Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 13 اگست، 2017

گدھے کا بچہ !

ايک دفعہ كا ذكر ہے كہ عربوں كے ايک اصطبل ميں بہت سے گدھے رہتے تھے ، اچانک كيا ہوا كہ ايک  گدھے  کے بچے نے كھانا پينا چھوڑ ديا، بھوک اور فاقوں سے اسكا جسم لاغر و كمزور ہوتا گيا، كمزوری سے بيچارے كے كان بھی لٹک كر رہ گئے۔ 
گدھے كا باپ اپنے گدھے بیٹے كی روز بروز گرتی ہوئی صحت كو ديكھ رہا تھا۔ ايک دن اس سے رہا نہ گيا اس نے اپنے بیٹے سے اسكی گرتی صحت اور ذہنی و نفسياتی پريشانيوں كا سبب جاننے كيلئے تنہائی ميں بلا كر پوچھا-
" بیٹے كيا بات ہے، ہمارے اصطبل ميں تو اعلٰی قسم كی جو كھانے كيلئے دستياب ہيں، مگر تم ہو كہ فاقوں پر ہی آمادہ ہو، تمہيں ايسا كونسا روگ لگ گيا ہے، آخر مجھے بھی تو كچھ تو بتاؤ، کسی نے تيرا دل دكھایا ہے يا كوئی تكليف پہنچائی ہے؟ "
گدھےبیٹے نے اپنا سر اُٹھایا اور ڈبڈباتی آنكھوں سے اپنے گدھے باپ كو ديكھتے ہوئے كہا ،
" ہاں اے والدِ محترم، ان انسانوں نے تو ميرا دل ہی توڑ كر ركھ ديا ہے۔"
"كيوں! ايسا كيا كيا ہے ان انسانوں نے تيرے ساتھ؟ “ گدھے نے حیرانی سے پوچھا 
"يہ انسان ہم گدھوں كا تمسخر اڑاتے ہيں" گدھے کا بچہ بولا ۔
" وہ كيسے؟” باپ نے حيرت سے پوچھا۔
بیٹے نے جواب ديا،
" كيا آپ نہيں ديكھتے كس طرح بلا سبب ہم پر ڈنڈے برساتے ہيں، اور جب خود انہی ميں سے كوئی شرمناک حركت كرے تو اسے گدھا كہہ كر مخاطب كرتے ہيں. كيا ہم ايسے ہيں؟
اور جب ان انسانوں كی اولاد ميں سے كوئی گھٹیا  حركت كرے تو اسے گدھے سے تشبيہ ديتے ہيں۔ اپنے انسانوں ميں سے جاہل ترين لوگوں كو گدھا شمار كرتے ہيں، اے والد محترم كيا ہم ايسے ہيں؟
ہم ہيں كہ بغير سستی اور كاہلی كے ان كيلئے كام كرتے ہيں، ہم ان سب باتوں كو خوب سمجھتے اور جانتے ہيں، ہمارے بھی كچھ احساسات ہيں آخر! "
گدھا باپ خاموشی سے اپنے گدھے بیٹے  كی ان جذباتی اور حقائق پر مبنی باتوں كو سنتا رہا، اس سے كوئی جواب نہيں بن پا رہا تھا، وہ جانتا تھا كہ اسكا بيٹا اس كم عمری ميں كيسی اذيت ناک سوچوں سے گزر رہا ہے، اسے يہ بھی علم تھا كہ صرف كھڑے كھڑے كانوں كو دائيں بائيں ہلاتے رہنے سے بات نہيں بنے گی، بیٹے كو اس ذہنی دباؤ اور پريشانی سے نكالنے كيلئے كچھ نہ كچھ جواب تو دينا ہی پڑے گا. لمبی سی ايک سانس چھوڑتے ہوئے اس نے كہنا شروع كيا:
" اے ميرے بیٹے  سن!  يہ وہ مخلوق ہے جسے  اللہ تعالیٰ نے پيدا فرما كر ساری مخلوقات پر اُسے دسترس دے دی  کہ وہ اُن سے اپنے فائدے کے کام لے ، ليكن انہوں نے ناشكری كی، انہوں نے اپنے بنی نوع انسانوں کو بھی اپنا غلام بنانا شروع کر دیا   اور اُن پر جتنے  ظلم و ستم ڈھائے ہيں وہ ہم گدھوں پر ڈھائے جانے والےظلم و ستم سے     ہزار ہا گنا زياده ہيں. مثال كے طور پر،  كبھی تو نے ايسا ديكھا يا سنا ہے كہ :
٭-  كوئی گدھا اپنے گدھے بھائی كا مال و متع چُراتا ہو؟ يا
٭-   كسی گدھے نے اپنے ہمسائے گدھے پر شبخون مارا ہو؟ يا
٭-  كوئی گدھا اپنے ہم جنس گدھے كی پیٹھ پیچھے  غيبت يا برائياں كرتا ہو؟ يا
٭-  كوئی گدھا اپنے گدھے بھائی يا اُسكے كسی بچے سے گالم گلوچ كر رہا ہو؟ يا
٭-   كوئی گدھا اپنی بيوی اور بچوں كی مار كٹائی كرتا ہو؟ يا
٭- كوئی گدھی يا گدھا كسی اجنبی گدھے كو دھوکہ دينے يا لوٹنے كی كوشش كر رہے ہوں؟ يا
٭- امريكی گدھے عرب گدھوں كو قتل كرنے كی منصوبہ بندی كر رہے ہوں اور وہ بھی صرف اسلئے كہ ان كے جو حاصل كر سكيں؟ يا
٭ - کیا تونے کبھی گدھوں کی خوراک کے ذخیرے اس طرح جمع کرتے دیکھا ہے ، کہ اگلے سالوں قحط پر جائےگا ؟  
٭-  گدھوں كا كوئی گروہ آپس ميں محض جو كے چند دانوں كيلئے باہم دست و گريبان ہو جس طرح يہ انسان آٹا اور چينی كی لائنوں ميں باہم دست و گريبان نظر آتے ہيں؟۔
يقيناً تو نے يہ انسانی جرائم ہم گدھوں ميں كبھی نہ ديكھے اور نہ سنے ہونگے، جبكہ انسانی جرائم كی فہرست تو اتنی طويل ہے كہ بتاتے ہوئے بھی كليجہ منہ كو آتا ہے۔ يقين كرو يہ انسان جو كچھ مار پيٹ اور پر تشدد برتاؤ ہمارے ساتھ روا ركھتے ہيں وہ محض ہمارے ساتھ حسد اور جلن كی وجہ سے ہے كيونكہ يہ جانتے ہيں كہ ہم گدھے ان سے كہيں بہتر ہيں، اور اسی لئے تو يہ ايک دوسرے كو ہمارا نام پكار كر گالياں ديتے ہيں. جبكہ حقيقت يہ ہے كہ ہم ميں سے كمترين گدھا بھی ايسے كسی فعل ميں ملوث نہيں پايا گيا جس ميں يہ حضرت انسان مبتلا ہيں.
اے میرے پیارے بیٹے ! يہ ميرى  تجھ سے التجا ہے كہ میری باتیں غور سے سُن اور اپنے دل اور دماغ میں بٹھا لے :
٭ - اپنے دل و دماغ كو قابو ميں ركھ،
٭- اپنے سر كو فخر سے اُٹھا كر چل، اس عہد كے ساتھ كہ تو ايک گدھا اور ابن گدھا ہے اور ہميشہ گدھا ہی رہے گا۔تو نہ کبھی گھوڑے کا لبادہ اوڑھنے کی کوشش کرے گا اور نہ کبھی خچر کو اپنا باپ کہے گا  ۔
٭- ان انسانوں كی كسی بات پر دھیان نہ دے، يہ جو كہتے ہيں كہا كريں!
اے میرے پیارے بیٹے ! ہمارے لئے تو اتنا فخر ہی كافی ہے كہ ہم گدھے ہو كر بھی نہ كبھی قتل و غارت كرتے ہيں اور نہ ہی كوئی چورى چكاری، غيبت، گالم گلوچ، خيانت، دھشت گردى يا آبروريزی۔
گدھےکے بیٹے  كو  باپ کا یہ فصیح اور بلیغ خطبہ قائل کر گیا !
وہ ایک عزم و ہمت سے کھڑا ہوا ، جو کے برتن سے ، جو کا لقمہ لیا اور چباتے ہوئے بولا ،
"  اے والد! دنیا کے عظیم گدھوں میں سے ایک ، ميں تيرے ساتھ اِس بات كا عہد كرتا ہوں كہ ميں ہميشہ گدھا اِبنِ گدھا رہنے ميں ہی فخر اور اپنی عزت جانوں گا،
اے میرے والد میرا یہ وعدہ ہے !  کہ نہ میں انگریزی  زیبرا کی نقل کروں گا  نہ کینیڈین خچر کی اور نہ ہی  عربی گھوڑا بننے کی کوشش کروں گا-
شکریہ میرے ، قابلِ قدر باپ ، تو نے مجھے انسانوں کی اوقات  بتلا دی !"۔
 (عربی کہانی سے ماخوذ)
 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔