بھارتی اور پاکستانی ڈرامے دیکھ دیکھ کر پاکستان کی عورتوں میں ایک خاص قسم کا کینسر پیدا ہو چکا ہے اور وہ کینسر ہے "میرےپریوار" کا کینسر ۔
پہلے تین تین خاندان اکٹھے رہتے تھے ۔اگر ایک بڑا بھائی سب سے زیادہ کمانے والا ہوتا، تو وہ باقی بھائیوں کے بچوں کی سکول کی فیس دیتا، گھر کے بل جمع کرا دیتا یا سودا سلف منگوا دیتا تھا۔ وہی بڑا بھائی عیدین پر کپڑے کے تھان خرید لاتا ، جس سے سب گھر والوں کے ایک جیسے کپڑے بنتے تھے۔
سب بھائی ، پیسےکما کر ماں کے ہاتھ پر رکھتے اور ماں بڑی بہو کو تھما کر گھر کے مرکز میں تخت پر بیٹھ کر ، ہاتھ میں تسبیح گھماتی ، پوتے پوتیوں ، نواسے نواسیوں اور گھر میں آنے والے دیگر بچوں کو ، ڈبوں سے نکال نکال کر کچھ نہ کچھ میٹھا کھانے کو دیتی رہتی ، بچے بھی دادی ماں سے چپکے رہتے ۔
اور اس بڑے بھائی کا روزگار روز بروز ترقی کرتا رہتا تھا، اور دوسرے بھائیوں کے رزق میں بھی برکت ہوتی ۔
بڑے بھائی کی بیوی بھی ماں بن کر سارے گھر کو سنبھالتی اور ساس سسر ،دیوروں ، نندوں ، رشتہ داروں اور مہمانوں ، سب کی ضروریات کا خیال رکھتی تھی۔
یعنی جتنا بڑا دل بیوی کا، اتنا ہی بڑا دل شوہر کا۔ تو ان کا رزق بھی کھل جاتا تھا۔
خاندان میں عزت بھی ہوتی تھی۔
پھر ایسا ہوا کہ معاشرے میں ایک کینسر نے جنم لیا اور وہ کینسر تھا ،
بہو کی تلاش میں خاندان، شرافت، دینداری چھوڑ کر شکل، فیشن، مال اور تعلیم سے لگنے والا کینسر ۔
ایسی ایسی کم ذات حسینائیں بہو بن کر جب گھروں میں گھسائی گئیں تو انہوں نے رنگ دکھانے شروع کئے۔
پھر "میرے پریوار" والا کینسر بچوں کے ساتھ ہی پیدا ہونے لگا۔
ارے تم نے ٹھیکا اٹھایا ہوا ہے اُن کے بچوں کا؟
میرے بچوں کا حق تم انہیں نہیں کھلا سکتے!
ارے تمہاری بہنیں کب تک تمھاری کمائی پر عیش کریں گی؟
میرے بچوں کا حق تم انہیں نہیں کھلا سکتے؟
ارے ہم نے کوئی یتیم خانہ نہیں کھول رکھا!
میرے بچوں کا حق تم انہیں نہیں کھلا سکتے!
اور جب شوہر صاحب نے بیوی کی باتیں ماننا شروع کیں، تو گھر سے رزق برکت اُٹھنا شروع ہو گئی ۔
آپ نے غور کیا ہی ہوگا ایسے لوگوں پر؟
اتنے بڑے خاندان کو والدین کی وفات کے بعد ، صرف ایک بڑے بھائی نے سنبھال رکھا ہے۔
وہ شخص گھر نہیں آ سکتا۔ سارا وقت زمینداری کھیتوں کی دیکھ بھال، لوگوں کے مسائل سننا ، حل کرنا۔
خاندان کے سارے کے سارے معاملات اور سب کے بچوں اور بیویوں کی ضروریات کا خیال رکھنا, کھانا پکانے سے لیکر تعلیم اور سب کو اتفاق سے رکھنا اس کی بیوی کرتی ہے۔
وہ زیادہ عمر کی نہیں نہ ہی کوئی بہت حسین عورت ہے نہ ہی زیادہ تعلیم یافتہ۔
مشقت اور عدل اسکے چہرے سے ٹپکتے ہیں مگر اسکے زندہ دل قہقہے اور ہنستا مسکراتا چہرہ اس سے محبت کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
اس کی ایک بات مجھے بہت پسند ہے۔
سنیں
اور اپنی بیویوں کو بھی سنائیں!
جب اللہ نے میرے شوہر کو پسند فرمایا ہے کہ اس کے ہاتھ سے گھر کے تمام افراد کو رزق ملے تو میں کیوں بیچ میں آؤں؟
میں اگر کہوں ، کہ میرے بچوں کا حق دو، جسے بھائیوں کے بچوں کو کھلا رہا ہے تو کیا خبر میرے بچوں کے نصیب میں اتنا رزق ہی نہ ہو جو وہ کھا رہے ہیں ؟
کیا خبر ہمیں ان بھائیوں کے بچوں کے نصیب سے ہی مل رہا ہو؟
کیا خبر کس خاندان میں کس کا خوش نصیب بچہ ہے کہ جس کے مقدر سے ہمیں بھی رزق نصیب ہو رہا ہے؟
اگر میں اپنا گھر ، اپنا گھر اور اپنے بچے ،اپنے بچے کرنے لگ گئی تو مجھے وہی ملے گا جو میرے مقدر میں ہے۔ اور مجھے مقدر سے ڈر لگتا ہے کہیں ایسا ہی نہ ہو کہ جو دوسروں کے نصیب سے ہمیں مل رہا ہے وہ بھی چھن جائے۔
نہ بابا مجھے بہت ڈر لگتا ہے کہ میرے منہ سے ایسا کچھ نہ نکلے!
بس اللہ ہمیں دے رہا ہے اور ہم ایمانداری سے حقداروں تک ، اُن کا حق پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ورنہ ہماری کیا اوقات کہ ایک پرندے کو بھی کھلا سکیں!
شوہر کو سب سے دور کیا۔ سب سے جھگڑے کئے مگر آخر میں گھر میں ایسے فاقے پڑے کہ خود تو رخصت ہوگئیں ،مگرشوہر اور اولاد کو برباد کرکے فاقوں کا شکار کر گئیں۔
اللہ نے اگر آپکو اس قابل بنایا ہے کہ وہ آپکے ہاتھ سے کسی کا رزق پہنچا رہا ہے تو اسے اپنی خوش قسمتی سمجھیں۔ نہ کہ اس پر تکبر کریں۔
اپنے گھر کی عورتوں کو سمجھائیں۔
سمجھانا آپکا کام ہے۔ ورنہ یہ کم عقل بیویاںسب برباد کر کے آخر میں آنسو بہا کر آپ پر ہی الزام لگائیں گی کہ اگر میں غلط کر رہی تھی تو تم نے مجھے روکا کیوں نہیں؟
ابھی بھی وقت ہے سب کچھ ٹھیک کر لیں۔
پہلے تین تین خاندان اکٹھے رہتے تھے ۔اگر ایک بڑا بھائی سب سے زیادہ کمانے والا ہوتا، تو وہ باقی بھائیوں کے بچوں کی سکول کی فیس دیتا، گھر کے بل جمع کرا دیتا یا سودا سلف منگوا دیتا تھا۔ وہی بڑا بھائی عیدین پر کپڑے کے تھان خرید لاتا ، جس سے سب گھر والوں کے ایک جیسے کپڑے بنتے تھے۔
سب بھائی ، پیسےکما کر ماں کے ہاتھ پر رکھتے اور ماں بڑی بہو کو تھما کر گھر کے مرکز میں تخت پر بیٹھ کر ، ہاتھ میں تسبیح گھماتی ، پوتے پوتیوں ، نواسے نواسیوں اور گھر میں آنے والے دیگر بچوں کو ، ڈبوں سے نکال نکال کر کچھ نہ کچھ میٹھا کھانے کو دیتی رہتی ، بچے بھی دادی ماں سے چپکے رہتے ۔
اور اس بڑے بھائی کا روزگار روز بروز ترقی کرتا رہتا تھا، اور دوسرے بھائیوں کے رزق میں بھی برکت ہوتی ۔
بڑے بھائی کی بیوی بھی ماں بن کر سارے گھر کو سنبھالتی اور ساس سسر ،دیوروں ، نندوں ، رشتہ داروں اور مہمانوں ، سب کی ضروریات کا خیال رکھتی تھی۔
یعنی جتنا بڑا دل بیوی کا، اتنا ہی بڑا دل شوہر کا۔ تو ان کا رزق بھی کھل جاتا تھا۔
خاندان میں عزت بھی ہوتی تھی۔
پھر ایسا ہوا کہ معاشرے میں ایک کینسر نے جنم لیا اور وہ کینسر تھا ،
بہو کی تلاش میں خاندان، شرافت، دینداری چھوڑ کر شکل، فیشن، مال اور تعلیم سے لگنے والا کینسر ۔
ایسی ایسی کم ذات حسینائیں بہو بن کر جب گھروں میں گھسائی گئیں تو انہوں نے رنگ دکھانے شروع کئے۔
پھر "میرے پریوار" والا کینسر بچوں کے ساتھ ہی پیدا ہونے لگا۔
ارے تم نے ٹھیکا اٹھایا ہوا ہے اُن کے بچوں کا؟
میرے بچوں کا حق تم انہیں نہیں کھلا سکتے!
ارے تمہاری بہنیں کب تک تمھاری کمائی پر عیش کریں گی؟
میرے بچوں کا حق تم انہیں نہیں کھلا سکتے؟
ارے ہم نے کوئی یتیم خانہ نہیں کھول رکھا!
میرے بچوں کا حق تم انہیں نہیں کھلا سکتے!
اور جب شوہر صاحب نے بیوی کی باتیں ماننا شروع کیں، تو گھر سے رزق برکت اُٹھنا شروع ہو گئی ۔
آپ نے غور کیا ہی ہوگا ایسے لوگوں پر؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہمارے خاندان میں ایک گھر ایسا ہے جس میں سات بھائی رہتے ہیں۔ بہت بڑا گھر ہے اور سات خاندان ہیں۔ تین بہنیں شادی شدہ ہیں اور دوسرے شہروں میں رہتی ہیں۔اتنے بڑے خاندان کو والدین کی وفات کے بعد ، صرف ایک بڑے بھائی نے سنبھال رکھا ہے۔
وہ شخص گھر نہیں آ سکتا۔ سارا وقت زمینداری کھیتوں کی دیکھ بھال، لوگوں کے مسائل سننا ، حل کرنا۔
خاندان کے سارے کے سارے معاملات اور سب کے بچوں اور بیویوں کی ضروریات کا خیال رکھنا, کھانا پکانے سے لیکر تعلیم اور سب کو اتفاق سے رکھنا اس کی بیوی کرتی ہے۔
وہ زیادہ عمر کی نہیں نہ ہی کوئی بہت حسین عورت ہے نہ ہی زیادہ تعلیم یافتہ۔
مشقت اور عدل اسکے چہرے سے ٹپکتے ہیں مگر اسکے زندہ دل قہقہے اور ہنستا مسکراتا چہرہ اس سے محبت کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
اس کی ایک بات مجھے بہت پسند ہے۔
سنیں
اور اپنی بیویوں کو بھی سنائیں!
جب اللہ نے میرے شوہر کو پسند فرمایا ہے کہ اس کے ہاتھ سے گھر کے تمام افراد کو رزق ملے تو میں کیوں بیچ میں آؤں؟
میں اگر کہوں ، کہ میرے بچوں کا حق دو، جسے بھائیوں کے بچوں کو کھلا رہا ہے تو کیا خبر میرے بچوں کے نصیب میں اتنا رزق ہی نہ ہو جو وہ کھا رہے ہیں ؟
کیا خبر ہمیں ان بھائیوں کے بچوں کے نصیب سے ہی مل رہا ہو؟
کیا خبر کس خاندان میں کس کا خوش نصیب بچہ ہے کہ جس کے مقدر سے ہمیں بھی رزق نصیب ہو رہا ہے؟
اگر میں اپنا گھر ، اپنا گھر اور اپنے بچے ،اپنے بچے کرنے لگ گئی تو مجھے وہی ملے گا جو میرے مقدر میں ہے۔ اور مجھے مقدر سے ڈر لگتا ہے کہیں ایسا ہی نہ ہو کہ جو دوسروں کے نصیب سے ہمیں مل رہا ہے وہ بھی چھن جائے۔
نہ بابا مجھے بہت ڈر لگتا ہے کہ میرے منہ سے ایسا کچھ نہ نکلے!
بس اللہ ہمیں دے رہا ہے اور ہم ایمانداری سے حقداروں تک ، اُن کا حق پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ورنہ ہماری کیا اوقات کہ ایک پرندے کو بھی کھلا سکیں!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اور ایک ایسی خاتون بھی گزری ہیں ، جنہوں نے اپنے کینسر کی بدولت اپنا ہنستا بستاامیر کبیر گھرانہ اجاڑ دیا۔شوہر کو سب سے دور کیا۔ سب سے جھگڑے کئے مگر آخر میں گھر میں ایسے فاقے پڑے کہ خود تو رخصت ہوگئیں ،مگرشوہر اور اولاد کو برباد کرکے فاقوں کا شکار کر گئیں۔
اللہ نے اگر آپکو اس قابل بنایا ہے کہ وہ آپکے ہاتھ سے کسی کا رزق پہنچا رہا ہے تو اسے اپنی خوش قسمتی سمجھیں۔ نہ کہ اس پر تکبر کریں۔
اپنے گھر کی عورتوں کو سمجھائیں۔
سمجھانا آپکا کام ہے۔ ورنہ یہ کم عقل بیویاںسب برباد کر کے آخر میں آنسو بہا کر آپ پر ہی الزام لگائیں گی کہ اگر میں غلط کر رہی تھی تو تم نے مجھے روکا کیوں نہیں؟
ابھی بھی وقت ہے سب کچھ ٹھیک کر لیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں