ملکہ
مسور ، سے بوڑھے کا تعارف اوائل 1958 میں ہوا جب وہ ، نمّو تھا اور نوشہرہ میں
اپنے والدین ، بڑی بہن اور چھوٹے بھائی کے ساتھ رہتا تھا ۔
ایک اتوار کا ذکر ہے ، نمّو اپنے آپا کے ساتھ ابّا کے کہنے پر شہر کی طرف ، میرون کوٹ پہن کر روانہ ہوا ، اِس کوٹ کی ایک خاص بات یہ تھی کہ کمر پر اَستر کے اندر ایک خفیہ جیب تھی ، جیسا کہ ماضی کے ایک بچے کی تھی ۔
تو نوجوانو! نمّو کی کمر کی خفیہ جیب میں ایک رسالہ ڈالا جاتا ، نمّو کو ہدایت دی جاتیں کہ بلکل سیدھا حکیم صاحب کے گھر جانا اور سیدھا واپس آنا ۔ اِس کا مطلب یہ نہ تھا کہ ، نمّو کو ٹیڑھا (دائیں) میڑھا (بائیں ) چلنے کی عادت تھی ۔
ایک اتوار کا ذکر ہے ، نمّو اپنے آپا کے ساتھ ابّا کے کہنے پر شہر کی طرف ، میرون کوٹ پہن کر روانہ ہوا ، اِس کوٹ کی ایک خاص بات یہ تھی کہ کمر پر اَستر کے اندر ایک خفیہ جیب تھی ، جیسا کہ ماضی کے ایک بچے کی تھی ۔
تو نوجوانو! نمّو کی کمر کی خفیہ جیب میں ایک رسالہ ڈالا جاتا ، نمّو کو ہدایت دی جاتیں کہ بلکل سیدھا حکیم صاحب کے گھر جانا اور سیدھا واپس آنا ۔ اِس کا مطلب یہ نہ تھا کہ ، نمّو کو ٹیڑھا (دائیں) میڑھا (بائیں ) چلنے کی عادت تھی ۔
دراصل
اُن دنوں ، "الاعلیٰ کے ابُو" کی
جماعت پر مکُی دور گذر رھا تھا ۔ چنانچہ ایک نئے فرقے کے بانیوں کے لئے یہ احتیاط
لازم تھی ۔ یہ فرقہ خود کو راہ راست پر سمجھتا تھا اور باقی سب کو بھٹکے ہوئے
مسلمان ۔ اب بھی یہی حال ہے ۔ دیگر مسلمان اِنہیں وہابی کہتے جو ایک گالی سے کم
نہیں سمجھا جاتا تھا ۔
گھر سے
باہر نکلتے ہی نمّو معتبر ہوجاتا ، کیوں کہ ابّا کے فرمان خصوصی کے
مطابق ، گھر سے باہر بھائی ، بہنوں سے بڑے ہوتے ہیں - یوں چینج آف کمانڈ کی غیر
تحریری کاروائی ہوتی ، جسے آپا اکثر ماننے سے انکار کرتی ، یوں نمّو ہمیشہ آپا کے
بائیں ھاتھ پرہی رہا ؛ گھر کے اندروہ اپنی پوری کمانڈ کی دھاک بٹھاتی اور گھر سے
باہر وہ نمّو کمانڈ کو صرف ایک لفظ " آپا" کی ادائیگی سے
خاطر میں نہ لاتی ۔
خیر آپا اور نمّو اپنے گھر کے پاس گذرنے والی سڑک پر گیٹ سے گذر کر جاتے ، جہاں ایک سنتری کھڑا ہوتا ، جہاں سے ٹھیک 500 گز دور سڑک کے دائیں کنارے فٹ پاتھ پرایک درخت تھا جس کے پاس حکیم صاحب کی دکان تھی اور اوپر گھر ، جس کادروازہ پچھلی گلی میں تھا ۔ جہاں پہنچ کر نمّو کا پہلا مشن ختم ہوجاتا ۔
یہ سڑک ، نوشہرہ ریلوے سٹیشن سے آتی اور حکیم صاحب کی دکا ن کے سامنے سے گذرتی آخر میں بائیں طرف زیارت کاکا صاحب اور دائیں طرف نوشہرہ کشتیوں کے پل پر جی ٹی روڈ کو کراس کرتے ہوئے جاتی ۔
تو توجوانو ، جب نمّو اور اُس کی آپا مہینے میں ایک دفعہ جاتے تو خالہ جان اُنہیں کھانا ضرور کھلاتیں ، اُس اتوار نمّو نے بالکل ایسی ہی چٹخارے دار دال کھائی تھی ، جس میں اِملی بھی تھی ، آپا کو تو پسند نہ آئی ۔ لیکن نمّو نے ، چنیی سٹک کی طرح ، اپنی انگلیوں کی سٹک سے مزے لے کر کھائی ۔کوٹ تو اتار دیا تھا ، خالہ نےدونوں آستینیں اوپر چڑھا دی تھیں ، دال انگلیوں سے بہتی ہوئی کلائی سے لپٹتی اور کہنی تک جانے سے پہلے ہی نمّو چاٹ لیتا ، پلیٹ کو بالکل اچھی طرح صاف کیا ، کہ ملکہ مسور کے فراک کے گھسیٹنے کا نشان بھی پلیٹ پر نہ رہا ، انگلیوں کو بھی مزے سے چاٹا ۔
خالہ (حکیم صاحب کی بیگم) سے پوچھا ، تو معلوم ہوا یہ ملکہ مسور ہے ۔ اور نمّو نے یہ دال بھی پہلی دفعہ دیکھی ، کیوں کہ نمّو کے گھر جو دال سرکاری سٹور سے آتیں وہ آدھی ہوتی تھیں، جن سے لال رنگ جھانک رہا ہوتا ، امّی دال چھلکوں سمیت پکاتی تھیں ، اُمّی کے بقول اصل غذایت چھلکوں میں ہوتی تھی ، مہمان آتے تو امّی دھلّی دال (چھلے بھگوکرا تارے ہوئے ) پکاتیں ۔
گھر آکر امّی کو بتایا ،
"ہاں ، حیدر آبادی دال ہو گی "،
امی بولی، "حیدرآبادی بہت کھاتے ہیں"
نمّو سمجھا، کہ شاید یہ بھی کوئی ایسی دال ہے جسےحیدرآبادی کے علاوہ دوسرے نہیں کھا سکتے -
خیر آپا اور نمّو اپنے گھر کے پاس گذرنے والی سڑک پر گیٹ سے گذر کر جاتے ، جہاں ایک سنتری کھڑا ہوتا ، جہاں سے ٹھیک 500 گز دور سڑک کے دائیں کنارے فٹ پاتھ پرایک درخت تھا جس کے پاس حکیم صاحب کی دکان تھی اور اوپر گھر ، جس کادروازہ پچھلی گلی میں تھا ۔ جہاں پہنچ کر نمّو کا پہلا مشن ختم ہوجاتا ۔
یہ سڑک ، نوشہرہ ریلوے سٹیشن سے آتی اور حکیم صاحب کی دکا ن کے سامنے سے گذرتی آخر میں بائیں طرف زیارت کاکا صاحب اور دائیں طرف نوشہرہ کشتیوں کے پل پر جی ٹی روڈ کو کراس کرتے ہوئے جاتی ۔
تو توجوانو ، جب نمّو اور اُس کی آپا مہینے میں ایک دفعہ جاتے تو خالہ جان اُنہیں کھانا ضرور کھلاتیں ، اُس اتوار نمّو نے بالکل ایسی ہی چٹخارے دار دال کھائی تھی ، جس میں اِملی بھی تھی ، آپا کو تو پسند نہ آئی ۔ لیکن نمّو نے ، چنیی سٹک کی طرح ، اپنی انگلیوں کی سٹک سے مزے لے کر کھائی ۔کوٹ تو اتار دیا تھا ، خالہ نےدونوں آستینیں اوپر چڑھا دی تھیں ، دال انگلیوں سے بہتی ہوئی کلائی سے لپٹتی اور کہنی تک جانے سے پہلے ہی نمّو چاٹ لیتا ، پلیٹ کو بالکل اچھی طرح صاف کیا ، کہ ملکہ مسور کے فراک کے گھسیٹنے کا نشان بھی پلیٹ پر نہ رہا ، انگلیوں کو بھی مزے سے چاٹا ۔
خالہ (حکیم صاحب کی بیگم) سے پوچھا ، تو معلوم ہوا یہ ملکہ مسور ہے ۔ اور نمّو نے یہ دال بھی پہلی دفعہ دیکھی ، کیوں کہ نمّو کے گھر جو دال سرکاری سٹور سے آتیں وہ آدھی ہوتی تھیں، جن سے لال رنگ جھانک رہا ہوتا ، امّی دال چھلکوں سمیت پکاتی تھیں ، اُمّی کے بقول اصل غذایت چھلکوں میں ہوتی تھی ، مہمان آتے تو امّی دھلّی دال (چھلے بھگوکرا تارے ہوئے ) پکاتیں ۔
گھر آکر امّی کو بتایا ،
"ہاں ، حیدر آبادی دال ہو گی "،
امی بولی، "حیدرآبادی بہت کھاتے ہیں"
نمّو سمجھا، کہ شاید یہ بھی کوئی ایسی دال ہے جسےحیدرآبادی کے علاوہ دوسرے نہیں کھا سکتے -
جون
میں، نمّو اپے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ اپنی دادی سے ملنے
میرپورخاص روانہ ہوا ، راولپنڈی چھوٹے ماموں، عبدالحنیف خان یوسف زئی ، کے ہاں دو دن ٹہرے ،مجبوری تھی کیوں کہ ٹرین راولپنڈی سے آگے نہیں جاتی تھی ، وہاں سے لاہور کی ٹرین لینا پڑتی تھی ۔ ہمارے بچپن میں ٹرین جنکشن ٹو جنکشن چلتی تھیں ، بڑا مزہ آتا تھا ۔ اب بچوں کے لئے کیا مزہ ، پشاور سے بیٹھو اور کراچی سٹی جا اترو ۔ ۔ ۔۔ !!
لاھور 3 دن ٹہرے کیوں کہ ساتھ ممانی اور اُن کے تین بچے بھی ساتھ ہولیے ۔ لاہور میں ممانی کے امی ابو رہتے تھے ۔ لاہور سے بہاولپور پہنچے ، جہاں نمّو کے منجھلے ماموں عبداللہ خان یوسف زئی ،مہاجر کالونی میں رہتے تھے وہاں ایک ہفتہ گذارا ۔
بہاولپور سے نوابشاہ پہنچے جہاں نمّو کے بڑے ماموں عبدالحکیم خان یوسف زئی رہتے تھے ۔ ہفتہ گذارنے کے بعد ، نوبشاہ سے ،چھوٹی ریل سے نمّو اپنے والدین کے ساتھ میرپورخاص دادی کے گھر پہنچا ۔
وہاں ، نمّو نے وہی ملکہ مسور کھائی ۔ نمّو کو شدید حیرانی ہوئی اور چلایا ،
" دادی یہ تو حیدر آبادی کھاتے ہیں !"
" ارے پوٹے کیا ہم حیدرآبادی نا ہوئیں "
نمّو کی ماں تو اجمیری تھی ۔ لیکن بیوی حیدرآبادی ملی ۔
پھر نمّو کو معلوم ہوا کہ بیویاں تو کھانوں کا ذائقہ ہی بدل دیتی ہیں ۔
لاھور 3 دن ٹہرے کیوں کہ ساتھ ممانی اور اُن کے تین بچے بھی ساتھ ہولیے ۔ لاہور میں ممانی کے امی ابو رہتے تھے ۔ لاہور سے بہاولپور پہنچے ، جہاں نمّو کے منجھلے ماموں عبداللہ خان یوسف زئی ،مہاجر کالونی میں رہتے تھے وہاں ایک ہفتہ گذارا ۔
بہاولپور سے نوابشاہ پہنچے جہاں نمّو کے بڑے ماموں عبدالحکیم خان یوسف زئی رہتے تھے ۔ ہفتہ گذارنے کے بعد ، نوبشاہ سے ،چھوٹی ریل سے نمّو اپنے والدین کے ساتھ میرپورخاص دادی کے گھر پہنچا ۔
وہاں ، نمّو نے وہی ملکہ مسور کھائی ۔ نمّو کو شدید حیرانی ہوئی اور چلایا ،
" دادی یہ تو حیدر آبادی کھاتے ہیں !"
" ارے پوٹے کیا ہم حیدرآبادی نا ہوئیں "
نمّو کی ماں تو اجمیری تھی ۔ لیکن بیوی حیدرآبادی ملی ۔
پھر نمّو کو معلوم ہوا کہ بیویاں تو کھانوں کا ذائقہ ہی بدل دیتی ہیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں