Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعہ، 10 جولائی، 2015

میرے ڈرامے - سنہرا جال

امجد بخاری ، جمیل احمد خان اور اقبال فہیم جوزی نے 25 منٹ کے پلے کے لئے اخراجات اور منافع کا یہ چارٹ بنوایا - جس کے مطابق ، ایک قسط کے یہ اخراجات بنتے تھے اور منافع 21 ہزار روپے لیکن اگر دو قسطوں کا ایک ایپی سوڈ بنایا جائے تو اخراجات مزید کم ہو جاتے ہیں اور منافع بڑھ جائے گا  ۔
جوزی نے پروڈکشن مینیجر کی ذمہ داریاں سنبھالیں اور مجھے ایڈمنسٹریشن کی دیکھ بھال کا کام سونپا ۔ اداکار و دیگراں کی ذمہ داری امجد بخاری نے سنبھالی ، ہ وہ کہانی کے مطابق اداکار لاہور سے بلوائے گا ، میں نے رائے دی کہ شروع لوکل ٹیلنٹ کو فوقیت دی جائےاور پولیس کا کردار زیادہ رکھا جائے تاکہ وہ اجاگر ہوں ، پھربعد میں اداکار ڈالے جائیں-   
لوکل اداکاروں کی تلاش شروع ہوئی ۔ بہت سے خواہشمند آئے، سب کے نام و پتے بشمول تین تصاویر جمع کی گئیں ۔ ڈائیلاگ بلوائے گئے- ایک گریڈنگ فارم بنایا گیا ۔ جس پر گریڈنگ اور پوزیشن کے ریمارکس دئیے گئے ۔ خواہشمندوں میں ایک سمارٹ سا باڈی بلڈر نوجوان سا پٹھان بھی تھا ۔ جو روزانہ آکر بیٹھ جاتا ۔ لیکن نہ نام لکھواتا اور نہ ہی کوئی بات کرتا ۔ کوئی تیسرے دن میں دوپہر کے کھانے کے لئے اکرم خورشید کے آفس میں گیا تو جوزی اور درانی اپنے سلیکشن کے کام میں مصروف تھے ۔
میں نے جوزی سے پوچھا "یہ کون ہے ؟"
جوزی نے بتایا کہ وہ نہیں جانتا ۔ میں سمجھا کہ شاید اکرم کی مارکیٹنگ ٹیم کا کوئی فرد ہے ۔ اکرم کی کمپنی میں کافی لوگ تھے ، جنہیں میں نہیں جانتا تھا ۔ اکرم کے کمرے میں، میں نے مانیٹر کی طرف اشارہ کر کے،
اکرم سے پوچھا " یہ کون ہے "
اُس نے بھی کہا،" میں نہیں جانتا" ۔
" بلاؤ اسے !" میں نے اکرم کو کہا
اکرم نے انٹر کام پر ریسپسنسٹ پر بلوانے کا کہا ۔ نوجوان کمرے میں داخل ہوا ۔ اکرم نے پوچھا کہ وہ روزانہ آتا ہے ، کوئی کام ہے کیا ؟
اُس نے بتایا ، وہ ڈرامے میں کام کرنے کا خواہش مند ہے ۔ لیکن اُسے ڈائیلاگ بولنا نہیں آتے ، وہ پولیس والے کا رول کرنا چاہتا ہے ۔ وہ جوجسٹو کا ماہر ہے ۔
میں نے اُسے کہا کہ وہ سلیکٹ ہو گیا ۔ جاکر جوزی صاحب سے فارم لے اور اپنا نام وغیرہ لکھ کر مجھے دے دے ۔
محبوب علی شاہ کا جی 8 میں میڈیکل سٹور تھا ۔ جو بعد میں ہمارے لئے ایک بہترین پولیس آفیسر کے روپ میں کارآمد کردار رہا ۔ 
پہلے مرحلے پر پولیس کے مختلف جگہوں سے سٹاک شارٹ لینے تھے ۔ جو صرف اصلی ریسکیو 15پولیس کے افراد کے تھے ۔ جوزی صاحب اپنے پروڈکشن یونٹ کے ساتھ ، جی 8 میں واقع ریسکیو 15 کے آفس شام کو پہنچ گیا ۔ ڈرامے کے لئے دو افراد کی ہماری اداکاروں کی کالی یونیفارم کی پولیس ٹیم بھی تھی اور ریسکیو آفس کے لئے الگ پولیس ٹیم تھی اِن سب کی وردیاں ، پولیس سے ایس ایس پی ناصر درانی کی مہربانی سے مل گئی تھیں -
پہلے ہی دن ہمارے ڈائریکٹر غضنفر بخاری 5 بجے آنے کے بجائے 8 بجے آئے ۔ خیر وہ آئے جوزی اور غضنفر بخاری کے درمیان جھگڑا ہو گیا ۔ مجھے بلایا گیا ۔ معاملہ سلجھایا ۔ ڈائریکٹر صاحب نے سٹاک شاٹ لینا شروع کئے ۔ موٹر سائیکل پر پولیس والوں کا شاٹ تھا ۔ پولیس والے نکلے لیکن موڑ پر مین روڈ پر جاتے وقت اُن میں برابری نہیں رہتی اور ایک پولیس والا ، بہت موٹا سا تھا۔ میں نے جوزی سے پوچھا ،
" جوزی صاحب ! کیا پویس میں کوئی پتلے جوان نہیں؟"
" یہ پولیس کا نہیں ، اِسے بخاری لایا ہے ، یہ ڈنٹر ہے جس سے بخاری کام کرواتا ہے ، اِسے ہیرو بنوانا چاھتا ہے " جوزی بولا
" تو آپ نے منع نہیں کیا اور یہ دوسرا پنسل کی جوانی کون ہے ؟" میں نے پوچھا " الّن اور ننھے کی جوڑی بنانے کی کیا ضرورت ہے "
" یہ بخاری کا اسسٹنٹ ہے ، انہی پر تو ہمارا جھگڑا ہوا تھا ۔ میں کہہ رہا تھا پولیس والوں کو رہنے دو ۔ تاکہ موٹر سائیکلوں کو نقصان نہ پہنچے ۔ بخاری نے ضد پکڑ لی " ۔ جوزی بولا
میں نے خرّم درانی کو کہہ کر دونوں پولیس کے اصلی موٹر سائیکلسٹ کو بلوایا اور اُنہیں اپنی اپنی موٹر سائیکل ، چلانے کا کہا ۔ بخاری ، کیمرہ من عباس کے پاس بیٹھا اُسے شاٹ سمجھا رہا تھا ، دونوں اداکار اُس کے پاس گئے ۔ کچھ کہا بخاری ہاتھ جھاڑتا ہوا کھڑا ہوا ، اور چلتا ہوا جاکر اپنی کار میں جا کر بیٹھ گیا ۔
جوزی نے کہا، " اب یہ بھاگ جائے گا ، میجر صاحب اِسے روکو ! "
" اِسے جانے دو ، میں دیکھتا ہوں یہ کیسے جاتا ہے ؟ " میں نے کہا " اِس نے 25 ھزار روپے ایڈوانس لئے ہیں وہ دے دے اور چلا جائے "
بلیک میلنگ ، میرے نزدیک اتنا بُرا فعل تھا جس پر میں نے کبھی کمپرومائز نہیں کیا ۔ تھوڑی دیر بعد عباس کیمرہ مین، بخاری کے پاس گیا اور پھر ہمارے پاس آیا ۔"سر بخاری صاحب کہہ رہے ہیں ، کہ سیٹ پر جوزی صاحب رہیں گے یا میں " عباس بولا
"جوزی تو ہر حال میں رہے گا " میں نے کہا " ہاں وہ جاتا ہے تو چلا جائے لیکن جانے سے پہلے 25 ہزار میرے ہاتھ پر رکھ کر جائے "
عباس نے جا کر اُسے نہ جانے کیا کہا ، وہ اور عباس دونوں چلتے ہوئے میرے پاس آئے ۔
" میجر صاحب ، میں ڈائریکٹر ہوں ۔ مجھے معلوم ہے، کہ کس کردار کے لئے کون فٹ رہے گا ۔ جوزی یا آپ کو اِس میں دخل دینے کی ضرورت نہیں "بخاری بولا 
" آپ کی بات سو فیصد درست ہے بخاری صاحب میں نے کب انکار کیا " میں نرمی سے بولا " اداکاروں کا انتخاب اور اُن سے آپ ہی نے کام لینا ہے "
" تو پھر اِن دو اداکاروں کو موٹر سائیکل چلانے سے جوزی صاحب نے کیوں منع کیا ہے ؟" وہ موڈ دکھاتے ہوئے بولا
" جب اداکار سلیکٹ کر رہے تھے تو آپ نے جوزی کو اختیار دیا تھا اور آپ اٹھ کر چلے گئے تھے " میں نے یاد دلایا ، " یہ دونوں اُس سلیکشن میں نہیں آئے تھے "
" میرے ذہن میں پولیس ے کردار میں یہ تھے " بخاری بولا 
" تو آپ ، اِن کو بلوا لیتے ، انہیں بھی رکھ لیتے " میں بولا " اور یہ سٹاک شاٹ ہیں اِن کی شکلیں تو نہیں آنی ، انہیں بعد میں رکھ لیں گے ، اور میں نہیں چاھتا کہ موٹر سائیکل اِن سے گر کر ٹوٹیں "
" وہ تو پولیس والوں سے بھی ٹوٹ سکتی ہیں " وہ بولا
" اُس کا جواب وہ ایس ایس پی کو خود دیں گے مجھے نہیں دینا پڑے گا " میں نے جواب دیا
" ٹھیک ہے جیسا آپ کہیں میں ریکارڈنگ کروا دیتا ہوں " وہ بولا
" میں نہیں یہ مینیجر پروڈکشن کا کام ہے ، جوزی صاحب ہی کروائیں گے وہ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں "میں نے سیریس  لہجے میں زور دے کرکہا ۔ اور ریکارڈنگ شروع ہوئی رات 12 بجے کے لگ بھگ ہم فارغ ہوئے ۔

لیکن مجھے احساس ہو گیا کہ ، معاملے آسانی سے نہیں چلیں گے ۔ لیکن جس سنہرے جال میں ، پھنستا جا رہا تھا ۔ اُس کا مجھے ادراک نہیں ہوا تھا ۔
ابھی ڈرامے کی بنیادی ریکارڈنگ شروع نہیں ہوئی تھی لیکن 71 ہزار روپے سکہ  رائج  الوقت جس کا نصف پینتیس ہزار پانش سو بنتے ہیں، میرے اکاونٹ سے نکل چکے تھے ۔ 25 ہزارروپے جوزی ، 25ہزار روپے بخاری ، 3 ہزارروپے ریکارڈنگ کیسٹس ، 10 ہزار روپے جوزی کے لئے موبائل ، 8 ہزار روپے  جمشید فرشوری کے"نیشنل ٹیلویژن سٹوڈیو"  کے سامان کی سیکیورٹی لئے ۔  باقی چائے پانی اور کھانے الگ تھے وہ شامل نہیں ہوئے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

4 تبصرے:

  1. بڑی سبق آموز اور دکھ بھری داستان ہے ۔۔۔۔ میں بھی اس فیلڈ کو تھوڑا بہت جانتا ہوں مگر بڑی سکرین یعنی فلمی دنیا کے حوالے سے ۔۔۔۔ کبھی موج میں ہوا تو اس کی رواداد بھی لکھوں گا

    جواب دیںحذف کریں
  2. گرو جی ! رودادِ فلمی دنیا ابھی منتظرِ قارئین ہے ؟؟

    جواب دیںحذف کریں
  3. بہت عمدہ سر جی
    جانے کیوں آپ نے اسے روک دیا تھا ۔۔۔ اسے جاری رکھئے تاکہ عوام کو آگاہی حاصل ہو
    اگر ایک بندہ بھی سبق حاصل کر گیا تو جانئے محنت بھی پوری ہوئی اور ثواب بھی حاصل ہوا
    سب پردہ اٹھا دیجئے

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. گرو جی ۔ میرپور خاص گروپ پر کینیڈا میں ہجرت کرنے والے ایک دوست ناصر الدین شیخ نے X Factor Indonesia کے بیک گروانڈ پینل پر ایک وڈیو ڈالی جس میں ایک بچہ خوبصورت آواز میں آذان نغمہ سرا ہے ۔ جو وڈیوگرافی ایڈیٹنگ کی بہترین مثال ہے لیکن انسانوں کو اسلام سے بدظن کرنے کی تاریخی امثال کی مانند بدترین مثال ہے ۔
      میرے وٹس ایپ کمنٹ یہ وڈیو پیش کرنے والے نہیں بلکہ وڈیو کو اسلامی مقبولیت کو پھیلانے پر نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ۔ کہ مہاجر زادہ مرنے کے قریب ہو یہ کیا حرکت ہے ، اِس بچے نے آذان کی بہترین تلاوت کی ہے ۔
      میڈیا کی دُنیا میں آگے بڑھ کر پیسہ کمانے کی دُھن اور سریلی آوازوں کے حسن کے شکار اِس ریٹائرڈ فوجی نے " لحنِ داؤدی " کے نام سے پاکستان بھر میں " ٹیلنٹ ہنٹ " کا پروگرام بنایا اور ایک چھوٹا سا طریق کار لکھ کر اُس وقت پی ٹی وی ، اے آر وائی اور جیو کے کرتا دھرتاؤں کے سامنے پیش کیا ۔ لیکن کہیں سے پذیرائی نہیں ملی تو ، اِس بوڑھے نے " ریسکیو - 15 " کی پی ٹی وی سے لانچنگ کے بعد اِس کو پرائیویٹ پروڈکشن کے تحت کام کرنے کا ارادہ کیا ۔ اخبار میں کلاسیفائیڈ اشتہار چھاپے ۔ تاکہ نوجوانوں اور بچوں کے نام آجائیں آڈیشن بھی لئے اور انتظار کرنے لگا ،
      لیکن " ریسکیو - 15 " کے انجام کے بعد جس کی ریکارڈنگ پر محیط 5 اقساط اب بھی میرے لاکرز میں پڑی ہیں ۔ وڈیو میڈیا سے ہٹ گیا ۔
      رات کو بشیر احمد بلوچ سے کم و بیش 2 گھنٹے وٹس ایپ پر وائس ٹاک رہی ۔
      اب پھر کمر باندھی ہے کہ ، یہ داستان دوبارہ اپنے ذہن کے نہاں خانے سے باہر نکالوں جو برسات کے مینڈکوں کی طرح پھدک پھدک کر آنے کے لئے تیار ہے بشرطیکہ ، تحسین کی بارسات جاری رہے ۔ شکریہ

      حذف کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔