Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 12 اگست، 2017

جمہوریت اور الیکشن - پاکستان

کہا جاتا ہے ، کہ  جمہوریت  دراصل " عوام کی کے ذریعے ، عوام کی حکومت ہوتی ہے -"

جس میں کُل ، عوام اپنے حلقے کے امیدوار کو منتخب کرتے  ہیں ۔
پاکستان کا جمہوریت کی طرف قدم ایک لمبی مگر یاد رکھنے والی داستان ہے ۔  جس کا بحیثیت ایک فوجی  1970 سے میں بھی ایک خاموش  کردار ہوں ۔ جہاں گپ ،  لنگر گپ اور سیاست پر دھواں دھار   بحث  ہوتی ہے ، اَن دیکھے اور کانوں سنیے واقعات میں حسبِ ضرورت   چاشنی بھر کر دلچسپی کا تسلسل  برقرار رکھا جاتا ہے - لیکن دیکھتی آنکھوں  سے سنتے کانوں تک کئی پیچ و خم ڈال دیئے جاتے ہیں ۔ 
 
٭-  پاکستان میں پہلے عام انتخابات صوبہ پنجاب میں مارچ 1951ء میں منعقد ہوئے۔ یہ انتخابات 197 نشستوں کے لیے منعقد ہوئے۔ کل 939 امیدواروں نے 189 نشستوں کے لیے مقابلہ کیا، جبکہ 8نشستوں پر بلامقابلہ ارکان منتخب ہوئے۔ ان انتخابات میں کل سات سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا۔ کل رجسٹرڈ شدہ ووٹروں کی تعداد تقریباً نو ے لاکھ  تھی۔ ان انتخابات میں ٹرن آؤن بہت کم رہا، لاہور جو صدر مقام ہے میں بھی صرف %30 ٹرن آؤٹ رہا۔ یعنی 27 لاکھ  افراد نے ووٹ ڈالے اور 63  لاکھ افراد گھر میں بیٹھے رہے ۔ لیکن ایک بات قابلِ غور ہے کہ کہیں بھی ، جعلی ووٹ ڈالنے کا شور نہیں اُٹھا - شائد اُس وقت پنجاب کے لوگوں کو مغرب سے آئے ہوئے لوگوں نے چالاکیاں نہیں سکھائی تھیں ۔
٭- دسمبر 1951ء میں صوبہ سرحد میں صوبائی انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔  ہارنے والے امیدواروں نے انتخابات کے نتائج ماننے سے انکار کر دیا اور مبینہ بدعنوانی اور دھاندلی کے الزامات لگا کر پاکستان کی انتخابات کی تاریخ کو ایک نئے راستے پر ڈال دیا  ۔
٭-  اسی طرح مئی 1953ء میں صوبہ سندھ کے صوبائی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ کو شکست ہوئی اور بنگالی قوم پرست جماعت نے جیت حاصل کی۔ ہارنے والوں نے اپنی شکست کھلے دل سے قبول کرنے سے انکار کر دیا  اور  بدعنوانی اور دھاندلی کے الزامات لگائے گئے-
چاہیئے  تو یہ تھا کہ اُنہیں دھاندلی کا سدباب کرناچاہیئے  تھا ۔ " اگلے انتخاب میں  ہم دیکھیں گے " کی سوچ نے پاکستانی انتخابی نتائج نے ایسا زہر گھولا کہ ساری تاریخ مسموم ہو گئی ۔ جمہوریت  کا پودا ، انسانی ووٹوں  کی آبیاری سے پروان چڑھتا ہے ، جس ملک کے عوام اپنے ووٹوں کا استعمال نہ کریں  تو اُن کے ووٹ رات کی تاریکی میں نکلنے والی چڑیلیں لے اُڑتی ہیں  ۔  اور پاکستان قائد اعظم کی وفات اور لیاقت علی خان کی شہادت  کے بعد  پاکستان پر اقتدار کی چڑیلیں منڈلاتی رہیں  اور زمین پر  لمبے دانتوں والے مگر مچھ  -
٭-   وزیر اعظم   لیاقت علی خان    ( 14 اگست 1947  تا 16  اکتوبر 1951 ) کی شہادت  کے بعد  ،سر خواجہ ناظم الدین   (17 اکتوبر  1951 تا    17 اپریل  1953) پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئے ۔
٭-   1954 میں جب   بنگالی وزیر اعظم صاحبزادہ محمد علی بوگرا   ( 17 اپریل 1953 تا 12 اگست 1955 ) نے گورنر جنرل ملک  غلام محمدکی دعوت پر نئی وزارت تشکیل دی تو اس میں اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کو بھی شامل کیا گیا۔ یوں جنرل ایوب خان پاکستان کے وزیر دفاع بن گئے۔
٭- وزیر اعظم   چوہدری محمد علی  (12 اگست  1955 تا 12 ستمبر  1956 )  کے بعد حسین شہید سُہروردی ( 12 ستمبر  1956  تا 17 اکتوبر 1957 ) وزیر اعظم رہے ۔ پھر ابراھیم اسماعیل چندریگر ( 17 اکتوبر 1957  تا   16 دسمبر 1957 ) وزیر اعظم رہے ۔ پھر سر فیروز خان نون (  16 دسمبر 1957 تا 7 اکتوبر 1958 )  پاکستان کے وزیر اعظم رہے ۔
اُس کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان سے وزراءِ  اعظم کی بساط لپیٹ دی جو ایک دلچسپ کہانی ہے ، اور مزے کی بات یہ وزیر اعظم سنا ہے   کہ سلیکٹ تو بذریعہ ووٹ ، ممبر اسمبلی ہوئے تھے ، لیکن  بطور وزیر اعظم نامزد ( گورنرجنرل   یعنی صدر ) نے کئے ۔ آگے چلنے سے پہلے پاکستان کے اُس وقت کے گورنرجنرلز پر نظر ڈال لی جائے ۔
 یہ تو سب کو معلوم ہے کہ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل   قائد اعظم  ( 14 اگست 1947  تا 11 ستمبر 1948 )  تھے ۔ جن کے وزیر اعظم لیاقت علی خان تھے ۔ جس سے آپ گورنر جنرل کی طاقت کا اندازہ  لگا سکتے ہیں ۔ یعنی ساری اسٹیبلشمنٹ کے حاکم قائد اعظم تھے ۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد    گورنر جنرل کا عہدہ، سر خواجہ ناظم الدین      ( 11 ستمبر 1948 تا 17 اکتوبر 1953 ) کے پاس رہا - وہ  وزیر اعظم منتخب  (17 اکتوبر  1951 تا    17 اپریل  1953) ہوئے تو یہ عہدہ    ، ملک غلام محمد(17 اکتوبر1951 تا   7 اگست 1955)      کے پاس آیا ۔   جہاں سے یہ عہدہ   ڈپٹی گورنر اسکندر مرزا  (کے پاس گیا  اور پھر  اُسی کے پاس   (6 اکتوبر 1955 تا 23 مارچ 1955 ) تک  رہا ۔ کیوں کہ اقتدار کے گُلی اور ڈنڈے کا جو کھیل ملک غلام محمد نے شروع کیا  وہ خود اُس کا شکار ہو گئے ۔
ہوا یوں  کہ گورنر جنرل اور وزیر اعظم کے درمیان دھینگا مشتی شروع ہوئی تو ،   پارلیمنٹ (مقننہ ) نے گورنر جنرل اور اپنے درمیان  دونوں پلڑے برابر رکھنے کے لئے ۔  1935 کا ایکٹ ( آرٹیکل 52) میں تبدیلی لے آئی جو ،  گورنر جنرل ملک غلام محمد کو پسند نہیں آیا اور جناب اس نے ،صدر اسحاق خان کی طرح  جمہوریت کا بوریا بستر گول کر کے وزیر  اعظم خواجہ ناظم الدین کو پارلیمنٹ سے باہر کا راستہ دکھایا اور  محمد علی بوگرا  ( 17 اپریل 1953 تا 12 اگست 1955) کو ملک کا وزیر اعظم نامزد کر دیا ۔
سپریم کورٹ اُن دنوں کراچی میں ہوتی تھے ، مولوی تمیز الدین کیس تو آپ نے سنا ہوگا نا ؟
بس مولوی تمیز الدین نے سپریم کورٹ میں کیس دائر کر دیا  ،  چیف جسٹس سر جارج بیکسنڈل کانسٹنٹائین  نے ،  خواجہ ناظم الدین کی  وزارت بحال کر دی ، تو  ملک صاحب نے سپریم کورٹ  کو ہی فارغ کر دیا اور جناب جسٹس منیر  محمد ( 29 جون 1954 تا  2 مئی 1960) کو چیف جسٹس سپریم کورٹ لگا دیا  -  


1958ءمیں جب ملک میں طوائف الملوکی (طوائفوں  کی ملکیت ) اپنے عروج پر پہنچ گئی تو جناب  میجر جنرل  ، گورنر جنرل ،اسکندر مرزا نے  پاکستان میں مارشل لاء لگادیا  اور خود کو گورنر جنرل سے صدارت پر متمکن کر دیا ، اور جمہوریت ختم ہو گئی- 

اتنی بڑی ہمت  کیسے ہوئی ؟ یہ دیکھنے کے لئے ہمیں  پاکستان کے جرنیلوں کی داستان بھی دیکھنا ہوگی ۔
لیکن پہلے پڑھیں :  
آئینِ پاکستان ، اسلام اور مسلح افواج
اسکندر مرزا ، برٹش فوج کا ایک    بنگالی النسل ہونہار آفیسر تھا  ۔جس نے اپنی پہلی بیوی اور بیٹے  کے لندن میں جہاز کریش ہونے  کے بعد   نصرت بھٹو  کی کزن  ناہید  افغانے  سے شادی کی ۔ جب وہ پاکستان بننے  کے بعد پاکستان فوج میں  ٹرانسفر کیا گیا ، تو وہ لیفٹننٹ کرنل تھا ۔برٹش گورنمنٹ میں وہ جائینٹ ڈیفینس سیکریٹری تھا ۔ چنانچہ پاکستان میں وہ  وزیر اعظم لیاقت علی خان کی گورنمنٹ میں ڈیفینس سیکریٹری ( میجر جنرل) اپائینٹ ہوا  ۔ 
1951 میں لیاقت علی خان  نے فیصلہ کیا کہ اب برٹش جنرلز کو پاکستان سے خدا حافظ کہا جائے اور پاکستانی میجر جنرلز کو لیفٹننٹ جنرل بنا کر پہلا پاکستانی فور سٹار جنرل  پاکستان کی افواج کا کمانڈر انچیف  بنے ، یہ سب پلاننگ  اسکندر مرزا نے بحیثیت ڈیفنس سیکریٹری کی اور   میجر جنرل  افتخار خان ، میجر جنرل اکبر خان (رنگروٹ )  ، میجر جنرل اشفاق المجید اور  میجر جنرل این اے ایم رضا    کو لیفٹننٹ جنرل کے عہدے پر پروموٹ  ہونا تھا ۔    میجر جنرل  افتخار خان ، نے فور سٹار جنرل بن کر  کمانڈر انچیف کا عہدہ سنبھالنا تھامگر  فضائی حادثے میں کراچی کے پاس جان بحق ہو گئے اور  جناب  وزیر اعظم لیاقت علی خان نے  تین جرنیلوں کو نظر انداز کر کے ، میجر جنرل محمد ایوب خان (جونئیر موسٹ) کو لیفٹنٹ جنرل بنا کر ، 17 جنوری 1951 کو کمانڈر انچیف پاکستان فورسز  بنا دیا -


اسکندر مرزا نے 8 اکتوبر 1958ءکو ملک میں مارشل لا نافذ کردیا اور آئین کو معطل کردیا۔ جنرل ایوب خان مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے عہدے پرفائز ہوا۔
24 اکتوبر 1958ءکو جنرل ایوب خان  کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔

 لیکن فقط تین دن بعد 27 اکتوبر 1958ءکو اٗس نے صدر اسکندر مرزا کو معزول کرکے صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے اختیارات سنبھال لیے۔
اسکندر مرزا  کی تمام جائداد ضبط کر کے اُس کو برطانیہ جلاوطن کردیا گیا ۔ جہاں اُس کا انتقال 1969 میں ہوا ، اُسے یحییٰ خان نے پاکستان میں دفن کرنے کی اجازت نہ دی اور شاہ ایران نے اُسے پورے اعزاز کے ساتھ تہران میں دفن کروایا ۔ 

صدر ایوب خان نے نہایت تیزی سے ملکی صورتحال کو سنبھالا اُس  نے فوجی اسپرٹ سے رات دن کام کرکے ملک میں کئی مفید اصلاحات نافذ کیں ۔
٭- 27 اکتوبر 1959ءکو فوج نے صدر جنرل ایوب خان کو ملک کا اعلیٰ ترین فوجی عہدہ فیلڈ مارشل پیش کیا گیا۔ اسی روز ملک میں بنیادی جمہوریت کا نظام نافذ کردیا گیا۔
 17 فروری 1960ءکو فیلڈ مارشل ایوب خان ملک کے صدر منتخب ہوئے۔ 8 جون 1962ءکو انہوں نے مارشل لا کے خاتمے اور صدارتی طرز حکومت کے نئے آئین کے نفاذ کا اعلان کیا۔جنوری 1965ءمیں ملک میں ایک مرتبہ پھر بنیادی جمہوریت کے نظام پر مبنی صدارتی انتخابات منعقد ہوئے جس میں ایوب خان نے کامیابی حاصل کی۔
٭- ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کا نظام وضع کیا تھا۔ اس میں بنیادی کردار چوہدری خلیق الزماں تھا۔ چوہدری خلیق الزماں لکھنؤ میں کسی دوسری جگہ سے منتقل ہوئے تھے۔ چوہدری سلیم الزماں صدیقی جو 97 برس کی عمر پاکر 15 سال پہلے کراچی میں وفات پا گئے تھے، خلیق الزماں کے چھوٹے بھائی تھے۔ خلیق الزماں نے ایوب کے سیاسی گرو کی حیثیت سے انہیں بنیادی جمہوریت (بیسک ڈیموکریسی Basic Democracy) کا نظام رائج کرنے اور کراچی سے دارالحکومت منتقل کرنے کا مشورہ دیاتھا۔ بیسک ڈیمو کریسی سسٹم کے اولین انتخابات 1959ء میں منعقد ہوئے۔ مشرقی و مغربی پاکستان سے 80 ہزار بی ڈی ممبرز (Members Basic Democracy) منتخب کرائے گئے۔ جن میں 8 بی ڈی ممبرز پر مشتمل یونین کونسل ایک چیئرمین کی سربراہی میں قائم کی گئی۔
بنیادی جمہوریت کے نظام میں ، 80 ہزار مڈل اور اپر کلاس کے لوگوں کو ووٹ کا حق دیا۔ اگرچہ 110 ملین آبادی والے ملک میں یہ ایک چھوٹا ہندسہ معلوم ہوتا ہے خاص طور پر اس لیے کہ یہاں زیادہ تر لوگ نہ صرف ان پڑھ بلکہ سیاسی شعور سے مکمل طور پر ناواقف تھے۔ دیہاتی علاقوں سے بہت زیادہ سپورٹ کے علاہ بہت سے باشندے عورتوں کی الیکشن میں حصہ لینے کے خلاف تھے۔ دیہاتی علاقوں میں صدر ایوب کی اصلاحات شہری علاقوں سے بھی زیادہ فائدہ مند ثابت ہوئی تھیں۔
٭- پاکستان جیسے ملک  میں ، سیاسی  پرخاش کے فساد  کی ابتداء  اگر کہیں کہ  1964 سے شروع ہوئی تو غلط نہ ہوگا ۔ اِس سے پہلے کے اگر انتخاب پر نظر ڈالیں ، تو 1947 کے آزادی کے ریفرنڈم  میں   کوئی   سیاسی پرخاش نہ تھی جس پیمانے پر اب شروع ہوئی ہے ۔ عوام کو جھوٹے وعدوں کی امید دلانا اور حکومت کی اچھائیوں کو چھپا کر بُرائیوں کو محدب عدسے کے نیچے دکھانا، بلکہ یوں کہیں کہ  مغربی ملکوں کی جمہوریت جو پڑھے لکھے لوگوں میں مروّج تھی وہ پاکستان کی اَن پڑھ عوام  میں دھوم دھڑکوں سے  اُکسا کر   رائج کرنا  ایک اچھا رجُحان نہ تھا ۔ پاکستان کے قیام کے لئے ، یک مقصد نعرہ " مسلم ہے تو مُسلم لیگ میں آ  " ایک مکمل اور جامع نعرہ تھا ، جو علی گڑھ کے نوجوانوں نے ایجاد کیا تاکہ ہندوؤں سے علیحد ہ تشخّص بنایا جائے ، جبکہ وہ لوگ کو خود کو دیگر مسلمانوں ، راہِ راست سے بھٹکا ہوا سمجھتے اور خُود کو راہ راست پر پابند مسلمان سمجھتے ، اُنہوں نے ، اِس نعرے کو ایک کان سے سنا اور دوسرے کان سے اُڑا دیا ۔ اور اُن کے فہم کے مطابق ،  راہ راست سے بھٹکے ہوئے لوگ مسلم لیگ کی چھتری  تلے آگئے ۔ اِن لوگوں نے دبے دبے لفظوں میں ، میڈیا کو استعمال کر کے ، کافرِ اعظم کی قیادت قبول کرنے کا شوشہ بھی چھوڑا ۔ رہی محترمہ فاطمہ جناح ، وہ تو تھی بہن، لیکن 1964  میں بڑی بُرائی (ایوب خان مسلمان) سے چھوٹی برائی ( کافر کی بہن) کو اُنہی جماعتوں نے اپنا لیڈر بنا لیا ۔ 

 ایوب کا دعویٰ کہ وہ بنیادی جمہوریت کو فروغ دینا چاہتے ہیں اور  پرسکون انداز میں پاکستانیوں کی زندگی گذر رہی  ہے ،  ہر طرف سب اچھا کی رپورٹ ہے ،   کے جواب میں فاطمہ جناح نے کہا: " یہ کونسی جمہوریت ہے؟ ایک آدمی کی جمہوریت یا پچاس آدمیوں کی جمہوریت؟ "
جب ایوب نے کہا کہ ان کی شکست ملک میں دوبارہ بد امنی پیدا کر دے گی تو فاطمہ جناح نے کہا: " آپ زبردستی، اتھارٹی اورڈنڈے کے زور پر ملک میں استحکام پیدا نہیں کر سکتے"

  لیکن کہا جاتا ہے کہ ،  فاطمہ جناح  نے ایوب خان سے تنگ آئے ہوئے لیڈروں کے اُکسانے پر ،  ایوب خان سے الیکشن کروانے کا مطالبہ کر دیا تھا ۔
2  جنوری 1965ء کو  محترمہ فاطمہ جناح اور صدر ایوب کے درمیان انتخابات ہوئے ۔ایوب خان نے فاطمہ جناح کو بھارتی اور امریکی ایجنٹ قرار دے دیا تھا۔ سکیورٹی اسٹیبلیشمنٹ کا یہ آزمودہ حربہ ہے۔ایوب خان  نے فاطمہ جناح کے بارے میں اس موقع پر کہا،
" لوگ انہیں مادر ملت کہتے ہیں اس لیے انہیں مادر ملت ہی بن کے دکھانا چاہیے" ۔
کیوں کہ ، ایوب خان کو پریشان کرنے والی بات یہ تھی کہ فاطمہ جناح پینٹ میں بہت دلکش دکھائی دیتی تھیں۔ فاطمہ جناح جتنا زیادہ صدر ایوب پر تنقید کرتیں عوام اتنا  ہی انہیں سپورٹ کرتے۔آخری ہفتے تک جب صدارتی الیکشن صرف چند دن کی دوری پر تھے ، ان کی اپوزیشن اس قد ر عروج پر پہنچ گئی کہ انہیں اس قدر مخالفت کا سامنا پچھلے چھ سال ملا کر بھی نہیں کرنا پڑا۔کوثر نیازی نے  روایات کا سہارا لے کر عورت کی سربراہی کو مسلمانوں کے لئے نحوست قرار دیا ۔
فوجی چھڑی کے مقابلہ میں ۷۱ سالہ سفید بالوں والی فاطمہ جناح پانچ مختلف سیاسی جماعتوں کی متفقہ امیدوار تھیں، کیوں کہ وہ قائد اعظم محمد علی جناح کی بہن تھیں جن کی بدولت پاکستان کوآزادی ملی تھی۔انتخابی نشان لالٹین تھا - لیکن پاکستانی عوام کا فاطمہ جناح کی طرف سے حکومت پر حملوں پر رد عمل بہت حیران کن تھا-
ویسے تو ہمارے الیکشنوں کے بڑے کمالات ہیں۔ یہاں مرے ہوئے لوگوں کے ساتھ ساتھ ہمارے غیر ملکی مہمان، پاکستانی شہریت نہ ہونے کے باوجود، بہت سے حلقوں میں ووٹ ڈال سکتے ہیں۔
 حزب مخالف کے سیاستدانوں کو اس بات کا مکمل یقین تھا کہ محترمہ کامیاب ہوں گی، لیکن الیکشن کمیشن نےصدر ایوب کامیاب قرار دے دیا ۔اور پاکستان کے الیکشنز میں " جھرلو " کی اصطلاح مستحکم ہو گئی ۔ فوج نے پاکستان میں ایمانداری سے الیکشن کروانے کے لئے قدم رکھ دیا ، بہت بُرا کیا ۔ 
اپنی فوجی سروس کے دوران میں نے ، 1984 کا ریفرنڈم ، 1985 کا الیکشن ، 1988 کا الیکشن،  اِن میں سکیورٹی کی ڈیوٹی کپتان اور میجر کی حیثیت سے انجام دیں ۔ 1990 اور 1997 کے الیکشنز  ،  الیکشن کمیشن کی پُرامن الیکشن کروانے میں مدد کی ۔ میڈیا اور ہارے ہوئے  نمائیندوں نے خوب دھول اُٹھائی لیکن اللہ کا شکر ہے کہ، اپنی بساط کے مطابق کسی قسم بدامنی نہیں ہونے دی ۔
لیکن میں نے الیکشن کمیشن   کے مقامی مددگار نمائیندوں کی طرف سے جھرلو پھرتے بھی دیکھا اور پنکچر لگتے بھی ۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پڑھیں :     

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔