Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 23 فروری، 2017

ایک باپ کی فریاد !

 اے میرے بیٹے !
ماں کی آنکھوں کی ٹھنڈک !
میرے بڑھاپے کا سہارا !

 اے میرے بیٹے !
جس دن تو پیدا ہوا !
ہماری محنت کے دن شروع ہوگئے
تو روتا تھا ،
ہم جاگتے تھے،
تجھے خشک رکھنے کے لئے ۔
سردیوں میں بھیگ جاتی ۔
تیری ماں تجھے سلاتی تھی
تو کھاتا تھا ہم خوش ہوتے تھے ۔
تو نہیں کھاتا ہم پریشان ہوتے تھے۔

 اے میرے بیٹے !
تیری بیماری میں ہم در در پھرتے
کبھی اِس طبب کے پاس ،
کبھی اُس طبیب کے پاس ،
تیری ماں کی دعائیں اور وظائف
تیری ماں کی فریاد اور پکار
کہیں تجھے کچھ ہو نہ ہاجائے
کہیں تو مر نہ جائے
موت تو برحق ہے۔
لیکن بیماری کا راستہ
موت پر ختم ہوتا ہے ،
باپ کو کندھا دینا ،
اولاد کی اطاعت ہے
لیکن اولاد کو کندھا دینا
باپ کے صبر کا امتحان ہے ۔

 اے میرے بیٹے !
تجھے اپنے لئے پروان چڑھانے کے لئے۔
سینے سے لگا کر رکھا ۔
تھجے ٹھنڈ پہنچانے کے لئے ۔
پتھر توڑے تغاریاں اٹھائی ۔
سر سے بہنے والا پسینہ
ایڑیوں تک پہنچا ۔
اُس شدت کی گرمی میں ۔
جب پرندے انڈے چھوڑ دیتے ہیں۔

 اے میرے بیٹے !
جو کمایا تیرے لئے ،
جو بچایا تیرے لئے ،
تیرا بڑھتا ہوا قد،
میری جھکتی ہوئی قمر،
تیرے بازوؤں کی تڑپتی مچھلیاں
میری لرزتی ٹانگیں ،
میرے خواب کا حاصل ہیں،
جو تیری پیدائش پر دیکھا ،
تیری چھاؤں میں بیٹھوں ،
آخری سانسیں،
تیرے سہارے گذاروں

 اے میرے بیٹے !
میں وہ شجر ہوں ،
جس کے پتے جھڑنے لگے ہیں،
زمانے کی خزاؤں کے ستم سہتے ،
میں جھک گیا ،
تو سیدھا ہوگیا ،
تجھ پر جوانی آئی ،
مجھ پر بڑھاپا آیا ۔

پھر ،  اے میرے بیٹے !
تجھ پر جوانی آئی ،
تیرے تیور بدلے،
تیرے چہرے پہ شکنیں آئیں
تیرے ماتھے پہ آنکھوں آئیں ،
تیری آواز کا  کرخت لہجہ،
میرے دل کو تھرّا دیتا ہے ،
تیرا طعنہ میرے ذہن کو سُن کردیتا ہے۔
تیرا مخاطب کوئی اور نہیں باپ ہے تیرا
غلام نہیں ،

مگر، اے میرے بیٹے !
میں نے سوچا ، یہ عقدہ کھلا مجھ پر،
یہ سچ تو ہے کہ میں تھا غلام تیرا،
تیرے ہر ایک سوال کو پورا کرتا،
تیرے ہر حکم کو میں بخوشی بجالایا،
اپنی محنت سے تیری خوشیوں کو خریدا میں،
 غلام ہوں اب ، جو باپ ہوا کرتا تھا تیرا
غلام کی بس اِس کے علاوہ قسمت کیا ہے ،
روٹی کی خواہش اورتمناءِ خدمت آقا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔