کچن کا ایگزاسٹ فین پُر شور آواز کے ساتھ
بند ہو گیا ، مددگارسے اتروا کر ملاحظہ کیا تو معلوم ہوا کہ رِنگ پر تیل اور کالک
جمع ہو کر ایک موٹی تہہ بن چکی ہے اور پنکھے کے بلیڈ ، اُس سے ٹکراتے ہیں ۔
بوڑھا پنکھا لے کر خراد کی دکان پر گیا ، لوہے کی کیل سے انچ کا دسواں حصے کا نشان لگایا اور ، بولا،
" اِس لائن تک چاروں بلیڈ گھس دو ،"
طالب علم نوجوان نے جو لیتھ مشین پر کام کر رہا تھا بولا ، "مجھے گول گھسنا نہیں آتا " !
"استاد کہاں ہے ، " بوڑھے نے پوچھا ۔
چنانچہ بوڑھے نے گرائینڈنگ مشین چلائی اور خود چاروں بلیڈ ، اپنے مطابق گِھس لئے ۔
" کتنے پیسے ہوئے ؟ " بوڑھے نے پوچھا ،
" رہنے دیں آپ نے کام کیا پیسے کیا دینے ؟ "وہ بولا ،
بوڑھے نے کہا ، " نوجوان بجلی تو خرچ ہوئی ہے نا " ۔ چنانچہ بوڑھے نے 100 روپے نکال کر دے دیئے ، اتنے میں ، استاددکان میں داخل ہوا ، وہ آیا تو جوان نے پیسے اُس کو دیئے ،اور استاد کو بتایا ،
استاد ہنسا اور بولا : "سر جی اگر کوئی جہاز وغیرہ بنانا ہے تو دکان حاضر ہے !"
" میں سوچ رہا ہوں ، کہ چاند پر جانے کے لئے راکٹ بنایا جائے" یہ کہتے ہوئے بوڑھا ، دکان سے نکل آیا ۔
گاڑی میں بیٹھتے ہوئے ، بوڑھے نے استاد کی آواز سنی ، " یار یہ بابا خود کو میجر کہتا ہے ، لیکن مجھے لگتا نہیں ۔ مستریوں کے سارے کام جانتا ہے !"
رمضان سے پہلے کی بات ہے ، کہ بوڑھا گھر میں پھرکی کی طرح گھمایا جاتا ہے ۔ لیپ ٹاپ کے پیچھے سے اُٹھنا بہت مشکل کام ہے ،
پہلے آرام باش پوزیشن سے خود و ہوشیار باش پوزیشن میں لاؤ ، پھر لیپ ٹاپ سمیت میز کو ایک طرف کرو ، پھر اُٹھو اور ، بڑھیا کا بتایا ہوا حکم بجا لاؤ ، یہ ایک لمبی مشقتی مہم ہوتی ہے جو دن میں کم از کم چار مرتبہ بوڑھے کو انجام دینی پڑتی ہے ۔
بوڑھے کے ذہن میں ایسی لیپ ٹاپ ٹیبل بنانے کا خیالآیا جو ، سیکنڈوں میں ایک طرف نہ سہی 5 سیکنڈ لے لے ۔
ڈرائینگ بنائی کئی تبدیلیاں کیں ۔ قیمت کا تحمینہ لگایا ۔
بوڑھا پنکھا لے کر خراد کی دکان پر گیا ، لوہے کی کیل سے انچ کا دسواں حصے کا نشان لگایا اور ، بولا،
" اِس لائن تک چاروں بلیڈ گھس دو ،"
طالب علم نوجوان نے جو لیتھ مشین پر کام کر رہا تھا بولا ، "مجھے گول گھسنا نہیں آتا " !
"استاد کہاں ہے ، " بوڑھے نے پوچھا ۔
چنانچہ بوڑھے نے گرائینڈنگ مشین چلائی اور خود چاروں بلیڈ ، اپنے مطابق گِھس لئے ۔
" کتنے پیسے ہوئے ؟ " بوڑھے نے پوچھا ،
" رہنے دیں آپ نے کام کیا پیسے کیا دینے ؟ "وہ بولا ،
بوڑھے نے کہا ، " نوجوان بجلی تو خرچ ہوئی ہے نا " ۔ چنانچہ بوڑھے نے 100 روپے نکال کر دے دیئے ، اتنے میں ، استاددکان میں داخل ہوا ، وہ آیا تو جوان نے پیسے اُس کو دیئے ،اور استاد کو بتایا ،
استاد ہنسا اور بولا : "سر جی اگر کوئی جہاز وغیرہ بنانا ہے تو دکان حاضر ہے !"
" میں سوچ رہا ہوں ، کہ چاند پر جانے کے لئے راکٹ بنایا جائے" یہ کہتے ہوئے بوڑھا ، دکان سے نکل آیا ۔
گاڑی میں بیٹھتے ہوئے ، بوڑھے نے استاد کی آواز سنی ، " یار یہ بابا خود کو میجر کہتا ہے ، لیکن مجھے لگتا نہیں ۔ مستریوں کے سارے کام جانتا ہے !"
رمضان سے پہلے کی بات ہے ، کہ بوڑھا گھر میں پھرکی کی طرح گھمایا جاتا ہے ۔ لیپ ٹاپ کے پیچھے سے اُٹھنا بہت مشکل کام ہے ،
پہلے آرام باش پوزیشن سے خود و ہوشیار باش پوزیشن میں لاؤ ، پھر لیپ ٹاپ سمیت میز کو ایک طرف کرو ، پھر اُٹھو اور ، بڑھیا کا بتایا ہوا حکم بجا لاؤ ، یہ ایک لمبی مشقتی مہم ہوتی ہے جو دن میں کم از کم چار مرتبہ بوڑھے کو انجام دینی پڑتی ہے ۔
بوڑھے کے ذہن میں ایسی لیپ ٹاپ ٹیبل بنانے کا خیالآیا جو ، سیکنڈوں میں ایک طرف نہ سہی 5 سیکنڈ لے لے ۔
ڈرائینگ بنائی کئی تبدیلیاں کیں ۔ قیمت کا تحمینہ لگایا ۔
دو فٹ ضرب دو فٹ کی میز ، جس کے نیچے پہیئے لگے ہوں؛ کے لئے ، چار فٹ ضرب آٹھ فٹ کی لیمینیشن شیٹ ضائع کرنا حماقت ہے جو سٹی صدر روڈ سے ، مبلغ اٹھارہ سو روپے میں ملتی ہے ۔ کٹوائی چار سو روپے ۔
تو باقی دو فٹ ضرب دو فٹ کی شیٹوں کا کیا بنایا جائے ؟
تو بوڑھے نے مزید دو کارنر ٹیبل بنانے کا سوچا ۔
تو بوڑھے نے مزید دو کارنر ٹیبل بنانے کا سوچا ۔
جن کی ڈیزائینگ خود کی ، اب مرحلہ اِن کی کٹوائی کا تھا ۔ شیٹس کی دکان کے پاس ہی آرا مشین تھی ، وہاں سے فائدہ اٹھایا ۔ ماہر کاریگر نے شیٹس کو گولائی میں تراشا ۔
اب ، تینوں میزوں کے لئے ، پائے بنانے تھے ، شیٹس کٹوا کر واپس ہوا تو ، ریلوے لائن کے پاس کونے پر ایک لکڑی کی دُکان ہے - وہاں بوڑھے نے دیسی چارپائیوں کی طرح کے پائے دیکھے تو رُکا معلوم ہوا ، کہ یہ تو سیڑھیوں کے ساتھ لگنے والی ریلنگ کے ڈنڈے ہیں ، پائے یہاں نہیں بنتے ۔
خیر ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے ، لکڑی کی خراد کی دکان مل گئی ۔ وہاں سے پائے بنوائے اور جناب اب سوال پیدا ہوا کہ میز کے پاؤں جوڑنے کے لئے سنٹر میں سوراخ کر کے بولٹ فٹ کرنے تھے اور یہ کام ، پرسیئن کے بغیر ممکن نہ تھا اور اِس کے لئے ، لیتھ مشین کی ضرورت پڑ رہی تھی ، چنانچہ بوڑھے نے ، بالا درج کی ہوئی بلیک سمتھ کی دکان دیکھی ، خالی تھی کوئی بندہ نہ چھوٹا ، استاد کو تلاش کیا وہ ، بھی بابے کی عمر کا ، معلوم ہوا کہ بس اب تنہا دکان پر بیٹھتا ہے کوئی کام آتا ہے تو کر لیتا ہے ورنہ دُکان خالی پڑی رہتی ہے ۔
اب ، تینوں میزوں کے لئے ، پائے بنانے تھے ، شیٹس کٹوا کر واپس ہوا تو ، ریلوے لائن کے پاس کونے پر ایک لکڑی کی دُکان ہے - وہاں بوڑھے نے دیسی چارپائیوں کی طرح کے پائے دیکھے تو رُکا معلوم ہوا ، کہ یہ تو سیڑھیوں کے ساتھ لگنے والی ریلنگ کے ڈنڈے ہیں ، پائے یہاں نہیں بنتے ۔
خیر ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے ، لکڑی کی خراد کی دکان مل گئی ۔ وہاں سے پائے بنوائے اور جناب اب سوال پیدا ہوا کہ میز کے پاؤں جوڑنے کے لئے سنٹر میں سوراخ کر کے بولٹ فٹ کرنے تھے اور یہ کام ، پرسیئن کے بغیر ممکن نہ تھا اور اِس کے لئے ، لیتھ مشین کی ضرورت پڑ رہی تھی ، چنانچہ بوڑھے نے ، بالا درج کی ہوئی بلیک سمتھ کی دکان دیکھی ، خالی تھی کوئی بندہ نہ چھوٹا ، استاد کو تلاش کیا وہ ، بھی بابے کی عمر کا ، معلوم ہوا کہ بس اب تنہا دکان پر بیٹھتا ہے کوئی کام آتا ہے تو کر لیتا ہے ورنہ دُکان خالی پڑی رہتی ہے ۔
اُس سے بات کی تو وہ تیار ہوگیا ۔ بوڑھا اگلے دن 16 پائے لے کر آیا ، اُس نے بڑی مہارت سے کام کیا ، بوڑھے نے ڈرل مشین پر بابے کی اجازت سے ، واشر میں سوراخ کئے تاکہ ، کیل لگائے جا سکیں ۔
بوڑھے نے بابے سے کافی باتیں کیں ۔ پھر بوڑھے کے دماغ میں خیال آیا کہ کیوں نہ یہاں بچوں کو تربیت دی جائے تاکہ وہ ماہر مشینسٹ بن کر اپنا روزگار کمائیں ۔ بابا بھی تیار ہو گیا ۔ کہ پریکٹیکل وہ سکھائے گا اور بوڑھا بنیادی تھیوری اور ٹولز کے بارے میں پڑھائے گا ۔ چلو اگر دس بچے سالانہ بھی سیکھ کر باروزگار ہوجائیں ، تو کچھ نہ کچھ ، ہمن نے پاکستان کے بے روزگار نوجوانوں کی مدد کی ۔
بوڑھے نے اخبار میں اشتہار دیا ، کئی فون آئے ، جو سوالات پوچھے گئے ۔
1- کیا یہ کوئی اکیڈمی ہے ؟ ۔ ۔ جواب : جی نہیں
2- بچوں کو کیا سکھائیں گے ؟ ۔ ۔ جواب :ویلڈنگ ، کٹنگ مشین ، ڈرل مشین اور لیتھ مشین
بوڑھے نے بابے سے کافی باتیں کیں ۔ پھر بوڑھے کے دماغ میں خیال آیا کہ کیوں نہ یہاں بچوں کو تربیت دی جائے تاکہ وہ ماہر مشینسٹ بن کر اپنا روزگار کمائیں ۔ بابا بھی تیار ہو گیا ۔ کہ پریکٹیکل وہ سکھائے گا اور بوڑھا بنیادی تھیوری اور ٹولز کے بارے میں پڑھائے گا ۔ چلو اگر دس بچے سالانہ بھی سیکھ کر باروزگار ہوجائیں ، تو کچھ نہ کچھ ، ہمن نے پاکستان کے بے روزگار نوجوانوں کی مدد کی ۔
بوڑھے نے اخبار میں اشتہار دیا ، کئی فون آئے ، جو سوالات پوچھے گئے ۔
1- کیا یہ کوئی اکیڈمی ہے ؟ ۔ ۔ جواب : جی نہیں
2- بچوں کو کیا سکھائیں گے ؟ ۔ ۔ جواب :ویلڈنگ ، کٹنگ مشین ، ڈرل مشین اور لیتھ مشین
3- کتنے مہینے کا کورس ہے ؟ ۔ ۔ جواب : کم از کم تین ماہ !
4- فیس کیا ہوگی ؟ ۔ ۔ جواب : کوئی نہیں صرف رجسٹریشن 1000 روپے !
5- کیا آپ کا تعلق کسی این جی او سے ہے ؟ ۔ ۔ جواب :نہیں !
5- کیا آپ کا تعلق کسی این جی او سے ہے ؟ ۔ ۔ جواب :نہیں !
6- تنخواہ ملے گی ؟ ۔ ۔ جواب :نہیں !
8- کام سیکھنے کے بعد ملازمت ملے گی ؟ ۔ ۔ جواب :ملازمت تو اُس کی مہارت کے بعد کہیں بھی مل سکتی ہے -
جتنے بھی بچوں نے آمادگی ظاہر کی وہ سب پنڈی سے دور گردونواح کے ہیں ، جن کا سب سے بڑا مسئلہ ، رہائش کا ہے ۔ جس کے لئے کوشش جاری ہے ، کہ دکان کے کلومیٹر کے اندر کوئی کمرہ مل جائے تو پروگرام کو آگے بڑھایا جائے ۔
٭٭٭٭٭مزید پڑھیں ٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں