Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 6 مئی، 2018

مہاجرزادے کا ابنِ مہاجروں کے لئےمقدمہ

دوسری بات
ہندوستان کی تقسیم کا فیصلہ انگریزوں نے کیا ۔  مہاجروں  ( تمام زبانوں کے مسلمان) نے پاکستان نہیں بنایا، پاکستان سب نے ملکر بنایا، مہاجر بنے بنائے پاکستان میں  ، انگریزوں اور منقسم ہندوستان کی گورنمنٹ  کے تحت کئے جانے والے ایک معاہدے"   ٹرانسفر آف    سٹیزنز  " کے تحت  ہجرت کر کے آئے- مہاجرین تو ایسے علاقوں سے تھے -جہاں مسلمانوں کی اقلیت تھی ،جن کو غیر مسلم آبادی ( ہندو اور سکھ)  سے جان کا خوف تھا ۔اور   جن کی رائے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا تھا  ۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مبشر عنایت   کی اِس تحقیق نے    مہاجرزادے کو مجبور کیا کہ ، مہاجروں کا مقدمہ لڑے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 میری رائے آپ کی رائے کے برعکس ہے۔
1- ہندوستان کا ہر وہ بالغ شخص جس نے یہ نعرہ سن کر " مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ " کانگریس کے مقابلے میں مسلم لیگ کو ووٹ دیا ، وہ پاکستان کے بانیوں میں سے ہے ۔
 2- ہندوستاان کے تین حصوں ، مشرقی ، سنٹرل اور مغربی میں تقسیم ہونے کے بعد جس نے بھی سنٹرل حصے سے مشرقی یا مغربی حصے کی طرف ہجرت کی وہ مہاجر تھا (بشمول نومولود بچے )۔
 3- انڈین سروسز اور برٹش سروسز میں سنٹرل حصے کے ملازمت کرنے والے جنہوں نے مشرقی یا مغربی حصے میں رہنے کی آپشن دی ، وہ بھی مہاجر ہیں ۔
 3- مشرقی یا مغربی حصے میں اِن مہاجروں کو طوعاً یا کرھاً خوش آمدید کہنے والے ، شناخت کے لحاظ سےانصاری ہیں ۔
 4- ہجرت کے بعد مشرقی یا مغربی حصے میں پیدا ہونے والے تمام نومولود پاکستانی ہیں اور شناخت کے لحاظ سے مہاجر زادے ۔
 5- مشرقی یا مغربی حصے میں آنے والے مہاجروں میں سے چند خوش قسمت حیات ہوں گے باقی سب اپنے ربّ کے پاس حاضر ہو چکے ہیں ۔ 

دین اسلام ، کے لحاظ سے اگر وہ ابھی باقی ہے تو !
ہجرت کے لحاظ سے ،  مہاجر مسلم اور انصاری مسلم اصل شناخت ہونا چاہیئے  تھی۔ برادری ، قبائل اور زبان کے لحاظ سے لسانی قومیتیں تو پہلے سے موجود تھیں ، ایرانی ، ترکی ، عربی ، چینی ، ملائی ، روسی ، جاپانی ۔ کسی کا کوئی جھگڑا نہیں تھا ۔ جھگڑا اُس وقت شروع ہوا جب ، ایک ایسی زبان جو رابطے کی زبان تھی ، اُسے علاقائی زبان بولنے والوں پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی ۔   

 جس کی وجہ سے لسانی عصبیت  ، مشرقی حصے میں ، شدّت سے ابھری  ، جس کی لپٹوں نے مغربی حصے  پر بھی اپنی زہریلی  نوکوں کے کچوکے لگانا شروع کر دیئے   ، جس نے مغربی حصے میں    بنگالی ایک گالی بنادی گئی  ۔

 جی ہاں!
  وہی بنگال جہاں ،ہندو لیگ (کانگریس ) کے مقابلے میں مسلم لیگ نے  1906 میں  ڈھاکہ میں  نوابوں کی گود میں جنم ۔  نواب محسن الملك٬ مولانامحمد علی جوہر٬ مولانا ظفر علی خاں٬ حكیم اجمل خاں٬ اور نواب سلیم اللہ خاں سمیت بہت سے اہم مسلم اكابرین اجلاس میں موجود تھے۔ مسلم لیگ كا پہلا صدر انگلش بولنے والے  سر آغا خان كو چنا گیا۔

قلم کی کمائی کھانے والی " قلمی طوائفوں " نے مذہب کے ساتھ بنگالی لسانیت کو بھی    خوب بیچا، خواہ منفی انداز میں ہی سہی  ۔ لیکن اُن کی اِس فروخت نے ،  پنجابیت ، سندھیت ، پٹھانیت  اور بلوچیت   کے علم بلند کرنے میں ایک گھٹیا گردار ادا کیا ۔  پنجابی ، سندھی ۔ پشتو  اور بلوچی  کی تاریخ تو صدیوں پر مشتمل ہے ، یہاں تک کہ ایران سے سندھ یں آنے والے بلوچ اپنی سندھی ماؤں کی وجہ سے  ، بلوچی بھول گئے ۔ کیوں کہ اہمیت مادری زُبان کی ہوتی ہے پادری زُبان کی نہیں !



 بات ہو رہی تھی مہاجروں کی ، جو کشمیر ، مونا باؤ  اور   امرتسر سے داخل ہوئے اور17 ریاستوں  اور چارصوبوں   کی حدوں ،     لنڈی کوتل ، چمن  ، دالبدین ، تربت ، کراچی یہاں تک کے کچھ کے علاقوں تک جا کر آباد ہوئے ۔
1954 میں قائم ون یونٹ ختم ہوا  تو پاکستان اپنی پہلی حالت پر جانے کے بجائے   1970 میں پانچ صوبوں  میں تقسیم ہو گیا ۔
مہاجروں کی دوبارہ ہجرت  سندھ کے اندورنی علاقوں سے میرپورخاص  ، حیدرآباد اور کراچی 1973 میں ہوئی ، جب پاکستان بننے  کی گولڈن جوبلی  پر ،    سندھ میں لسانیت اپنے پورے عروج پر  پہنچ چکی تھی ۔
جی ایم سید کے کارنددوں اور ٹیلنٹڈ کزن ممتاز بھٹو کے کاسہ لیسوں نے ، مہاجروں کی زندگی اندرون سندھ میں تنگ کردی تو  ، مہاجر اپنے حقوق کے لئے کھڑے ہوگئے ، منافقوں کےسرغنہ " الاعلیٰ کے ابو" کی جماعت کا کراچی میں طوطی بولتا تھا ، جس کی منافقت  سے خود اُس جماعت کے کارندوں کے بچے بھی تنگ ، جنہوں نے مہاجروں کی جماعت کو کراچی میں اہم مقام دلوایا ۔
میں یہاں اُن عظیم لوگوں کے ناموں کا ذکر نہیں کروں گا جنہوں نے سندھی معاشرے میں مہاجرزادوں کو اُن کا حق دلوانے کی پوری کوشش کی ۔ 

پنجابیت ، پٹھانیت  کے درمیانی فرق کو  اجاگر کرنے کے لئے ، کسی دل جلے کی اِس پوسٹ کو میں نے بطورِ خلاصہ چنا ہے ۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔