Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 21 اکتوبر، 2018

وہ مریض جو میں کبھی نہیں بھلا پاؤں ا

 🖋  زیر نظر چند واقعات ایک عرب بلاگر نے مختلف ڈاکٹروں کی یاداشتوں کو جمع کرکے بعنوان "وہ مریض جو میں کبھی نہیں بھلا پاؤنگا"  شائع کئے ہیں۔ ترجمہ کے بعد آپ کی نظر:
📌 1:- میں نے ایک بار، ایک ہی دن، ایک ہی ہسپتال میں، ایک ہی خاوند کی ایسی دو بیویوں کی دو مختلف کمروں میں ڈیلیوری کی جنہیں یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ دونوں ایک ہی مرد کی منکوحہ ہیں۔
 📌 2:- ایمرجنسی وارڈ میں، جان لیوا حادثے میں بچ جانے والے ایک نوجون کی خوشی دیدنی تھی، جو ملنے کیلیئے ہر آتے جاتے دوست رشتے داروں کو بتا رہا تھا کہ وہ کتنا خوش قسمت ہے جسے نئی زندگی مل گئی ہے۔ نوجوان کے اندرونی زخموں سے بہتے خون کی زیادتی سے یہ نوجوان چند ہی لمحوں بعد بازی ہار گیا۔
 📌 3:- سعودیہ میں کمائی کے لئے آیا ہوا ایک انڈین جو ایک خونی حادثے میں کٹا پھٹا ہسپتال میں پڑا تھا، بچوں کی طرح بلک بلک کر اس لئے رو رہا تھا کہ وہ یہاں پردیس میں اکیلا پڑا تھا اور حادثے کے وقت اس کے اپنے اس کے ساتھ نہیں تھے۔
 📌 4:- آپریشن کے ذریعے بچے کی ڈیلیوری کے بعد ڈاکٹر نے اسے صحت قرار دیکر گھر جانے کی پرچی لکھ دی۔ خاتون بچے کو لیے ، اس بات سے بے خبر انتظار کر رہی تھی کہ اس کے خاوند کا گھر سے آتے ہوئے راستے میں حادثہ ہوا ہے اور وہ ملک عدم کو سدھار چکا ہے۔ 📌 5:- ایک معمر عورت جو میرے زیر علاج تھی، ہر بار مجھ سے نسخہ لکھوا چکنے کے بعد میری جیب میں کبھی ٹافیاں اور کبھی دو ریال ڈال کر چلی جاتی تھی۔ 
📌 6:- ایک ماں اپنے نومولود بچے کے پاس، جسے انتہائی نگہداشت میں رکھ دیا گیا تھا، مامتا اور شفقت سے لبریز بار بار کہہ رہی تھی، میری جان، میں نے تیرا بیس سال انتظار کیا ہے۔
 📌 7:- ایک عمر رسیدہ مریضہ کو جیسے ہی میں نے کہا کہ: ماں جی اب آپ اپنے دل کے والو تبدیل کر ہی لیجیئے۔ خاتون نے حیرت زدہ ہوتے ہوئے مجھے دیکھتے ہوئے کہا: پُتر، ایمان سے مجھے یہ کرنا نہیں آتا، تو ہی کر دے ناں۔
 📌 8:- ایک بزرگ عورت ہسپتال کے کمرے میں اپنے ملاقاتی رشتہ داروں کو جب اپنے خاوند کی وجاہت اور عظمت کے قصے سنا رہی تھی، اس وقت اُن کے کمرے کے باہر پرچہ لکھا ہوا تھا کہ "ازراہ کرم ہماری والدہ کو مت بتائیے کہ ہمارے والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے"۔ 
📌 9:- ستتر سال کی بوڑھی عورت جیسے ہی اُس کے کچھ ٹیسٹ شروع کیئے گئے، اس کا ڈر دیدنی تھا۔ کہنے لگی: مجھے اپنی ساری زندگی میں ہمیشہ بس دو ہی چیزوں سے ڈر لگا ہے، ایک دانتوں کے ڈاکٹر سے، دوسرا اپنے خاوند کے غصے سے۔ 
📌 10:- میں نے جب ڈرتے ڈرتے اُسے اطلاع دی کہ آپ کو کینسر ہو چکا ہے تو اس کی سنجیدگی اور پرسکون دھیما پن دیدنی تھا، کہنے لگے: تو جسے کینسر نہیں ہے اُس نے نہیں مرنا کیا؟ کوئی علاج ویلاج ہے آپ کے پاس یا پھر میں جاؤں اپنے گھر؟ 
📌 11:- ایک عجیب الخلقت بچے کو جسے اُس کے سارے گھر والے ہسپتال میں ہی چھوڑ کر چلے تھے، ہم نے آخری کوشش کے طور پر بچے کے والد کو فون کیا تو اُس نے کہا: کسی یتیم خانے میں جمع کرا دو اسے۔ 
📌 12:- ایک بوڑھی عورت کو جب بتایا گیا کہ اُسے خبیث مرض کینسر ہو گیا ہے تو اُس کا غصہ دیدنی تھا۔ کہنے لگی: اللہ پاک بہت رحیم ہیں اور مرض بندے کیلیئے امتحان ہوتا ہے۔ وہ کس طرح اپنے بندوں کے لئے  خبیث مرض بنا سکتا ہیں۔ مرض مرض ہوتا ہے اور اسے بس مرض ہی کہو۔
 📌 13:- جاں بلب بوڑھی عورت کے کمرے سے نکلتے ہوئے نوجون بُڑبُڑا رہا تھا کہ اس بُڈھی نے تو باندھ کے رکھ دیا ہے۔  مجھے، اور بوڑھی عورت اندر نرسوں سے کہہ رہی کہ میرے بیٹے کو ابھی نہ جانے دو۔
 📌 14:- ایک عورت جس کا عجیب الخلقت بچہ پیدا ہوتے ہوئے ہی فوت ہو گیا تھا، اسکو گلے سے لگائے ہوئے رو رو کر کہہ رہی تھی؛ میری جان، تو میرے باقی کے بچوں سے زیادہ پیارا تھا۔ جا، اللہ کے حوالے میرے جگر گوشے۔
 📌 15:- اس کا باپ میرے پاس آیا تھا ایک بار روتے ہوئے بتایا تھا کہ بیٹے نے مجھ پر ہاتھ اُٹھایا ہے۔ اب اس کا بیٹا میرے پاس علاج کے لئے  آتا ہے۔ آٹھ سال ہوگئے ہیں، تین شادیاں کر چکا ہے، ابھی تک اولاد سے محروم ہے۔
 📌 16:- میں نے اُسے بتایا کہ تیرے بیٹے شاید آل اولاد والے عمل میں کمزور رہیں۔ شادی سے پہلے ان کے مناسب چیک اپ ضرور کرا لینا۔ کہنے لگا: میں نے اپنے خاندان میں ہی ایک شخص سے زیادتی کی تھی۔ لگتا ہے اس کی دعا پوری ہو گئی ہے۔
 📌 17:- اپنے باپ کے علاج کے لئے ہسپتال میں باپ کے ساتھ ہی رہ رہا تھا۔ باپ کے کمرے سے نکل کر ساتھ والے کمرے میں سوئے ہوئے مریض کی تیمار داری کے لئے  اندر چلا گیا۔ مریض نے روتے ہوئے کہا: پُتر، کئی مہینوں کے بعدڈاکٹروں اور نرسوں کے علاوہ کوئی بندہ اگر میرے کمرے میں آیا ہے تو وہ تم ہو۔
 📌 18:- عمر رسیدہ خاتون کو دل کے دورے میں جانبر کرنے کے لئے  سینے پر بجلی کے جھٹکے لگائے گئے۔ ہوش میں آنے پر اس نے سب سے پہلے اپنے کپڑے درست کیئے تھے اور سینہ ڈھانپتے غصہ سے پوچھنے لگی کہ مجھے کسی غیر مرد نے تو نہیں دیکھا؟ 
📌 19:- وہ چار دن سے مسلسل تڑپ رہا تھا اور اسکا باپ بار بار یہ ہی بولے جا رہا تھا کہ اسے زہر کا انجیکشن لگا کر مار دیں تاکہ اسکی جان چھوٹ جائے۔ مگر ہم ایسا نہیں کر سکتے تھے۔ بالآخر جب وہ خود ہی مر گیا تو اس کے باپ نے ہمیں بتایا کہ یہ اپنی ماں کو وہ مریض تھی تو مارا کرتا تھا اور گالیاں بکتا تھا۔ 

🛑 یہ تمام واقعات عبرت پکڑنے والوں کے لئے کافی ہیں۔ اللہ اس دنیا میں اپنے ہونے کا احساس دلاتا رہتا ہے، شکر کرے وہ انسان جس کو اللہ ہی وہ آنکھ دے جس سے ایسے واقعات سامنے آنے پر انسان توبہ کرلے۔
 فاعتبروا یااولی الابصار 
منقول
٭٭٭٭٭٭٭



ہفتہ، 13 اکتوبر، 2018

شگُفتہ نثر کی دوسری محفل مزاح نگارانِ قہقہہ آور


یہ بزم کی دوسری محفل، اکادمی ادبیات اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔۔۔ اس کی  روداد
13 اکتوبر
 2018
رحمان حفیظ -
انحراف کی میزبانی میں شگفتہ نثر کی دوسری قہقہہ بار نشست بارہ اکتوبر 2018 کی شام رائٹرز ہاوس اسلام آباد میں منعقد ہوئی جس میں فکاہی نثری تخلیقات پیش کی گئیں-
اس محفل زعفران زار میں لکھاریوں اور سامعین کی خآصی تعداد شریک ہوئی  جو اس سلسلے کی مقبولیت کی دلیل ہے۔

شگفتہ نثر کی اس نشست کا خاکہ  تبسم کدہ میں جناب آصف اکبر کا ایک مزاحیہ مضمون پڑھ عزیز فیصل کے ذہن میں آیا۔ انہوں ںے آصف اکبر صآحب کومیسیج کیا کہ آپ شگفتہ نثر کی ایک خدمت کر سکتے ہیں کہ ایک فورم مزاحیہ نثر کا بنائیں۔ 
یوں  30 ستمبر کو پہلی محفل آصف اکبر صاحب کے گھر پر منعقد ہوئی۔
 جس میں ۔آصف اکبر   ، میجر (ر) نعیم  الدین خالد،ڈاکٹر فخرہ نورین ، محترمہ حبیبہ طلعت ،  ڈاکٹر عزیز فیصل ،   میجر (ر)   عاطف مرزا     -ارشد محمود ، یعقوب آسی،     سعید سادھو اور محمد عارف  شامل ہوئے ۔
اب ارشد محمود سے رائٹر پاوس اکادمی ادبیات میں دوسری ماہانہ محفل مناثرہ مورخہ 12 اکتوبر 2018 کا آنکھوں سہا حال
ڈاکٹر عزیز فیصل صاجب کے بہکاوئے میں پنڈی اسلام اباد اور واہ کے فکاہیہ ناثرین و نثاران فکاہیہ نثر سمیت کچھ سنجیدہ ہیوئ ویٹس بھی نجانے کس لالج میں کشاں کشاں کھچے چلے آئے.
پاکستانی اوپنرز کی طرح عزیز فیصل و فاخرہ نورین کے سست و جارحانہ بیٹنگ کے آغاز سے ہی تتمہ بالخیر خطرہ میں نظر آیا. البتہ ون اور ٹو ڈاون پر محترمہ حبیبہ طلعت اور گجرانوالہ سے تشریف لائے سلیم مرزا صاحب نے خوب سنبھالا دیا. بالخصوص سلیم مرزا صاجب نے چست جملوں سے حاضرین کو خوب ہنسایا. مڈل آڈر نے ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کیا جس میں نعیم الدین خالد صاحب ، آصف اکبر صاحب معروف مزاجیہ شاعر محترم سرفراز شاہد صاحب نے سلیقہ سے لکھی لطیف نثر پیش کی. 

ان سے پہلے اصغرمال کالج سے ایک باقایدہ مزاحیہ نثر نگار ڈاکٹر صاحب جن کا نام بھول رہا ہوں نے آنٹیاں کے عنوان سے مضمون پیش کیا جو اچھا تھا پر طوالت کے باعث کٹ کرنے سے کچھ بے اثر ہوا. 
محترم سرفراز شاہد صاحب نے مزاحیہ شاعری کو نثر کے ورق میں لپیٹ کر پیش کیا. آواخر کی طرف عاطف مرزا کی مخصوص جگالی نے لطف دیا. سعید سادھو صاحب نے اپنا رنگ جمایا. 
اس سارے عمل میں مجھے برادران رحمان حفیظ, حفیظ اللہ بادل اور ظفر عمران بمعہ ایک عدد معصوم پسر بنام عیسی کے ساتھ ساتھ اپنے علاوہ ایک اور پرفیشنل سامع گیلانی صاحب اور محترمین ڈاکٹر عابد سیال, مجبوب ظفر اور بالخصوص جناب حمید شاہد صاحب پر رہ رہ کر ترس آتا رہا جو شاید اس سب کی تیاری کر کے نہیں آئے تھے.
سننا واقعی ہم ایسے سامعین ہی کا کام ہے- 

حمید شاہد صاحب کے چہرہ پر عیاں تھکاوٹ کو محسوس کرتے ہوئے ڈاکٹر مظہر رضوی صاحب اور میں نے ترس کھا کر سنانے سے گریز کیا. ڈاکٹر مظہر صاحب نے کس کی قربانی دی نہیں معلوم پر میں نے بطور خاص اس پروگرام کے لیے لکھا رحمان حفیظ صاحب کا مختصر خاکچہ از خود نوٹس کے تحت حمید شاہد صاحب کو دور سے دکھا کر حذف کر دیا اور جوابا قدرت نے نماز مغرب کے بدلے محترم حمید شاہد صاحب کے شگفتہ مضمون سے محروم رکھا. 
غالبآ یہ وہ وقت تھا جب ڈاکٹر ناہید، شگفتہ نثرانے میں حسب مشاعرہ ڈیزھ گھنٹہ تاخیر سے پہنچیں اور یقینأ حمید شاہد صاحب کے مضمون سے مستفید ہوئی ہونگی. مجھے بوجہ مجبوری جلد رخصت ہونا پڑا البتہ میں نکلتا تھا کہ برادرم السلام الدین اسلام اکادمی میں دخیل ہو رہے تھے.
اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو یہ دوسرا نومولد مناثرہ ہیوی ویٹس کے بوجھ تلے کچھ دب سا گیا. اس میں یقینأ منتظمین کے لئے نشانیاں ہیں اگر وہ دیکھیں تو.
 
جناب آصف اکبر اپنا مضمون سناتےہوئے -
جناب نعیم الدین خالد اپنا مضمون ، رنگروٹ سے آفیسر تک   سناتے ہوئے !
جناب ڈاکٹر عزیز فیصل اپنا مضمون سناتے ہوئے !
جناب ارشد محمود صاحب اپنا مضمون سناتے ہوئے ۔
محترمہ ڈاکٹر فاخرہ نورین نے اپنا مضمون سنایا۔

محترمہ حبیبہ طلعت نے اپنا مضمون سنایا


 اگلی نشست  10 نومبر کو میں منعقد ہو گی-

(مبصّر -  رحمٰن حفیظ)
٭٭٭٭٭٭واپس جائیں٭٭٭٭٭٭

تبدیلی آخر ہمیں کیوں نظر نہیں آتی


ایک مراثی کے پاس کمزور اور لاغر گھوڑا تھا ۔

وہ مویشی منڈی میں میں اپنا  گھوڑا بیچنے کے لیے بولی دے رہا تھا۔
 ریٹ بہترین گھوڑوں سے بھی زیادہ مانگ رہا تھا ۔
خریداروں  نےپوچھا ،
" گھوڑا تو تمھارا  ، کانگڑی نسل کا ہے ،  کمزور ہے، مگر ریٹ  اصیل گھوڑے کا مانگ رہے ہو ؟
مراثی نے جواب دیا،"
  احمقو !   ریٹ تو میں گھوڑے کی خوبیوں کی وجہ سے مانگ رہا ہوں!  جو اس پر بیٹھتا ہے اسے مکہ مدینہ نظر آتا ہے "
یہ بات بریکنگ نیوز  بن کر ملک میں پھیل گئی ،

" ملک میں ایک ایسا گھوڑا ہے ، جس پر بیٹھنے والوں کو  ، مکہ و مدینہ نظر آتا ہے "
یہ خبر بادشاہ کے پاس بھی پہنچ  گئی ۔
وہ 
وزیروں کے ساتھ منڈی پہنچا۔

 بادشاہ نے مراثی سے پوچھا ،"یہ بتاؤ کہ اِس  ٹٹو نما گھوڑے  پر بیٹھنے والے کو مکہ و مدینہ نظر آتا ہے ؟"
" جی حضور " مراثی نے کہا
"اگر تیری  بات سچ ہوئی،  تو تمھیں منہ مانگا انعام دیا جائے گا  ، یہ گھوڑا شاہی ملکیت بن جائے گا ،  ورنہ  تیرا سر  قلم کر دیا جائے گا " بادشاہ  بولا  


" جی حضور ، مجھے منظور ہے " مراثی نے کہا
بادشاہ  نے وزیر کو حکم دیا ،

"  گھوڑے پر بیٹھ کر دیکھو !   یہ شخص سچ کہتا ہے "
اِس سے پہلے کہ وزیر گھوڑے کی رکاب پر پاؤں رکھتا ،  مراثی بولا ،
"بادشاہ سلامت جان کی امان پاؤں، تو ایک عرض کروں!"
"اجازت ہے " بادشاہ بولا
" حضور والا ،  مکہ و مدینہ  صرف اُس کو ہی نظر آئے گا جس نے حلال  کھایا  ہوگا"
مراثی نے کہا
 وزیرگھوڑے پر بیٹھا اور  ادھر ادھر دیکھنے لگا ، لیکن اُسے کچھ نظر نہ آیا، اِس سے پہلے وہ یہ کہتا ، لیکن اُسے  مراثی کی وہ حلال والی بات یاد آ گئی ۔
 وزیرحیرت سے  بولا ،" وہ دیکھو مدینہ  !   واہ  سبحان اللہ ، سبحان اللہ  ، معجزہ ہے معجزہ "
بادشاہ نے وزیر کو جلدی سے کہا ،

"نیچے آؤ!"
بادشاہ جلدی سے گھوڑے پر بیٹھا اور دائیں بائیں  دیکھا  اور  سامنے دیکھ کر چلایا ،

"  ماشاءاللہ!  مجھے تو مدینہ بھی اور مکہ بھی نظر آ رہا ہے "
مراثی نے گھوڑے کی رقم اور انعام کرام پکڑا اور مسکراتے ہوئے چل دیا ۔


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭  
 یہی کچھ حال اس وقت ہمارے پی ٹی آئی والے بھائیوں کا ہے، تبدیلی صرف انہیں ہی  نظر آ رہی ہے!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اُس کے بعد  تبدیلی کا اگلا مرحلہ جو بادشاہ نے شروع کیا وہ اُس سے بھی عجیب تھا ۔ 
واپس محل جاتے ہوئے ، وزیر باتدبیر کو  ایک خیال سوجھا اور بادشاہ  کے گوش گذار کیا ، بادشاہ نے فوراً منظوری دے دی ۔
شہر میں کچھ مالدار و  زبان دراز قسم کے لوگ تھے ،  وزیر   نے سپہ سالار کو حکم دیا کہ  کہ ایک ادارہ بناؤ اور  شہر کے جن لوگوں کی لسٹ میں دوں ، اُنہیں باری باری محل میں بلایا جائے ۔
کہا جاتا ہے کہ بادشاہ نے 50 افراد کی لسٹ بنائی اور وزیر باتدبیر کو دی ۔
تاکہ اُن کا گھوڑا ٹیسٹ کیا جائے !
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭






جمعہ، 12 اکتوبر، 2018

سلام ٹیچر

تصویر نمبر : 1 پنجاب یونیورسٹی کے بزرگ اساتذہ کی ہے
تصویر نمبر 2 :سیکٹروں معصوموں کے مبینہ قاتل راؤ انوار کی ہے
تصویر نمبر 3 :پاکستان کے ڈاکوؤں کے  5 لاکھ ڈالر  پر مشتمل  ناجائز دولت غیر ممالک منتقل کرنے والی مبینہ ملزمہ کی ہے، جو ائرپورٹ کی حدود میں گرفتار ہوئی ، رہاہوئی اور   بیرونِ ملک چلی گئی -


 یہ محض تین تصاویر نہیں بلکہ نظام انصاف کے منہ پر تین تھپڑ ہیں ۔
جہاں اختیارات سے تجاوز کرنے والے اساتذہ ہتھکڑیوں میں پیش کئے جاتے ہیں وہیں ،
قاتل اور لٹیرے عدالتوں میں اس طرح پیش ہوتے ہیں جیسے بدتمیز داماد اپنے غریب سسرال آتا ہے !!

اتوار، 7 اکتوبر، 2018

3550 پاکستانی دبئی میں صاحبِ جائداد

  آج صبح مجھے دبئی  میں پراپرٹی رکھنے والوں کی پی ڈی ایف فائل وٹس ایپ ہوئی ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میں مئی 2018 میں فجیرہ میں رہنے والے ایک 1937 پاکستانی سپاہی کو ملا۔
جس کے والد پہلی جنگِ عظیم میں فجیرہ میں برٹش فوجیوں کے ساتھ ڈرائیور تھا ، جس نے برٹش کے جانے کے بعد وہیں امیر کے پاس ملازمت کر لی ۔
 یہ 80 سالہ اے ایس سی کا ڈرائیور فوجی پاکستان میں اپنی ماں کے پاس دیگر بہن اور بھائیوں کے ساتھ رہا ۔ 
مشرقی پاکستان ، 1965 اور 1971 کی جنگ لڑی قیدی بنا اور 1973 میں ر ہا ہو کر پاکستان آیا ، ریٹائر ہوا اور ریٹائرمنٹ کے بعد فجیرہ، اپنے  باپ کے پاس آگیا۔
 باپ کیوں کہ دبئی نیشنل بن کر فوت ہو ا لہذا اُس کی جائداد ، یعنی ایک کچا مکان اور ایک ٹرک اِس کو ورثے میں ملا ،گو کہ اُسے نیشنلٹی نہیں ملی ،لیکن رہائشی سٹیٹس مل گیا ۔
  اِس فوجی نے 1973  میں محنت  شروع کی اب اُس کے فجیرہ دبئی ٹرک چلتے ہیں ، فجیرہ میں ایک بلڈنگ ، شارجہ میں ایک اور دبئی میں تین خان پارکنگ ہیں ۔
 یہ خان بنگش  ہے اور پاکستانی  ہے ۔ پاکستان میں اِن کے مکان اور پلازے ہیں ۔
 ارب پتی یہ خاندان بھی شاید اِس لسٹ میں اُن چوروں کے ساتھ ہوگا ، جن کی لسٹ  پاکستانی ایمانداروں نے شائع کی اور مجھے بھی وٹس ایپ ہوئی ہے ۔
 دبئی میں بنگش  ملازم  ، ڈرائیور اور بلڈنگوں کے مالک چھائے ہوئے ہیں ۔ جو پاکستان سے رقم منی لانڈنگ یا عمرانی ہنڈی کے ذریعے باہر اور پاکستان میں لاتے ہیں ۔ 
اِس  80 سالہ سابق پاکستانی فوجی ڈرائیور کے بیٹے  نے یہ داستان مجھے  ، پہلی بار  فجیرہ سے راس الخیمہ  فیملی کے ساتھ 7 سیٹر ٹیکسی میں لے  جاتے ہوئے سنائی  ،  میں  اِس کی 7 سیٹر ٹیکسی  میں  ،    فجیرہ سے دبئی   بھی گیا ۔
اُس نے کہا، " سر اگر آپ  کے بیٹے نے آپ کو پیسے بھجوانے ہوں تو مجھے بتانا ، آپ کو وہاں بنک سے زیادہ پیسے ملیں گے ، وہ بے شک پیسے ہمیں یہاں نہ دے ، بس مجھے بتائے ، کہ وہاں اتنے درہم ادا کر دو !"

 پاکستان ، امریکہ ، کینیڈا ، لندن ، عمارات اور سعودیہ سے آپ ہنڈی کا کاروبار ختم نہیں کرسکتے ، کیوں کہ منی چینجر کے علاوہ ، برسوں سے پاکستان سے باہر بسنے والے خاندان یہ کام کر رہے ہیں ، گو تھوڑے پیمانے پر کر رہے ہیں ، لیکن ہو رہا ہے ، جس سے پاکستان سے باہر گئے محنت کش طبقہ کے والدین ، گذارہ کر رہے ہیں ۔ 
یاد رہے ، فیملی ہنڈی کا یہ کاروبار ، ڈالروں یا ریالوں میں نہیں ہوتا کہ پاکستان کو  فارن ایکسچینج کا فائدہ ہو !پاکستانی روپوں میں ہوتا ہے !
لیکن پاکستان میں ماں باب یا بیوی کو  بھیجی جانے والی یہ رقم کتنی ہے  !
  میرے اندازے کے مطابق  کم ازکم فی محنت کش 500 ڈالر یا 1000 درہم (ریال )

 یعنی آج آپ  1000 ریال دیں اور شام سے پہلے روپے میں متبادل رقم بغیر کسی کمیشن کے لے لیں !
کیا پاکستانی بنک ایسا کر سکتے ہیں ؟
نہیں نا !

یہی وجہ ہے کہ یہ رقم پاکستان کے معیشت میں ظاہر نہیں ہورہی ، لیکن اِس رقم سے پلاٹ ، گاڑیاں  اور مکان خریدے جا رہے ہیں ، 
جی ہاں اِسی رقم سے  وہ لوگ خرید رہے ہیں جن کی کوئی آمدنی نہیں !
لہذا  وہ ٹیکس  پیئر کیسے بنیں ؟
 کیا کوئی ایسا طریقہ ہے ، کہ  باہر سے آنے والی یہ رقم ، غیر ملکی کرنسی میں پاکستان میں آئے ؟
پاکستانی عقلمندوں  اور تبدیلی کا  نعرہ لگانے والوں  ضرور سوچنا چاہیئے  !
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مہاجر زادہ کی رائے میں تجویز و حل !
کہ حکومتِ پاکستان ایسا کیا طریقہ اختیار کرے کہ ، تارکینِ وطن اور محنت کش    ، فیملی منی چینجر کے بجائے ،اپنے اکاونٹ  سے پاکستانی سفارت خانے کے اکاونٹ میں آن لائن ، درہم ، ریال ، پونڈ یا ڈالر جمع کروائیں ۔ 
جس کی اطلاع ، سٹیٹ بنک سے ہوتی ہوئی ، اُن کے والدین کے  بنک اکاونٹ میں پہنچے۔ جس  کاونٹ کو کھولنے کا طریقہ نہایت آسان ہو! 
٭- باہر سے رقم بھیجنے والے کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ
٭- جس کے لئے رقم بھیجی جائے اُس کا اور اُس کے وارث کا شناختی کارڈ اور  تصدیق شدہ موبائل نمبر وتصاویر۔
٭-   قصبہ، گاؤں یا کالونی   جہاں رقم منگوانا ہو  ۔ وہاں کا مکمل ایڈریس ۔
٭- لوکل بنک کے پاس ، قصبے کے "ایزی پیسہ اکاونٹ آؤٹ لیٹ "  کی رجسٹریشن اور اَپ ٹوڈیٹ ریکارڈ ۔ 
٭- جوں ہی  رقم  قصبے کے بنک میں پہنچے ،تو بنک کے پاس خودبخود ، رقم لینے والے کا شناختی کارڈ نمبر   پر اکاونٹ   جنریٹ ہوجائے ۔جہاں سے رقم اکاونٹ ہولڈر کے اکاونٹ میں منتقل ہوجائے ۔اگر اکاونٹ نہ ہو تو  "ایزی پیسہ اکاونٹ آؤٹ لیٹ "کے پاس چلی جائے ۔ اور اِس کی اطلاع  رقم بھجوانے والے کے موبائل پر ایس ایم ایس ہوجائے ۔
 ٭- رقم لینے والا ،"ایزی پیسہ اکاونٹ آؤٹ لیٹ "سے یہ  رقم نکلوالیں ۔ 
نوٹ:
٭- حکومت جہاں سبسڈی پر اتنی رقم لٹاتی ہے ،اسٹیٹ بنک اِس ٹرانزیکشن میں   بننے والا کمیشن  اور ایس ایم ایس چارجز  قصبے کے بنک اور
"ایزی پیسہ اکاونٹ آؤٹ لیٹ "کو دے دیں ۔

٭- تمام سفارت خانے ، یہ فارن کرنسی ہر مہینے ،حکومت پاکستان کے ورلڈ بنک کے اکاونٹ میں، یہ رقوم ٹرانسفر کروادیں ۔
 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 
مکرر: بالا مضمون پوسٹ  کرنے کے بعد ایک دوست نے یہ کلپ وٹس ایپ کیا ۔ 

ہفتہ، 6 اکتوبر، 2018

میرےپریوار کا ۔ کینسر

 بھارتی اور پاکستانی ڈرامے دیکھ دیکھ کر پاکستان کی عورتوں میں ایک خاص قسم کا کینسر پیدا ہو چکا ہے اور وہ کینسر ہے "میرےپریوار" کا کینسر ۔
پہلے تین تین خاندان اکٹھے رہتے تھے ۔اگر ایک بڑا بھائی سب سے زیادہ کمانے والا ہوتا،  تو وہ باقی بھائیوں کے بچوں کی سکول کی فیس دیتا، گھر کے بل جمع کرا دیتا یا سودا سلف منگوا دیتا تھا۔ وہی بڑا بھائی عیدین پر کپڑے کے تھان خرید لاتا ، جس سے سب گھر والوں کے ایک جیسے کپڑے بنتے تھے۔

سب بھائی ، پیسےکما  کر ماں کے ہاتھ پر رکھتے  اور ماں بڑی بہو کو تھما کر گھر کے مرکز میں تخت پر بیٹھ کر ، ہاتھ میں تسبیح گھماتی  ، پوتے پوتیوں ، نواسے نواسیوں اور گھر میں آنے والے دیگر بچوں کو   ، ڈبوں سے نکال نکال کر کچھ نہ کچھ میٹھا کھانے کو دیتی رہتی ، بچے بھی دادی ماں سے چپکے رہتے ۔
اور اس بڑے بھائی کا روزگار روز بروز  ترقی کرتا رہتا تھا، اور دوسرے بھائیوں کے رزق میں بھی برکت ہوتی ۔

بڑے بھائی   کی بیوی بھی ماں بن کر سارے گھر کو سنبھالتی اور  ساس سسر ،دیوروں ، نندوں ، رشتہ داروں اور مہمانوں ، سب کی ضروریات کا خیال رکھتی تھی۔
یعنی جتنا بڑا دل بیوی کا، اتنا ہی بڑا دل شوہر کا۔ تو ان کا رزق بھی کھل جاتا تھا۔ 

خاندان میں عزت بھی ہوتی تھی۔
پھر ایسا ہوا کہ  معاشرے میں ایک کینسر نے جنم لیا اور وہ کینسر تھا ،  

بہو کی تلاش میں خاندان، شرافت، دینداری چھوڑ کر شکل، فیشن، مال اور تعلیم سے لگنے والا کینسر ۔
ایسی ایسی کم ذات حسینائیں بہو  بن کر جب گھروں میں گھسائی گئیں تو انہوں نے رنگ دکھانے شروع کئے۔
پھر "میرے پریوار" والا  کینسر  بچوں کے ساتھ ہی پیدا ہونے لگا۔
ارے تم نے ٹھیکا اٹھایا ہوا ہے اُن کے بچوں کا؟
میرے بچوں کا حق تم انہیں نہیں کھلا سکتے!
ارے تمہاری بہنیں کب تک تمھاری کمائی پر عیش کریں گی؟
میرے بچوں کا حق تم انہیں نہیں کھلا سکتے؟
ارے ہم نے کوئی یتیم خانہ نہیں کھول رکھا!
میرے بچوں کا حق تم انہیں نہیں کھلا سکتے!
اور جب شوہر صاحب نے بیوی کی باتیں ماننا شروع کیں،  تو گھر سے رزق  برکت  اُٹھنا شروع ہو گئی ۔
آپ نے غور کیا ہی ہوگا ایسے لوگوں پر؟

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہمارے خاندان میں ایک گھر ایسا ہے  جس میں سات بھائی رہتے ہیں۔ بہت بڑا گھر ہے اور سات خاندان ہیں۔ تین بہنیں شادی شدہ ہیں اور دوسرے شہروں میں رہتی ہیں۔
اتنے بڑے خاندان کو  والدین کی وفات  کے بعد ، صرف ایک بڑے بھائی نے سنبھال رکھا ہے۔
وہ شخص گھر نہیں آ سکتا۔ سارا وقت زمینداری کھیتوں کی دیکھ بھال، لوگوں کے مسائل سننا ، حل کرنا۔
خاندان کے سارے کے سارے معاملات اور سب کے بچوں اور بیویوں کی ضروریات کا خیال رکھنا, کھانا پکانے سے لیکر تعلیم اور سب کو اتفاق سے رکھنا اس کی بیوی کرتی ہے۔
وہ زیادہ عمر کی نہیں نہ ہی کوئی بہت حسین عورت ہے نہ ہی زیادہ تعلیم یافتہ۔ 

مشقت اور عدل اسکے چہرے سے ٹپکتے ہیں مگر اسکے زندہ دل قہقہے اور ہنستا مسکراتا چہرہ اس سے محبت کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
اس کی ایک بات مجھے بہت پسند ہے۔
سنیں
اور اپنی بیویوں کو بھی سنائیں!
جب اللہ نے میرے شوہر کو پسند فرمایا ہے کہ اس کے ہاتھ سے گھر کے تمام افراد کو رزق ملے تو میں کیوں بیچ میں آؤں؟
میں اگر کہوں ، کہ  میرے بچوں کا حق دو، جسے بھائیوں کے بچوں کو کھلا رہا ہے تو کیا خبر میرے بچوں کے نصیب میں اتنا رزق ہی نہ ہو جو وہ کھا رہے ہیں ؟
کیا خبر ہمیں ان بھائیوں کے بچوں کے نصیب سے ہی مل رہا ہو؟
کیا خبر کس خاندان میں کس کا خوش نصیب  بچہ ہے کہ جس کے مقدر سے ہمیں بھی رزق  نصیب ہو رہا ہے؟
اگر میں اپنا گھر ، اپنا گھر اور اپنے بچے ،اپنے بچے کرنے لگ گئی تو مجھے وہی ملے گا جو میرے مقدر میں ہے۔ اور مجھے مقدر سے ڈر لگتا ہے کہیں ایسا ہی نہ ہو کہ جو دوسروں کے نصیب سے ہمیں مل رہا ہے وہ بھی چھن جائے۔
نہ بابا مجھے بہت ڈر لگتا ہے کہ میرے منہ سے ایسا کچھ نہ نکلے!

 بس اللہ ہمیں دے رہا ہے اور ہم ایمانداری سے حقداروں تک ، اُن کا حق  پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ورنہ ہماری کیا اوقات کہ ایک پرندے کو بھی کھلا سکیں!

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اور ایک ایسی خاتون بھی گزری ہیں ، جنہوں نے اپنے کینسر  کی بدولت اپنا ہنستا بستاامیر کبیر گھرانہ اجاڑ دیا۔
شوہر کو سب سے دور کیا۔ سب سے جھگڑے کئے مگر آخر میں گھر میں ایسے فاقے پڑے کہ خود تو رخصت ہوگئیں ،مگرشوہر اور اولاد کو برباد کرکے فاقوں کا شکار کر گئیں۔
اللہ نے اگر آپکو اس قابل بنایا ہے کہ وہ آپکے ہاتھ سے کسی کا رزق پہنچا رہا ہے تو اسے اپنی خوش قسمتی سمجھیں۔ نہ کہ اس پر تکبر کریں۔
اپنے گھر کی عورتوں کو سمجھائیں۔
سمجھانا آپکا کام ہے۔ ورنہ یہ کم عقل بیویاںسب برباد کر کے آخر میں آنسو بہا کر آپ پر ہی الزام لگائیں گی کہ اگر میں غلط کر رہی تھی تو تم نے مجھے روکا کیوں نہیں؟
ابھی بھی وقت ہے سب کچھ ٹھیک کر لیں۔




خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔