سسرال پہنچی، تو باراتی ہم سے پہلے پہنچ گئے تھے استقبال ہوا۔محلہ کی ساری عورتیں ان کے گھر جمع تھیں ِ بچے بھی نعیم بھائی و انکل کی دلہن دیکھنے امنڈے پڑ رہے تھے۔ کوئی منہ دکھائی میں ٹافیاں ڈال رہا ہے تو کوئی بسکٹ دے رہا ہے، ساڑھے دس بجے ان کو ڈھونڈا جا رہا تھا مگر یہ غائب تھے۔ چھوٹے بھائیوں کو دوستوں کے پاس دوڑایا یہ ندارد۔ رات کو گیارہ بجے مہمان جانے شروع ہوئے بستر بچھانے کے لئے، سیڑھیوں کے نیچے والے حصے کا دروازہ کھولا تو معلوم ہوا کہ دولہا میاں تین فٹ ضرب چار فٹ کے بستر رکھنے والےمچان میں رضائیوں کے اوپر سوٹ سمیت سو رہے تھے۔ بھائی مل گئے کا نعرہ ان کی چھوٹی بہن نے لگایا یہ آنکھیں ملتے ہوئے اُٹھے منھ دھویا، کمرے میں داخل کیسے ہوں دروازے پر لڑکیوں نے قبضہ جمایا ہوا تھا،پیسے دے کر جان چھڑائی، کمرے میں داخل ہوئے مسہری پر ان کا دس سالہ بھائی وسیم اور میرا چھ سالہ بھتیجا گڈو سوئے ہوئے تھے۔ ان دونوں کو اٹھایا تو دونوں نے کمرے سے نکلنے سے انکار کر دیا۔ گڈو میکے میں میرے ساتھ سوتا تھا، بہر حال دونوں کو دوبارہ سونے دیا آدھے گھنٹے بعد ان کے چھوٹے بھائی چپکے سے اٹھا کر دونوں کو دوسرے کمروں میں لے گئے۔
دوسرے دن جمعرات تھی ولیمہ ہوا گھر کے سامنے سڑک پر شامیانے لگائے گئے۔ دوپہر ایک بجے کھانا شروع ہوا اور دو بجے تک ختم ہو گیا، شامیانے سمیٹ لئے گئے۔ اس کے بعد آنے والے مہمانوں کو بیٹھک میں کھانا کھلایا ِ۔ تین بجے چھوٹے بھائی جان آکر مجھے لے گئے۔ اگلے دن جمعہ رات کے کھانے کے بعد میں ان کے ساتھ دوبارہ اپنے سسرال آگئی۔ ان کی چھوٹی بہن سعیدہ نے مجھ سے پوچھا کہ بھابی آپ بھائی کو کیسے بلائیں گی؟ اب مجھے سمجھ نہ آئے، ہماری بھابیاں بھائیوں کو، اجی، سنیئے، گڈو کے ابا وغیرہ کہہ کر بلاتی تھیں میں کیا کہہ کر بلاؤں؟ کیوں کہ ان دنوں یہی چلتا تھا۔ میں نے کہا اپنے بھائی سے پوچھو انہیں کیا اچھا لگے گا؟ ان سے پوچھا انہوں نے کہا، ”نعیم“ مجھے بڑا عجیب لگا کہ، مجھ سے بڑے بھی ہیں اور شوہر بھی اور نام سے بلاؤں، چنانچہ کافی عرصہ سنیئے ہی سے کام چلایا۔
انہوں نے گیارہ تاریخ کو واپس اپنی یونٹ چلا جانا تھا۔لہذا دس تاریخ کورسم کے مطابق میں نے شام کو کھیر پکائی، محلے اورعزیزوں دوستوں کے گھر تقسیم کی گئی۔ مغرب کے بعد انہوں نے مجھے، اپنے چھوٹے بھائی کی بیوی، بانو(ان کی شادی سال پہلے ہو گئی تھی) اور دونوں بہنوں کو بٹھا لیا اور جوائینٹ فیملی سسٹم کا سب سے بڑی وجہ نزع کو انہوں نے ایک ہفتہ وار پروگرام کاغذ پر بنا کر حل کر لیا اور وہ چاروں کی گھر کے کام کاج میں ڈیوٹیوں کی تقسیم تھی ُ کہ گھر کا کھانا کس کس نے کب کب پکانا ھے۔ صبح اور دوپہر کے برتن تو کام والی دھوتی تھی لیکن رات کے کھانے کے بعد برتن کون کون دھوئے گا وغیرہ وغیرہ۔ یہ ٹائم ٹیبل بنا کر کچن میں ٹانگ دیا۔ اور ہاں میرا میکہ تو دو گلی چھوڑ کر تھا اور بانو کانواب شاہ، چنانچہ اس بات کا بھی خیال رکھا، یہ اور بات کہ ہم دونو ں دیورانی اور جٹھانی نے بقائے باہمی کے اصولوں پر اپنے اپنے کام بعد میں ایڈجسٹ کر لئے، چونکہ کھانا میں اچھا بناتی تھی لہذا کھانے کی تما م ذمہ داری مجھ پر آگئی۔ بانو کو چونکہ اسی مہینے خوشخبری ملنے والی تھی لہذا، اس کے آرام کو بھی مد نظر رکھنا پڑا۔
اگلے دن یہ روانہ ہو ئے تومیرے آنسو نکل آئے ان کے سب گھر والوں نے میرا مذاق اڑانا شروع کر دیا،ہمارے بھائی چھٹی کے بعد واپس جاتے تو میں نے بھابیوں کو روتا ہی دیکھا اور یہ لوگ رونے سے منع کر رہے۔ ان کی امی نے کہا بہو جانے والے کو ہنسی خوشی رخصت کرتے ہیں۔تاکہ اسے پردیس میں ہنستے چہرے یاد رہیں۔ یہ بات دل کو لگی میں نے آنسو پونچھ ڈالے۔
ان کے جانے کے دوسرے دن میں میکے چلی گئی۔ وہاں تین دن رہ کر سسرال واپس چھوٹی بہن کے ساتھ آئی تودس بجے ان کا خط آیا ہوا تھا۔ سعیدہ نے خط مٹھائی کھائے بغیر دینے سے انکار کر دیا۔ بہرحال گلاب جامن منگوائے تب ان کا خط ملا۔ اب خط کیسے پڑھوں؟یہ سب لوگ اس امید پر کہ میں خط کھولوں تو یہ بھی سنیں اور میری خط کھولنے کی ہمت نہ پڑے۔یہ میرے نام کسی لڑکے کا پہلا خط تھا۔ میں نے خط الماری میں رکھ کر تالا لگادیا۔ اب یہ تینوں میرے پیچھے کہ بھائی کا خط سناؤ، اب میں پریشان،ان کی امی نے آکر سب کو دوڑا دیا۔ لیکن دوپہر کو پھر یہ سب میرے کمرے میں آگھسیں، بھائی کا خط پڑھا میں نے کہا نہیں۔نہیں پڑھ لیا ہمیں بھی سناؤ ، سعیدہ مجھ سے تین مہینے چھوٹی تھی۔ وہ ناراض ہو گئی میں نے منایا اور کہا پہلے میں پڑھوں گی اور خود سناؤں گی۔ پڑھنے کو نہیں دوں گی۔ تینوں راضی ہوگئیں۔ میں نے دھڑکتے دل سے الماری کھولی۔ تمام دعائیں جو یاد تھیں پڑھ لیں کہ انہوں نے کوئی ایسی بات نہ لکھی ہو کہ مجھے شرمندگی ہو۔ ان کو دور بٹھا کر خط کھولا۔ پڑھا ایک بے ضرر سا خط تھا اللہ کا شکر ادا کیا اور خط سعیدہ کو دے دیا، اس نے پڑھا اور بانو کو دے دیا، بانو نے پڑھ کر حمیدہ کو دیا اور حمیدہ اور فردوس دونوں نے پڑھا۔ بانو نے شرارت کی بھابی، لفافے میں دیکھیں کوئی اور رقعہ تو نہیں، لفافے کو اچھی طرح جھاڑا کچھ نہیں۔ شام کو چھوٹے بھائی آکر چھوٹی بہن فردوس کو لے گئے۔ گھر کے کام کاج سے فارغ ہو کر ہم سب چھت پر آبیٹھے او ر گپیں شروع ہوگئی ان کی بڑی بہن آپا کوئیٹہ سے شادی میں شرکت کے لئے اپنی دو چھوٹی بیٹیوں کے ساتھ آئی تھیں۔ انہوں نے اپنے بچپن کے قصے سنانے شروع کر دئے جو زیادہ تر آپا اور ان کے تھے سب ہنسیں اور مجھے ہنسی بھی آئے اور غصہ بھی، کہ یہ سب میرے شوہر کا مذاق اڑا رہے ہیں ِ ان کی امی نے غالباً میر چہرہ پڑھ لیا بولیں، ”گل، میرا نمو بہت سیدھا تھا اور یہ نجمی اس کو بہت تنگ کرتی اور پھر اپنے ابا مار کھاتی“۔ آپا شادی کے بعد دو ہفتے رہیں اور دونوں ہفتے وہ اپنی بچپن کی شرارتوں کے قصے ایسے مزے سے سناتیں کہ ہنستے ہنستے ہم سب کے پیٹ میں بل پڑھ جاتے۔
غالباً یہ 1959کا ذکر ہے۔ ان کے ابو کی پوسٹنگ ایبٹ آباد میں تھی۔یہ پانچ سال کے تھے، آپا سات سال کی، امین چار سال اور سعیدہ ایک سال،یہ ”پکی“ جماعت میں تھے اور آپا دوسری جماعت میں تھیں۔ سکول کا نام "گورنمنٹ برکی پرائمری سکول" تھا۔ جو ان کے گھر سے سو گز کے فاصلے پر تھا۔ آپا بچپن سے بہت ذھین اور پڑھائی میں تیز تھیں۔ تین چار دن بعد، ان کی امی نے مرغی پکائی،غالباً مہمان آئے تھی، مرغی کے پروں کو مکئی کے خالی بھٹے میں لگا کر آپا نے کھلونا بنایا جسے اوپر پھینکیں تو آرام سے گھومتا ہوا نیچے آتا تھا۔ کھیل کھیلتے ہوئے ان کے ذہن میں خیال آیا کہ اگر میں یہ پر باندھ لوں تو کیا میں بھی پری کی طرح اڑ سکوں گا۔ انہوں نے آپا سے پوچھا آپا نے کہاہاں بالکل اڑ سکتے ہو۔ آپا نے ان کے دونوں کندھوں پر، مرغی کے چھ چھ پرلگا دئے۔ اب کہاں سے اُڑا جائے؟ گھر کے نزیک بہنے والے پختہ برساتی نالی جو دو فٹ چوڑی اور اتنی ہی گہری تھی (جو میں نے بعد میں جون 1999) میں نعیم نے ہمیں دکھائی) یہ چھلانگ لگا کر اسے پار کر جاتے تھے۔چنانچہ اس کے اوپر سے چھلانگ لگا کر اڑنے کا فیصلہ کیا گیا طے یہ پایا کہ پہلے یہ اڑیں گے اور پھر آپا۔دونوں بہن بھائی نے نالی کے ایک طرف اینٹوں سے ایک فٹ اونچا تھڑا بنایا۔ یہ پیچھے سے دوڑتے آئے، تھڑے پر پاؤں رکھا فضا میں بلند ہونے کی کوشش کی اور تھڑے کی ایک اینٹ پھسل جانے سے یہ نالی میں جاگرے اور بے ہوش ہو گئے۔ آپا نے زور زور سے رونا شروع کیا ان کی امی اور پڑوسن گلزار خالہ دوڑتی ہوئی آئیں اور انہیں ہسپتال لے جایا گیا۔گلزار خالہ کو جب معلوم ہوا کہ یہ نجمی کی شرارت تھی تو انہوں ان کی خوب دھنائی کی۔ اس دن کے بعد محلے والے بچے انہیں ”نعیم پری“ کے نام سے چھیڑتے۔ اور ان پر ایک گانا بھی بنا لیا تھا۔
” نعیم پری آنا۔ پر لگا کر اُڑجانا۔ نالے میں گرجانا۔شور نہ مچانا۔ نعیم پری آنا “
گلزار خالہ، ان کی زندگی کی ایک اہم شخصیت ہیں، ان کے شوہر کا نام اقبال صاحب تھا اور یہ چواء سیدن شاہ چکوال میں سخی سیدن شاہ کے شمال میں واقع محلے کے رہنے والے تھے۔ ان کی شادی کو چھ سال ہو گئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے اولاد کی نعمت سے نہیں نوازا تھا، جب نعیم کی پیدائش ہوئی تو یہ دونوں گھرانے لاہور میں تھے۔ نعیم کی پیدائش پر ان کی امی بہت بیمار ہوگئیں، ان کا سسرال میرپورخاص میں تھا۔ دادی آ نہیں سکتیں تھیں چنانچہ گلزار خالہ نے انہیں پالا، ان کے والد کی پوسٹنگ ایبٹ آباد ہو گئی، ان دو نوں وہ میڈیکل کورمیں نائب صوبیدار تھے یہ لوگ یہاں آگئے تو یہ گلزار خالہ کی جدائی میں بہت بیمارہوگئے پھر نائب صوبیدار اقبال صاحب کی پوسٹنگ بھی چھ مہینے بعد ایبٹ آباد ہو گئی اور اتفاق سے پڑوس میں گھر مل گیا تو یہ پھر زیادہ تر گلزار خالہ کے ہاں ہی رہتے اور وہ اپنے بیٹے کی طرح اس کا خیال رکھتیں۔ بلکہ یہ انہیں اپنے ساتھ اپنے گاؤں دو مہینے کی چھٹیوں پر بھی لے کر گئیں تھیں۔ جہاں سے نعیم خالص پنجابی لہجہ لے کر آئے تھے اور گلزار خالہ کے ساتھ اپنی توتلی زبان میں پنجابی بولتے تھے۔اب تو جب میں بھی کراچی جاتی ہوں یا کراچی والے رشتہ دار آتے ہیں وہ یہی کہتے ہیں کہ گل بھی پنجابی ہو گئی ہے اور ہمیں ان کے لہجے عجیب لگتے ہیں۔
دوسرے دن میں ان کو خط لکھنے بیٹھی اب سمجھ نہ آئے کہ کہاں سے شروع کروں اور کیا لکھوں۔پھر خیال آیا کہ ان کے جانے کے بعد واقعات لکھنا شروع کروں۔ خط بھی لکھا جائے گا اور انہیں بھی معلومات رہے گی۔ اب ان کے ابو کہیں جلدی خط لکھ کر دو پوسٹ بھی کرنا ہے کیوں کہ لفافے میں انہوں نے بھی رقعہ ڈالنا تھا اور میر خط ختم ہی نہ ہو، اپنے سکول اور کالج میں تقریریں اور امتحان میں مضامین لکھنے کی جو مہارت تھی وہ خط میں سموئی نہیں جارہی تھی۔بہرحال تین صفحے پر مشتمل ڈائری نامہ لکھ کر اپنے سسرکے حوالے کیا، انہوں نے میری ساس کو دکھایا۔ خط پوسٹ ہونے کے بعد ساس نے سمجھایا کہ بہو خط میں روزانہ کی کہانی نہیں لکھی جاتی۔
16نومبر کو جمعہ تھا اور اس دن صبح دس بجے سے بارہ بجے تک ان کے ہاں قرآن کا درس ہوتا جو ان کی امی دیتیں تھیں، پچھلے جمعے میں اپنے میکے تھی لہذا اب ساری ذمہ داری مجھ پر سونپی گئی کیونکہ بانو کو چند دنوں میں خوشخبری ملنے والی تھی۔ لہذا وہ بستر پر لیٹ گئی۔ کوئی پچیس ،تیس کے قریب عورتیں اور بچیاں آئیں، درس قرآن کے بعد، مجھ سے نعت کی فرمائش کی گئی۔ میں نے حمد اور دو نعتیں سنائیں۔ سب نے ان کی امی کو مبارکباد دی کہ بہت اچھی بہو ملی ھے۔ میں بھی خوش اب میری ڈیوٹی بچوں کو ترنم سے نعت سنانے کی لگ گئی۔
22 نومبر کو بانوکے ہاں بیٹی پیدا ہوئی۔ فائزہ صدف نام رکھا، ان کے خاندان میں بیٹوں سے یہ پہلی بچی تھی، خوشی منائی گئی محلے میں جانے والوں کے مٹھائی بھجوائی گئی۔ میں چونکہ اپنے بھتیجے اور بھتیجیوں کو سنبھال چکی تھی لہذا مجھے بھی بچی کو سنبھالنے میں دشواری نہیں ہوئی۔ غالباً دسمبر کا پہلا ہفتہ تھا۔ فردوس آئی اور اس نے خوشخبری سنائی کہ اس اتوار کو نورجہاں فلم لگ رہی ھے ہم سب دو پہر کا شو دیکھنے جا رہے ہیں۔ چھوٹے بھائی نے ایڈوانس بکنگ کروا لی ہے۔بھابی نے کہا ہے کہ آپ بھی آجائیں۔ میں نے انکار کر دیا، میری بہن بہت حیران ہوئی۔ ان کی امی سے اجازت لی انہوں نے کہا، گل کی مرضی۔ہفتے کو میں امی کے گھر گئی سب نے بہت زور لگایا مگر میں نے انکار کردیا۔ میں نے واپس شام تک اپنے سسرال جانا تھا۔ لیکن میں دس بجے واپس آگئی۔ ان کی امی نے کہا کے تم فلم دیکھنے نہیں جارہی۔میں نے کہا نہیں۔ ان کی امی بھی حیران ہوئیں کہ میں نے کیسے انکار کر دیا۔ حالانکہ مہینے میں کم از کم ایک دفعہ ہم سب فلم دیکھنے سینما ضرور جاتے تھے اور یہ بات میری ساس کو معلوم تھی۔ دراصل، نعیم نے مجھے منع کر دیا تھا۔ نعیم غالبا 1978 فروری میں رنگین ٹی وی، پشاور سے خرید کر لائے تھے۔ تاکہ ان کے چھوٹے دونوں بھائی باہر جا کر ٹی وی نہ دیکھیں۔ اس کے لئے انہوں نے بڑی مشکل سے اپنے ابو کو منایا تھا۔ پھر ان کی والدہ اور بہنیں جب ہمارے ہاں میری منگنی کے بعد آتیں تو ڈرامہ لازمی دیکھ کر جاتیں۔ لیکن یہ سینما فلم دیکھنے کبھی نہیں گئیں۔
وقت جلدی سے گذرنے لگا اور 1980آگیا، تین جنوری کو یہ ایک مہینے کی چھٹی پر اچانک آگئے۔ حالانکہ چند دن پہلے ان کا خط ملا انہوں نے اس میں ذکر تک نہیں کیا۔ سب اس اچانک سرپرائز پر خوش ہو گئے۔ میں نے پوچھا کہ کیاآپ کو خط لکھنے کا وقت نہیں ملتا جو آپ ایک صفحے کا مشکل سے سادہ خط لکھتے ھیں۔ تب معلوم ہوا کہ جس علاقے میں یہ ہیں وہاں سے خط آرمی پوسٹ آفس کے ذریعے جاتے ہیں اور وہ ہر خط کو نہیں بلکہ کچھ خطوں کو کھول کر سنسر کرتے ہیں۔ لہذا سادہ خط لکھنا ان کی مجبوری ہے۔ میرپورخاص میں دو تین دن رہنے کے بعد انہوں نے پروگرام بنایا کہ، کراچی جاکر میرے اور ان کے رشتہ داروں سے ملنا ہے۔ گویا یہ ایک قسم کا ہنی مون ٹرپ تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭ ٭٭٭٭٭
٭٭٭٭٭٭٭ ٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں