی طرح لرزاں
وہ کھیل رہی تھی ہنس رہی تھی
اپنی دادی کی گود میں چند لمحے پہلے
اپنی ماں کو شرارت سے چڑاتی ہوئی
دادی کی گود میں چُوری شوق سے کھاتی ہوئی
اب وہ خاموش ہے انے باپ کو گود میں
سر سے بہتا خون، جسم سے رستا خون
کپڑوں کو بھگوتا، ایڑیوں کو بھگوتا ٹپ ٹپ گرتا
غزہ کی سڑک پر لمبی سی اک لکیر
سرخ رنگ کے قطروإ کی دور معدوم ہوتی جاتی ہے
وہ ننھی معصوم سی پیاری بچی
قطر قطرہ خالی ہوتی ہے
انکھیں بند ہوتی ہیں
میری آنکھیں بھی دھندلی ہوتی ہیں
قطرہ قطرہ وہاں خون ہے یہاں آنسو ہیں
وہ ننھی پیار ی معصوم بچی سو گئی
ہسپتال پہنچنے سے پہلے اک ابدی نیند میں
وہ ننھی پیاری معصوم سی بچی
میری نواسی عالی جیسی
میں سو نہ سکی، انسانوں کے ظلم پر
جو وہ کرتے ہیں اپنے بچوں کے امن کی خاطر
Very moving poetry
جواب دیںحذف کریں