Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

منگل، 31 جولائی، 2018

لاہور کی گلیاں یا محل کی غلام گردشیں

 یہ تصویر دیکھ کر مشتاق احمد یوسفی صاحب کی بات یاد آ گئی۔۔۔
 اندرون لاہور کی بعض گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ اگر ایک طرف سے عورت آ رہی ہو اور دوسری جانب سے مرد، 
تو درمیان میں صرف نکاح کی گنجائش بچتی ہے۔ 



پی ٹی آئی کا منشور !

 

اتوار، 29 جولائی، 2018

کچرا کنڈی اور بیلٹ پیپر !

 کراچی کی ایک کچرا کنڈی  سے  جلے ہوئے ادھ جلے اور ثابت بیلٹ پیپر ملے ۔
 سب پریشان کہ جو بیلٹ پیپر  الیکشن کمیشن کے قبضے میں ہونے چاہئیے  تھے  ۔  وہ  لاوارث کیسے  ملے ؟
سب کو اچنبھا ہے ؟
سوائے جیتنے والے کے ، کیوں ؟
 تو کیا ۔ ہارنے والوں کے ووٹ کچرا کنڈی میں پھینک دیئے گئے ؟

لیکن حیرت کی بات کہ کسی بھی پولنگ سٹیشن   این اے 241    کراچی کورنگی 3، سے ایف آئی آر نہیں درج کروائی گئی ، کہ اُن کے ہاں ڈالے گئے ووٹ پر اسرار طور پر کم ہو گئے ؟
کیا یہ خلائی مخلوق کا کارنامہ ہے ؟
الیکشن کمیشن کے ایمان سے بھرپور سٹاف نے اللہ کو حاظر و ناظر جان کر ہر ووٹر کو  دو بیلٹ پیپر دیئے، ایک قومی اسبلی کا اور دوسرا صوبائی اسمبلی کا ۔ اور ہر ووٹر نے پولنگ سٹاف اور اور فوج کے مستعد اور چوکنا نوجوانوں کے سامنے  بیلٹ بکس میں دونوں بیلٹ پیپر ڈالے ۔ 

فوجی جوانوں  اور  امیدواروں کے پولنگ ایجنٹس کے سامنے  گنتی ہو ئی ۔ لیکن ؟بیلٹ پیپر کیسے اُڑ کر کچرا کنڈی میں جا گرے ؟ 
یہ سمجھنے کے لئے ، کسی فیثا غورث  یا اقلیدس کی ضرورت نہیں ۔   
بیلٹ پیپر پر کسی بھی قسم کا نشان نہیں ہوتا کہ جس سے ظاہر ہو کہ یہ بیلٹ پیپر کس کا ہے ؟
بیلٹ پیپر جب ، بیلٹ پیپر بُک  کی کاونٹر فائل سے  علیحدہ کیا جاتا ہے ۔ تویہ پتہ نہیں چل سکتا کہ یہ کس پولنگ سٹیشن سے دیا گیا اور کس کا ہے ؟
 ووٹر جب اپنے پسند کے امیدوار  کے نشان پر مہر لگا کر  بیلٹ بکس میں ڈالتا ہے ۔اُس کے بعد  بیلٹ پیپر بکس سے ڈالے گئے تمام ووٹ نکال کر  اُتنی ہی تعدادمیں  جعلی بیلٹ پیپر    ، مطلوبہ امیدوار کے  کے نام پر مہر لگا کرڈال دئیے جائیں ۔
صرف ایک ووٹ ہی تو چاھئیے اپنے مطلوبہ امیدوار کو جتانے کے لئے ، صرف ایک ووٹ اور پورا بھر ہوا بیلٹ بکس تو   اُس جیت پر پکّی مہر ہے ، جو الیکشن کمیشن کے  لوگوں نے لگائی ۔ 
ووٹ الیکشن کمیشن کے سٹاف اور چاک و چوبند فوجی جوانوں کی موجودگی میں بیلٹ  بکس سے نکال کر گنے جاتے ہیں اور پھر مہر بند تھیلوں میں بند کرکے فوجی نوجوانوں کے ذریعے  الیکش کمیشن کے قابل اعتماد نمائیندے تک پہنچائے  جاتے ہیں۔


جہاں  کسی بھی امیدوار  کے چیلنج کرنے پر ۔تھیلے کھول کر ووٹ دوبارہ گنے جاتے ہیں ۔
  تو کون سی سائنسی ٹیکنالوجی ہے؟
 جو یہ ثابت کر سکے کہ   تھیلوں  میں  جعلی بیلٹ پیپربھی بھرے ہوئے ہیں ۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جمعرات، 26 جولائی، 2018

الیکشن میں دھاندلی کیسے ہوتی ہے ؟


1. جب الیکشن کا عمل مکمل ہو جاتا ہے تو ووٹوں کی گنتی کی جاتی ہے
2. ہر امیدوار کے حاصل کردہ ووٹوں کی فہرست تیار کی جاتی ہے اسے فارم 45 کہا جاتا ہے ، اس پر ایجنٹوں کے دستخط کروا لئے جاتے ہیں
3. تمام امیدواروں کے نمایندگوں کو اس فارم کی کاپی دی جاتی ہے اور اس پر دستخط لئے جاتے ہیں
4. اس کا ریکارڈ الیکشن کمشن کے مرکزی دفتر میں بھیج دیا جاتا ہے ، اور میڈیا پر اس کا اعلان کر دیا جاتا ہے ، اسے منصفانہ الیکشن کہتے ہیں۔

اب یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ الیکشن میں دھاندلی کیسے ہوتی ہے؟

1. الیکشن کا عمل مکمل ہونے کے بعد ووٹوں گنتی کی تفصیل کو ایک سادہ کاغذ پر کاپی کر کے امیدواروں کے ایجنٹوں کو دے دیا جاتا ہے۔
2. پھر ایجنٹوں کو کمرے سے باہر نکال دیا جاتا ہے ۔
3. اس کے بعد فارم 45 سرکاری ہدایت کے مطابق تیار کیا جاتا ہے ، جسے اقتدار میں لانا ہوتا ہے اس کے ووٹوں کی تعداد درج کر دی جاتی ہے۔
4. میڈیا پر اس کی کامیابی کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔
5. امیدوار جب اس کو عدالت میں چیلنج کرتا ہے ، تو عدالت اس سے فارم- 45 کی اصل کاپی مانگتی ہے ۔  جو اس کے پاس موجود نہیں ہوتی۔

اس طرح اس کا مقدمہ کھڈے لائن لگا کے مسترد کر دیا جاتا ہے ، اور دھاندلی ثابت نہیں ہوتی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 فارم -45 ، جو بھرا نہ جاسکا

فارم - 45 جو بھرا نہ جاسکا !

سرگودھا این اے 90 کا فارم-45، سائن ہو گیا، انگوٹھے لگ گئے باقی سب ہو گیا بس ووٹوں کا اندراج رہ گیا.
یہ مذاق نہیں الیکشن 2018 ہے 


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

بدھ، 25 جولائی، 2018

الیکشن کمشنر سر


جولائی 25 الیکشن 2018

 بوڑھا صبح7:45 بجے گھر سے بڑھیا کے ساتھ نکلا ۔ 
سڑکیں سنسان تھیں، بڑے آرام سے گاڑی چلاتا8:16  پر اپنے پرانے محلے میں پہنچا ۔
مجاہد مارکیٹ کی پارکنگ میں کار کھڑا کر کے۔ پولنگ سٹیشن کے طرف روانہ ہوا ۔ جو صرف 25 گز دور سٹریٹ  51 کے گرلز ہائی سکول کی عمارت میں قائم کیا گیا ۔ 
بڑھیا کو  پرانے پڑوسی  عبدالسلام     کی بہو   اپنی  بیٹی کو گود میں اٹھائے ملی، معلوم ہوا کہ نوجوان بدرالاسلام  پولنگ ایجنٹ ہے  اور اندر بیٹھا ہے ۔
محلے کے بوڑھے اپنے خاندان کی چٹیں لینے اور خود ووٹ ڈالنے آئے تھے ، بوڑھے نے بھی موبائل پر الیکشن کمیشن کی طرف سے آئی ہوئی اطلاع  پر سب سے سنسان پولنگ بوتھ سے اپنی اور بڑھیا کی چٹ لی جو کار پارکنگ کے نزدیک تھا ۔   وقت دیکھا 8:20 ہوا تھا ۔ 
سکول کے سامنے کی طرف پی ٹی آئی   اور آزاد امید وار کا  بوتھ تھا ۔تقریباً  پندر ہ ووٹر ز مرد و زن  اپنی اپنی چٹیں لے رہے تھے ۔ آزاد امیدوار کے بوتھ  پر بھی دو افراد کھڑے تھے ۔
بڑھیا کی چٹ اُس کو دی  اور پولنگ سٹیشن   کی طرف اُس کو لے کر بڑھ گیا وہ اپنے حصے میں چلی گئی میں گھوم کر دوسری طرف جانے لگا   ۔ پہلا بوتھ پی ایم ایل این کا تھا ۔ جس پر  تقریباً   12 ووٹرز تھے ، اُس سے آگے جماعت اسلامی کا بوتھ تھا یہاں رش زیادہ تھا ، اُس سے آگے پھر   پی ایم ایل این کا  بوتھ تھا ۔ یہاں بھی آٹھ ووٹرز تھے  ۔ پھر سامنے گیٹ تھا جو مردوں کا پولنگ سٹیشن تھا ۔ 
جس کے دروازے پر ایک پولیس والا تھا اور  اُس نے تلاشی لی ، بوڑھے نے ہاتھ ملا کر شکریہ ادا کیا اور اندر داخل ہو گیا ۔
بائیں ہاتھ پر بنے   کمروں میں پولنگ بوتھ بنے تھے  داخلے کے نشان کے ساتھ  ایک نوجوان فوجی سپاہی  تھا جس کے کالر پر این ایل آئی کے بیج لگے تھے ، اُس نے شناختی کارڈ دیکھ کر پہلے کمرے کی طرف اشارہ کیا ، پہلے کمرے میں داخل ہو    کارڈ دکھایا اُس نے ساتھ والے کمرے میں جانے کا کہا ۔  

ساتھ والے کمرے میں جاکر کارڈ دکھایا  ، تو نوجوان نے پولنگ ایجنٹ کی طرف جانے کا کہا ، واپس مڑا  تو پولنگ ایجنٹوں میں بدرالاسلام  اور اظہر بھٹی بیٹھے دکھائی دیئے ، خوشی ہوئی دونوں سے گلے ملا ، بدر نے تصدیق کی کہ ووٹر  اصلی ہے ۔  
الیکشن کمیشن کے نامزد پولنگ آفیسر نے بیلٹ پیپر اور مہر  دی ۔
بوڑھے نے ایک کونے میں بنے   بوتھ پرگیا ۔ شاہد خاقان عباسی کے نام پر مہر لگا ئی  ۔ بیلٹ پیپر کو فولڈ کیا ، بیلٹ بکس میں ڈالا ، گھڑی میں وقت دیکھا ، 8:27   بس اتنا وقت لگا ۔

اور سب سے ہاتھ ملایا کونے میں بیٹھے ہوئے ، بلوچ رجمنٹ سے ہاتھ ملایا  جس کا جواب اُس نے بے دلی سے دیا ۔
بوڑھے نے اُس کی کالر کو دیکھتے ہوئے پوچھا
" بلوچ رجمنٹ "  ؟
" جی " اُس نے اُکتائے لہجے میں جواب دیا ، بوڑھا سب کو سلام کرکے واپس نکل آیا۔

کوریڈور میں  ، کھڑے سپاہی سے ہاتھ ملایا اور پوچھا ،
" نوجوان، کون سی این ایل آئی  ہے  ؟"
اُس کے چہرے پر حیرت کی ایک لہر آئی ۔ آٹومیٹک جواب دیا :
" سر فرسٹ این ایل آئی "
"ہیروز کی یونٹ ،
میں توپخانہ ،  شاباش ۔ خوشی ہوئی مل کر"
"شکریہ سر " نوجوان  بولا
بوڑھے نے اُس کا کندھا تھپتھپایا اور گیٹ کی طرف بڑھ گیا ۔ گھوم کر سٹریٹ 51 کی طرف آیا ، بڑھیا محلے کے 5 عورتوں سے گپ لگا رہی تھی ۔ مجھے دیکھا ۔
"بہت جلدی ، ووٹ ڈال آئے " وہ بولی ۔
" جی لوگ سو کراُٹھیں گے تو رش ہو گا " میں بولا 

" اب کیا کریں؟ " بڑھیا نے پوچھا 
" گھر چلیں " میں کہا ۔
" عالی کی طرف چلیں " بڑھیا نے رائے دی ۔
" لودھی صبح کیسے اُٹھ سکتے ہیں ؟ خوا مخواہ تنگ کریں گے " میں نے جواب دیا
" بات تو ٹھیک ہے ، چلیں سیور لیتے ہوئے گھر چلتے ہیں " بڑھا نے کہا 

دونوں بلیو ایریا کی طرف راونہ ہوگئے ، وہاں پہنچے تو معلوم ہوا ساڑھے دس بجے سروس شروع ہو گی اور ابھی تو نو بجے ہیں  ۔ 
چنانچہ اکا دُکا گاڑیوں   کے ساتھ  فیض آباد سے مری روڈ کی طرف مڑے اور سنسان سڑک پر ہوتے ہوئے ۔ ٹھیک 9:45 پر ڈی ایچ اے -1 میں داخل ہوا ۔
7:45 سے لے کر 9:45 ، کل  53 کلو میٹر کا سفر    اور شاید یہ بوڑھے کی زندگی کا آخری  سفر تھا جو اُس نے
پاکستان کے حسین مستقبل کے لئے کیا ۔ 




اتوار، 22 جولائی، 2018

جسٹس شوکت صدیقی کے فیصلے !

1.  مشرف کو مُلک میں 2007 میں ایمر جنسی کا نفاذ کرنے پر گرفتار کرنے کا حُکم دیا جبکہ بہادر کمانڈو گرفتاری کے ڈر سے کمرہ عدالت سے بھاگ گیا!
2. 2011 میں سی ڈی اے حکام کو عدالتی حُکم نہ ماننے کے جُرم میں جیل بھجوا دیا!
3. فیس بُک پر توہین آمیز خاکوں کے کیس کی سماعت کرتے ہوۓ پورے مُلک میں فیس بُک کو بند کرنے کا حُکم دیا جس پر فیس بُک حُکام کو مجبور ہوکر پاکستانی حکام کیساتھ تعاون کرنا پڑا اور گستاخانہ مواد ہٹانے کی یقین دہانی کرائی.
4. عمران خان کے دھرنے کو غیر قانونی قرار دے کر اسے ہٹانے کے احکامات جاری کئے!
5. آرمی پریڈ گراؤنڈ کو speech corner. کے نام سے منسوب کرکے جلسے اور تقریروں کے لئے مختص کردیا تاکہ دھرنہ یا جلوس کیوجہ سے اسلام آباد اور راولپنڈی کے شہریوں کو مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے.
6.  تحریک لبّیک کے فیض آباد دھرنے میں آرمی چیف کے ضامن بننے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ فوج کو سیاسی معاملات میں مداخلت سے گریز کرنا چاہئے. 

7. مشرف کو گرفتار کرکے پاکستان لانے اور عدالت کے سامنے روبرو پیش کرنے کا حُکم دیا. 

8. زلفی بخاری کا نام واچ لسٹ میں سے نکالنے پر ذمے داران سے جواب طلب کیا اور برہمی کا اظہار کیا کہ قانون سب کے لئے ایک جیسا ہونا چاہئے. 

9. مُلک کی تاریخ میں پہلی بار شوکت صدیقی نے اپنے آپکو سرِ عام احتساب کے لئے پیش کردیا اور کہا کہ مُجھ پر لگنے والے الزامات کا اوپن ٹرائل کیا جاۓ تاکہ سب کو پتہ چل سکے کہ مُجھ پر کیا الزامات ہیں یا میں نے کیا کرپشن کی ہے. 

10. پرائیویٹ سکول مافیا کیخلاف ایکشن لیتے ہوۓ انکو چھٹیوں کے دوران بھاری فیسیں لینے سے منع کیا تو چیف جسٹس ثاقب نے صدیقی صاحب کے اس فیصلے کو منسوخ کردیا. 

11. چیف جسٹس ثاقب نثار کے misconduct اور اختیارات سے تجاوز کرنے بارے درخواستوں کو قبول کیا!

12.عدلیہ کو غیر سیاسی کردار ادا کرنے کی نصیحت کی اور اپنی تقریروں میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے پر زور دیا. 

13. خفیہ ایجینسیوں کی عدالتی معاملات میں مداخلت کی مخالفت کی اور اسکے خلاف بھرپور آواز اُٹھائی! 

14. آئینی اداروں کو اپنی اپنی حدود کے اندر رہ کر آئین کے مطابق کام کرنے کا حکم دیا. 

15.راولپنڈی اور اسلام آباد کے مصروف اور قابل ترین وکیل ہونے کے باوجود منصف کے فرائض انجام دینے کو ایک عظیم فریضہ سمجھا! 

16. بار کونسل کے سیکریٹری, صدر اور چئیر مین جیسے بڑے عُہدے رکھنے کے باوجود اُن پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں اور نہ ہی چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرح انہوں نے اپنے ضمیر کا سودا کرکے پی سی او کے تحت کسی ڈکٹیٹر سے حلف لیا! 
 

17: ختم نبوت کے حلف نامے میں ترمیم کی بابت راجا ظفر الحق کی رپورٹ کو سامنے لا کر تین منافقوں کو بے نقاب کیا اور عوام کو اس قبیح فعل کے حقائق بتاۓ.

18.سول سروس میں آرمی کا ڈائریکٹ کوٹہ ختم کرنے کا حُکم دیا تاکہ پولیس, اور انتظامیہ جیسے اہم عہدوں میں سے فوج کی براہِ راست مداخلت کو روکا جاسکے.
 
جسٹس شوکت صدیقی پر لگنے والے الزامات آخر ہیں کیا؟  

1. وہ  سی ڈی اے  حکام جن کو شوکت صدیقی نے عدالت کا حکم نا ماننے پر جیل میں ڈالا اُسی سی ڈی اے کے حکام نے بعد میں اُن پر اپنے سرکاری گھر کی آرائش کے لئے دباؤ ڈالنے کا الزام لگایا.

2.  شوکت صدیقی  نے فیض آباد دھرنے میں خلائی مخلوق کے کردار کو تنقید کا نشانہ بنا کر اپنے اختیارات سے تجاوز کیا.

3.  شوکت صدیقی  نے اسلام آباد بار کونسل میں تقریر کرتے ہوۓ غیر جانب داری کا مظاہرہ کیا! 

ایک واحد شخص جو سب سے اُلجھ کر حق کی بات کررہا ہے  جس کی محض اس جہ سے کردارکشی کی جارہی ہے کہ وہ   مُلک کی بہتری اور بھلائی کی بات کررہا ہے. جسٹس شوکت صدیقی صاحب موجودہ دور کے سب سے قابل اور ایماندار جج ہیں جنکے فیصلے پڑھ کر واقعی اُنکے مُلک و مِلّت کیساتھ خلوس کا گمان ہوتا ہے........ 


ہفتہ، 21 جولائی، 2018

نو ہزار کلوگرام ایفی ڈرین کا کوٹہ !

 2010 اور 2011 میں ملتان کی ایک فارماسوٹیکل کمپنی برلیک اور اسلام آباد کی دواساز کمپنی ڈاناس فارما نے سیکرٹری صحت سے رابطہ کیا۔
 سیکرٹری کو عراق کی ایک کمپنی کا آرڈر دکھایا گیا اور اس آرڈر کی بنیاد پر وزارت صحت سے درخواست کی ’’ہم نے بھاری مقدار میں ایفی ڈرین گولیاں بنا کر عراق ایکسپورٹ کرنی ہیں۔ اس ایکسپورٹ سے ملک کو اتنے ملین ڈالر کا فائدہ ہوگا، چنانچہ ہمیں ۱۰ ہزار کلوگرام ایفی ڈرین کا کوٹہ الاٹ کیا جائے۔
مخدوم شہاب الدین اور مخدوم موسیٰ گیلانی نے 9000 کلوگرام ایفی ڈرین کا کوٹہ کچھ کمپنیوں کو لے کر دیا۔
حنیف عباسی  نے بھی اپنی کمپنی گریس فارما کے لئے ایفی ڈرین کا 500  سو کلو گرام کا کوٹہ الاٹ کروا لیا -

 32لاکھ روپے مالیت کے ایفی ڈرین کوٹہ میں حنیف عباسی کی کمپنی گریس فارما سوٹیکل کی بزنس پارٹنر’’ڈی واٹسن‘‘ کے مالک زاہد بختاوری (احمدی) کی اہلیہ مسماة رضیہ بختاوری تھی اس کی  جانب سے ادا شدہ 16لاکھ روپے مالیت کے پے آرڈر، کے ثبوت عدالت کو پیش بھی کئے گئے۔
نامزد ملزمان :
 ایفی ڈرین کیس میں گریس فارما کے مالک حنیف عباسی ،ان کے بھائی وحماس فارما کے مالک باسط عباسی ،چچا زاد بھائی وفیکٹری منیجر سراج احمد عباسی،برادر نسبتی ومارکیٹنگ منیجررانا محسن خورشید،پروڈکشن منیجرغضنفر علی، کوالٹی کنٹرول منیجر ناصر خان ،اے بی فارماسیوٹیکل کے مالک احمد بلال اور نزاکت خان اس کیس میں  نامزد ملزم تھے اس کیس میں حنیف عباسی کو عمر قید ہوچکی ہے جبکہ ان کے بھائی سمیت ان کی کمپنی کے دوسرے افراد کو شک کا فائدہ دے کر بری کر دیا گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

دہشت گردی کے خلاف جنگ کا غلغلا بلند ہونے سے پہلے امریکہ اور یورپ کے ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ منشیات کا تھا۔
90ءکی دہائی میں امریکہ پاکستان پر الزام لگاتا تھاکہ یہاں سے ہیروئن اور دوسری منشیات امریکہ اور یورپ میں سمگل ہوتی ہے۔
امریکی دفتر خارجہ نے 90 ءکی دہائی میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں الزام لگایاتھاکہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں منشیات کے بعض سمگلر موجود ہیں۔ اس سے قبل 80ءکی دہائی میں تو بعض اعلیٰ اور حساس عہدوں پر فائز سرکاری اہلکاروں پر بھی منشیات کی سمگلنگ میں ملوث ہونے کے الزام لگائے جاتے رہے ہیں. لیکن ان الزامات کو تقویت تب ملی جب
آسٹریلیا میں ممنوعہ ادویات فروخت کرنے والا ایک ریکٹ پکڑا گیا اس ریکٹ سے بھاری مقدار میں ایفی ڈرین برآمد ہوئی۔
 تحقیقات ہوئیں تو پتا چلا یہ ایفی ڈرین پاکستان سے سمگل ہو کر آسٹریلیا آئی تھی۔
آسٹریلیا نے پاکستان کو تحریر طور پر مطلع کردیا۔
یہ فائل پاکستان کے دفتری نظام میں چلنا شروع ہوگئی اور چلتے چلتے اینٹی نارکوٹکس کے پاس پہنچ گئی۔
 اے این ایف نے روٹین کے مطابق کارروائی شروع کردی۔ کارروائی کے دوران جب تفتیش ہوئی تو پتا چلااینٹی نارکوٹکس نے وزارت صحت کی طرف سے بڑے پیمانے پرایفی ڈرین کے کوٹے جاری کئے گئے
  اس ڈرگ کے استعمال کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ مخدوم شہاب الدین اور مخدوم موسیٰ گیلانی نے 9000 کلوگرام ایفی ڈرین کا کوٹہ کچھ کمپنیوں کو لے کر دیا۔
اے این ایف کی تحقیقات کے مطابق اس کوٹہ سے ادویات بہت محدود پیمانے پر بنائی گئی ہیں البتہ ہزاروں کلوگرام اس کوٹہ کو بیرون ملک سمگل کیا گیا ہے یا پھر اسے نشہ آور اشیاءاور جنسی قوت میں اضافہ کرنے کیلئے ادویات میں استعمال کے لئے دیا گیا ہے اور اس طرح اربوں روپے کمائے گئے ہیں۔ ایفی ڈرین سے ایک اور نشہ آور کیپسول Ecastacy یعنی ”لذت“ بھی تیار ہوتا ہے.

۔ ایفی ڈرین  ایک ایسا کیمیکل ہے جو مختلف ادویات میں استعمال ہوتا ہے۔ قدیم زمانے میں ایفیڈرین مختلف پودوں سے اخذ کیا جاتا ہے۔ کیمیا دانوں کے مطابق قدیم زمانے میں ایفی ڈرین چینی جڑی بوٹی ایفی ڈرینکا سے اخذ کیا جاتا تھا۔ یہ کیمیکل عمل سے مصنوعی طور پر بھی بنایا جاسکتا ہے۔ پرانے دور میں ایفی ڈرین پودوں سے حاصل کیا جاتا تھا لیکن جدید دور میں ایفیڈرین کو کیمیائی عمل Synthetic طریقے سے بنایا جاتا ہے۔ ایفی ڈرین کو وزن کم کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ یہ چربی کو کم کرتا ہے۔ یہ کیمیکل دمہ کے مریض بھی استعمال کرتے ہیں، اسے نشہ آور ادویات میں بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔  یہ عموماً کھانسی کے شربت میں استعمال ہوتا ہے لیکن اس کیمیکل کو اگر ہیروئن میں ملا دیا جائے تو اس کے اثرات میں ۱۰ گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ ایفی ڈرین سے ایسی گولیاں بھی بنائی جاتی ہیں جنھیں نوجوان لڑکے لڑکیاں پارٹیوں کے دوران استعمال کرتے ہیں۔ یہ گولیاں انہیں ’’ایکٹو‘‘ کردیتی اور یہ تھکے بغیر گھنٹوں ناچتے رہتے ہیں۔ یہ گولیاں ’’موڈایلی ویٹر‘‘ بھی کہلاتی ہیں۔ یہ نوجوانوں کا موڈ خوشگوار بنا دیتی ہیں
 اور یہ وقتی لحاظ سے دنیا جہاں کے دکھوں سے آزاد ہوجاتے ہیں لیکن اس خوشگوار اثر کے ساتھ ساتھ یہ گولیاں ’’لت‘‘ بھی ہیں۔ آپ اگر انہیں ایک دو مرتبہ استعمال کرلیں تو آپ ان کے مستقل عادی ہو جاتے ہیں چنانچہ یورپ، امریکا اور مشرق بعید سمیت دنیا کے 90 فیصد ممالک میں ان گولیوں کی تیاری اور فروخت پر پابندی ہے۔ ان گولیوں کا بنیادی مرکب ایفی ڈرین ہے لہٰذا پوری دنیا میں ایفی ڈرین کی کھلی تیاری اور فروخت پر پابندی ہے اور یہ صرف حکومتی لائسنس کے ذریعے محدود پیمانے پر حاصل کی جاسکتی ہے
پاکستان میں وزارتِ صحت ادویات ساز کمپنیوں کو ایفی ڈرین کا کوٹہ جاری کرتی ہے۔ اس کوٹے کی حد 500 کلوگرام ہے۔
اب اگر کوٹے کی حد 500 کلو گرام ہے تو 9 ہزار کلو گرام کا کوٹہ کیسے دیا گیا یہ راکٹ سائنس سمجھانے کے لیے میں اپ کو آٹھ سال پیچھے پیپلزپارٹی کی حکومت میں لیکر چلتی ہوں
 ۲۰۱۰ء اور ۲۰۱۱ء میں ملتان کی ایک فارماسوٹیکل کمپنی برلیک اور اسلام آباد کی دواساز کمپنی ڈاناس فارما نے سیکرٹری صحت سے رابطہ کیا۔
 سیکرٹری کو عراق کی ایک کمپنی کا آرڈر دکھایا گیا اور اس آرڈر کی بنیاد پر وزارت صحت سے درخواست کی ’’ہم نے بھاری مقدار میں ایفی ڈرین گولیاں بنا کر عراق ایکسپورٹ کرنی ہیں۔ اس ایکسپورٹ سے ملک کو اتنے ملین ڈالر کا فائدہ ہوگا، چنانچہ ہمیں ۱۰ ہزار کلوگرام ایفی ڈرین کا کوٹہ الاٹ کیا جائے۔

اس درخواست کے ساتھ ہی توقیرعلی خان نام کا ایک شخص سیکرٹری صحت (اس وقت) خوشنودلاشاری کے پاس پہنچ گیا۔ توقیر علی خان بعدازاں وزیراعظم کے صاحبزادے علی موسیٰ گیلانی کا سیکرٹری نکلا۔ توقیر علی خان نے سیکرٹری صحت پر دبائو ڈالا۔
خوشنوصاحب وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری بننا چاہتے تھے۔ یہ توقیر علی خان کے دبائو میں آگئے اور انہوں نے ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹررشیدجمعہ کو لائسنس جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ رشیدجمعہ کا کنٹریکٹ ختم ہورہا تھا، یہ کنٹریکٹ میں توسیع چاہتے تھے۔ انہیں توسیع کا لالچ دے دیا گیا۔
 یہ لالچ میں آگئے اور انہوں نے دونوں کمپنیز کو 9 ہزارکلوگرام ایفی ڈرین کا کوٹہ دے دیا۔ یہ پوری لوکل مارکیٹ کی ضرورت سے کہیں زیادہ تھا۔

یہ کوٹہ ملتے ہی دونوں کمپنیوں نے وزارت سے دوبارہ رابطہ کیا اور وزارت کو اطلاع دی کہ عراق کی کمپنی نے آرڈر منسوخ کر دیے ہیں۔ ہم اب گولیاں ایکسپورٹ نہیں کر سکتے چنانچہ ہمیں یہ لوکل مارکیٹ میں استعمال کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ یہ قانون کی دوسری خلاف ورزی تھی لیکن کیونکہ موسیٰ گیلانی کا سیکرٹری فائل کے ساتھ ساتھ تھا چنانچہ ڈی جی ہیلتھ اور سیکرٹری ہیلتھ نے دونوں کمپنیوں کو یہ کوٹہ ملک میں استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ کمپنیوں نے چند ہفتے بعد وزارت کو اطلاع دی ہم نے ۹؍ہزار کلوگرام ایفی ڈرین کی گولیاں بنا کر مارکیٹ میں فروخت کردی ہیں۔ وزارت نے کمپنیوں کا یہ سرٹیفکیٹ قبول کرلیا۔
 اس دوران کسی نے ان کمپنیوں سے نہیں پوچھا ملک میں ہر سال ایفی ڈرین کی صرف 10 ہزار گولیاں بنتی ہیں لیکن تم نے ڈیڑھ دو ارب گولیاں بنا کر مارکیٹ میں فروخت کردیں، یہ کیسے ممکن ہے؟ اور یہ گولیاں کہاں استعمال ہوئیں لیکن کیونکہ فائل کے پیچھے موسیٰ گیلانی کا سیکرٹری تھا، لہذا کون ہوچھ سکتا تھا
ایک نیوز رپورٹ کے مطابق
ایف آئی آے نے جب ان دو کمپنیز کی تحقیقات کی تو
ملتان کی  برلیک کمپنی   نے ستر اسی کروڑ گولیاں بنانے کا دعویٰ کیا تھا اس کا اس ماہ کا بجلی کا بل صرف 14 ہزار روپے تھا۔ اس کا مطلب تھا اس کارخانے میں سرے سے کوئی کام ہی نہیں ہوا۔ اسلام آباد کی کمپنی ڈاناس فارما  کی حالت بھی ایسی ہی تھی۔

اے این ایف نے تحقیقات کا دائرہ بڑھایا تو یہ بہت جلد توقیرعلی خان، خوشنودلاشاری ڈاکٹر رشید جمعہ اور موسیٰ گیلانی تک پہنچ گئی۔
 خوشنودلاشاری اس وقت تک وزیراعظم گیلانی کے پرنسپل سیکرٹری بن چکے تھے۔
تحقیقات کے دوران وزارت کے کچھ افسروں نے تمام دستاویزات اور ثبوت اے این ایف کے حوالے کردیے اور کیس کھل گیا۔
اس دوران وزیراعظم پرنسپل سیکرٹری اور موسیٰ گیلانی کو معاملے کی سنگینی کا اندازہ ہوگیا۔ لیکن اس اندازے سے قبل اینٹی نارکوٹکس کے سیکرٹری سہیل احمد نے اے این ایف کو موسیٰ گیلانی اور خوشنودلاشاری کو نوٹس جاری کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ وزیراعظم گیلانی نے فوری طور پر سہیل احمد کا تبادلہ کردیا۔
چودھری برادران اس نازک وقت میں وزیراعظم کی مدد کے لیے آگے بڑھے۔ ان کے کزن چودھری تجمل حسین کے داماد ظفرعباس لک  21  ویں گریڈکے افسر تھے۔
چودھری برادران نے ان کی خدمات وزیراعظم کو پیش کر دیں۔ وزیراعظم نے انہیں اینٹی نارکوٹکس کی وزارت کا قائم مقام انچارج بنادیا۔ وزیراعظم نے اینٹی نارکوٹکس ایکٹ میں تبدیلی کرکے اے این ایف کے تمام اختیارات سیکرٹری کو سونپ دیے۔
 وزیراعظم گیلانی اور انچارج سیکرٹری نے اے این ایف کے ڈی جی میجر جنرل شکیل حسین اور تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ بریگیڈیئر فہیم کی خدمات فوج کو واپس کردیں یوں یہ معاملہ اور تمام اختیارات ظفر عباس لک کے پاس آگئے۔
 ۔ایف آئی اے کے افسر نے دونوں سے دو دو کروڑ روپے لیے اور ان کے حق میں فیصلہ دے دیا لیکن اے این ایف کی تحقیقات میں یہ کمپنیاں اور دیگر لوگ ملزم ثابت ہوگئے۔ چنانچہ اے این ایف نے ملزموں کے خلاف کارروائی کا حکم جاری کردیا۔ ملزم اس حکم کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ چلے گئے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس دوبارہ وزارت کے پاس بھجوایا۔ وزارت اس وقت تک ظفرعباس لک کے ہاتھ میں آچکی تھی چنانچہ سیکرٹری نے اس کیس کو بے بنیاد اور جھوٹا قرار دے دیا۔ اے این ایف کے ڈی جی میجرجنرل شکیل حسین اپنے سیکرٹری کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں چلے گئے اور یوں یہ کیس سپریم کورٹ پہنچ گیا اور وہاں پہنچ کر ساری کہانی کھل گئی۔
 حکومت نے اس دوران ڈی جی اے این ایف میجر جنرل شکیل اور تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ بریگیڈیئر فہیم کو عہدوں سے ہٹا دیا لیکن سپریم کورٹ نے 10 اپریل کو موسیٰ گیلانی اور خوشنودلاشاری کو نوٹس جاری کرنے اور تحقیقاتی ٹیم اور بریگیڈیئرفہیم کو واپس بحال کرنے کا حکم دے دیا اور یوں ایک بار پھر سپریم کورٹ اور وزیراعظم آمنے سامنے کھڑے ہوگئے۔
April 21, 2017
ایفی ڈرین کوٹہ کیس میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی موسی گیلانی سمیت گیارہ ملزمان پر فرد جرم عائد کردی گئی یہ لوگ ضمانتوں پر ہیں جبکہ باقی جعلی کمپنیز کے نام پر کوٹہ لینے والے بھی اس وقت شکنجے میں ہیں
موسی گیلانی اور مخدوم شہاب الدین پہ ناجائز کوٹے کا کیس ہے
مخدوم شہاب الدین کو ایفیڈرین کیس اس وقت لے بیٹھا جب وہ  وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو گھر بھیجے جانے کے بعد وزارت عظمیٰ کے لئے پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کے امیدوار نامزد ہو چکے تھے اور اپنے دوستوں اورعزیزوں سے مبارکبادیں بھی وصول کرچکے تھے کہ اے این ایف نے ایفی ڈرین کیس میں ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیئے۔ ادھر مخدوم صاحب وزارت عظمیٰ کے منصب کے لئے نامزد ہوئے اور ادھر ٹی وی چینلز نے یہ خبر بریک کر دی اے این ایف نے عدالت سے مخدوم شہاب الدین کے وارنٹ گرفتاری جاری کرا دیئے ہیں، جس کے بعد صدر زرداری اور ان کے ساتھیوں نے فوری طور پر مخدوم صاحب کو پیچھے کرکے راجہ پرویز اشرف کو وزارت عظمیٰ کے لئے نامزد کر دیا تھا
یہ انتہائی نوعیت کا کیس ہے جس میں 7 سے 21 ارب روپے کی کرپشن ہوئی۔  اس سے ٹنوں کے حساب سے ہیروئن بھی بنی تھی اور اربوں کی تعداد میں نشہ آور گولیاں بھی اور یہ سارا مواد آسٹریلیا اور یورپ میں فروخت ہوا
اب آتے ہیں کے اس کیس  میں حنیف عباسی کیسے داخل ہوا
سیکرٹری ہیلتھ نے جب یہ کوٹہ جاری کیا تو راولپنڈی سے پاکستان مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے ایک ایم این اے سیکرٹری خوشنودلاشاری کے پاس گئے۔ انہیں لائسنس کی کاپی دکھائی اور دھمکی دی کہ میں یہ مسئلہ میڈیا میں اٹھائوں گا۔   شنودلاشاری گھبرا گئے چنانچہ انہوں نے اس ایم این اے کو بھی ایفی ڈرین کا کوٹہ دے دیا۔
اس ایم این اے یعنی حنیف عباسی کی انڈسٹریل ایریا روات میں واقع ’’گریس فارما سیوٹیکل ‘‘ کمپنی تھی چنانچہ اس نے دھمکا کے  ایفی ڈرین کا 500  سو کلو گرام کا کوٹہ الاٹ کروا لیا اس  کا ناجائز استعمال کیا بعد ازاں مطلوبہ دوا تیار کرنے کی بجائے صرف نمونے (سیمپل)بنائے اور جعلی سیل ریکارڈ تیار کیا اور ایفی ڈرین کی باقی مقدار منشیات سمگلروں کو فروخت کر دیی اور ناجائز دولت اکھٹی کرنے کا ذریعہ بنایا جبکہ وزارت صحت کی ہدایات کے مطابق کمپنی انتظامیہ ایفی ڈرین کوٹہ کے استعمال ، خریدوفروخت اور دوا سازی میں استعمال کا مکمل ریکارڈ رکھنے کی پابند ہے تاہم کمپنی انتظامیہ اس حوالے سے تسلی بخش جواب نہ دے سکی
اس 32لاکھ روپے مالیت کے ایفی ڈرین کوٹہ میں حنیف عباسی کی کمپنی گریس فارما سوٹیکل کی بزنس پارٹنر و ’’ڈی واٹسن‘‘ کے مالک زاہد بختاوری کی اہلیہ مسماة رضیہ بختاوری تھی اس کی  جانب سے ادا شدہ 16لاکھ روپے مالیت کے پے آرڈر، کے ثبوت عدالت کو پیش بھی کئیے گئے
 ایفی ڈرین کیس میں گریس فارما کے مالک حنیف عباسی ،ان کے بھائی وحماس فارما کے مالک باسط عباسی ،چچا زاد بھائی وفیکٹری منیجر سراج احمد عباسی،برادر نسبتی ومارکیٹنگ منیجررانا محسن خورشید،پروڈکشن منیجرغضنفر علی، کوالٹی کنٹرول منیجر ناصر خان ،اے بی فارماسیوٹیکل کے مالک احمد بلال اور نزاکت خان اس کیس میں  نامزد ملزم تھے اس کیس میں حنیف عباسی کو عمر قید ہوچکی ہے جبکہ ان کے بھائی سمیت ان کی کمپنی کے دوسرے افراد کو شک کا فائدہ دے کر بری کر دیا گیا

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Alhamdolillah today Special Judge Anti Narcotics Rawalpindi sentenced Hanif Abbasi for life. Judge took time to decide whether death sentence or life. This being the first case of its nature death sentence was not awarded. However appeal court may decide to sentence him to death. Musa Gilani's case is even worse. He's involved in 8600 kg ephedrine which has not been accounted for fully. (Mian Zulqarnain Aamir)

COMMENTS:
Navees Ahmad Sir please update the case of two main culprits Makhdoom Shahab Ud Din and Ali Mousa Gillani?
I think they both also contesting the elections of Member National Assembly....
This is a fundamental judiciary rule that main case and appeals decide first and latter on part case and appeals decided but in said case only small culprit case decided whereas major culprits freely contest elections...
secondly in said case top and major culprits are Secretary health and DG health but their case is still pending and hopefully nothing will be done in both cases...


Mian Zulqarnain Aamir These are two separate cases. True that the main consignment which was intercepted by Australians belonged to musa Gilani's party in which minister secretary DG health additional DG health musa Gilani and other influential and rich people were involved. Abbasi only took advantage of their case and blackmailed the secretary to allot him too. It was musa case which was very high profile and in which all kinds of shenanigans. People suffered at all levels who stood loyal to the state. As usual toadies and sycophants thrived. However brig fahim was firm and made perfect investigations. He interrogated all and sundry. Wherever the judge wants to decide or is ordered by the high court to decide the accused will get similar or more severe punishment. As I said earlier ANF does meticulous work hence it attains conviction rate of more than 90%. Accused has only one recourse... delay.

  

جمعہ، 20 جولائی، 2018

جمہوریت کا حُسن !

 آپ کِس کو ووٹ ڈال رہے ہیں  ؟
یہ جمہوری سوال نہیں !
بلکہ
کیا آپ ووٹ ڈال رہے ہیں ؟

جمہوریت کا حُسن   ہے !
کیا سمجھے ؟
ووٹ ڈالیں اپنے پسند کے امیدوار کو ، 

اِس لئے نہیں کہ وہ آپ کے والد یا والدہ کا پسندیدہ ہے !

جمعرات، 19 جولائی، 2018

آئی ایس آئی کو پاکستان کی سیاست میں بھرپور دخل دینا چاہیے!

 ایک محب وطن پاکستانی کی سوچ کیا ہونی چاہیے . 
آئی ایس آئی کو پاکستان کی سیاست میں بھرپور دخل دینا چاہیے! 
کیوں اس پر اعتراض ہے کسی کو؟ 
جب بھارت، امریکہ اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیز پاکستان کے سیاستدانوں کو خرید سکتی ہیں، الیکشن میں پیسہ لگا سکتی ہیں، تو پھر آئی ایس آئی پر تو لازماً فرض ہےکہ ملکی مفاد میں سیاست میں دخل دے۔
 جس دن پاکستان کے مخصوص سیاستدان، پاکستان سے غداری ترک کردیں گے، راء اور سی آئی اے کی مدد سے الیکشن میں دھاندلی بند کردیں گے، تسلی رکھیں، اس دن سے فوج اور آئی ایس آئی بھی سیاست میں انکی راہ روکنا بند کردے گی۔ تب تک کیلئے اپنے منہ بند رکھیں!!! 
جن کو آئی ایس آئی کی سیاست میں دخل دینے پر اعتراض ہے ،وہ پہلے ان سیاستدانوں کو پٹہ ڈالیں کہ جو را ء، این ڈی ایس اور سی آئی اے کے کہنے پر ملک و قوم سے غداری کے مرتکب ہوتے ہیں۔
 میمو گیٹ، زرداری ، نواز شریف، الطاف حسین ، اسفندیار اور اچکزئی کے راء اور سی آئی اے سے رابطے حلال ہیں ۔
کیا۔۔۔؟؟؟ 

اچھی طرح سمجھ لیں کہ آئی ایس آئی ”مارخور“ ہے-
یعنی آستین کے سانپوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر پکڑنا اور ہلاک کرنا، اس کی ڈیوٹی ہے، چاہے یہ سانپ ٹی ٹی پی کے ہوں، ایم کیو ایم میں، زرداری کے گینگ، پارلیمان میں مسلم لیگی،    یا میڈیا میں راء اور سی آئی اے والے ۔
 1971 ءمیں راءمکمل طور پر پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو خرید چکی تھی۔
 شیخ مجیب الرحمن کی غداری اگرتلہ سازش کیس میں سالوں پہلے پکڑی جاچکی تھی۔
 جب غداروں کو پھانسیاں دینے کے بجائے الیکشن میں جتوایا جائے، تو پھر ”سقوط ڈھاکہ“ ہی ہوتے ہیں۔
 امریکا میں الیکشن سی آئی اے کی مرضی کے بغیر نہیں جیتا جا سکتا -
 روس میں کے جی بی حکومت بنواتی ہے -
برطانیہ میں ایم آئی فائیو کی طاقت کا کس کو نہیں پتا -
انڈیا میں را کی مرضی کے بغیر کوئی سیاستدان بیان تک نہیں دے سکتا -
لیکن اگر ایسا آئی ایس آئی کرے تو سب منہ پھاڑ کر گالیاں دیتے ہیں ۔ 
فرق یہ کہ ان ممالک میں اتنی اجازت نہیں کے فوج اور ایجنسیز پر تنقید کر سکیں-
 جیل بھیج دیا جاتا ہے-
سکینڈل بنا دیا جاتا ہے-
کیریئر ختم کروا دیا جاتا ہے-
 ایکسیڈنٹ میں مروا دیا جاتا ہے -
یا  مفقود الخبر کروادیا جاتا ہے !
لیکن یہ سہولت بھی ہماری فوج اور آئی ایس آئی نے دی ہوئی ہے ہمارے ملک میں سب کو،
  دل بھر کر تنقید کرو
گالیاں دو دفاعی اداروں کو .
 امریکا میں حال ہی میں ریٹائر سی آئی اے ڈائریکٹر کو امریکا کا سیکرٹری اف اسٹیٹ بنایا گیا ہے-
 اسرائیل کے فوج کے کافی لوگ سیاست میں ہیں-
 گورنمنٹ میں ہیں-
 کہیں پر شور سنا کے ایسا کیوں ؟ 
لیکن اگر آئی ایس آئی کے ریٹائر لوگ حکومت میں لگائیں جائیں تو پاکستان میں اور دنیا میں شور سنیں-
 یہ قائدہ بہت اچھی طرح سمجھ لیں۔
 فوج اور آئی ایس آئی صرف اس وقت سیاست اور الیکشن میں دخل نہیں دینگے کہ جب غیر ملکی دشمن خفیہ ایجنسیاں بھی دخل نہ دیں۔ 
جب سیاستدان غدار ہوں، تو محب وطن ”مارخور“ کو مجبوراً سیاسی بساط میں بھی دشمنوں کو شکست دینی پڑتی ہے۔ 
یہ میسج سب کو فارورڈ کر کے لوگوں میں آگاہی اور معلومات  پہچانے  میں اپنا کردار ادا کریں-
ہم سب پاکستانی، پاکستان آرمی ہیں۔ ISI ہیں۔ پاکستان زندہ باد۔ 
بشکریہ ۔ ISI
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مہاجر زادہ کو یہ مضمون ایک  کورس میٹ کی طرف سے وٹس ایپ ہوا ۔
مہاجرزادہ نے دلچسپی سے پڑھا  ۔ لیکن دل پر نہ لیا ۔
کیوں کہ نہ یہ تحریر  اُن کی ہے  ، جن کے لئے رویا جا رہا ہے ۔
اور نہ اُن کی جن کے لئے رُلایا  جا رہا ہے !
سوچا  2008 سے 2108 تک 10 سال بلاڈی سویلیئن کو ملک پر حکومت کرتے ہو گئے ہیں ۔ 
20 کروڑ عوام  تنگ آچکے ہیں جمہوریت سے !
اب " میرے عزیز ہم وطنو"سننے کو دل چاہتا ہے !
خرد کا نام جنوں رکھ دو اور جنوں کا خرد !
جو چاہے آپ کا ڈنڈا کرشمہ ساز کرے !
ویسے بھی میں حیران ہوں کہ   ریحام خان نے کیسے اتنی بڑی بات کردی ، جبکہ آئی ایس آئی کی طرف سے مضمون لکھنے والے کا پورا دعویٰ ہے کہ اُن کی آنکھیں پوری کھلی ہیں ، یا پھر  پورا کھلنے سے پھٹ  گئی ہیں اور ٹنل ایفیکٹ پیدا ہو گیا ہے !



طوائف کا بیٹا !

  پرویز خٹک نے اپنے کارکنوں سے خطاب میں کہا ِ
" تحریک انصاف کے جھنڈے کے علاوہ دوسرا جھنڈا جو لگا رہے ہیں ، آپ ان کے گھروں پہ جا کر ان سے کہہ دیں کہ یہ جھنڈا لگانے سے بہتر ہے کہ آپ اپنے گھر کی خواتین کا دلال بن کر ان کا چکلہ و رنڈی خانہ چلائے؛

 بے غیرتو! تم نے خٹک قوم کی غیرت خراب کی ہے اس سے بہتر ہے کہ اپنی بیویوں کو چلانا شروع کردو!
 میں جس کے ہاتھ میں پیپلزپارٹی کا جھنڈا دیکھتا ہوں تو سمجھ جاتا ہوں کہ یہ ضرور کسی طوائف کا بیٹا ہوگا ۔ "
 پرویز خٹک صاحب کو شاید بھول گیا ہوگا کہ ایک وقت وہ بھی  پیپلز پارٹی  کا جھنڈا اٹھائے ، پیپلز پارٹی کے جیالے کے طور مرحومہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔
کیا پرویز خٹک نے اپنا خاندانی نسب عوام کو بتانے کی کوشش کی ہے ؟



ماں ، ہم شرمندہ ہیں !



   1979 کے سخت ترین جاڑے کی ایک اتنی ہی سرد اور اداس شام تھی۔
 یوگوسلاویہ کے دورافتادہ اور پسماندہ گاوں میں ایک قصاب بخار میں پھنک رہا تھا۔ پریشانی اس کے چہرے پہ عیاں تھی ۔ کسی نہ کسی طرح ہمت جمع کرکےاس نے گوشت تو بنا لیا- مگر اسے ریستوران تک پہنچانا اسے عذاب لگ رہا تھا۔ اتنے میں اس کی 11 سالہ بیٹی سکول سے لوٹی۔ باپ کو پریشان دیکھ کر ماجرہ سمجھ گئی۔
 برفباری میں گوشت سے لدی بھرکم ریڑھی کھینچ کر ریستوران تک چھوڑ آئی۔ 
وہ مڈل سکول میں گاوں کے سکول میں اوّل آئی۔
 تب امریکہ میں ہائی سکول میں وظیفے کا امتحان منعقد ہوا ۔ وہ اس میں منتخب ہونے والے چند طلبہ میں سے ایک تھی۔ قصاب کی بیٹی کو پڑھنے اور محنت کرنے کا جنون تھا۔ 
جو بالآخر اسے ہارورڈ یونیورسٹی کے کینیڈی سکول میں لے گیا۔ 
 یہاں سے وہ  جارج واشنگٹن یونیورسٹی اور پھر جان ہاپکنز یونیورسٹی  جا پہنچی ۔

چند برس کی محنت شاقہ کے نتیجےمیں وہ امور خارجہ میں ماہر سمجھی جانے لگی۔
2007    میں امریکہ میں اپنے ملک  کروشیا کی پہلی خاتون سفیر مقرر ہوئی ۔ 
اسی خاتون کو چند روز قبل ساری دنیا نے FIFA ورلڈ کپ کے فائنل میں اپنی ٹیم کا دیوانہ وار جذبہ بڑھاتے دیکھا۔ وہ عام سٹینڈ میں اپنے ہم وطنوں کے درمیان ڈبوں والی سرخ T-shirt زیب تن کئے نعرے بلند کرتی نظر آئی۔
 یہ کولنڈا گریبر. Kolinda Grabar Kitarović ہے۔ کروشیا کی منتخب صدر۔29 اپریل 1968 کو پیدا ہونے والی ۔
 جسے دو ارب سے زائد ٹی وی سے چپکے ناظرین ستائش بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ وہ اکانومی کلاس میں خود ٹکٹ خرید کر پہنچی۔ VIP سہولیات شکریہ سے واپس کردیں ۔ اس دورانیہ کی تنخواہ بھی نہیں لیں گی۔
 کروشیا کی آبادی محض چالیس لاکھ ہے۔ اس کا ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں تھا ۔
 50 سالہ کولنڈا اپنے ملک کے تمام میچوں میں موجود رہی۔ اس دوران اسنے NATO کے سربراہ اجلاس میں بھی شرکت کی۔ مگر راتوں رات واپس ماسکو پہنچ گئی۔ میچ کے وقفہ میں وہ اپنے مدمقابل فرانسیسی ٹیم کے کمرے میں اچانک پہنچی ۔ اس نے ان کا بھی حوصلہ بڑھایا۔ 
کروشیا بہتر ٹیم ہونے کے باوجود تجربہ کار فرانس کی ٹیم سے شکست کھا گئی ۔
 کولنڈا سب کھلاڑیوں سے بغلگیر ہوئی۔ مگر جب کپتان موڈرچ سے ملی تو دونوں پھوٹ پھوٹ کر رودیئے۔
 جواں سال موڈرچ جسے Golden ball award یعنی دنیا کے بہترین کھلاڑی کے اعزاز سے نوازا گیا ،بولا 
"ماں ، میں نے آج تجھے ساری دنیا کے سامنے شرمسار کردیا"
 کولنڈا نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولی۔ 
"میرے بچے ، تم مٹھی بھر جوانوں نے دنیا کے دل جیت لئے ہیں ۔ آج تم ہار کر بھی فتح یاب ہو ۔ میرے ملک کے لئے عزت کا یہ مقام ایک دھات سے بنے کپ کو تھامنے سے بدرجہا بہتر ہے "
 اس نے تیز بارش میں چھتری واپس کردی اور بولی میرے بچے بارش میں نہا رہے ہیں ۔ میں بھی انکے ساتھ مسرور ہوں۔ 


کولنڈا نے کروشیا کو ترقی یافتہ ممالک میں شامل کرنے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔ اس نے وزیر خارجہ کی حیثیت سے اسے یورپین یونین کا رکن بنوایا۔ جس سے روزگار اور تجارت کے بے پناہ مواقع میسر آئے۔ NATOکی پہلی مرتبہ خاتون اسسٹنٹ سیکریٹری منتخب ہوئی۔ وہ پوٹن اور میکرون کے بیچ کھڑی بلند وبالا نظر آئی۔
 اپنے گرد نگاہ دوڑائیں  ۔ہماری بصارت اور بصیرت سے محروم آنکھ گلے میں پڑے طوق اور پاوں میں بندھی زنجیروں کو محسوس ہی نہیں کر پاتی۔ 
کیا ہم بھی کسی عام آدمی کو غیر معمولی ذہانت۔اخلاص اور بلند اخلاق و کردار  کی بنیاد پر اپنا رہبر چنیں گے؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مزید پڑھیں :   کروشیا کی صدر ، کولنڈا  

سیاست نہیں ، معلومات !


پیر، 16 جولائی، 2018

چور سادھ بن گئے !

 عمران نے چوروں کو پکڑا تو چھوٹے بڑے سب چور اکھٹے ہو گئے ۔ 


نواز شریف کو کیسے ہٹایا جائے ؟


 لیکن نواز شریف کو کیوں ہٹایا جائے ؟
اُس  کا ایسا کیا جرم ہے ؟




 یہ اتنا بڑا سوال تھا  کہ جس کے جواب کو حل کرنے کے لئے تمام غیبی طاقتیں سر جوڑ کر بیٹھ گئیں ۔  صرف ایک واحد حل تھا ۔  اور وہ بیرونِ ملک سے ڈوریاں ہلائی جائیں ۔
پاکستان کے تمام  بیوروکریٹس ، ملٹری کریٹس ، سیاست دان  ، بیرون ملک اپنی آمدنی سے زائد اثاثے بنانے میں مشہور ہیں ، یہ اثاثے کیسے بنائے جاتے ہیں ؟ 

 سب پاکستانی جانتے ہیں  !
یہ اثاثے صرف وہی بنا سکتے ہیں جو آفس ہولڈر ہوتے ہیں ! یا   پھر ،

بزنس مین  ، اپنی محنت سے غیر ممالک میں جانے والا صرف قرض سے اپنے اثاثے بنا سکتا ہے ! یا پھر   ، 
عوام سے چندے مانگنے والے  مُلّا و فقیر ، پاکستان میں اِس طریقے سے اپنی  آمدنی سے ملکی اور بیرون ملکی سب سے زیادہ اثاثے بنانے والا  اِس صدی کا  ولیّ تھا  ۔ عبدالستّار ایدھی،   ایدھی فاونڈیشن  میں 51 فیصد حصص حکومتِ پاکستان کے ہیں ۔

نواز شریف کو پکڑنے کے لئے ، پاکستان کے ملک و بیرونِ ملکی تمام سازشی ، ذہنوں کو یہ کہہ کر اکٹھا کیا ، کہ لوہار کا بیٹا  زرداری کے بعد  پاکستان کا دوسرے نمبر پر امیر ترین انسان ہے ، جس نے رائے ونڈ میں مغل شہنشاہوں کے طرز پر محل بنایا ہے اور کیوں کہ ہندوستان کا مہاجر ہے لہذا ہندوستان سے اپنی محبت برقرار رکھی ہے اور اپنے محل کو  ہندوستان  کے محلے کے نام سے جاتی امراء رکھا ہے جو ایک غریبوں کی بستی تھی مگراُن کے خیالات امیروں کے تھے ۔ 


لکھاریوں کی ایک پوری ٹیم خریدی گئی  ، کمپیوٹر ، گرافکس ، ویب ڈیزائینگ  کے  لوگ خریدے گئے اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کام شروع کردیا ۔
سوئیزر لینڈ کے علاوہ ، پانامہ اور دیگر کئی ملکوں میں ، تیسری دنیا کے علاوہ پہلی دنیا کے ممالک کے وہ لوگ جو اپنی  دھڑا دھڑ کمائی کو ٹیکسوں سے بچا کر        باہر لے جاتے ہیں اور وہاں جائدادیں بناتے ہیں ۔   کمپیوٹرز کے ھیکرز  جن میں زیادہ تر بلیک میلنگ کے لئے مشہور ہیں اور اپنا مواد  دوسرے ملکوں کے بلیک میلرز  کو بیچتے رہتے ہیں ، جب کسی کو گرانا ہوتا ہے یا جائدادوں پر  قبضہ کروانا  ہوتا ہے  تو یہ  مواد لیک کر دیا جاتا ہے  ۔ جن میں سے ایک مشہور زمانہ پانامہ لیکس   ہے   جس کی دھول  5 جولائی 2016  اُٹھی ۔ اور دوسری پیرا ڈائز لیکس  ہے -
پڑھیں پیرا ڈائز لیک   کے پاکستانیوں کے نام

مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی ، کہ  پنامہ میں  آف شور  کمپنی کھولنے والا سب سے پہلا پاکستانی ، محمد عمران خان نیازی ولد اکرام خان نیازی تھا  ، جس نے  بڑے شاطرانہ انداز میں اپنی صفائی دی ، کہ اُسے  اُس کے ٹیکس لائرز نے برطانیہ میں اپنا خریدے جانے والے فلیٹ پر ٹیکس بچانے کے لئے   برطانیہ سے باہر کمپنی کھولنے کا مشورہ دیا ۔ جس کے ذریعے وہ اپنی کمائی کو برطانیہ سے باہر ظاہر کرے اور وہاں سے برطانیہ لا کر فلیٹ خریدے تو اُسے معمولی ٹیکس دینا پڑے گا ، ورنہ ٹیکس بہت زیادہ ہوجائے گا ۔
  یاد رہے کہ عمران خان کے مطابق وہ دوہری قومیت  نہیں رکھتا اور اُس کے پاس برطانوی نہیں بلکہ پاکستانی پاسپورٹ ہے ۔
  لہذا عمران خان نے 1983 میں  نیازی    سروسز  کے ذریعے ڈرائی کاٹ  ایونیو کا فلیٹ    117,500 پاونڈز    میں خریدا ،    جس کے لئے   61,000 پاونڈ ادا کئے اور باقی قرضہ   میں  تبدیل ہو گیا ۔ جو بعد میں قسط وار دسمبر 1989 تک بمع   13.75 فیصد ٹیکس سالانہ 5 سال کے لئے    جمع کروایا گیا ۔ عمران خان نے   بحیثیت کرکٹر اپنی تمام کمائی   75,000 پاونڈز  پر پاکستا ن میں 1977 سے 1979 تک   کوئی آمدنی  ٹیکس نہیں جمع کروایا ۔ 
 پاکستان کے قانون کے مطابق ، سالانہ انکم ٹیکس ریٹرنز میں شامل نہ کی جانے والی جائداد یا  رقوم   ، آمدنی سے زائد تصوّر کی جائیں گی ، جس پر  قانون کے مطابق سزا اور جرمانہ دونوں ہو سکتے ہیں ۔
جب عالمی طاقتوں نے عمران خان پر انویسٹمنٹ شروع کی تو  سوال پیدا ہوا کہ اُسے پاک اور پوتّر کیسے بنایا جائے ؟
عالمی طاقتوں نے تو بہت پہلے فیصلہ کر لیا تھا اور اُس پر کام بھی شروع ہوچکا تھا ، جس کے بارے میں حکیم سعید  نے 1996 میں اپنی کتاب میں بتا دیا تھا ۔
پڑھیں : کیا عمران خان یہودی ایجنٹ ہے ؟

2000 میں  پرویز مشرف  نے ، غیر ممالک میں جائداد بنانے والے چوروں  کے لئے عام معافی کا اعلان کیا ، جس  میں اپنی آمدنی سے زائد رقوم سے جائیداد بنانے والوں نے فائدہ اُٹھایا  ، جس میں عمران احمدخان نیازی بھی تھا  ۔ جو 1983 میں خریدے گئے اپنے چوری کے  فلیٹ کو  ظاہر کرکے  مالیاتی مجرم سے نیکوکار بن گیا ۔ 
لیکن حیرت کی بات ہے ، سپریم کورٹ کے فُل بنچ نے  تو مشرف دور  کو ایسا مٹایا جیسے کہ وہ تھا ہی نہیں ۔ لیکن چوروں کو دی جانے والی عام معافی کیسے برقرار رہی ؟ 
   (اتفاق فاونڈری کے لوہاروں  کے بنائے گئے ، فوجی  دوسری جنگ عظیم کی جیپوں کے سلنڈر بلاکس)
لیکن 1992 میں خریدے جانے والے ، ایوین فیلڈ اپارٹمنٹ   کے مالکان فائدہ نہ اٹھا سکے  ، کیوں کہ وہ سب پرویز مشرف کے زیر عتاب ملک سے باہر زندگی گذار رہے تھے ۔   12 اکتوبر 1999 کے بعد پرویز مشرف نے بھٹو کی طرح  لوہار خاندان کے سربراہ محمد شریف  کو اُس کے پوتوں سمیت  خوب رگیدا ، لیکن اُس کی نیب  ، ایف آئی اے اور آئی ایس آئی ، کچھ بھی تلاش نہ کر سکی ۔ 
محمد  شریف   نے بھٹو  کے ہاتھوں تباہ ہوجانے کے بعد  ایک اور لوہار محمد لطیف  کی طرح     پاکستان چھوڑنا گوارا  نہیں کیا ۔پڑھیں :بھٹو کے ہاتھوں تباہ ہونے والی  ۔    بٹالہ انجنیئرنگ کمپنی 
دونوں کمپنیوں  کی نیشنلائز کرنے کی واحد وجہ ، کہ اِن کے مالکان نے  بھٹو کی پارٹی  کو چندہ نہ دیا  ۔   
بھٹو کا تختہ الٹنے کے بعد ضیاء الحق نے  بھٹو کے ستائے ہوئے بزنس مینوں کو سہارا دیا ، تمام قومیائی گئی انڈسٹریز اور سکولوں کو بیوروکریٹک  پنجوں سے آزاد کیا  ۔
جنرل ضیاء الحق نےسی ایم لطیف سے  بھی  1977ء میں  بیکو واپس لینے کی درخواست کی لیکن سی ایم لطیف نے معذرت کر لی‘ 1972ء میں جب بھٹو نے سی ایم لطیف سے بیکو چھینی تھی‘ اس وقت اس فیکٹری میں چھ ہزار ملازمین تھے اور یہ اربوں روپے سالانہ کا کاروبار کرتی تھی لیکن یہ فیکٹری بعد ازاں زوال کا قبرستان بن گئی‘ حکومت نے اس کا نام بیکو سے پیکو کر دیا تھا‘ پیکو نے 1998ء تک اربوں روپے کا نقصان کیا۔ 
محمد شریف کو بھی واپس  اتفاق سٹیل انڈسٹری مل گئی ۔  لوہاروں نے دوبارہ اپنا کام شروع کر دیا ۔ جب عمران خان نہ صرف   برطانیہ میں ٹیکس کی چوری کر رہا تھا ۔ بلکہ پاکستان میں بھی وہ  باقی کرکٹرز کی طرح ٹیکس چوروں کی فہرست میں  نمبر ون تھا ، اتفاق انڈسٹریز  ملکی خزانے میں  اضافہ کر رہی تھی اور ہزاروں پاکستانیوں کا روزگار  اِس سے وابستہ تھی  ۔  
انڈر انوائسنگ آج بھی ہر امپورٹر  کی خواہش ہوتی ہے ۔ جس میں کسٹم والے دل کھول کر مدد کرتے ہیں   پاکستان سے  مشینری کی ایکسپورٹ پر ٹیکس کی شرح بہت کم تھی تاکہ زرمبادلہ لایا جائے ۔ پاکستان کے تمام ایکسپورٹرز نے  نہ صرف ایکسپورٹ مد میں ملنے والے فارن ایکسچینج سے بیرونِ ملک جائداد بنائی ۔ بلکہ ھنڈیوں سے بھی ڈالرز باہر بھجوائے ، جس میں اُن کی مدد  منی چینجرز اور ہنڈی کا کام کرنے والوں نے کی ۔ غیر ممالک سے والدین اور بیوی بچوں کو بھیجی جانے  والی رقوم بھی  ہنڈیوں کے ذریعےڈالر کی صورت میں نہیں بلکہ روپوں کی صورت میں   ہی پاکستان میں  دی گئیں   ، جس سے بے نامی جائدا د  بھی  خریدی گئیں   ۔
1982 میں سعودی عرب گئے ہوئے فوجی  جوانوں  اور فوجی آفیسروں نے بھی     ہنڈیوں کا استعمال کیا ۔


٭٭٭٭٭٭٭جاری ہے  ٭٭٭٭٭٭٭
  

پی ٹی آئی کا نیا پاکستان


اتوار، 15 جولائی، 2018

روٹی نہیں تو کیک کھاؤ !

  آج الیکشن کے سلسلہ میں آر ٹی ایس(result transmission system) کی ٹرینگ تھی ۔
جس کے لئے کہا گیا کہ سمارٹ فون لے کر آئیں ۔
 مرد و خواتین کی اکٹھی ٹریننگ ہو رہی تھی۔ زیادہ تر سکول ٹیچرز تھے ۔ایک میں کالج سے تھی ،  ایک کوئی محکمہ ماحولیات کی پراجیکٹ ڈائریکٹر تھیں ۔
الیکشن کمیشن کے نمائندے نے کہا کہ سمارٹ فون نکال لیں ۔
اب وہ پرائمری اور مڈل سکول کے استاد محدود تنخواہیں ، لا محدود مہنگائی ۔۔۔۔۔
کئی ایک نے کہا استعمال نہیں آتا ۔کچھ نے کہا کہ ہمارے پاس نہیں ۔۔۔۔
انہیں اس گھٹیا انسان نے ڈانٹنا شروع کر دیا کہ لے کر آنا تھا ۔
اب وہ ٹیچرز کندھوں پر صافے رکھے ہوئے  ،نہ جانے کتنی دور سے پیدل چلتے ہوئے آئے ، پسینے میں شرابور  بیٹھے  تھے  ۔
 ایک استاد محترم  سفید داڑھی ، نیکی اور پارسائی ان کے چہرے سے ٹپک رہی  تھی ، اُنہوں نے اپنا عام سا موبائل دکھایا اور کہا ،
" میرے پاس یہی ہے"
الیکشن کمیشن کے تعلیم یافتہ نمائندے  نے  وہ موبائل  لیا ، سب کو دکھایا  اور نخوت بھرے  انداز میں بولا ،
" اِس طرح کا موبائل میرےگھر میں صفائی کرنے والی ملازمہ بھی رکھنا پسند  نہیں کرتی  "
 استاد محترم نے  نرمی سے کہا ،
"جناب  میں افورڈ نہیں کر سکتا"
فرعونیت کے پیروکار نے کہا، " اپنے کسی بچے سے لے لینا ، دو دن کے لیئے
اور کچھ نہیں تو ہمسائے سے مانگ لینا...."
"  میرے بچوں کے پاس بھی نہیں ہے " شریف النفس ٹیچر نے تحمل سے جواب دیا
فرعونیت کے پیروکار نے کہا، " یہ کیسے ہو سکتا کہ بچوں کے پاس بھی نہ ہو؟ "
" جناب  بچوں کی روٹی بڑی مشکل سے پوری ہوتی ہے ۔ اُنہیں موبائل کہاں سے دلائیں " استاد نے جواب دیا  اور  بیٹھ کر اپنا چہرہ بازوں میں چھپا لیا ۔۔۔۔۔

سب کے سامنے رونا بھی مشکل ہوتا ہے ۔۔۔۔۔
 ان کے چہرے پر بےبسی اور آنسو مجھے ساری زندگی نہیں بھولیں گے ۔
شدتِ غم سے میری بھی آنکھیں ڈُبڈبا گئیں ،
مجھے لگا میں نے یہیں بیٹھے بیٹھے مر جانا ہے۔۔۔ 

یوں لگتا تھا کہ دماغ خالی ہوکر  سائیں سائیں کر رہا ہے ۔ 
یہ ڈاکٹر ، یہ پروفیسر ، یہ انجنیئر ، یہ بیورو کریٹ اور یہ جج ان استادوں کے ہاتھوں پروان چڑھے ۔۔۔۔۔
استاد اتنا بے بس استاد اتنا مجبور اور استاد اتنا غریب کہ بھری مجلس میں اپنا بھرم بھی نہ رکھ سکے ۔۔۔۔۔
 استاد محترم نے اپنے پیٹ سے کپڑا نہیں اٹھایا پوری قوم کو ننگا کر دیا ہے ۔
ریسیں یورپ کی کرنی ۔۔۔۔۔اور عوام کی حالت فقیروں والی۔۔۔۔۔۔
اگر اس ڈیوٹی کے لیئے اینڈرائیڈ فون ضروری ہے تو گورنمنٹ فراہم کرے۔۔۔۔۔
ہمیں کیوں ذلیل کیا جا رہا ہے ۔۔۔۔۔
 #استادکوعزت_دو 

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔