Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعہ، 25 اگست، 2017

تدوین خطبات نبی -2



 نہ صر ف محمد  اختر کو بلکہ   :" المسیح کے ایلچیوں " کو بھی !
پڑھیں ۔ 
کیا کسی کے پاس کوئی " نبی کے خطبے یا نصیحت " کا کوئی حصہ موجود ہے ، اگر ہے تو ہمارے پر مرکز میں آئے ۔ !
( مرکزمحمد اختر ( مسجد )  اور  مرکز سٹیفن سیموئل پال  ( گرجا)  کے پاس کافی لوگوں کا رش ہونا شروع ہو گیا )
 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مرکز محمد اختر میں جو مکالمہ ہوا ویسا ہی مکالمہ کم و بیش مرکز سٹیفن سیموئل پال میں بھی ہوا)

 لیکن  پوسٹ میں  سوال ، مرکزمحمد اختر ( مسجد ) کے بارے میں پوچھا گیا ۔وہاں کا منظر پیشِ خدمت ہے ۔
 صدر مجلس محمد اختر،
معاونت کے لئے:    حکیم عمران ،    حاجی عبداللہ    اور  ابنِ حافظ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

پہلے فرد کو اندر بلوایا گیا ، 
محمد اختر :  " جی جناب آپ کون ، کہاں سے آئے ؟ اور آپ کے پاس نبی کے خطبے کا کون ساحصہ ہے؟ "
مہاجرزادہ : " جی میں مہاجر زادہ ! 
میرے پاس یہ اونٹ کے شانے کی دو ہڈیاں اور ایک پاؤں کی نلی اور دوسری کھوپڑی کی پیشانی کی ہڈی ہے - جب نبی تبلیغ کے لئے ہمارے   قبیلے  میں ام القریٰ سے  آئے،  جو  وہاں سے آٹھ کوس ہے ، تو ہمارے قبیلے کے  جبل الثور   کے دامن میں ، چوپال میں نبی نے خطبہ دیا ، میرا چچا پڑھا لکھا تھا اُس نے بعد میں یہ لکھا ، اور اپنے پاس رکھ دیا ، اب چونکہ آپ کا اعلان سنا ، تو میں نے چچا کے سامان یہ خطبہ نکالا اور آپ کے پاس آیا یہ پیش خدمت ہے !" 

محمداختر نے تینوں ہڈیاں لے کر پڑھا ، لیکن کچھ الفاظ جو خالص قبیلے کی زبان میں تھے ، سمجھ نہیں آئے ، وہ حکیم عمران کو دکھائے، جو  ام القریٰ  کے پاس جبل النور کے دامن  کا رہنے والا تھا  ، 

حکیم عمران  نے کہا : یہ عربی ہمارے قبیلے سے مختلف ہے ، یہ مجھے مصر کی عربی لگتی ہے ۔ 
مہاجر زادہ: جی جی ، میرے چچا نے ،  اپنی عمر کا کچھ حصہ   حرغدا  ، مصر میں گذارا تھا جو  قلزم کے کنارے پرہے-  
حکیم عمران   : ہاں میں نے نام سنا ہے ، مکہ والوں کے پاس وہاں سے قافلے آتے تھے ۔
محمد اختر : اچھا مہاجر زادہ یہ بتاؤ  کیا کوئی اور بھی خطبہ موجود ہے ؟
مہاجرزادہ : جی زبانی تو بہت یاد  ہیں  - جو ہم نے  اجماع عظیم میں سنے تھے ،  جو پہاڑ  کے دامن میں  ، فتح ام القریٰ کے بعد ہوا تھا-

  محمد اختر: اچھا سناؤ !
 
جواب میں مہاجر زادہ نے ،  زبانی  تیس منٹ  کا خطبہ سنایا جو اُسے زبانی یاد تھا ۔  وہاں  ابنِ حافظ بھی موجود  تھا  جس نے ساری عمر نبی کے ساتھ گذاری اور نبی کے سارے خطبات  بشمول تشریحاتِ خطبات اور  وضاحتیں یاد تھیں ۔   محمد اختر نے
  ابنِ حافظ کی طرف دیکھا۔

ابنِ حافظ:   ماشاء اللہ ،  یہ سب مجھے بھی یاد ہیں سوائے  چند باتوں کے جو غالباً  اُس وقت کہی گئیں  جو ہجرت سے پہلے کی تھیں، لیکن سب   نبی سے منسوب کی جاسکتی ہیں کیوں کہ اِن میں انسانی بھلائی کی باتیں ہیں ، جو  موسیٰ اور عیسیٰ نبی نے کہیں تھیں۔اور ابراہیم کا مکہ میں آباد ہونے کا بیان ، لوط کی قوم کی خرابیاں ، فرعون  کے ظلم ،   نوح کا سفر ، کم و بیش وہی ہیں ۔ جو میرے حافظے میں ہیں ۔ لیکن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !

  محمد اختر  : لیکن کیا ؟
ابنِ حافظ:   کچھ باتیں    ، عربی قبائل کی رسومات لگتی ہیں  ، لیکن ہیں اچھی باتیں مگر وہ رسومات میرے قبیلے میں نہیں ہیں ۔  

حاجی عبداللہ  : معزز حضرات  ہم صرف ، لکھے ہوئے کو حق تسلیم کریں گے ، کیوں کہ بہت سے لوگوں کو بہت سی باتیں حفظ ہیں ۔ جن میں   کئی باتیں نبی کی نہیں ، یہاں تک کہ میں ابنِ حافظ پر بھی زیادہ یقین نہیں رکھتا ۔  کیوں کہ میں نے  نبی سے  ، " القرآن " کے علاوہ کچھ نہیں سنا ۔ اور صرف میں اِس کا حافظ ہوں ۔
حکیم عمران   : لیکن حاجی  عبداللہ  صاحب آپ تو ،  ہندوستان  کے رہنے والے ہیں، ٹھیک ہے کہ آپ   وہاں سے حج  کرنے  ام القریٰ آئے وہاں آپ کو معلوم ہوا ، کہ کوئی نبی  پیدا ہوا ہے ، تو آپ یہاں آگئے اور اُس وقت سے یہاں آباد ہیں لیکن اِس کے باوجود  آپ کا تلفظ القریش کا نہیں -
 حاجی عبداللہ  : آپ اپنے کسی حافظ کو بلوائیں ، میں القرآن کی تلاوت کرتا ہوں ۔
محمد اختر:حاجی صاحب  آپ سنائیں  ، ابنِ حافظ تصدیق کریں گے ۔
 (حاجی عبداللہ نے تلاوت شروع کی )
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ۔الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ-الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ  مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ - إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ -اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ۔ الم ۔ ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ۔
 ابنِ حافظ:    ٹہرو ، ٹہرو ! یہ کیا پڑھ رہے ہو ؟
حاجی عبداللہ       :کیوں کیا ہوا ٹھیک تو پڑھ رہا ہوں ؟
 ابنِ حافظ:  وَلَا الضَّالِّينَ  کے بعد ایسے پڑھو ! (ابنِ حافظ نے تلاوت شروع کی )
 
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ - خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ - اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ - الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ - عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ -
 
مرکزی  مسجدمیں سب ششدر بیٹھے  ہیں ، کہ کیا جمع کریں ؟  ابنِ حافظ   کی شہادت    یا حاجی عبداللہ   ، کی تلاوت !
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
صاحبان عقل و دانش ، فہم و فکر ،  شعور و تدبّر ،  آپ کی کیا رائے ہے ؟




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔