کوفہ والوں کا غداری پر اکسانا
حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی:
مورخین نے واقعہ کربلا کے قدیم ترین راوی اور مورخ ابو محنف ( ھمارے خیال میں پہلے راوی کیوں کے اس سے پہلے اس موضوع پر کوئی تاریخ ہمیں دستیاب نہیں ھو سکی) کی سند سے لکھا ھے کہ حضرت
معاویہ کی وفات کے بعد جب امیر یزید کی بعیت سے گریز کر کے حضرت حسین مدینہ سے مکہ تشریف لے آئے اور کوفی سبائیوں کو یہ حال معلوم ہوا تو ان کے تحریری وفد آنے لگے ۔ (صفحہ 151۔البدایہ۔جلد 8۔)
ان ( حسین ) کے پاس عراق کے علاقے سے کثرت سے خطوط آ گئے جن میں ان کو اپنے پاس آنے کی دعوت دی گئی تھی اور یہ لالچ دیا گیا تھا کہ یزید بن معاویہ کی بجائے وہ ان سے بیعت کرلیں گے۔
اور ان خطوط میں معاویہ کی موت پر خوشی کا اظہار کیا گیا تھا۔(ایضا) مورخین نے یہ بھی لکھا ھے کہ ان خطوط کا شمار سینکڑوں سے زیادہ تھا۔ ان میں سے ایک خط کا مضمون علامہ ابن کثیر کی تاریخ کے علاوہ ناسخ التواریخ نے بھی درج کیا ھے یہ تھا :
اما بعد ۔ باغ و بوستان سر سبز ھو گئے ہیں ۔ میوہ اور پھل تیار ھے ۔ زمین میں سبزہ اُگ آیا ھے اب موقع ھے کہ آپ اس فوج اور لشکر کی جانب تشریف لے آئیں جو آپ کی ہر خدمت کے لیے موجود اور مستعد ھے۔
(جلد 8 صفحہ 151 البدایہ ۔ جلد 6 صفہ 174 ناسخ التواریخ۔ )
اسی مورخ کے بیان کے مطابق ڈیڑھ سو افراد جو کوفہ کے ممتاز لوگ تھے - سفر کر کے حضرت حسین کے پاس حا ضر ھوئے اور ان میں سے ہر شخص کے پاس کوفیوں کے دو دو تین تین خط موجود تھے۔
جن میں حضرت حسین کو کوفہ آنے کی اور بیعت خلافت لینے کی دعوت دی گئی تھی۔ (صفحہ 175 جلد 6 ناسخ التواریخ۔)
حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی:
مورخین نے واقعہ کربلا کے قدیم ترین راوی اور مورخ ابو محنف ( ھمارے خیال میں پہلے راوی کیوں کے اس سے پہلے اس موضوع پر کوئی تاریخ ہمیں دستیاب نہیں ھو سکی) کی سند سے لکھا ھے کہ حضرت
معاویہ کی وفات کے بعد جب امیر یزید کی بعیت سے گریز کر کے حضرت حسین مدینہ سے مکہ تشریف لے آئے اور کوفی سبائیوں کو یہ حال معلوم ہوا تو ان کے تحریری وفد آنے لگے ۔ (صفحہ 151۔البدایہ۔جلد 8۔)
ان ( حسین ) کے پاس عراق کے علاقے سے کثرت سے خطوط آ گئے جن میں ان کو اپنے پاس آنے کی دعوت دی گئی تھی اور یہ لالچ دیا گیا تھا کہ یزید بن معاویہ کی بجائے وہ ان سے بیعت کرلیں گے۔
اور ان خطوط میں معاویہ کی موت پر خوشی کا اظہار کیا گیا تھا۔(ایضا) مورخین نے یہ بھی لکھا ھے کہ ان خطوط کا شمار سینکڑوں سے زیادہ تھا۔ ان میں سے ایک خط کا مضمون علامہ ابن کثیر کی تاریخ کے علاوہ ناسخ التواریخ نے بھی درج کیا ھے یہ تھا :
اما بعد ۔ باغ و بوستان سر سبز ھو گئے ہیں ۔ میوہ اور پھل تیار ھے ۔ زمین میں سبزہ اُگ آیا ھے اب موقع ھے کہ آپ اس فوج اور لشکر کی جانب تشریف لے آئیں جو آپ کی ہر خدمت کے لیے موجود اور مستعد ھے۔
(جلد 8 صفحہ 151 البدایہ ۔ جلد 6 صفہ 174 ناسخ التواریخ۔ )
اسی مورخ کے بیان کے مطابق ڈیڑھ سو افراد جو کوفہ کے ممتاز لوگ تھے - سفر کر کے حضرت حسین کے پاس حا ضر ھوئے اور ان میں سے ہر شخص کے پاس کوفیوں کے دو دو تین تین خط موجود تھے۔
جن میں حضرت حسین کو کوفہ آنے کی اور بیعت خلافت لینے کی دعوت دی گئی تھی۔ (صفحہ 175 جلد 6 ناسخ التواریخ۔)
اقدام خروج میں غلطی۔
خلیفہ کے کردار میں کوئی ایسی خامی یا برائی نہ تھی کہ اس کے خلاف خروج کا جواز نکالا جا سکتا ۔ زمانہ حال کے مورخ محمد الخضری حادثہ کربلا کے بارے میں بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ۔
لیکن حسین نے یزید کے خلاف قدم اٹھایا حالانکہ تمام لوگ ان کی بیعت میں داخل ھو گیے تھے اور حسین کی مخالفت کے وقت یزید سے کسی ایسے ظلم و جور کا اظہار نہیں ہوا تھا جو اس خروج کوجائز کر دیتا ۔(محاضرات تاریخ الامم الاسلامیہ۔ صفحہ 235۔)
اسی مورخ نے اس کے بعد لکھا ھے کہ
حسین نے اپنے خروج میں بڑی غلطی اور خطا کی جس سے امت میں اختلاف اور افتراق (فرقہ بندی) کا وبال پڑا اور آج کے دن تک محبت اور پیار کے ستون کو جھٹکا لگا ہوا ھے۔ (صفحہ 135۔ایضا۔)
حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ حسین کے لیے یہ بہتر تھا کہ وہ اپنی جگہ سے نہ ہلتے اور تمام لوگون کی طرح بیعت میں داخل ہو جاتے کیونکہ جماعت میں رہنا بہتر تھا ۔ (صفحہ 163 جلد 8 البدایہ۔)
خلیفہ کے کردار میں کوئی ایسی خامی یا برائی نہ تھی کہ اس کے خلاف خروج کا جواز نکالا جا سکتا ۔ زمانہ حال کے مورخ محمد الخضری حادثہ کربلا کے بارے میں بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ۔
لیکن حسین نے یزید کے خلاف قدم اٹھایا حالانکہ تمام لوگ ان کی بیعت میں داخل ھو گیے تھے اور حسین کی مخالفت کے وقت یزید سے کسی ایسے ظلم و جور کا اظہار نہیں ہوا تھا جو اس خروج کوجائز کر دیتا ۔(محاضرات تاریخ الامم الاسلامیہ۔ صفحہ 235۔)
اسی مورخ نے اس کے بعد لکھا ھے کہ
حسین نے اپنے خروج میں بڑی غلطی اور خطا کی جس سے امت میں اختلاف اور افتراق (فرقہ بندی) کا وبال پڑا اور آج کے دن تک محبت اور پیار کے ستون کو جھٹکا لگا ہوا ھے۔ (صفحہ 135۔ایضا۔)
حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ حسین کے لیے یہ بہتر تھا کہ وہ اپنی جگہ سے نہ ہلتے اور تمام لوگون کی طرح بیعت میں داخل ہو جاتے کیونکہ جماعت میں رہنا بہتر تھا ۔ (صفحہ 163 جلد 8 البدایہ۔)
٭٭٭واپس ۔شیطان نامہ ۔ فہرست ٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں