یزید کا نرم رویہ
مکہ میں حضرت حسین چار مہینے سے زیادہ مقیم رہے، اور اس تمام مدت میں عراقیوں کے پیغامات اور وفد آتے جاتے رہے خروج کی تیاریاں ہوتی رہیں لیکن حکومت کی جانب سے کوئی روک ٹوک نہیں کی گئی، نہ ان کی نگرانی ہوئی نہ عراقیوں کو ان کے پاس آنے سے روکا گیا قوی اثار سے ظاہر ہے کہ امیر یزید نے ان کو مخاطب کیا جیسا کہ ان کے اشعار سے صاف اشارہ ملتا ہے جو انہوں نے باغیان مدینہ کی تنبیہ کے لئے لکھ کر بھیجے ، اس قطعہ اشعار کو شیعہ مورخ طبری نے جلد 6 صفہ 419 پر درج کیا ہے .علامہ ابن کثیر نے صفہ 164 جلد 8 میں اورناسخ التواریخ کے غالی مولف صفہ 172 ۔6 کتاب دوئم میں اس کا تذکرہ کرتے ھیں ۔ کسی کسی شعر کے بعض الفاظ مختلف ھیں۔
ترجمہ
قطعہ اشعار امیر یزید
اے سوار جو مدینہ کی جانب ایسی اونٹی پر جا رھا ھے
جس کی چال میں بانکپن ہے تھکاوٹ کے با وجود قدم جم کر پڑتا ھے
میرا پیغام اھل قریش کو پہنچا دے کیوں کہ ان سے ملنے کو فاصلہ بہت ہے
کہ میرے اور حسین کے درمیان خدا اور رشتہ داری کا واسطہ ہے
اور وہ صحنِ حرم میں کھڑے ہو کر کی ہوئی بات ہے
میں انھیں خدا کا عہد اوراس چیز کی یاد دلاتا ہوں
جو ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوتے وقت قابل لحاظ ہوتی ہے
تم اپنی ماں پر فخر کر کے اپنی قوم کے سامنے ناک چڑہاتے ہو
ہاں وہ ماں ایسی ہی ہیں پاکدامن اور میری جان کی قسم بڑی ہی نیک اور عزت والی
اور وہ ایسی ہیں کہ ان کے شرف کو کوئی نھیں پہنچ سکتا
رسول خدا کی بیٹی اور دنیا جانتی ہے سب سے اچھی
ان کی فضیلت میں، اے حسین تمھاری فضیلت ھے
مگر تمھارے علاوہ بھی تمھاری قوم میں ایسے لوگ ھیں جو ان کے شرف سے بہرہ مند ھیں
میں جانتا ھوں یا جاننے والے کی طرح گمان کرتا ھوں کیو ں کہ بسا اوقات گمان سچا نکلتا ھے اور بات پوری ھو کر سامنے آ جاتی ہے
کہ عنقریب اے باغیان مدینہ تم پر وھی چیز نازل ھو گی جواس بغاوت سے تم حاصل کرنا چاھتے ھو
یعنی مقتولوں کی لاشیں جو تمھاری طرف سے عقابوں اور کرگسوں کے لیے سامان ضیافت ھوں گی۔
اے میری قوم جنگ کی آگ تھم چکی ھے اسے مت بھڑکاؤ اور صلح کی رسی کو مضبوط پکڑو اور اسی پر قائم رھو
بغاوت کا ارتکاب مت کرو بغاوت پچھاڑ دینے والی ھے اور بغاوت کا جام پینے والا اسے ہضم نہیں کر سکتا۔
لڑائی کا تجربہ انھیں ھو چکا جو تم سے پہلے گزر چکے اقوام عالم کے لیے یہ بھولی بسری باتیں ھو چکیں
اپنی قوم کے حق میں عدل کی راہ اختیار کرو کیوں کہ اکثر بے جا حرکتوں سے ھی آدمی ٹھوکر کھاتا ھے۔
امیر یزید کے قطعہ اشعار سے اس وقت کے احوال کا بہت کچھ صحیح اندازہ لگایا جا سکتا ھے ۔ تیسرے شعر کے مضمون سے ثابت ھے کہ حضرت حسین نے بھی امیر المومنین معاویہ کی زندگی میں امیر یزید کی ولی عہدی کی بیعت کی تھی ۔شعر کا مضمون یہ ھے ، اور صحن حرم میں کھڑے ھو کر کہی ہوئی بات ھے میں انہیں خدا کا عہد اور اس چیز کی یاد دلاتا ھوں جن کا زمہ داریوں سے عہدہ براہ ھوتے وقت لحاظ کیا جاتا ھے ان الفاظ سے صاف اشارہ اسی طرف ملتا ھے ۔
آزاد اور بے لاگ مورخین نے حضرت حسین کے اقدام خروج کے سلسلے میں اس بات کہ بیان کیا ھے مشہور مورخ دوزی کا ایک فقرہ اس بارے میں قابل لحاظ ھے ۔وہ لکھتا ھے کہ اخلاف یعنی آنے والی نسلوں کا عام طور پر یہ شعار رہا ھے کہ وہ مدعین کی ناکامی پر جذبات سے مغلوب ھو کر بسا اوقات انصاف اور قومی امن اور خانہ جنگی کے ھولناک خطروں کو نظر انداز کر دیتے ھیں جن کہ ابتدا ھی میں روکنا ضروری ھوتا ھے یہی کیفیت آنے والی نسلوں کی حضرت حسین کے متعلق ھے جو ان کے خلاف اقدام کو ایک ظالمانہ جرم خیال کرتے ھیں۔
ایرانی تعصبِ شدید نے اس میں رنگ بھرے اور حقیقت کے خدوخال بدل دیے اور حضرت حسین کو بجائے ایک معمولی قسمت آزما کے جو ایک انوکھی لغزش اور ذہنی خطا اور قریب غیر معمولی حب و جاہ کے کارن ہلاکت کی طرف رواں دواں ہوں- ولی اللہ کے روپ میں پیش کیا ھے ان کے ہمعصروں میں سے اکثروبیشتر انھیں ایک دوسری نظر سے دیکھتے تھے اور انھیں عہد شکنی اور بغاوت کا قصور وار خیال کرتے تھے۔اس لیے کہ انہوں نے حضرت معاویہ کی زندگی میں یزید کی ولی عہدی کی بیعت کی تھی اور اپنےحق میں دعوع خلافت کہ ثابت نہ کر سکے تھے۔
تاریخ مسلمانان اسپین صفحہ 47 رہنماٹ دوزی۔ترجمہ فرانسس گریفن اسٹوکس مطبو عہ لنڈن 1913۔
قسط نمبر 19 - ٭٭٭٭-ابتداء ِ شیطان نامہ-٭٭٭٭ -قسط نمبر 21
شیعہ تاریخ دان کے مطابق ، علی بن ابو طالب کا شجرہ !
شیعہ تاریخ دان کے مطابق ، علی بن ابو طالب کا شجرہ !
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں