فرہنگ ازواجیات کے مطابق "ویلن ٹائم" کا آغاز پاکستان کے صوبہ پنجاب سے ہوا،
جب پنجابی شوہر اپنے بیویوں کے نافرمان ہوئے تو اُن کی بیویوں نے اُن کو سُدھارنے کیلئے آلہِ برائے گول روٹی "وِیلن" کا استعمال شروع کیا، کثرتِ استعمال کی وجہ سے اُن لمحات کو ویلن ٹائم (اوقاتِ مار) کہا جانے لگا، جو عموماً شوہر کے گھر واپس آنے پرشروع ہوتے اور رات گئے تک جاری رہتے ۔
جب چوہدری، ملک ، بٹ اور راجوں نے اپنی بیویوں کے ساتھ مغربی ممالک خاص طور پر برطانیہ ، کینیڈا اور امریکہ ہجرت کی تو وہاں 119 کے خوف اور اپنی بیویوں کے تشدد سے بچنے کیلئے اُن کے لئے پھول اور تحائف لانے لگے۔
لفظ "وِیلن ٹائم" کا زیادہ استعمال ،پھولوں کی دکانوں پر ہوا ۔ جہاں جب کوئی شوہر تنہا پریشانی کے عالم پر دکان پر پہنچتا تو پنجابی دکاندار سوال کرتا ۔
" ویلن ٹائم توں وچن لئی ؟ "
اور شوہر کے سر ھلانے پر وہ خصوصی رعایتی نرخوں پر اُسے پھول فراہم کرتا ۔
بعینی اُسی طرح جیسے روس میں ریاض ، ریاض نوف اور اور بشیر ، بشیر چوف بن کر رسی شہریت کا حقدار قرارپایا ؛
لغویاتِ لسانیات کے اصولوں کے تحت " وِیلن ٹائم " کثرتِ استعمال سے "وِیلن ٹائن" میں تبدیل ہو کر چار وانگ شہرت پا گیا ۔
اور انعکاس و معکوسیت و یاسیت کے اصولوں کے تحت جدّت پسندی لئے ، اِس دن کے ڈسے ہوئے پنجابی کا بار کسی انگریز نے اٹھانے کی کوشش میں گلاب سے چاکلیٹ وہاں سے کیک اور پھر عشائیوں کی زد میں آنے کے بعد پاکستانی میڈیا کا سہارا لیا۔
چنانچہ ،
جتھے دی کھوتی اُوتھے آن کھلوتی ۔
اور یوں ایک باہمت اور سالوں سے تحائف کے انبار پسے ہوئے ایک شوہر نے اسلام آباد میں پائے جانے والے عدلِ جہانگیری کو صدا دی ۔
چناچہ ، انجمنِ مظلومینِ شوہرانِ پاکستان (سوائے پنجاب) کو گذشتہ رات معتوب اور پابندِ سلاسل ھائی کورٹ ہونے والے ، " ویلن ٹائم " کی یہودیت کی بابت معلومات یہودی میڈیا و انٹر نیٹ و یو ٹیوب و فیس بُک پر ہوئی اور یوں ، بلوچستان و سندھ و کراچی میں پھول ، چاکلیٹ اور کیک نایاب ہوگئے !
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں