صحابہ کا موقف، شیطان کی نظر میں !
شیطان:
حضرت حسین کے اقدام خروج کے وقت جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے ،
حجاز اور عراق اور دیگر ممالک اسلامیہ میں رسول الله کے صحابہ اکرام میں سے بزرگ اور مقدس ہستیاں موجود اور زندہ سلامت تھیں اور
جنہوں نے براہ راست رسالت اور نبوت سے تربیت حاصل کی تھی وہ بھی تھے،
جنہوں نے آپ کے ساتھ غزوات میں حصہ لیا وہ بھی حیات تھے اور آپ کے بعد جہادوں میں شریک ہو کر باطل قوتوں کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کیا .
وہ کسی حال میں بھی باطل سے دبنے والے نہ تھے اور نہ کسی بڑے سے بڑے جابر حکمران کو خاطر میں لا سکتے تھے مگر ان میں سے کسی ایک صحابی نے بھی حضرت حسین کا ساتھ نہیں دیا .
اتمام الو فارفی سیرت الخلفاء لکھتے ہیں کہ
اس زمانہ میں صحابہ رسول کی کثیر تعداد حجاز ، بصرہ ، کوفہ ، اور مصر میں موجود تھی ان میں سے کوئی ایک بھی یزید کے خلاف کھڑا نہیں ہوا اور نہ کسی نے حسین کا ساتھ دیا.(صفحہ 14)
شیطان:
صحابہ اکرام کے اس موقف سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نظام خلافت یا خلیفہ کے کردار میں کوئی ایسی خرابی یا خامی نہ تھی جو خلیفہ کے خلاف خروج کو جائز قرار دے سکے،
نظام خلافت . نظام خلافت بلکل اسی طرح چل رہا تھا جس طرح امیر یزید سے پہلے خلفا کے زمانے میں چلتا تھا کاروبار سلطنت میں صحابہ ہی صحابہ نظر آتے تھے مہاجرین و انصار اور ان کی اولاد جو تابعین کے زمرہ میں آتی ہے کاروبار مملکت چلا رہے تھے .تاریخ میں 252 صحابہ اکرام کے نام موجود ہیں جو یزید کے عہد خلافت اور زمانہ ولایت میں حیات تھے اور ان میں سے کسی ایک صحابی نے بھی اختلاف نہیں کیا.
شیطان:
حضرت حسین کے اقدام خروج کے وقت جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے ،
حجاز اور عراق اور دیگر ممالک اسلامیہ میں رسول الله کے صحابہ اکرام میں سے بزرگ اور مقدس ہستیاں موجود اور زندہ سلامت تھیں اور
جنہوں نے براہ راست رسالت اور نبوت سے تربیت حاصل کی تھی وہ بھی تھے،
جنہوں نے آپ کے ساتھ غزوات میں حصہ لیا وہ بھی حیات تھے اور آپ کے بعد جہادوں میں شریک ہو کر باطل قوتوں کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کیا .
وہ کسی حال میں بھی باطل سے دبنے والے نہ تھے اور نہ کسی بڑے سے بڑے جابر حکمران کو خاطر میں لا سکتے تھے مگر ان میں سے کسی ایک صحابی نے بھی حضرت حسین کا ساتھ نہیں دیا .
اتمام الو فارفی سیرت الخلفاء لکھتے ہیں کہ
اس زمانہ میں صحابہ رسول کی کثیر تعداد حجاز ، بصرہ ، کوفہ ، اور مصر میں موجود تھی ان میں سے کوئی ایک بھی یزید کے خلاف کھڑا نہیں ہوا اور نہ کسی نے حسین کا ساتھ دیا.(صفحہ 14)
شیطان:
صحابہ اکرام کے اس موقف سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نظام خلافت یا خلیفہ کے کردار میں کوئی ایسی خرابی یا خامی نہ تھی جو خلیفہ کے خلاف خروج کو جائز قرار دے سکے،
نظام خلافت . نظام خلافت بلکل اسی طرح چل رہا تھا جس طرح امیر یزید سے پہلے خلفا کے زمانے میں چلتا تھا کاروبار سلطنت میں صحابہ ہی صحابہ نظر آتے تھے مہاجرین و انصار اور ان کی اولاد جو تابعین کے زمرہ میں آتی ہے کاروبار مملکت چلا رہے تھے .تاریخ میں 252 صحابہ اکرام کے نام موجود ہیں جو یزید کے عہد خلافت اور زمانہ ولایت میں حیات تھے اور ان میں سے کسی ایک صحابی نے بھی اختلاف نہیں کیا.
نظام ملیہ : عرب کی زندگی ہمیشہ سے قبایلی رہی ہے اور اس وقت بھی یہی
کیفیت تھی ہر قبیلہ اپنی جگہ پر خود مختار تھا اور اپنے سیاسی ، معاشرتی
اور معاشی امور میں خود کفیل تھا اور موجودہ زمانے میں بھی ان کی اجتمائی
زندگی کی یہ کیفیت کچھ نہ کچھ موجود ہے،خلفاہ راشدین کے عہد سے لے کر اموی
دور کے آخر تک یہی اصول کار فرما رہا کہ ہر علاقہ انرونی حیثیت سے خود
مختار ہو، نظم و نسق کے امور وہیں کے لوگوں کے ہاتھ میں رہیں اور اپنی فوجی
قوت بھی ہر علاقہ خود مہیا کرے، اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر
نظام حکومت میں کوئی ایسی خرابی ہوتی جو مذہبی امور میں خلل انداز ہوتی تو
حکومت کے خلاف فوجی قوت مہیا کر لینا کوئی مشکل کام نہ تھا.
نظام عسکری کے تحت خلیفہ کی با قاعدہ فوج بہت محدود پیمانے پر رہتی تھی اور وہ بھی زیادہ تر سرحدوں پر یا دار الخلافه میں . چھوٹی بڑی ہر مہم میں فوجی خدمات رضا کارانہ ہوتی تھیں اموی خلافت کے آخر تک یہی کیفیت رہی . خلیفہ کو جب کسی مہم پر فوج بھجنا ہوتی تو سرکاری نمایندہ اعلان کرتا کہ فلاں مہم پر امیر المومنین فوج بھجنا چاہتے ہیں جسے شرکت کرنا ہو وہ فلاں وقت فلاں جگہہ پہنچ جاے.
عالم اسلام کا ہر فرد پوری طرح مسلح تھا اور اکثر و بیشتر ماہر جنگجو تھے.
مرکزی اسلحہ خانہ میں کوئی ہتھیار ایسا نہ تھا جو کسی پرائیویٹ شخص کے پاس موجود نہ ہو.گویا طاقت کے بل صرف وہی خلیفہ کامیاب رہ سکتا تھا جسے امت کی اکثریت کی حمایت حاصل ہو اور واقعات سے ثابت ہے کہ یہ حمایت امیر یزید کو حاصل تھی کہ اس کی آواز پر بکثرت لوگ مجتمہ ہو سکیں اور ان کے مخالف کسی طرح یہ حمایت حاصل نہ کر سکے.
امت مسلمہ میں آج بھی رسول الله کی حرمت پر کٹ مرنے کا جذبہ ختم نہیں ہو سکا . حالانکہ علم و تقوہ ، قوت ایمانی، اور اخلاق کردار میں صحابہ اکرام اور تابعین سے ان کو دور کی بھی نسبت نہیں ، بڑی سے بڑی جابر حکومت کو سب سے زیادہ مشکل کام جو نظر آیا وہ مسلمانوں کو محکومی پر راضی رکھنا تھا انتہائی بے سر و سامانی کے با وجود بھی نہایت جابر حکوت کے خلاف ٹکر لینے کے لئے مسلمانوں کو جمح کر لینا آج بھی کوئی مشکل کام نہیں .
پھر کیسے باور کیا جا سکتا ہے؟
کہ ازواج مطہرات ، صحابہ اکرام اور اکابر اہل بیعت کی موجودگی میں قرن اول کے وہ مسلمان جنہوں نے قصر و کسرا کو فتح کیا اور بڑھاپے میں بھی باطل قوتوں سے جا ٹکراۓ -
اس وقت دین سے ایسے بهر گشتہ ہو گئے تھے اور ملت کے تقاضوں سے ایسے بے پرواہ ہو گئے تھے کہ انہوں نے ایک فاسق و فاجر اور ظالم و جابر شخص کو اپنے اوپر مسلط رہنے دیا اور ان کے مخالفوں کی حمایت نہیں کی اور با وجود نواسہ رسول کے دعوت دینے کے ان کو بے یار و مدد گار چھوڑ دیا،
(بات پتے کی لکھی ہے شیطان نے ! مُفتی )
یہ وہ امت تھی جس نے اس واقعہ سے پہلے بھی سر فروشی میں کوئی کمی نہ کی تھی اور نہ اس کے بعد کبھی کی، پھر اس وقت اس امت کو کیا ہو گیا تھا ؟
تو پھر جان لو کہ اس وقت نہ تو نظام خلافت میں کوئی برائی تھی نہ ہی خاندان خلافت میں.اور بنو امیہ اور بنو ہاشم میں نہ تو کوئی سیاسی رقابت تھی نہ ہی خلیفہ کے کردار میں کوئی خرابی. بلکہ خلافت اس شخص نے ہاتھ میں لی تھی جس کی سپہ سالاری میں حضرت حسین نے قسطنطنیہ کے جہاد میں شرکت کی تھی اور ان کے چچا ابن عباس اور دیگر صحابہ اکرام نے بھی شرکت کی تھی اور چند سال ان کی امارت میں حج کیا تھا اور ان کے پیچھے نمازیں پڑھی تھیں-
نظام عسکری کے تحت خلیفہ کی با قاعدہ فوج بہت محدود پیمانے پر رہتی تھی اور وہ بھی زیادہ تر سرحدوں پر یا دار الخلافه میں . چھوٹی بڑی ہر مہم میں فوجی خدمات رضا کارانہ ہوتی تھیں اموی خلافت کے آخر تک یہی کیفیت رہی . خلیفہ کو جب کسی مہم پر فوج بھجنا ہوتی تو سرکاری نمایندہ اعلان کرتا کہ فلاں مہم پر امیر المومنین فوج بھجنا چاہتے ہیں جسے شرکت کرنا ہو وہ فلاں وقت فلاں جگہہ پہنچ جاے.
عالم اسلام کا ہر فرد پوری طرح مسلح تھا اور اکثر و بیشتر ماہر جنگجو تھے.
مرکزی اسلحہ خانہ میں کوئی ہتھیار ایسا نہ تھا جو کسی پرائیویٹ شخص کے پاس موجود نہ ہو.گویا طاقت کے بل صرف وہی خلیفہ کامیاب رہ سکتا تھا جسے امت کی اکثریت کی حمایت حاصل ہو اور واقعات سے ثابت ہے کہ یہ حمایت امیر یزید کو حاصل تھی کہ اس کی آواز پر بکثرت لوگ مجتمہ ہو سکیں اور ان کے مخالف کسی طرح یہ حمایت حاصل نہ کر سکے.
امت مسلمہ میں آج بھی رسول الله کی حرمت پر کٹ مرنے کا جذبہ ختم نہیں ہو سکا . حالانکہ علم و تقوہ ، قوت ایمانی، اور اخلاق کردار میں صحابہ اکرام اور تابعین سے ان کو دور کی بھی نسبت نہیں ، بڑی سے بڑی جابر حکومت کو سب سے زیادہ مشکل کام جو نظر آیا وہ مسلمانوں کو محکومی پر راضی رکھنا تھا انتہائی بے سر و سامانی کے با وجود بھی نہایت جابر حکوت کے خلاف ٹکر لینے کے لئے مسلمانوں کو جمح کر لینا آج بھی کوئی مشکل کام نہیں .
پھر کیسے باور کیا جا سکتا ہے؟
کہ ازواج مطہرات ، صحابہ اکرام اور اکابر اہل بیعت کی موجودگی میں قرن اول کے وہ مسلمان جنہوں نے قصر و کسرا کو فتح کیا اور بڑھاپے میں بھی باطل قوتوں سے جا ٹکراۓ -
اس وقت دین سے ایسے بهر گشتہ ہو گئے تھے اور ملت کے تقاضوں سے ایسے بے پرواہ ہو گئے تھے کہ انہوں نے ایک فاسق و فاجر اور ظالم و جابر شخص کو اپنے اوپر مسلط رہنے دیا اور ان کے مخالفوں کی حمایت نہیں کی اور با وجود نواسہ رسول کے دعوت دینے کے ان کو بے یار و مدد گار چھوڑ دیا،
(بات پتے کی لکھی ہے شیطان نے ! مُفتی )
یہ وہ امت تھی جس نے اس واقعہ سے پہلے بھی سر فروشی میں کوئی کمی نہ کی تھی اور نہ اس کے بعد کبھی کی، پھر اس وقت اس امت کو کیا ہو گیا تھا ؟
تو پھر جان لو کہ اس وقت نہ تو نظام خلافت میں کوئی برائی تھی نہ ہی خاندان خلافت میں.اور بنو امیہ اور بنو ہاشم میں نہ تو کوئی سیاسی رقابت تھی نہ ہی خلیفہ کے کردار میں کوئی خرابی. بلکہ خلافت اس شخص نے ہاتھ میں لی تھی جس کی سپہ سالاری میں حضرت حسین نے قسطنطنیہ کے جہاد میں شرکت کی تھی اور ان کے چچا ابن عباس اور دیگر صحابہ اکرام نے بھی شرکت کی تھی اور چند سال ان کی امارت میں حج کیا تھا اور ان کے پیچھے نمازیں پڑھی تھیں-
قسط نمبر 21 - ٭٭٭٭-ابتداء ِ شیطان نامہ-٭٭٭٭ -قسط نمبر 22
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں