دو بلوچی الفاظ گوات بمعنی کھلی ہوا اور در بمعنی دروازہ کا مرکب جو عرف عام میں گوادر کہلاتا ہے، یونانیوں نے جنوبی بلوچستان کو گدروسیہ کہا گیا ، یہ 1956 تک عالمی استعمار کے اس ناجائز قبضے میں تھا جس کی داستان احسان فراموشی اور عیاری کا ایک نادر نمونہ ہے۔
گوادر اسٹیٹ اٹھارہویں صدی کے، خان آف قلات، میر نصیر نوری بلوچ کی ملکیت تھی لیکن اس علاقے پر اپنا تسلط قائم رکھنا خان صاحب کیلئے کافی مشکل ثابت ہو رہا تھا جس کی وجہ گچکی قبائل کی شورشیں تھیں کیونکہ ماضی میں وہ بھی اس علاقے کے حکمران رہ چکے تھے اور اسے واپس حاصل کرنا چاہتے تھے۔
خان صاحب نے اس کا حل یہ نکالا کہ ایک معاہدے کے تحت اس علاقے کا کنٹرول ہی گچکی قوم کے ہاتھ میں دے دیا تاکہ اس علاقے میں امن قائم رہے، معاہدے کے تحت یہ طے پایا کہ یہ علاقہ خان آف قلات کی جاگیر میں ہی شامل رہے گا اور اس کا آدھا ریوینیو بھی خان صاحب کو دیا جائے گا لیکن اس کا انتظام سارا گچکی قبائل کے ہاتھ میں رہے گا، یہ معاہدہ 1783 تک قائم رہا۔
1783 میں عمان کا حکمران، تیمور سلطان اپنے بھائی سے شکست کھا کر دربدر ہوا ، تو اس نے خان آف قلات سے جائے پناہ کی درخواست کی، اس کی درخواست قبول کرتے ہوئے ایک نئے معاہدے کے تحت 2400 مربع میل پر پھیلا ہوا یہ اینکلیو ہارے ہوئے سلطان کو سونپ دیا گیا۔
اس نئے معاہدے کی رو سے یہ طے پایا تھا کہ گوادر حسب دستور خان آف قلات کی جاگیر میں ہی شامل رہے گا اور اس کا کنٹرول بھی حسب سابق گچکی سرداروں کے پاس ہی رہے گا البتہ ریوینیو کا وہ آدھا حصہ جو خان صاحب کو جاتا ہے وہ اب خیر سگالی کے طور پر، تیمور سلطان کو دیا جائے گا تاکہ وہ اپنی گزر اوقات باآسانی کر سکے تاہم جب سلطان کو اس جائے پناہ کی ضرورت نہ رہے تو اس کے تمام حقوق بھی حسب سابق خان آف قلات کے پاس واپس چلے جائیں گے۔
قریباً پندرہ سال بعد 1797عمان پر دوبارہ فتح پانے کے بعد سلطان اپنے پایۂ تخت واپس لوٹ گیا۔ لیکن گوادر کو حسب معمول اس نے اپنے ہاتھ میں ہی رکھا، خان صاحب شائد اس دوران فوت ہو گئے تھے یا مروتاً قبضہ نہیں مانگا بہرحال تقریباً دس سال بعد جب سلطان کی وفات بھی ہوگئی تو خان صاحب کے ورثاء نے گوادر کی حوالگی کا مطالبہ کر دیا۔
حکومت عمان کے انکار پر انہوں نے بزور قوت قبضہ کرلیا جسے سلطان کی سپاہ نے آکر چھڑا لیا، اگلے بیس سال میں یہ چشمک جب زیادہ بڑھ گئی تو اس قضیے کو نمٹانے کیلئے برٹش کالونیل ایڈمنسٹریشن نے ثالثی کے بہانے مداخلت کی ,لیکن انصاف کرنے کی بجائے اسوقت کے سلطان آف عمان سے اپنے لئے کچھ مراعات لیکر قلات خاندان کا دعویٰ یہ کہہ کر عارضی طور مسترد کر دیا کہ بعض دیگر گواہیاں بھی ان کے سامنے آرہی ہیں جن کے مطابق یہ علاقہ عرصہ دراز سے سلطنت آف عمان کی جاگیر ہے بہرحال حتمی فیصلہ کسی کے حق میں بھی نہیں کیا۔
اس خدمت کے عوض برطانوی پولیٹیکل ایجنٹ نے سلطنت عمان سے 1863 میں یہ ایگریمنٹ کیا کہ حتمی فیصلے تک گوادر کا انتظام برطانیہ کے پاس رہے گا اور حسب سابق عمان کو گوادر کا آدھا ریونیو ادا کیا جائے گا اور اپنی افواج گوادر میں داخل کر دیں یوں تقریباً سوا سو سال تک برطانیہ اس علاقے پر قابض رہا۔گوادر میں چند ہزار افراد پر مشتمل ماہی گیروں کی بستی تھی ۔ 1879 تک یہاں برٹش پولیٹیکل ایجنٹ کا ہیڈ کوارٹر رہا۔
قیام پاکستان کے بعد اس وقت کے خان آف قلات نے جب اپنی جاگیر پاکستان میں ضم کر دی تو پاکستان نے اسٹیک ہولڈرز سے گوادر کا معاملہ اٹھایا مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی، پھر جب ایک امریکی سروے کمپنی نے بتایا کہ گوادر کی بندرگاہ بڑے جہازوں کے لنگر انداز ہونے کیلئے بہت آئیڈیل ہے، علاوہ ازیں اس بندرگاہ سے سالانہ لاکھوں ٹن ایکسپورٹ ایبل سمندری خوراک بھی حاصل کی جا سکتی ہے جس میں 35 اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔
اس بات کی بھنک جن ایران کو پڑی تو انہوں نے اسے چاہ بہار کیساتھ ملانے کا فیصلہ کر لیا، ایران میں ان دنوں شاہ ایران کا طوطی بولتا تھا اور سی۔آئی۔اے اس کی پشت پناہ تھی جو صدر نکسن کے ذریعے برطانیہ پر مسلسل دباؤ ڈالنے لگی کہ گوادر کو شاہ ایران کے حوالے کر دیا جائے۔
1956 میں ملک فیروز خان نون نے جب وزارت خارجہ سنبھالی تو ہر قیمت پر گوادر کو واگزار کرانے کا عہد کیا اور باریک بینی سے تمام تاریخی حقائق و کاغذات کا جائزہ لیکر یہ مشن محترمہ بیگم وقار النساء نون کو سونپ دیا۔
ان نازک حالات میں یہ پیکرِ اخلاص خاتون ایک چمپیئن کی طرح سامنے آئیں اور برطانیہ میں پاکستان کی لابنگ شروع کی، انہوں نے بھرپور ہوم ورک کرکے یہ کیس برطانیہ کے سامنے رکھا تاکہ ہاؤس آف لارڈز سے منظوری لیکر گوادر کا قبضہ واپس لیا جائے کیونکہ قلات خاندان کی جاگیر اب پاکستان کی ملکیت تھی لہذا ان کی جاگیر کے اس حصے کی وراثت پر بھی اب پاکستان کا حق تسلیم ہونا چاہئے نیز یہ کہ پاکستان وہ تمام جاگیریں منسوخ کر چکا ہے جو ریوینیو شئیرنگ یا معاوضے کی بنیاد پر حکومت برطانیہ نے بانٹیں تھیں، نیز یہ کہ اگر ہم اپنے قانون سے گوادر کی جاگیر منسوخ کرکے فوج کشی سے واگزار کرا لیں تو کامن ویلتھ کا ممبر ہونے کی وجہ سے برطانیہ ہمارے اوپر حملہ بھی نہیں کر سکتا۔
محترمہ نے دو سال پر محیط یہ جنگ تلوار کی بجائے محض قلم، دلائل، اور گفت و شنید سے جیتی، جس میں برطانیہ کے وزیراعظم میکملن جو ملک صاحب کے دوست تھے انہوں نے کلیدی رول ادا کیا، عمان کے سلطان سعید بن تیمور نے حامی تو بھر لی مگر سودے بازی کا عندیہ دیا۔
سر فیروز خان نون ( 16 دسمبر 1957
تا 7 اکتوبر 1958 ) میں جب وزیراعظم بنے تو انہوں نے گوادر کے معاملے میں “ابھی نہیں یا کبھی نہیں” کا نعرہ لگایا،ملک صاحب نے 1917 میں انر ٹیمپل لندن سے بیرسٹر آف لا کا امتحان پاس کیا اور سرگودھا میں وکالت شروع کی ، اپنی اِس قابلیت کی بنیاد پر اُنہوں نے چھ ماہ کے اعصاب شکن مذاکرات کے بعد سلطان مسقط وعمان نے تین ملین ڈالر کے عوض گوادر کا قبضہ پاکستان کے حوالے کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی، اس رقم کا بڑا حصہ پرنس کریم آغا خان نے بطور ڈونیشن دیا اور باقی رقم حکومت پاکستان نے ادا کی، بعض جگہ یہ ہے کہ ساری رقم ہی ہز ہائی نیس پرنس کریم آغا خان سوئم نے ہی ادا کی تھی۔یاد رہے ہز ہائی نیس پرنس کریم آغا خان سوئم، آل انڈیا مسلم لیگ کے بانیوں میں سے ہیں ۔
اس سلسلے میں ملک صاحب اپنی خود نوشت سوانح حیات “چشم دید” میں لکھتے ہیں کہ جہاں ملک کی حفاظت اور وقار کا مسئلہ درپیش ہو وہاں قیمت نہیں دیکھی جاتی، ویسے بھی یہ رقم گوادر کی آمدنی سے محض چند سال میں ریکوور ہو جائے گی، آج جب برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر اکرام اللہ نے گوادر منتقلی کی دستخط شدہ دستاویز میرے حوالے کی تو اس وقت مجھے جو خوشی ہوئی آپ اس کا اندازہ نہیں کرسکتے، اسلئے کہ گوادر جب تک ایک غیر ملک کے ہاتھ میں تھا تب مجھے یوں محسوس ہوتا تھا گویا ہم ایک ایسے مکان میں رہتے ہیں جس کا عقبی کمرہ کسی اجنبی کے تصرف میں ہے اور یہ اجنبی کسی وقت بھی اسے ایک پاکستان دشمن کے ہاتھ فروخت کر سکتا ہے اور وہ دشمن بھی اس سودے کے عوض بڑی سے بڑی رقم ادا کر سکتا ہے۔
یوں دو سال کی بھر پور جنگ کے بعد 8 ستمبر 1958 کو گوادر کا 2400 مربع میل یا 15 لاکھ ایکٹر سے زائد رقبہ پاکستان کی ملکیت میں شامل ہو گیا۔لیکن وہاں کے بلوچ عوام کو سلطان مسقط و عمان نے ، اپنی فوج میں بھرتی ہونے کے حقوق دئیے ، 1977 میں سکول آف انفنٹری اینڈ ٹیکٹس کوئیٹہ میں ، کیپٹن محمد مسقط و عمان، ہمارے ساتھ آفیسرز ویپن کورس-7 کررہا تھااُس کی اردو پر ہم حراین ہوتے تھے بعد میں اُس نے یہ عقدہ کھولا کہ وہ گوادر کا بلوچ ہے ۔ مسقط و عمان فوج کا بیشتر حصہ گوادر کے بلوچوں پر مشتمل ہے ۔ گوادر کا نام پاکستانیوں نے بڑے پیمانے پر 1979 میں سنا جب روس گرم پانیوں میں براستہ گوادر جانے کا خواہش مند تھا اور اب بھی ہے ۔
سن 2002 میں جنرل مشرف نے گوادر پورٹ تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا جو مختلف مراحل سے گزرتا ہوا اب سی۔پیک کی شکل اختیار کر چکا ہے اور بلاشبہ پاکستان کیلئے ایک روشن مستقبل کی نوید ہے۔
پڑھیں سی پیک اور حکومت کی کامیابی
آج ہر کوئی گوادر پورٹ اور سی۔پیک کا کریڈٹ تو لینا چاہتا ہے مگر اس عظیم محسن پاکستان کا نام کوئی نہیں جانتا جس نے دنیا کے چار طاقتور اسٹیک ہولڈرز، برطانوی پارلیمنٹ، سی۔آئی۔اے، ایران اور عمان سے چومکھی جنگ لڑ کر ، 1800 میں خان آف قلات کے ہاتھوں کھویا ہوا گوادر واپس پاکستان کی جھولی میں ڈال دیا۔
گوادر فتح کرنیوالی ملک و قوم کی یہ محسن محترمہ وقارالنساء نون ہیں جو پاکستان کے ساتویں وزیراعظم ملک فیروخان نون کی دوسری بیوی ہیں جن کی اس عظیم کاوش کا اعتراف نہ کرنا احسان فراموشی اور انہیں قوم سے متعارف نہ کرانا ایک بے حسی کے سوا کچھ نہیں۔
محترمہ کا سابقہ نام ، وکٹوریہ ریخے تھا، 1920 میں آسٹریا میں پیدا ہوئیں، تعلیم و تربیت برطانیہ میں ہوئی، ملک فیروز خان نون جب برطانیہ میں حکومت ہند کے ہائی کمشنر تھے تب ان سے ملاقات ہوئی، ملک صاحب کی دعوت پر حلقہ بگوش اسلام ہو کر بمبئی میں ان کے ساتھ شادی کی اور اپنا نام وکٹوریہ سے وقارالنساء نون رکھ لیا، پیار سے انہیں وکی نون بھی کہا جاتا ہے۔
محترمہ نے تحریک پاکستان کو اجاگر کرنے کیلئے خواتین کے کئی دستے مرتب کئے اور سول نافرمانی کی تحریک میں انگریز کی ملک خضر حیات ٹوانہ ، کابینہ کیخلاف احتجاجی مظاہرے اور جلوس منظم کرنے کی پاداش میں تین بار گرفتار بھی ہوئیں۔
قیام پاکستان کے بعد انہوں نے لْٹے پٹے مہاجرین کی دیکھ بھال کیلئے بڑا متحرک کردار ادا کیا، خواتین ویلفئیر کی اولین تنظیم اپوا ( آل پاکستان ویمن ایسوسی ایشن) کی بانی ممبران میں بھی آپ شامل ہیں، وقارالنساء گرلز کالج راولپنڈی اور وقارالنساء اسکول ڈھاکہ کی بنیاد بھی انہوں نے رکھی، ہلال احمر کیلئے گرانقدر خدمات انجام دیں، ضیاء الحق کے دور میں، بطور منسٹر، ٹورازم کے فروغ کیلئے دنیا بھر کو پاکستان کی طرف بخوبی راغب کیا، پاکستان ٹؤرازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن انہی کی ایک نشانی ہے۔
پاکستان کی محبت میں ان کا جذبہ بڑھاپے میں بھی سرد نہ پڑا، برطانیہ میں مقیم ان کی بے اولاد بہن کی جائیداد جب انہیں منتقل ہوئی تو اس فنڈ سے انہوں نےبرطانیہ میں “وکی نون ایجوکیشن فاؤنڈیشن” قائم کیا جو آج بھی سماجی خدمات کا چراغ جلائے ہوئے ہے۔محترمہ کی وصیت کے مطابق اس فنڈ کا ایک حصہ ان نادار مگر ذہین طلبہ کو آکسفورڈ جیسے اداروں سے تعلیم دلوانے پر خرچ ہوتا ہے جو واپس آکر اس مملکت کی خدمت کرنے پر راضی ہوں۔ہمارے کافی طالبعلموں نے اِس فاونڈیشن سے آکسفورڈ میں تعلیم پائی ۔
محترمہ وقارالنساء نون طویل علالت کے بعد 16 جنوری سن 2000ء میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملی ۔محترمہ کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی، ان کی حقیقی اولاد وہ پاکستانی ہیں جو حب الوطنی میں ان کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں۔
محترمہ کو گوادر فتح کرنے پر 1959 میں سرکار کا سب سے بڑا سول اعزاز نشان امتیاز عطا کیا گیا مگر ان کا اصل انعام وہ عزت و احترام ہے جو ہم بطور قوم انہیں دے سکتے ہیں۔
آج کون کون جانتا ہے کہ پاکستان کیلئے لازوال محبت و ایثار کا جذبہ رکھنے والی ایک عظیم خاتون نے اپنی مدمقابل چار عالمی طاقتوں سے ایک قانونی جنگ لڑ کر 15 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر مشتمل گوادر جیسی اہم ترین کوسٹل اسٹیٹ پاکستان میں ضم کروائی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
گرم پانی ۔اُفق کے پار
محترمہ کو گوادر فتح کرنے پر 1959 میں سرکار کا سب سے بڑا سول اعزاز نشان امتیاز عطا کیا گیا مگر ان کا اصل انعام وہ عزت و احترام ہے جو ہم بطور قوم انہیں دے سکتے ہیں۔
آج کون کون جانتا ہے کہ پاکستان کیلئے لازوال محبت و ایثار کا جذبہ رکھنے والی ایک عظیم خاتون نے اپنی مدمقابل چار عالمی طاقتوں سے ایک قانونی جنگ لڑ کر 15 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر مشتمل گوادر جیسی اہم ترین کوسٹل اسٹیٹ پاکستان میں ضم کروائی تھی۔
سلام محترمہ وقارالنساء نون ۔ ۔ ۔ سلام اے مادرِ مہربان
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
گرم پانی ۔اُفق کے پار
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں