Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 30 مئی، 2018

الیکشن 2018

پاکستان میں عام انتخابات 2018ء کےلئے 25جولائی کا تاریخ کا اعلان ہوچکا ہے ،صدر مملکت ممنون حسین نے عام انتخابات کی منظور ی دیدی ہے ۔

پاکستان بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے الیکشن ایک ہی دن میں ہوں گے۔ اعداد و شمار کے مطابق 25 جولائی 2018 بروز بدھ کو ملک بھر میں مجموعی طور پر 874 نشستوں پر الیکشن ہوں گے ۔


الیکشن کمیشن نے صدر مملکت ممنون حسین کے پاس 25،26،27 جولائی میں سے کسی ایک تاریخ کو مقرر کرنے کیلئے سمری بھیجی تھی،ایوان صدر نے 25 جولائی 2018ء بدھ کا دن منتخب کیا اور اس دن ملکی تاریخ کے 11 ویں عام انتخابات ہوں گے۔

الیکشن کمیشن کی بھیجی ہوئی سمری میں الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 57 کی ذیلی دفعہ ایک کے تحت عام انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کے لئے کہا گیا تھا،یہ سمری وزیراعطم کی وساطت سے صدر کو بھیجی گئی تھی۔

صدر مملکت کی طرف سے منظوری ملنے کے بعد الیکشن کمیشن وفاق اور چاروں صوبوں میں عام انتخابات کے لیے انتخابی شیڈیول کا اعلان یکم جون تک کرے گا۔

آئین کے تحت موجودہ قومی اسمبلی کی مدت 31 مئی کو  رات 12 بجے ختم ہو رہی ہے جبکہ از خود اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں 60 دن کے اندر عام انتخابات منعقد کرانا لازمی ہیں، صدر مملکت نے آئین کے تحت مقررہ مدت کے اندر انتخابات کرانے کی تاریخ کی منظوری دی ہے۔

پاکستان کی تاریخ کے مطابق گزشتہ دس الیکشن کی ترتیب کچھ یوں ہے کہ پہلے عام انتخابات 1970،دوسرے 1977، تیسرے1985، چوتھے 1988، پانچویں1990، چھٹے 1993،ساتویں1997، آٹھویں 2002،نویں2008 اور دسویں 2013 میں ہوئےتھے۔
پولنگ شیڈول  (ممکنہ)  الیکشن 2018
نئی مردم شماری کے بعد پورے پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے نئے حقلے بنائے گئے  ، یوں  قومی اسمبلی کے حلقوں کے نمبر تبدیل ہوگئے۔
 2013 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کا پہلا حلقہ این اے 1 تھا پشاور لیکن 2018ء کے عام انتخابات میں اب این اے 1 چترال ہوگا  ۔جبکہ 

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد جو پہلے 2 نشستوں این اے 48،49 پر مشتمل تھا،اب اس کی سیٹوں کی تعداد 3 یعنی این اے 52،53 اور 54 ہے۔

اس طرح صوبہ پنجاب کی اسمبلی کی 297 عام نشستوں پر الیکشن بھی 25 جولائی کو ہی ہوں گے ،
جبکہ اسی روز سندھ کی 130، خیبر پختونخوا کی 124 اور بلوچستان کی 51 نشستوں پر بھی ووٹنگ ہو گی ۔ 
الیکشن کمیشن کے مطابق حلقہ بندیاں شمال سے کلاک وائز کی گئی ہیں، پشاور کے حلقے این اے 27 سے شروع ہو رہےہیں، اسلام آباد کے حلقے این اے 48 اور 49 کے نمبر اب وزیرستان میں شامل ہوچکے ، وفاقی دارالحکومت کے حلقے اب این اے 52، 53 اور 54 ہیں ۔

پنجاب کے حلقے پہلے راولپنڈی سے شروع ہوتے تھے، اب اٹک سے شروع ہو رہے ہیں جو این اے 55 ہے۔
پنجاب کا آخری حلقہ این اے 195 راجن پور ہے۔ لاہور کے حلقے نمبر 123 سے این اے 136 تک ہوں گے،

سندھ میں حلقوں کا آغاز این اے 196 ڈسٹرکٹ جیک آباد سے ہو گا، کراچی کے 21 حلقے این اے 236 ملیر سے شروع ہو کر این اے 256 سینٹرل فور تک ہیں، جو اب سندھ کا آخری حلقہ ہے ۔

بلوچستان کے حلقوں کا آغاز این اے 257 قلعہ سیف اللہ سے ہو گا، بلوچستان کا آخری حلقہ این اے 272 لسبیلہ گوادر ہو گا۔

نئی حلقہ بندیوں کے تحت بلوچستان کی قومی اسمبلی کی سیٹوں میں 2 کا اضافہ کیا گیا ہے جو پہلے 14 تھی اب ان کی تعداد 16ہوچکی ہے،اسی طرح خیبرپختونخوا کی گزشتہ الیکشن میں35 نشستیں تھیں اب ان کی تعداد 39 ہوچکی ہے سندھ اور فاٹا کی قومی اسمبلی نشستوں میں کوئی ردو بدل نہیں ہوا جبکہ پنجاب کی نشستیں 148 سے کم ہوکر 141 کردی گئی ہیں۔  


منگل، 29 مئی، 2018

میں نے سمجھا تھا پکوڑوں سے درخشاں ہے حیات




 مجھ سے پہلی سی افطاری میرے محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا پکوڑوں سے درخشاں ہے حیات

حاصل ہیں اگر انگور تو مہنگائی کا جھگڑا کیا ہے
آلو بخارے سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات

بریانی جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا فقط میں نے چاہا تھا یوں ہو جائے

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں تربوز کچا نکلنے کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں لذت کام و دہن کے سوا

ان گنت ترکیبوں سے پکائے گے جانوروں کے جسم
سیخوں پر چڑھے ہوئے کوئلوں پر جلائے گے
 
جابجا بکتے ہوئے کوچہ بازار میں سجائے ہوئے
مسالہ میں لتھڑے ہوئے، تیل میں نہائے ہوئے
 
 نان، نکلے ہوئے دہکتے ہوئے تندوروں سے
خوشبو نکلتی ہوئی مہکتے ہوئے خربوزوں سے

لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دلکش ہے تیرا دسترخوان مگر کیجے

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں کھانے پینے کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں لذت کام و دہن کے سوا

مجھ سے پہلی سی افطاری میرے محبوب نہ مانگ 

دنیا کے انسانی عجائبات !









اور دنیا کی پہلی ملکہءِ حسن



پیر، 21 مئی، 2018

گوات در سے گوادر تک اور بیگم نون

 دو بلوچی الفاظ گوات بمعنی کھلی ہوا اور در بمعنی دروازہ کا مرکب جو عرف عام میں گوادر کہلاتا ہے، یونانیوں نے جنوبی بلوچستان کو گدروسیہ   کہا گیا ،   یہ 1956 تک عالمی استعمار کے اس ناجائز قبضے میں تھا جس کی داستان احسان فراموشی اور عیاری کا ایک نادر نمونہ ہے۔
گوادر اسٹیٹ اٹھارہویں صدی کے، خان آف قلات، میر نصیر نوری بلوچ کی ملکیت تھی لیکن اس علاقے پر اپنا تسلط قائم رکھنا خان صاحب کیلئے کافی مشکل ثابت ہو رہا تھا جس کی وجہ گچکی قبائل کی شورشیں تھیں کیونکہ ماضی میں وہ بھی اس علاقے کے حکمران رہ چکے تھے اور اسے واپس حاصل کرنا چاہتے تھے۔
خان صاحب نے اس کا حل یہ نکالا کہ ایک معاہدے کے تحت اس علاقے کا کنٹرول ہی گچکی قوم کے ہاتھ میں دے دیا تاکہ اس علاقے میں امن قائم رہے، معاہدے کے تحت یہ طے پایا کہ یہ علاقہ خان آف قلات کی جاگیر میں ہی شامل رہے گا اور اس کا آدھا ریوینیو بھی خان صاحب کو دیا جائے گا لیکن اس کا انتظام سارا گچکی قبائل کے ہاتھ میں رہے گا، یہ معاہدہ 1783 تک قائم رہا۔
1783 میں عمان کا حکمران، تیمور سلطان   اپنے بھائی سے شکست کھا کر دربدر ہوا ، تو اس نے خان آف قلات سے جائے پناہ کی درخواست کی، اس کی درخواست قبول کرتے ہوئے ایک نئے معاہدے کے تحت 2400 مربع میل پر پھیلا ہوا یہ اینکلیو ہارے ہوئے سلطان  کو سونپ دیا گیا۔
اس نئے معاہدے کی رو سے یہ طے پایا تھا کہ گوادر حسب دستور خان آف قلات کی جاگیر میں ہی شامل رہے گا اور اس کا کنٹرول بھی حسب سابق گچکی سرداروں کے پاس ہی رہے گا البتہ ریوینیو کا وہ آدھا حصہ جو خان صاحب کو جاتا ہے وہ اب خیر سگالی کے طور پر، تیمور سلطان    کو دیا جائے گا تاکہ وہ اپنی گزر اوقات باآسانی کر سکے تاہم جب سلطان کو اس جائے پناہ کی ضرورت نہ رہے تو اس کے تمام حقوق بھی حسب سابق خان آف قلات کے پاس واپس چلے جائیں گے۔

قریباً پندرہ سال بعد  1797عمان پر دوبارہ فتح پانے کے بعد سلطان اپنے پایۂ تخت واپس لوٹ گیا۔ لیکن گوادر کو حسب معمول اس نے اپنے ہاتھ میں ہی رکھا، خان صاحب شائد اس دوران فوت ہو گئے تھے یا مروتاً قبضہ نہیں مانگا بہرحال تقریباً دس سال بعد جب سلطان کی وفات بھی ہوگئی تو خان صاحب کے ورثاء نے گوادر کی حوالگی کا مطالبہ کر دیا۔

حکومت عمان کے انکار پر انہوں نے بزور قوت قبضہ کرلیا جسے سلطان کی سپاہ نے آکر چھڑا لیا، اگلے بیس سال میں یہ چشمک جب زیادہ بڑھ گئی تو اس قضیے کو نمٹانے کیلئے برٹش کالونیل ایڈمنسٹریشن نے ثالثی کے بہانے مداخلت کی ,لیکن انصاف کرنے کی بجائے اسوقت کے سلطان آف عمان سے اپنے لئے کچھ مراعات لیکر قلات خاندان کا دعویٰ یہ کہہ کر عارضی طور مسترد کر دیا کہ بعض دیگر گواہیاں بھی ان کے سامنے آرہی ہیں جن کے مطابق یہ علاقہ عرصہ دراز سے سلطنت آف عمان کی جاگیر ہے بہرحال حتمی فیصلہ کسی کے حق میں بھی نہیں کیا۔

اس خدمت کے عوض برطانوی پولیٹیکل ایجنٹ نے سلطنت عمان سے 1863 میں یہ ایگریمنٹ کیا کہ حتمی فیصلے تک گوادر کا انتظام برطانیہ کے پاس رہے گا اور حسب سابق عمان کو گوادر کا آدھا ریونیو ادا کیا جائے گا اور اپنی افواج گوادر میں داخل کر دیں یوں تقریباً سوا سو سال تک برطانیہ اس علاقے پر قابض رہا۔گوادر میں چند ہزار افراد پر مشتمل ماہی گیروں کی بستی تھی ۔ 1879 تک یہاں برٹش پولیٹیکل ایجنٹ کا ہیڈ کوارٹر رہا۔

قیام پاکستان کے بعد اس وقت کے خان آف قلات نے جب اپنی جاگیر پاکستان میں ضم کر دی تو پاکستان نے اسٹیک ہولڈرز سے گوادر کا معاملہ اٹھایا مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی، پھر جب ایک امریکی سروے کمپنی نے بتایا کہ گوادر کی بندرگاہ بڑے جہازوں کے لنگر انداز ہونے کیلئے بہت آئیڈیل ہے، علاوہ ازیں اس بندرگاہ سے سالانہ لاکھوں ٹن ایکسپورٹ ایبل سمندری خوراک بھی حاصل کی جا سکتی ہے جس میں 35 اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔

اس بات کی بھنک جن ایران کو پڑی تو انہوں نے اسے چاہ بہار کیساتھ ملانے کا فیصلہ کر لیا، ایران میں ان دنوں شاہ ایران کا طوطی بولتا تھا اور سی۔آئی۔اے اس کی پشت پناہ تھی جو صدر نکسن کے ذریعے برطانیہ پر مسلسل دباؤ ڈالنے لگی کہ گوادر کو شاہ ایران کے حوالے کر دیا جائے۔
1956 میں ملک فیروز خان نون نے جب وزارت خارجہ سنبھالی تو ہر قیمت پر گوادر کو واگزار کرانے کا عہد کیا اور باریک بینی سے تمام تاریخی حقائق و کاغذات کا جائزہ لیکر یہ مشن محترمہ  بیگم وقار النساء نون کو سونپ دیا۔

ان نازک حالات میں یہ پیکرِ اخلاص خاتون ایک چمپیئن کی طرح سامنے آئیں اور برطانیہ میں پاکستان کی لابنگ شروع کی، انہوں نے بھرپور ہوم ورک کرکے یہ کیس برطانیہ کے سامنے رکھا تاکہ ہاؤس آف لارڈز سے منظوری لیکر گوادر کا قبضہ واپس لیا جائے کیونکہ قلات خاندان کی جاگیر اب پاکستان کی ملکیت تھی لہذا ان کی جاگیر کے اس حصے کی وراثت پر بھی اب پاکستان کا حق تسلیم ہونا چاہئے نیز یہ کہ پاکستان وہ تمام جاگیریں منسوخ کر چکا ہے جو ریوینیو شئیرنگ یا معاوضے کی بنیاد پر حکومت برطانیہ نے بانٹیں تھیں، نیز یہ کہ اگر ہم اپنے قانون سے گوادر کی جاگیر منسوخ کرکے فوج کشی سے واگزار کرا لیں تو کامن ویلتھ کا ممبر ہونے کی وجہ سے برطانیہ ہمارے اوپر حملہ بھی نہیں کر سکتا۔
 محترمہ نے دو سال پر محیط یہ جنگ تلوار کی بجائے محض قلم، دلائل، اور گفت و شنید سے جیتی، جس میں برطانیہ کے وزیراعظم میکملن جو ملک صاحب کے دوست تھے انہوں نے کلیدی رول ادا کیا، عمان کے سلطان سعید بن تیمور نے حامی تو بھر لی مگر سودے بازی کا عندیہ دیا۔
سر فیروز خان نون (  16 دسمبر 1957 تا 7 اکتوبر 1958 ) میں جب وزیراعظم بنے تو انہوں نے گوادر کے معاملے میں “ابھی نہیں یا کبھی نہیں” کا نعرہ لگایا،ملک صاحب نے  1917 میں انر ٹیمپل  لندن سے بیرسٹر آف لا کا امتحان پاس کیا اور سرگودھا  میں وکالت شروع کی ، اپنی اِس  قابلیت کی بنیاد پر  اُنہوں نے  چھ ماہ کے اعصاب شکن مذاکرات کے بعد سلطان مسقط وعمان نے تین ملین ڈالر کے عوض گوادر کا قبضہ پاکستان کے حوالے کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی، اس رقم کا بڑا حصہ پرنس کریم آغا خان نے بطور ڈونیشن دیا اور باقی رقم حکومت پاکستان نے ادا کی، بعض جگہ یہ ہے کہ ساری رقم ہی ہز ہائی نیس پرنس کریم آغا خان  سوئم نے ہی ادا کی تھی۔یاد رہے   ہز ہائی نیس پرنس کریم آغا خان  سوئم، آل انڈیا   مسلم لیگ کے بانیوں میں سے ہیں ۔

اس سلسلے میں ملک صاحب اپنی خود نوشت سوانح حیات “چشم دید” میں لکھتے ہیں کہ جہاں ملک کی حفاظت اور وقار کا مسئلہ درپیش ہو وہاں قیمت نہیں دیکھی جاتی، ویسے بھی یہ رقم گوادر کی آمدنی سے محض چند سال میں ریکوور ہو جائے گی، آج جب برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر اکرام اللہ نے گوادر منتقلی کی دستخط شدہ دستاویز میرے حوالے کی تو اس وقت مجھے جو خوشی ہوئی آپ اس کا اندازہ نہیں کرسکتے، اسلئے کہ گوادر جب تک ایک غیر ملک کے ہاتھ میں تھا تب مجھے یوں محسوس ہوتا تھا گویا ہم ایک ایسے مکان میں رہتے ہیں جس کا عقبی کمرہ کسی اجنبی کے تصرف میں ہے اور یہ اجنبی کسی وقت بھی اسے ایک پاکستان دشمن کے ہاتھ فروخت کر سکتا ہے اور وہ دشمن بھی اس سودے کے عوض بڑی سے بڑی رقم ادا کر سکتا ہے۔
یوں دو سال کی بھر پور جنگ کے بعد 8 ستمبر 1958 کو گوادر کا 2400 مربع میل یا 15 لاکھ ایکٹر سے زائد رقبہ پاکستان کی ملکیت میں شامل ہو گیا۔لیکن وہاں کے بلوچ عوام کو سلطان  مسقط و عمان نے ، اپنی فوج میں بھرتی    ہونے کے حقوق دئیے ، 1977 میں سکول  آف انفنٹری  اینڈ ٹیکٹس  کوئیٹہ میں ، کیپٹن محمد
  مسقط و عمان، ہمارے ساتھ  آفیسرز ویپن کورس-7  کررہا   تھااُس کی اردو  پر ہم حراین ہوتے تھے بعد میں اُس نے یہ عقدہ کھولا کہ وہ گوادر کا بلوچ ہے ۔ مسقط و عمان فوج کا بیشتر حصہ گوادر کے بلوچوں پر مشتمل  ہے ۔ گوادر کا نام پاکستانیوں نے بڑے پیمانے پر 1979 میں سنا جب روس  گرم پانیوں میں براستہ گوادر جانے کا خواہش مند تھا اور اب بھی ہے ۔
سن 2002 میں جنرل مشرف نے گوادر پورٹ تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا جو مختلف مراحل سے گزرتا ہوا اب سی۔پیک کی شکل اختیار کر چکا ہے اور بلاشبہ پاکستان کیلئے ایک روشن مستقبل کی نوید ہے۔
پڑھیں سی پیک اور حکومت کی کامیابی
آج ہر کوئی گوادر پورٹ اور سی۔پیک کا کریڈٹ تو لینا چاہتا ہے مگر اس عظیم محسن پاکستان کا نام کوئی نہیں جانتا جس نے دنیا کے چار طاقتور اسٹیک ہولڈرز، برطانوی پارلیمنٹ، سی۔آئی۔اے، ایران اور عمان سے چومکھی جنگ لڑ کر ،  1800 میں خان آف قلات  کے ہاتھوں کھویا ہوا گوادر واپس پاکستان کی جھولی میں ڈال دیا۔
گوادر فتح کرنیوالی ملک و قوم کی یہ محسن محترمہ وقارالنساء نون ہیں جو پاکستان کے ساتویں وزیراعظم ملک فیروخان نون کی دوسری بیوی ہیں جن کی اس عظیم کاوش کا اعتراف نہ کرنا احسان فراموشی اور انہیں قوم سے متعارف نہ کرانا ایک بے حسی کے سوا کچھ نہیں۔
محترمہ کا سابقہ نام  ، وکٹوریہ ریخے    تھا، 1920 میں آسٹریا میں پیدا ہوئیں، تعلیم و تربیت برطانیہ میں ہوئی، ملک فیروز خان نون جب برطانیہ میں حکومت ہند کے ہائی کمشنر تھے تب ان سے ملاقات ہوئی، ملک صاحب کی دعوت پر حلقہ بگوش اسلام ہو کر بمبئی میں ان کے ساتھ شادی کی اور اپنا نام وکٹوریہ سے وقارالنساء نون رکھ لیا، پیار سے انہیں وکی نون بھی کہا جاتا ہے۔

محترمہ نے تحریک پاکستان کو اجاگر کرنے کیلئے خواتین کے کئی دستے مرتب کئے اور سول نافرمانی کی تحریک میں انگریز کی ملک خضر حیات  ٹوانہ  ،  کابینہ کیخلاف احتجاجی مظاہرے اور جلوس منظم کرنے کی پاداش میں تین بار گرفتار بھی ہوئیں۔

قیام پاکستان کے بعد انہوں نے لْٹے پٹے مہاجرین کی دیکھ بھال کیلئے بڑا متحرک کردار ادا کیا، خواتین ویلفئیر کی اولین تنظیم اپوا   ( آل پاکستان ویمن ایسوسی ایشن) کی بانی ممبران میں بھی آپ شامل ہیں، وقارالنساء گرلز کالج راولپنڈی اور وقارالنساء اسکول ڈھاکہ کی بنیاد بھی انہوں نے رکھی، ہلال احمر کیلئے گرانقدر خدمات انجام دیں، ضیاء الحق کے دور میں، بطور منسٹر، ٹورازم کے فروغ کیلئے دنیا بھر کو پاکستان کی طرف بخوبی راغب کیا، پاکستان ٹؤرازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن انہی کی ایک نشانی ہے۔

پاکستان کی محبت میں ان کا جذبہ بڑھاپے میں بھی سرد نہ پڑا، برطانیہ میں مقیم ان کی بے اولاد بہن کی جائیداد جب انہیں منتقل ہوئی تو اس فنڈ سے انہوں نےبرطانیہ میں  “وکی نون ایجوکیشن فاؤنڈیشن” قائم کیا جو آج بھی سماجی خدمات کا چراغ جلائے ہوئے ہے۔محترمہ کی وصیت کے مطابق اس فنڈ کا ایک حصہ ان نادار مگر ذہین طلبہ کو آکسفورڈ جیسے اداروں سے تعلیم دلوانے پر خرچ ہوتا ہے جو واپس آکر اس مملکت کی خدمت کرنے پر راضی ہوں۔ہمارے کافی  طالبعلموں نے اِس فاونڈیشن سے آکسفورڈ میں تعلیم پائی ۔
محترمہ وقارالنساء نون طویل علالت کے بعد 16 جنوری سن 2000ء میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملی ۔محترمہ کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی، ان کی حقیقی اولاد وہ پاکستانی ہیں جو حب الوطنی میں ان کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں۔

محترمہ کو گوادر فتح کرنے پر 1959 میں سرکار کا سب سے بڑا سول اعزاز نشان امتیاز عطا کیا گیا مگر ان کا اصل انعام وہ عزت و احترام ہے جو ہم بطور قوم انہیں دے سکتے ہیں۔


آج کون کون جانتا ہے کہ پاکستان کیلئے لازوال محبت و ایثار کا جذبہ رکھنے والی ایک عظیم خاتون نے اپنی مدمقابل چار عالمی طاقتوں سے ایک قانونی جنگ لڑ کر 15 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر مشتمل گوادر جیسی اہم ترین کوسٹل اسٹیٹ پاکستان میں ضم کروائی تھی۔

سلام محترمہ وقارالنساء نون  ۔ ۔ ۔  سلام اے مادرِ مہربان

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
گرم پانی ۔اُفق کے پار 

سی پیک اور حکومت کی کامیابی


جاسوسوں کی د نیا . برج آف سپائیز

پاکستانی جنگی سرحد !

ویلکم ٹو انڈیا ، پی آئی اے فلائیٹ 544

 

 

میں چُپ ای کرنا سی !


اتوار، 20 مئی، 2018

تم فوجی ہو ؟ ملک کے لئے مرنا ہو گا!


ایک آرمی آفیسر کی بیوی کا خط ،جو وٹس ایپ کے  مختلف فورمز  میں گردش کر رہا تھا ۔ میں نے پڑھا مجھے افسوس ہوا ۔
پہلے خط  پڑھیں اور پھر ایک پرانے فوجی ، دو فوجی بچوں کے باپ  کی طرف سے اِس  پر رائے :
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
   A write up by an Army officer’s wife,
Saadia Zulfiqar:
“I’m upset, I’m angry!! This is what we risk when our husbands serve in the army. Look at the face of the boy who lost his father today. Look at the faces of the Col’s family. 

Nothing is more precious than the life of your loved ones. This is our life everyday of the week, every week of the year, and every year of our lives. Is the pay a soldier gets worth losing his life. He misses the birth of his children, their first steps, their first words, their birthday parties, their school recitals. the wife alone dealing with scraped knees, broken wrists. The parents waiting for visits , the siblings timing vacations wondering if they will be able to meet him after two years. The ever present threat of the dreaded call and the ring of the door bell in an other wise routine day. This is the reality for us army families. 
This hyperbole of “khalai Makhlooq” is all BS. And coming from people who have nothing at stake here in this country burns me up. Every one who has lost a loved one in the line of duty in these years is asking this question from these politicians; that our brother, husband, father, son has done his duty by paying the ultimate price....... what have you done?????”

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جب میرا بیٹا ، فوج کے لئے سلیکٹ ہوا تو پاکستان ملٹری اکیڈمی  جانے سے پہلے میں نے اُس کے ماں سے پوچھا ،
" بیٹے کو جانے دو گی یا روک لو گی ۔ کیوں کہ فوجیوں کی مائیں اور بہنیں نہیں ہوتیں ۔ تم خنجر چلے کسی  یہ ۔ ۔ ۔ ۔  ! کی مثال ہو ایسا نہ ہو کہ ساری زندگی پریشانی  میں گذارو !"
 بو لی،" میں نے آپ کے  ساتھ کیا   زندگی پریشانی میں گذاری  ؟    میری طرف سے اجازت ہے "
میں نے  بیوی  سے کہا ،" ٹھیک ہے پھر اِسے سٹرک آف سٹرینتھ کر دو ۔ اور بھول جاؤ "
بیٹے سے مخاطب ہوا ،" مانی ، آج سے ہمارا رشتہ ختم ہو رہا ہے ، اب تمھاری کامیابیوں اور ناکامیوں کے متعلق تمام معلومات ، تمھارے کمانڈنے آفیسر سے مجھے ملنا چاھئیے ۔ تمھاری طرف سے ماں کو نہیں ۔"
پھر اُس کا اور میرا بیٹا اُس مخلوق میں شامل ہوگیا ، جو شہید یا غازی بن کر لوٹتے ہیں ۔ جن کی میت کو کندھا دیتے ہوئے،  بین کرنا اُن کو اپنے  خاندان تک محدود کرنا ہے، کیوں کہ فوجی کا خاندان اُس کا وطن ہوتا ہے ، جس میں رہنے والے  عوام کی حفاظت کے لئے وہ ٹریننگ سنٹر میں قدم رکھتا ہے ۔ ٹریننگ کے دوران  چار فٹ ضرب چار فٹ کا سو گز دور لگے ٹارگٹ پر  لگی 4 انچ ضرب 6 انچ کی سفید چندی  اُس کا واحددشمن ہوتی ہے ،جس کا اُس نے نشانہ لگانا ہوتا ہے ، یہ دشمن اُس کے وطن کی حدوں سے باہر ہوتا ہے تو اُس کی بندوق نیچے رہتی ہے ، لیکن جو ں ہی وہ  سرحد عبور کرکے اُس کی طرف آتا ہے  ، اُس کی بندوق  اُس کے کندھے پر ٹک جاتی ہے اُسے  یہ بھی معلوم ہے کہ اُس کی طرف بڑھنے والا  ،
چار فٹ ضرب چار فٹ کا ساکت ٹارگٹ نہیں ، بلکہ کم و بیش اُسی کی طرح ماہر نشانہ باز ہے ، جنگی امور کی چالبازیوں اور پینتروں پر دسترس رکھتا ہے  اور دونوں میں سے جو پہل کرے گا ، وہ جیت جائے گا ۔ 
ہار اور جیت  ایک فوجی  کا مقدر ہوتی ہے۔   جیت پر خوشی کے نعرے بجائے جاتے ہیں۔
بہادری سے ہارنے والا   بندوقوں کی سلامی اور بگل کی آواز کے ساتھ سپردِ خاک کیا جاتا ہے ۔ لیکن ہار کو گلے میں ماتم کا ہار بنا کر نہیں لٹکایا جاتا ۔
ایک  فوجی ،  سیاست دانوں کی چالاکیوں ، بیوروکریٹس کی رشہ دوانیوں اور ملاؤں کے حیلہ و جوازات پر ذرا بھی دھیان نہیں دیتا ۔
کون کیا کر رہا ہے؟  اُسے بالکل غرض نہیں ۔
کون اسپ، تازی ہے ؟اور کون ٹم ٹم کی دلدل ۔
اُسے صرف اپنے کمانڈنگ آفیسر کے ملنے والے احکامات کی عملداری سے سروکار ہوتا ہے ۔ وہ اپنے کام کو پورا کرنے میں مگن ہوتا ہے ، اُسے دوسرے کے پھٹے میں ٹانگ اڑانے کی فرصت نہیں ۔

 اُس کی بیوی اِس لئے نہیں اُس سے شادی کرتی کی وہ گھر جھولی بھر کر پیسے لاتا اور نہ اِسے یہ خواہش ہوتی ہے کہ اُسے ہر مہینے نہ سہی سال میں ایک بار  پکنک ٹور پر کسی دوسرے ملک لے جائے ۔
اُسے اِس بات سے بھی غرض نہیں  ہوتی ، کہ اُس کی چھوٹی بہن کے شوہر نے  نوکری کے دوسرے سال کارخرید لی اور  اُس کا شوہر میجر بن کر بھی قسطوں کی موٹر سائیکل پر اُسے اتوار کے اتوار بازار لے جاتا ہے ۔ 
بس وہ یہی دعا کرتی رہتی ہے کہ ہر صبح  اُس کا شوہر  اُس کے ہاتھ سے ٹوپی  لے کر  پہن کرمسکراتا ہوا گھر سے باہر جائے  اورو فخر سے یہ گنگنائے :

میں وردی نہیں پہنتی، لیکن میں فوج میں ہوں، کیوں کہ میں اس کی بیوی ہوں 
میں اس عہدے پر ہوں جو دکھائی نہیں دیتا، میرے کندھوں پر کوئی رینک نہیں 
میں سلیوٹ نہیں کرتی، لیکن فوج کی دنیا میں میرا مسکن ہے 
میں احکام کی زنجیر میں نہیں،لیکن میرا شوہر اس کی اہم کڑی ہے 
 میں فوجی احکام کا حصہ ہوں، کیوں کہ میرا شوہر ان کا پابند ہے 
میرے ہاتھ میں کوئی ہتھیار نہیں، لیکن میری دعائیں میرا سہارا ہیں 
میری زندگی اتنی ہی جانگسل ہے، کیوں کہ میں پیچھے رہتی ہوں 
میرا شوہر، جذبہ حریت سے بھرپور، بہادر اور قابل فخر، انسان ہے 
تپتے صحرا ہوں، ریگستان ہوں، برفیلے میدان یا کھاری سمندر 
ملک کی خدمت کے لئے اس کا بلاوہ، کسی کی سمجھ میں نہیں آسکتا
میرا شوہر، قربانی دیتا ہے اپنی جان کی، میں اور میرے بچے بھی 
میں سرحدوں سے دور، امیدوں کے ہمراہ، اپنے پر آشوب مستقبل کی 
میں محبت کرتی ہوں اپنے شوہر سے، جس کی زندگی سپاہیانہ ہے 
لیکن میں، فوج کے عہدوں میں نمایا ں ہوں، کیوں کہ میں فوجی کی بیوی ہوں 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مجھے یوں لگا کہ سیاست فوجی آفیسروں کی بیویوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے  یا فوجی آفیسر کی بیوی کے نام پر یہ خاتون مستقبل کا  کو ئی سیاست دان تیار کر رہی ہے ۔کیوں ایک فوجی کی بیوی  کبھی ایسا نہیں سوچی جیسا اِس خاتون نے لکھا، اور افسوس کی بات کہ  فوجیوں نے اِس بگولوں کی طرح گردش دی ، یہ سب فوجی نہیں بلکہ سیاسی ذہنوں کے چلے ہوئے کارتوسوں  کا کارنامہ ہے ۔
بھئی اگر آپ کو اپنے شوہروں  کے مرنے کا اتنا ہی شوق ہے ، تو اپنے شوہروں کو کہیں فوج چھوڑیں  ، پراپرٹی دیلر بن جائیں یا کسی مل میں نوکری کرنا شروع کر دیں !
کرنل سہیل کی تصویر اور اُس کے بچوں کے چہرے پر پھیلے ہوئے غم کو اپنا قلم بیچنے کا ذریعہ نہ بنائیں ۔ اُنہیں معلوم ہے کہ اُن کا باپ  شہادت کےاُس رتبے پر سرفراز ہوا کہ جس کا تصور  کوئی نہیں کر سکتا ۔

جمعرات، 17 مئی، 2018

پاکستان دہشت گردوں کی جنت ہے ، ٹرمپ


 نواز شریف نے جو بیان، ڈان کے نمائیندے  سرل  میڈا کو دیا،  وہ  سرخ رنگ میں نمایاں کیا گیا ہے ، وہ پڑھ لیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Pakistan-based terrorists carried out 26/11 Mumbai attack: Nawaz Sharif


Lahore: For the first time, Pakistan’s ousted prime minister Nawaz Sharif has publicly acknowledged that terrorist groups are active in the country and questioned the policy to allow the “non-state actors” to cross the border and “kill” people in Mumbai, a media report said.

Sharif, who has been disqualified to hold public office for life by the Supreme Court in the Panama Papers case, said Pakistan has isolated itself.

“We have isolated ourselves. Despite giving sacrifices, our narrative is not being accepted. Afghanistan’s narrative is being accepted, but ours is not. We must look into it,”
Sharif told Dawn.

Without naming 26/11 Mumbai attack mastermind Hafiz Saeed and Maulana Masood Azhar’s militant organizations—Jamaat-ud-Dawah and Jaish-e-Mohammad—operating in the country with impunity, Sharif said:  
“Militant organisations are active in Pakistan. Call them non-state actors, should we allow them to cross the border and kill over 150 people in Mumbai? Explain it to me. Why can’t we complete the trial.”

The Mumbai attacks-related trials are stalled in a Rawalpindi anti-terrorism court. He further said: “It’s absolutely unacceptable (to allow non-state actors to cross the border and commit terrorism there). President (Vladimir) Putin has said it. President Xi (Jinping) has said it.

US President Donald Trump had accused Pakistan of giving nothing to the US but “lies and deceit” and providing “safe haven” to terrorists.

Sharif, 68, was disqualified by the Supreme Court for not being “honest and righteous” as he failed to declare in 2013 a salary he got from the company of his son in the UAE.

In February, the apex court also disqualified Sharif as the head of the ruling Pakistan Muslim League-Nawaz (PML-N).

Citing the military and judiciary establishment, Sharif further said: “You can’t run a country if you have two or three parallel governments. This has to stop. There can only be one government — the constitutional one.”

The relations between the military and the Sharif government were at its lowest ebb in October 2016 when the latter told the former to act against home grown militant groups or face international isolation.

The Mumbai attack case has entered into the 10th year but none of its suspects in Pakistan has been punished yet, showing that the case had never been in the priority list of the country that appears to be keen to put it under the carpet.

A number of Pakistani witnesses both official and private testified and provided evidence against the seven accused, but the Pakistani authorities have been insisting on sending Indian witnesses for reaching a verdict in the case. Some 166 people were killed in the attack carried out by 10 LeT men. Nine of the attackers were killed by police while lone survivor Ajmal Kasab was caught and hanged after handed down death sentence.


 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 
ڈان کی خبر پڑھیں !
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
For Nawaz, it’s not over till it’s over
LAMBASTING the ongoing accountability process against himself and his family, former prime minister and PML-N supremo Nawaz Sharif has said: “You can’t run a country if you have two or three parallel governments. This has to stop. There can only be one government: the constitutional one.”
In a wide-ranging and exclusive interview with Dawn ahead of his rally in Multan on Friday, a relaxed but adamant Sharif dismissed the recent defections from the PML-N, particularly in southern Punjab. “They didn’t leave the party, they were taken away. Who took them away?” Mr Sharif asked.
“If there really was a mahaz (front), then why did it last only two days? Who forced them to immediately join PTI?” Mr Sharif continued.
The rally in Multan was his first visit to southern Punjab’s largest city since his ouster in last July and the former prime minister was keen to steer the interview back to his politics of grievance rather than discuss regional political dynamics.

He denied that the Jhelum rally earlier in the week signalled a possible slowdown in momentum or weakening of public support for him. “Perhaps it was a smaller ground, but it was packed to capacity,” said Mr Sharif. “It is a very popular slogan,” he said of ‘mujhe kyun nikala?’ and, added with evident satisfaction, “There is a lot of appreciation, a lot of recognition for it.”
Ex-PM denies a third ouster from the premiership represents a failed approach on his part, suggests he won’t do anything differently if returned to public office
The PML-N supreme leader also deflected questions about who will lead the party in the upcoming general elections campaign and whether his brother, Shahbaz Sharif, will be the prime ministerial candidate. Instead, he offered: “There is a lot of appreciation for Shahbaz Sharif. Look around this city and see how it’s totally transformed.”

The ex-premier was more animated and expansive while discussing his own record in office from 2013 to 2017, citing familiar road and electricity projects and higher economic growth. He repeatedly rejected criticism that his government failed to implement structural reforms, whether political, legal or economic, but finally said: “When there’s destabilisation from the first year, who can do reforms?” — a reference to the joint dharna of PTI and Tahirul Qadri in 2014.

Asked what he believes is the reason for his ouster from public office, Mr Sharif did not reply directly but steered the conversation towards foreign policy and national security. “We have isolated ourselves. Despite giving sacrifices, our narrative is not being accepted. Afghanistan’s narrative is being accepted, but ours is not. We must look into it.”

He continued: “Militant organisations are active. Call them non-state actors, should we allow them to cross the border and kill 150 people in Mumbai? Explain it to me. Why can’t we complete the trial?” — a reference to the Mumbai attacks-related trials which have stalled in a Rawalpindi anti-terrorism court.
“It’s absolutely unacceptable. This is exactly what we are struggling for. President Putin has said it. President Xi has said it,” Mr Sharif said. “We could have already been at seven per cent growth (in GDP), but we are not.”

He denied that a third ouster from the premiership represented a failed approach on his part and suggested he had no regrets nor would he have to do anything differently if he returned to public office. “The Constitution has to be supreme. There is no other way. Look, we put a dictator on trial; it had never been done before,” referring to retired Gen Pervez Musharraf.

Mr Sharif also rejected speculation that he would consider a deal if offered to him, another stint in exile for avoiding a jail sentence, for example. “Why would I do it now after 66 appearances (before a NAB court)? We don’t even get an exemption,” to visit his wife, Kulsum Nawaz, who is undergoing cancer treatment in the UK. “It’s not easy to stay away.”

“Look, we have no other choice,” Mr Sharif said before leaving to address the Multan rally. “These games have gone on too long. Something has to change.” 

But Mr Sharif’s sangfroid and confidence is not shared by others, including many in his party. After the completion of parliament’s term at the end of May, defections from the PML-N could accelerate, leaving him with a powerful electoral slogan, sympathetic voters, but few winning candidates and, ultimately, few seats in the next parliament.

Published in Dawn, May 12th, 2018



ٹائمنگ غلط ہے !

 کسی نے لکھا اور میں نے پیسٹ کیا : 
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ٭
 یار لوگوں نے پہلے تو ایسا اودھم مچایا جیسے نواز شریف نے خدانخوستہ ایٹمی فارمولا دشمن کے حوالے کر دیا ہو ۔ 
لیکن جب جرنیلوں سمیت سب کا کچا چٹھہ کھلنے لگا، تو نیا چورن لے آئے کہ،
 "بات تو درست ہے لیکن اس کی ٹائمنگ غلط ہے"
 آئیے ماضی کے اُفق پر  دیکھتے ہیں، کہ اس قسم کے کاموں کے لئے کون سی ٹائمنگ ٹھیک ہوسکتی تھی؟
دوستو، کوئی ہمیں بتانا پسند کرےگا کہ 1956 کے آئین کے نفاذ کے بعد جب ملک ایک درست سمت میں چل پڑا تھا تو ایسے وقت میں انکل ایوب کا میرے عزیز ہموطنو کا نعرہ لگاکرحکومت سنبھالنا ایک صحیح اقدام تھا؟؟؟؟
'پہلے اپنے ہی ملک کی بحریہ اور فضائیہ کو بے خبری میں رکھ کر آپریشن جبرالٹر لانچ کرنا مناسب تھا یا پھر یہ واویلا جائز تھا کہ بزدل دشمن نے غلط وقت کا انتخاب کرکے رات کی تاریکی میں ہم پر حملہ کردیا٬ اب پتہ نہیں ہمارے ٹائمنگ غلط تھے یا بھارت کے جوابی حملے والے،
'جو ادارہ غداری اور حب الوطنی جیسے سرٹیفیکیٹ بانٹنے کے جملہ حقوقِ اپنے نام محفوظ رکھتا ہے ۔ ملکی تاریخ کے ایک نازک موڑ پر اس حساس ادارے کی قیادت کو ایک عیاش جرنل یحییٰ خان کے حوالے کرنا کیا ٹھیک وقت پر صحیح فیصلہ تھا ؟؟؟
 زرداری، رحمان ملک، شیری رحمان ، حامد میر اور دیگر جیالے یہ بتانا پسند کریں گے، کہ جب ہم مشرقی پاکستان میں جنگ ہار رہے تھے تو ایسے میں ذولفقار علی بھٹو کا سلامتی کونسل کے اجلاس میں پولینڈ کی جنگ بندی کی قراداد کو رعونت سے پھاڑ ڈالنا بر وقت اور حقیقت پسندی والا اقدام تھا ؟؟؟
15 دسمبر 1971 کو بھٹو صاحب جنگ بندی کی قراداد کو پھاڑ کر اجلاس سے یہ کہتے ہوئے غصے میں اٹھ آئے، کہ 

"میں ایک لمحے کے لئے بھی یہاں نہیں ٹھہروں گا ، ہم جاکر لڑیں گے ،اور ایک نیا پاکستان بنائیں گے۔" 
اور پھر 16 دسمبر کو محب وطن جرنیلوں نے واقعی ایک نیا پاکستان بنا لیا - "


ہے کوئی جو جرنل یحییٰ ، جرنل نیازی اور ٹکاخان کی قبروں پر جاکر وقت کے انتخاب کی وجہ پوچھ سکے ؟؟؟؟ 
ٹھیک تو چھوڑیں کیا آپ نے غلط کام کو بھی درست وقت پر سر انجام دیا ہے ،
جب واجپائی، خود مینار پاکستان کے سائے میں اپنی تازہ غزل سنانے چلے آئے تو اس وقت کارگل کی مہم جوئی کے ٹائمنگ درست تھے؟؟؟


 پاکستان کی تقدیر کو بدلنے والے سی پیک منصوبے کے افتتاح کرنے کے لئے جب چین کے صدر پاکستان کے خصوصی دورے پر اسلام آباد آرہےتھے، تو کیا !! اس وقت پاشا اور ظہیر الاسلام کا ڈگڈگی بجا کر اپنے بندروں کو نچانا ٹھیک وقت پر صحیح اقدام تھا؟؟ 
باوجود اس کے کہ چینی سفیر نے خود بنی گالا جاکر صادق امین خان سے کنسرٹ ملتوی کرنے کی درخواست کی تھی ۔ لیکن، لیکن جواب میں اس خاندانی بد تہذیب کا اس کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آنا بہتر اور جائز رویہ تھا؟؟؟؟ 
سی پیک کا پہلا قافلہ جس وقت برہان کے انٹر چینج سے گزر رہا تھا عین اسی لمحے جی روڈ پر تیلی خٹک سے ڈانس پارٹی کروانا معقول فعل تھا، اور کیا ایسے نیک کام کےلئے اس مناسبت وقت کا انتخاب پاکستان کی ترقی کے لئے کیا گیا تھا؟؟
 کلبھوشن آپ کے قبضے میں تھا لیکن ٹھیک ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کے موقع پر اس پنڈورا باکس کو کھولنا عالمی سطح پر اپنی تنہائی کو دور کرنے کے لیے تھا ؟؟ 
جب ملک ایک درست سمت میں جارہا تھا ایسے میں ایک منتخب وزیراعظم کو بغیر ثبوت اور ٹرائل کے گھر بھجوانا ملکی استحکام کے لئے تھا ؟؟؟؟٬
 کیا یہ نہیں ہوسکتاتھا کہ پہلے اس کا کیس کسی ٹرائل کورٹ کے حوالے کرتے اور پھر ثبوت اور سزا کے بعد نااہل کروانے کے لئے شب برات کے کسی مبارک لمحے کا انتظار کرتے؟؟؟ 
آئینی ترمیم کے بعد ایک شخص کو اس وقت پارٹی سربراہی کے لئے نا اہل قرار دینا جب وہ پارٹی الیکشن میں اپنے امیدواران کے کاغذات جمع کروا چکی تھی۔۔
 کیا ! 'اس مبارک لمحے کے انتخاب کیلئے واٹس ایپ پر استخارہ کیا گیا تھا ؟؟؟
کیا یہ کام کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے پہلے یا سینٹ الیکشن کے بعد نہیں ہو سکتا تھا؟
یا ملک کی سب سے بڑی پارٹی کے امیدواروں کو آزاد قرار دیکر لوٹا کریسی کے ذریعے جمہوریت کا استحکام مقصود تھا؟؟؟ 

اب جبکہ چین اور روس سمیت پوری دنیا آپ سے کہہ رہی ہے کہ دہشت گردی کے اس سانپ (نان سٹیٹ ایکٹرز)کو کٹورے میں بند کر لو!!!!
 اگلے ماہ آپ کو FATF میں پھر اس ایشو پر دنیا کو جواب دینا ہے!
تو کیا! اس اجلاس سے پہلے اس نان ایشو پر بحث کرنا ٹھیک ہے،!!! یا یہ مناسب ہے کہ اجلاس کے فیصلے کے بعد ہی لیلتہ القدر کی بابرکت رات کا انتظار کیا جائے؟  

سٹیٹ اور نان سٹیٹ ایکٹرز۔

 اگرہم لارنس آف عریبیا  کو  سٹیٹ ایکٹر کہیں اور ایک تاریخی  کردار ابو جند ل  کو نان سٹیٹ ایکٹر ، تو ہمارے سامنے   ، پوشیدہ چالوں اور لڑائیوں  کی تصویر واضح ہو جاتی ہے ۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد  دونوں متحارب فوجوں کے  سٹیٹ ایکٹر ز پرہالی ووڈ  نے بے شمار فلمیں ، اُنہیں خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے بنائیں  اور ساتھ ہی چند معرکتہ الآرا فلمیں نان سٹیٹ ایکٹرز پر بھی بنائیں جن کی کامیابی  کا فائدہ اُن کے اپنے  ملک کو پہنچا ۔
نان سٹیٹ ایکٹرز کا  1948  میں برصغیر میں کوہ ہندوکش سے نکلنے والا پہلا جمِ غفیر نہیں تھا جس کو سرینگر کے پاس بھارتی فوجوں نے روکا ، اگر اِس میں پنجاب سے سٹیٹ ایکٹرز بھی شامل ہوجاتے تو  کشمیر میں بہتا ہوا خون   1948  سے رُک جاتا ۔ 
لیکن اُس وقت پاکستان میں سٹیٹ ایکٹرز کا رواج ہی نہیں تھا  ، بلکہ نان سٹیٹ ایکٹرز کی کامیابیوں کوسٹیٹ ایکٹرز کے  کھاتوں میں اُس وقت قلمی طوائفوں سے ڈلوایا جاتا ؛ جو جھوٹ کو سچ بنانے میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے ۔ 
مشرقی پاکستان میں ہندوستان سے بھیجے جانے والے سٹیٹ اور نان سٹیٹ ایکٹروں نے وہ دھمال ڈالی ،   جو دسہرہ  کے تہوار تہوارِ گنیش  تک پہنچ گئی ۔جس کے جواب میں ابدر اور الشمس کے نان سٹیٹ ایکٹرز میدان میں کود پڑے  ۔

1987 روسو افغان وار میں  ، نان سٹیٹ ایکٹرز کا اتنا ہی ہاتھ ہے جتنا آٹے میں نمک کا ہوتا ہے ،  زید حامد اور دیگر اُسی قبیل کے  بھان متی کے کنبے میں شامل تھے  سٹیٹ ایکٹرز میں کرنل امام اور دیگر کئی گمنام غازی و مجاہد تھے ، جنہوں نے افغانئ مجاہدین کو روس سے لڑنے کی تربیت دی ۔ 
1987 میں افغان وار سے جہاد میں تبدیل ہو اجس کے فاتح افغان تھے ، یو ں طالبان کا وہ گرو ہ سامنے آیا  جس کی قیادت مُلّا عمر کے ہاتھ میں آگئی  ۔
مغربی ممالک ، افغان وار تک تو حق میں تھے جس کے جیتنے کے لئے اُنہوں نے ڈالر  پانی کی طرح بہایا ، جس سے بالٹیاں بھر بھر کر  پاکستان  میں میز کے دوسری طرف بیٹھے نقشوں پر رنگینیاں بکھیرنے والوں نے بھی اپنی ٹینکیاں بھریں ۔
1985 میں افغان وار  میں پاکستان سے شامل ہونے والے نان سٹیٹ ایکٹر   کا رخ ، میز کے اِس طرف بیٹھے ہوئے ، گز بھر لمبی داڑھیوں والے ایکٹروں  نے  ، مغربی پہاڑوں سے  شمالی  پہاڑوں کی طرف کر دیا ، جہاں  آزاد کشمیر سے مقبوضہ کشمیر میں گھسنے والے نان سٹیٹ ایکٹروں کی تربیت   شروع کی اور یوں  ، جہادیوں کو ایک نیا راستہ دکھا دیا ۔ 
جواباً    زہدان  کے راستوں سے ہندوستان کے نان ایکٹرز  پاکستان میں گھُسنا شروع ہوگئے ، انسانی خون،خود کش بمباروں نے  اتنا ارزاں کر دیا کہ پاکستان بوکھلا گیا ۔  کیوں کہ خود پاکستان کے مارشلائی صدر دسمبر 2003  پر خود کش  حملہ ہوا ۔
مارشلائی صدر نے خود فخریہ انداز میں  حملہ آوروں کی بذریعہ جیو فینسنگ گرفتاری کی پوری  تفصیل بتا دی ۔   باقیوں کا تو معلوم نہیں  مہاجرزادہ کے لیے حیرانی کا ایک شدید جھٹکا تھا  ،کہ جن کو نہیں معلوم تھا اُن کو بھی معلوم ہوگیا ، کہ موبائل ایک نہایت خطرناک   احمق رازدان ہے جو ، موبائل رکھنے والے کا مکمل راز افشاء کر سکتا ہے ۔ 

نان سٹیٹ ایکٹرز ۔ پاکستان پر خود کش حملے !
لہذا اُس کے بعد خودکش حملہ آوروں کے آپریٹرز  نے مردہ اشاروں کی زبان کو  دوبارہ زندہ کیا ۔ 
کہا جاتا ہے ، کہ افغان وار اور افغان جہاد کے نان سٹیٹ ایکٹرز   کو تھرڈ پارٹی انشورنس کی سہولت نہ دی جس کی وجہ ہے ، اِن کو سیکنڈ پارٹیوں نے بھرتی کرنا شروع کردیا ۔ جن میں ڈاکو ، بھتہ خور اور خودکش حملہ آورآپریٹرز تھے ۔  جن نان سٹیٹ ایکٹروں نے خوفِ خدا سے بھرتی ہونے سے انکار کیا اُنہیں کشمیر جہاد کی طرف ہانک دیا ۔
نان سٹیٹ ایکٹرز کی اصطلاح کے بارے میں پہلی معلومات  ،   بے نظیر بھٹو کی  27 دسمبر 2007 کو شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کے رحمان ملک کے منہ سے   گونجی  ۔ جب عوام کو معلوم ہوا کہ نان سٹیٹ ایکٹرز کون ہوتے ہیں اور اِن سے کیا کیا کام لئے جاسکتے ہیں؟ ۔ اور نان سٹیٹ  ایکٹرز مے مربّی و پالن ہار  میں کون کون  شامل ہوتے ہیں  ؟
بادی ء النظر میں ساون ، سدھیر ، مظہر شاہ   ، مصطفیٰ قریشی اور سلطان راہی کو نان سٹیٹ ایکٹرز میں شمار کیا جاسکتا ہے ۔ جو ماضی کا رابن ہڈ اور موجودہ زمانے کا ملک ریاض بھی ہو سکتا ہے ۔ طریق کار دونوں کا مختلف لیکن نتیجہ ایک ہوتا ہے اور وہ یہ کہ لالچی انسانوں کا جمع شدہ پیسہ نکلوانا ۔ یا اُن سے قبضہ چھڑ وانا ۔
نان سٹیٹ ایکٹرز کی اس نصف صدی کے سب سے  بڑی کاروائی  9/11  ہے اور دوسری کہا جاتا ہے کہ ممبئی کا  26/11 ہے ۔ جس میں 150 افراد ہلاک ہوئے ۔ جبکہ پاکستان میں ہونے والے 63  خود کش حملوں میں
پہلا خود کش حملہ  ،     19 نومبر 1995میں اسلام آباد میں قائم مصر کے سفارتخانے میں ہوا۔ مصری حملہ آور نے بارود سے بھرا ٹرک سفارتخانے کے احاطے میں اڑا دیا جس کے نتیجے میں چودہ افراد ہلاک ہوئے۔ جو یقیناً نان سٹیٹ ایکٹرز کی کاروائی تھی ۔
پاکستان میں 1995 سے اب تک  نا ن سٹیٹ ایکٹرز کی اِس کاروائی میں ہزاروں  افراد شہید ہوئے ۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 

تقویٰ کی ابتداء

تقویٰ ، اللہ کے حکم کے مطابق انسانی نفس کے بریکنگ پوائینٹ کے بعد شروع ہوتا ہے    


بریکنگ پوائینٹ  ، مَغْرِبَ الشَّمْسِ سے شروع ہو پر إِلَى الَّيْلِ ختم ہوتا ہے ۔
  


 سوچیں کہ  کیا ہم اللہ کی آیت  پر مکمل عمل کرتے ہیں؟ 

جو روح القدّس نے محمدﷺ کو حفظ کروائیں اور ہم تک پہنچیں !
1-الَّذِينَ آمَنُوا   اتمامِ  الصِّيَامُ  برائے   تقویٰ  ہیں :

 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿183  

2- اتمامِ  الصِّيَامُ  کِن مؤمنوں کے لئے لازم ہے اور کن   مؤمنوں پر  عارضی چھوٹ ہے  اور کِن پر مکمل مؤمنوں کو  چھوٹ دی گئی ہے  ، مگر کفارۃ کے ساتھ :

أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ ۚ وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿184  

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۗ يُرِيدُ اللَّـهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّـهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿185

 نوٹ : یاد رہے ،  الْعِدَّةَ الصِّيَامکی تکمیل    اللہ کے لئے باعث تکّبر ہے۔

3-   سوالات صرف اللہ سے پوچھنے ہیں جن کے مکمل جوابات الکتاب میں موجود ہیں ۔
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ﴿186

 4- اتمامِ  الصِّيَامُ  کی ممنوعات ، اور کس وقت سے کِس وقت تک کے لئے ہیں !

أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ۚ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ۗ عَلِمَ اللَّـهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنكُمْ ۖ فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّـهُ لَكُمْ ۚ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ۚ وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ﴿187 

5-اللہ کے حکم کے مطابق ،  اتمامِ  الصِّيَامُ  سے پیدا ہونے والے تقویٰ  کا نتیجہ ،  بے ایمانی اور رشوت سے  پرہیز ۔ 
وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿189  
اگر آپ بے ایمانی اور رشوت میں      شَهْرُ رَمَضَانَ   کے بعد بھی مبتلاء ہیں تو آپ  روزے رکھے ہیں   اتمام الصِّيَامُ    نہیں  کیا !
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭




خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔