آج صبح مجھے دبئی میں پراپرٹی رکھنے والوں کی پی ڈی ایف فائل وٹس ایپ ہوئی ۔
جس کے والد پہلی جنگِ عظیم میں فجیرہ میں برٹش فوجیوں کے ساتھ ڈرائیور تھا ، جس نے برٹش کے جانے کے بعد وہیں امیر کے پاس ملازمت کر لی ۔
یہ 80 سالہ اے ایس سی کا ڈرائیور فوجی پاکستان میں اپنی ماں کے پاس دیگر بہن اور بھائیوں کے ساتھ رہا ۔
مشرقی پاکستان ، 1965 اور 1971 کی جنگ لڑی قیدی بنا اور 1973 میں ر ہا ہو کر پاکستان آیا ، ریٹائر ہوا اور ریٹائرمنٹ کے بعد فجیرہ، اپنے باپ کے پاس آگیا۔
باپ کیوں کہ دبئی نیشنل بن کر فوت ہو ا لہذا اُس کی جائداد ، یعنی ایک کچا مکان اور ایک ٹرک اِس کو ورثے میں ملا ،گو کہ اُسے نیشنلٹی نہیں ملی ،لیکن رہائشی سٹیٹس مل گیا ۔
اِس فوجی نے 1973 میں محنت شروع کی اب اُس کے فجیرہ دبئی ٹرک چلتے ہیں ، فجیرہ میں ایک بلڈنگ ، شارجہ میں ایک اور دبئی میں تین خان پارکنگ ہیں ۔
یہ خان بنگش ہے اور پاکستانی ہے ۔ پاکستان میں اِن کے مکان اور پلازے ہیں ۔
ارب پتی یہ خاندان بھی شاید اِس لسٹ میں اُن چوروں کے ساتھ ہوگا ، جن کی لسٹ پاکستانی ایمانداروں نے شائع کی اور مجھے بھی وٹس ایپ ہوئی ہے ۔
دبئی میں بنگش ملازم ، ڈرائیور اور بلڈنگوں کے مالک چھائے ہوئے ہیں ۔ جو پاکستان سے رقم منی لانڈنگ یا عمرانی ہنڈی کے ذریعے باہر اور پاکستان میں لاتے ہیں ۔
اِس 80 سالہ سابق پاکستانی فوجی ڈرائیور کے بیٹے نے یہ داستان مجھے ، پہلی بار فجیرہ سے راس الخیمہ فیملی کے ساتھ 7 سیٹر ٹیکسی میں لے جاتے ہوئے سنائی ، میں اِس کی 7 سیٹر ٹیکسی میں ، فجیرہ سے دبئی بھی گیا ۔
اُس نے کہا، " سر اگر آپ کے بیٹے نے آپ کو پیسے بھجوانے ہوں تو مجھے بتانا ، آپ کو وہاں بنک سے زیادہ پیسے ملیں گے ، وہ بے شک پیسے ہمیں یہاں نہ دے ، بس مجھے بتائے ، کہ وہاں اتنے درہم ادا کر دو !"
پاکستان ، امریکہ ، کینیڈا ، لندن ، عمارات اور سعودیہ سے آپ ہنڈی کا کاروبار ختم نہیں کرسکتے ، کیوں کہ منی چینجر کے علاوہ ، برسوں سے پاکستان سے باہر بسنے والے خاندان یہ کام کر رہے ہیں ، گو تھوڑے پیمانے پر کر رہے ہیں ، لیکن ہو رہا ہے ، جس سے پاکستان سے باہر گئے محنت کش طبقہ کے والدین ، گذارہ کر رہے ہیں ۔
یاد رہے ، فیملی ہنڈی کا یہ کاروبار ، ڈالروں یا ریالوں میں نہیں ہوتا کہ پاکستان کو فارن ایکسچینج کا فائدہ ہو !پاکستانی روپوں میں ہوتا ہے !
لیکن پاکستان میں ماں باب یا بیوی کو بھیجی جانے والی یہ رقم کتنی ہے !
میرے اندازے کے مطابق کم ازکم فی محنت کش 500 ڈالر یا 1000 درہم (ریال )
یعنی آج آپ 1000 ریال دیں اور شام سے پہلے روپے میں متبادل رقم بغیر کسی کمیشن کے لے لیں !
کیا پاکستانی بنک ایسا کر سکتے ہیں ؟
نہیں نا !
یہی وجہ ہے کہ یہ رقم پاکستان کے معیشت میں ظاہر نہیں ہورہی ، لیکن اِس رقم سے پلاٹ ، گاڑیاں اور مکان خریدے جا رہے ہیں ،
جی ہاں اِسی رقم سے وہ لوگ خرید رہے ہیں جن کی کوئی آمدنی نہیں !
لہذا وہ ٹیکس پیئر کیسے بنیں ؟
کیا کوئی ایسا طریقہ ہے ، کہ باہر سے آنے والی یہ رقم ، غیر ملکی کرنسی میں پاکستان میں آئے ؟
پاکستانی عقلمندوں اور تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں ضرور سوچنا چاہیئے !
کہ حکومتِ پاکستان ایسا کیا طریقہ اختیار کرے کہ ، تارکینِ وطن اور محنت کش ، فیملی منی چینجر کے بجائے ،اپنے اکاونٹ سے پاکستانی سفارت خانے کے اکاونٹ میں آن لائن ، درہم ، ریال ، پونڈ یا ڈالر جمع کروائیں ۔
جس کی اطلاع ، سٹیٹ بنک سے ہوتی ہوئی ، اُن کے والدین کے بنک اکاونٹ میں پہنچے۔ جس کاونٹ کو کھولنے کا طریقہ نہایت آسان ہو!
٭- باہر سے رقم بھیجنے والے کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ
٭- جس کے لئے رقم بھیجی جائے اُس کا اور اُس کے وارث کا شناختی کارڈ اور تصدیق شدہ موبائل نمبر وتصاویر۔
٭- قصبہ، گاؤں یا کالونی جہاں رقم منگوانا ہو ۔ وہاں کا مکمل ایڈریس ۔
٭- لوکل بنک کے پاس ، قصبے کے "ایزی پیسہ اکاونٹ آؤٹ لیٹ " کی رجسٹریشن اور اَپ ٹوڈیٹ ریکارڈ ۔
٭- جوں ہی رقم قصبے کے بنک میں پہنچے ،تو بنک کے پاس خودبخود ، رقم لینے والے کا شناختی کارڈ نمبر پر اکاونٹ جنریٹ ہوجائے ۔جہاں سے رقم اکاونٹ ہولڈر کے اکاونٹ میں منتقل ہوجائے ۔اگر اکاونٹ نہ ہو تو "ایزی پیسہ اکاونٹ آؤٹ لیٹ "کے پاس چلی جائے ۔ اور اِس کی اطلاع رقم بھجوانے والے کے موبائل پر ایس ایم ایس ہوجائے ۔
٭- رقم لینے والا ،"ایزی پیسہ اکاونٹ آؤٹ لیٹ "سے یہ رقم نکلوالیں ۔
نوٹ:
٭- حکومت جہاں سبسڈی پر اتنی رقم لٹاتی ہے ،اسٹیٹ بنک اِس ٹرانزیکشن میں بننے والا کمیشن اور ایس ایم ایس چارجز قصبے کے بنک اور "ایزی پیسہ اکاونٹ آؤٹ لیٹ "کو دے دیں ۔
٭- تمام سفارت خانے ، یہ فارن کرنسی ہر مہینے ،حکومت پاکستان کے ورلڈ بنک کے اکاونٹ میں، یہ رقوم ٹرانسفر کروادیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میں مئی 2018 میں فجیرہ میں رہنے والے ایک 1937 پاکستانی سپاہی کو ملا۔جس کے والد پہلی جنگِ عظیم میں فجیرہ میں برٹش فوجیوں کے ساتھ ڈرائیور تھا ، جس نے برٹش کے جانے کے بعد وہیں امیر کے پاس ملازمت کر لی ۔
یہ 80 سالہ اے ایس سی کا ڈرائیور فوجی پاکستان میں اپنی ماں کے پاس دیگر بہن اور بھائیوں کے ساتھ رہا ۔
مشرقی پاکستان ، 1965 اور 1971 کی جنگ لڑی قیدی بنا اور 1973 میں ر ہا ہو کر پاکستان آیا ، ریٹائر ہوا اور ریٹائرمنٹ کے بعد فجیرہ، اپنے باپ کے پاس آگیا۔
باپ کیوں کہ دبئی نیشنل بن کر فوت ہو ا لہذا اُس کی جائداد ، یعنی ایک کچا مکان اور ایک ٹرک اِس کو ورثے میں ملا ،گو کہ اُسے نیشنلٹی نہیں ملی ،لیکن رہائشی سٹیٹس مل گیا ۔
اِس فوجی نے 1973 میں محنت شروع کی اب اُس کے فجیرہ دبئی ٹرک چلتے ہیں ، فجیرہ میں ایک بلڈنگ ، شارجہ میں ایک اور دبئی میں تین خان پارکنگ ہیں ۔
یہ خان بنگش ہے اور پاکستانی ہے ۔ پاکستان میں اِن کے مکان اور پلازے ہیں ۔
ارب پتی یہ خاندان بھی شاید اِس لسٹ میں اُن چوروں کے ساتھ ہوگا ، جن کی لسٹ پاکستانی ایمانداروں نے شائع کی اور مجھے بھی وٹس ایپ ہوئی ہے ۔
دبئی میں بنگش ملازم ، ڈرائیور اور بلڈنگوں کے مالک چھائے ہوئے ہیں ۔ جو پاکستان سے رقم منی لانڈنگ یا عمرانی ہنڈی کے ذریعے باہر اور پاکستان میں لاتے ہیں ۔
اِس 80 سالہ سابق پاکستانی فوجی ڈرائیور کے بیٹے نے یہ داستان مجھے ، پہلی بار فجیرہ سے راس الخیمہ فیملی کے ساتھ 7 سیٹر ٹیکسی میں لے جاتے ہوئے سنائی ، میں اِس کی 7 سیٹر ٹیکسی میں ، فجیرہ سے دبئی بھی گیا ۔
اُس نے کہا، " سر اگر آپ کے بیٹے نے آپ کو پیسے بھجوانے ہوں تو مجھے بتانا ، آپ کو وہاں بنک سے زیادہ پیسے ملیں گے ، وہ بے شک پیسے ہمیں یہاں نہ دے ، بس مجھے بتائے ، کہ وہاں اتنے درہم ادا کر دو !"
پاکستان ، امریکہ ، کینیڈا ، لندن ، عمارات اور سعودیہ سے آپ ہنڈی کا کاروبار ختم نہیں کرسکتے ، کیوں کہ منی چینجر کے علاوہ ، برسوں سے پاکستان سے باہر بسنے والے خاندان یہ کام کر رہے ہیں ، گو تھوڑے پیمانے پر کر رہے ہیں ، لیکن ہو رہا ہے ، جس سے پاکستان سے باہر گئے محنت کش طبقہ کے والدین ، گذارہ کر رہے ہیں ۔
یاد رہے ، فیملی ہنڈی کا یہ کاروبار ، ڈالروں یا ریالوں میں نہیں ہوتا کہ پاکستان کو فارن ایکسچینج کا فائدہ ہو !پاکستانی روپوں میں ہوتا ہے !
لیکن پاکستان میں ماں باب یا بیوی کو بھیجی جانے والی یہ رقم کتنی ہے !
میرے اندازے کے مطابق کم ازکم فی محنت کش 500 ڈالر یا 1000 درہم (ریال )
یعنی آج آپ 1000 ریال دیں اور شام سے پہلے روپے میں متبادل رقم بغیر کسی کمیشن کے لے لیں !
کیا پاکستانی بنک ایسا کر سکتے ہیں ؟
نہیں نا !
یہی وجہ ہے کہ یہ رقم پاکستان کے معیشت میں ظاہر نہیں ہورہی ، لیکن اِس رقم سے پلاٹ ، گاڑیاں اور مکان خریدے جا رہے ہیں ،
جی ہاں اِسی رقم سے وہ لوگ خرید رہے ہیں جن کی کوئی آمدنی نہیں !
لہذا وہ ٹیکس پیئر کیسے بنیں ؟
کیا کوئی ایسا طریقہ ہے ، کہ باہر سے آنے والی یہ رقم ، غیر ملکی کرنسی میں پاکستان میں آئے ؟
پاکستانی عقلمندوں اور تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں ضرور سوچنا چاہیئے !
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مہاجر زادہ کی رائے میں تجویز و حل !کہ حکومتِ پاکستان ایسا کیا طریقہ اختیار کرے کہ ، تارکینِ وطن اور محنت کش ، فیملی منی چینجر کے بجائے ،اپنے اکاونٹ سے پاکستانی سفارت خانے کے اکاونٹ میں آن لائن ، درہم ، ریال ، پونڈ یا ڈالر جمع کروائیں ۔
جس کی اطلاع ، سٹیٹ بنک سے ہوتی ہوئی ، اُن کے والدین کے بنک اکاونٹ میں پہنچے۔ جس کاونٹ کو کھولنے کا طریقہ نہایت آسان ہو!
٭- باہر سے رقم بھیجنے والے کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ
٭- جس کے لئے رقم بھیجی جائے اُس کا اور اُس کے وارث کا شناختی کارڈ اور تصدیق شدہ موبائل نمبر وتصاویر۔
٭- قصبہ، گاؤں یا کالونی جہاں رقم منگوانا ہو ۔ وہاں کا مکمل ایڈریس ۔
٭- لوکل بنک کے پاس ، قصبے کے "ایزی پیسہ اکاونٹ آؤٹ لیٹ " کی رجسٹریشن اور اَپ ٹوڈیٹ ریکارڈ ۔
٭- جوں ہی رقم قصبے کے بنک میں پہنچے ،تو بنک کے پاس خودبخود ، رقم لینے والے کا شناختی کارڈ نمبر پر اکاونٹ جنریٹ ہوجائے ۔جہاں سے رقم اکاونٹ ہولڈر کے اکاونٹ میں منتقل ہوجائے ۔اگر اکاونٹ نہ ہو تو "ایزی پیسہ اکاونٹ آؤٹ لیٹ "کے پاس چلی جائے ۔ اور اِس کی اطلاع رقم بھجوانے والے کے موبائل پر ایس ایم ایس ہوجائے ۔
٭- رقم لینے والا ،"ایزی پیسہ اکاونٹ آؤٹ لیٹ "سے یہ رقم نکلوالیں ۔
نوٹ:
٭- حکومت جہاں سبسڈی پر اتنی رقم لٹاتی ہے ،اسٹیٹ بنک اِس ٹرانزیکشن میں بننے والا کمیشن اور ایس ایم ایس چارجز قصبے کے بنک اور "ایزی پیسہ اکاونٹ آؤٹ لیٹ "کو دے دیں ۔
٭- تمام سفارت خانے ، یہ فارن کرنسی ہر مہینے ،حکومت پاکستان کے ورلڈ بنک کے اکاونٹ میں، یہ رقوم ٹرانسفر کروادیں ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں