Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 15 فروری، 2017

چلتی بس میں نکاح

لاہور ﺳﮯ ﮐﺮﺍﭼﯽ ﺑﺲ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﺐ ﺑﺲ ﺳﭩﯿﺸﻦ ﺳﮯ ﭼﻞ ﭘﮍﯼ ﺗﻮ ﻓﺮﻧﭧ ﺳﯿﭧ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺰﺭﮒ ﺟﻮ بہت ﺍﭼﻬﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﭘﮩﻨﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﺎ ﮐﻬﮍے ﮨﻮ گئے ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻗﯽ ﻣﺴﺎﻓﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮨﻮ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ " ﻣﯿﺮﮮ ﺑﻬﺎﺋﯿﻮ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﻨﻮ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﻬﮑﺎﺭﯼ ﯾﺎ ﮔﺪﺍﮔﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﻣﺠﻬﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯﺍ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﻮﯼ ﺍﯾﮏ ﻣﻮﺯﯼ ﻣﺮﺽ ﺳﮯ اللہ کو پیاری ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮐﭽﻬﮧ ﺩﻥ ﮔﺰﺭے اور ﻣﯿﺮﯼ ﻓﯿﮑﭩﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺁﮒ ﻟﮓ ﮔﺌﯽ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺁﻣﺪ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﺁﻣﺪ ﮐﺎ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ..
ﻣﯿﺮﺍ ﺗﯿﺎﺭ ﺷﺪﮦ ﺳﺎﺭﺍ ﻣﺎﻝ ﺟﻞ ﮐﺮ ﺧﺎﮐﺴﺘﺮ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ پھر ﮐﭽﻬﮧ ﻣﺪﺕ ﮔﺬﺭﯼ ﮐﮧ ﻣﺠﻬﮯ ﺩﻝ ﮐﺎ ﺩﻭﺭﮦ ﭘﮍﺍ  ﺭﺷﺘﮧ ﺩﺍﺭﻭﮞ نے ﺟﺐ ﯾﮧ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺮﮮ ﺩﻥ ﺁﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻨﮯ ﮨﻢ ﺳﮯ ﺭﺍﺑﻄﮧ ﻣﻨﻘﻄﻊ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﮈﺍﮐﭩﺮﻭﮞ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﭽﻨﮯ ﮐﯽ ﺿﻤﺎﻧﺖ ﮐﻢ ﮨﯽ ﺩﯼ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﯾﮧ ﺟﻮﺍﻥ ﺑﯿﭩﯽ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﻮﺋﯽ ﻭﺍﺭﺙ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﺍﻣﻦ ﻋﺼﻤﺖ ﮐﻮ ﺗﺎﺭ ﺗﺎﺭ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ ﯾﮩﯽ ﻏﻢ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮐﻬﺎﺋﮯ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﯽ ﮨﭽﮑﯽ ﺑﻨﺪﻫﮧ ﮔﺌﯽ ﯾﮧ ﺟﻮﺍﻥ ﺳﺎﻝ ﻟﮍﮐﯽ ﺟﻮ ﭘﺎﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﻬﯽ ﺗﻬﯽ ﺍٹھی ﺍﻭﺭ ﺑﺎﭖ ﮐﻮ سہارا دے ﮐﺮ ﺳﯿﭧ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺩﯾﺎ...
ﺑﺲ ﮐﯽ ﭘﭽﮭﻠﯽ ﺳﯿﭧ ﺳﮯ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﻬﮍﺍ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ.. " ﻣﯿﺮﮮ 2 ﺑﯿﭩﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﮑﺎﺡ ﮨﻮ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﯾﮧ ﺟﻮ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﺑﯿﭩﻬﺎ ﮨﻮﺍ ہے، ﺍﻧﺠﯿﻨﺌﺮ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ لیے ﺩﻟﮩﻦ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﮨﮯ . ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺑﺰﺭﮒ ﺳﮯ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﺎ ﻧﮑﺎﺡ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﺱ ﺑﯿﭩﮯ ﺳﮯ ﮐﺮ ﺩﮮ ﻣﯿﮟ ﻭﻋﺪﮦ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺑﭽﯽ ﮐﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﺩﻭﮞ گا..  " لڑکا کھڑا ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﺭﺷﺘﮧ ﻗﺒﻮﻝ ﮨﮯ..
بس میں موجود ﺍﯾﮏ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻬﮍﮮ ﮨﻮﮐﺮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ " ﯾﮧ ﺳﻔﺮ بہت ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺳﻔﺮ ﮨﮯ ﻧﮑﺎﺡ ﺟﯿﺴﺎ ﻣﻘﺪﺱ ﻋﻤﻞ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ وہ بھی سفر میں اس سے اچھی بات کیا ہو گی؟؟ اگر ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻋﺘﺮﺍﺽ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮑﺎﺡ ﭘﮍﻫا دوں " ﺳﺐ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ .'" ﻣﺎﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ . ﺳﺒﺤﺎﻥ ﺍﻟﻠﮧ . ﺍﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﮧ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﻭﻏﯿﺮﮦ " ﺍﻭﺭ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﻧﮑﺎﺡ ﭘﮍﻫا دیا..
ﺍﯾﮏ اور ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻬﮍﮮ ﮨﻮ گئے ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ.. " ﻣﯿﮟ ﭼﻬﭩﯽ ﭘﮧ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﻬﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ لیے ﻟﮉﻭ لے کر مگر ﺍﺱ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﻋﻤﻞ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﻬﮧ ﮐﺮ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ کہ لڈو ادھر ہی تقسیم کر دیں اس نے دولہن کے باپ سے مخاطب ہوتے ہوے کہا..
دولہن کے باپ نے ڈرائیور سے کہا ڈرئیور میاں 5 منٹ کسی جگہ بس روک دینا تاکہ سب مل کر منہ میٹھا کر لیں، ڈرائیور نے کہا ٹھیک ہے بابا جی... ﻣﻐﺮﺏ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﺍﻧﺪﻫﯿﺮﺍ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﺑﺎﭖ ﻧﮯ ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﺭ ﺳﮯ ﺑﺲ ﺭﻭﮐﻨﮯ ﮐﻮ ﮐﮩﺎ..
ﺍﻭﺭ ﺳﺐ ﻣﺴﺎﻓﺮ مل کر لڈو کھانے لگے، ﻟﮉﻭ ﮐﻬﺎﺗﮯ ﮨﯽ ﺳﺐ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﺳﻮ ﮔﺌﮯ ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﺭ ﺍﻭﺭ ﮐﻨﮉﯾﮑﭩﺮ ﺟﺐ ﻧﯿﻨﺪ سے ﺟﺎگے ﺗﻮ ﺍﮔﻠﯽ ﺻﺒﺢ ﮐﮯ8 ﺑﺠﮯ ﺗﻬﮯ ﻣﮕﺮ ﺩﻟﮩﻦ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﻟﮩﺎ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺩﻭ ﺑﺎﭖ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﻭﺭ ﻟﮉﻭ ﺑﺎﻧﭩﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺑﺲ ﺳﮯ ﻏﺎﺋﺐ ﺗﻬﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﮐﺴﯽ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻧﮧ ﮔﻬﮍﯼ ﻧﮧ ﭼﯿﻦ ﻧﮧ ﭘﯿﺴﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﮐﭽﻬﮧ ﺑﻬﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻬﺎ ﺍﻥ ﮐﻮ ﯾﮧ 6 ﻣﻤﺒﺮﺯ ﮐﺎ ﮔﺮﻭﭖ ﻣﮑﻤﻞ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻟﻮﭦ ﭼﮑﺎ ﺗﻬﺎ ..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔