کراچی کی ایک کچرا کنڈی سے جلے ہوئے ادھ جلے اور ثابت بیلٹ پیپر ملے ۔
سب پریشان کہ جو بیلٹ پیپر الیکشن کمیشن کے قبضے میں ہونے چاہئیے تھے ۔ وہ لاوارث کیسے ملے ؟
سب کو اچنبھا ہے ؟
سوائے جیتنے والے کے ، کیوں ؟
تو کیا ۔ ہارنے والوں کے ووٹ کچرا کنڈی میں پھینک دیئے گئے ؟
لیکن حیرت کی بات کہ کسی بھی پولنگ سٹیشن این اے 241 کراچی کورنگی 3، سے ایف آئی آر نہیں درج کروائی گئی ، کہ اُن کے ہاں ڈالے گئے ووٹ پر اسرار طور پر کم ہو گئے ؟
سب پریشان کہ جو بیلٹ پیپر الیکشن کمیشن کے قبضے میں ہونے چاہئیے تھے ۔ وہ لاوارث کیسے ملے ؟
سب کو اچنبھا ہے ؟
سوائے جیتنے والے کے ، کیوں ؟
تو کیا ۔ ہارنے والوں کے ووٹ کچرا کنڈی میں پھینک دیئے گئے ؟
کیا یہ خلائی مخلوق کا کارنامہ ہے ؟
الیکشن کمیشن کے ایمان سے بھرپور سٹاف نے اللہ کو حاظر و ناظر جان کر ہر ووٹر کو دو بیلٹ پیپر دیئے، ایک قومی اسبلی کا اور دوسرا صوبائی اسمبلی کا ۔ اور ہر ووٹر نے پولنگ سٹاف اور اور فوج کے مستعد اور چوکنا نوجوانوں کے سامنے بیلٹ بکس میں دونوں بیلٹ پیپر ڈالے ۔
فوجی جوانوں اور امیدواروں کے پولنگ ایجنٹس کے سامنے گنتی ہو ئی ۔ لیکن ؟بیلٹ پیپر کیسے اُڑ کر کچرا کنڈی میں جا گرے ؟
یہ سمجھنے کے لئے ، کسی فیثا غورث یا اقلیدس کی ضرورت نہیں ۔
بیلٹ پیپر پر کسی بھی قسم کا نشان نہیں ہوتا کہ جس سے ظاہر ہو کہ یہ بیلٹ پیپر کس کا ہے ؟
بیلٹ پیپر جب ، بیلٹ پیپر بُک کی کاونٹر فائل سے علیحدہ کیا جاتا ہے ۔ تویہ پتہ نہیں چل سکتا کہ یہ کس پولنگ سٹیشن سے دیا گیا اور کس کا ہے ؟
ووٹر جب اپنے پسند کے امیدوار کے نشان پر مہر لگا کر بیلٹ بکس میں ڈالتا ہے ۔اُس کے بعد بیلٹ پیپر بکس سے ڈالے گئے تمام ووٹ نکال کر اُتنی ہی تعدادمیں جعلی بیلٹ پیپر ، مطلوبہ امیدوار کے کے نام پر مہر لگا کرڈال دئیے جائیں ۔
صرف ایک ووٹ ہی تو چاھئیے اپنے مطلوبہ امیدوار کو جتانے کے لئے ، صرف ایک ووٹ اور پورا بھر ہوا بیلٹ بکس تو اُس جیت پر پکّی مہر ہے ، جو الیکشن کمیشن کے لوگوں نے لگائی ۔
ووٹ الیکشن کمیشن کے سٹاف اور چاک و چوبند فوجی جوانوں کی موجودگی میں بیلٹ بکس سے نکال کر گنے جاتے ہیں اور پھر مہر بند تھیلوں میں بند کرکے فوجی نوجوانوں کے ذریعے الیکش کمیشن کے قابل اعتماد نمائیندے تک پہنچائے جاتے ہیں۔
جہاں کسی بھی امیدوار کے چیلنج کرنے پر ۔تھیلے کھول کر ووٹ دوبارہ گنے جاتے ہیں ۔
تو کون سی سائنسی ٹیکنالوجی ہے؟
جو یہ ثابت کر سکے کہ تھیلوں میں جعلی بیلٹ پیپربھی بھرے ہوئے ہیں ۔
الیکشن کمیشن کے ایمان سے بھرپور سٹاف نے اللہ کو حاظر و ناظر جان کر ہر ووٹر کو دو بیلٹ پیپر دیئے، ایک قومی اسبلی کا اور دوسرا صوبائی اسمبلی کا ۔ اور ہر ووٹر نے پولنگ سٹاف اور اور فوج کے مستعد اور چوکنا نوجوانوں کے سامنے بیلٹ بکس میں دونوں بیلٹ پیپر ڈالے ۔
فوجی جوانوں اور امیدواروں کے پولنگ ایجنٹس کے سامنے گنتی ہو ئی ۔ لیکن ؟بیلٹ پیپر کیسے اُڑ کر کچرا کنڈی میں جا گرے ؟
یہ سمجھنے کے لئے ، کسی فیثا غورث یا اقلیدس کی ضرورت نہیں ۔
بیلٹ پیپر پر کسی بھی قسم کا نشان نہیں ہوتا کہ جس سے ظاہر ہو کہ یہ بیلٹ پیپر کس کا ہے ؟
بیلٹ پیپر جب ، بیلٹ پیپر بُک کی کاونٹر فائل سے علیحدہ کیا جاتا ہے ۔ تویہ پتہ نہیں چل سکتا کہ یہ کس پولنگ سٹیشن سے دیا گیا اور کس کا ہے ؟
ووٹر جب اپنے پسند کے امیدوار کے نشان پر مہر لگا کر بیلٹ بکس میں ڈالتا ہے ۔اُس کے بعد بیلٹ پیپر بکس سے ڈالے گئے تمام ووٹ نکال کر اُتنی ہی تعدادمیں جعلی بیلٹ پیپر ، مطلوبہ امیدوار کے کے نام پر مہر لگا کرڈال دئیے جائیں ۔
صرف ایک ووٹ ہی تو چاھئیے اپنے مطلوبہ امیدوار کو جتانے کے لئے ، صرف ایک ووٹ اور پورا بھر ہوا بیلٹ بکس تو اُس جیت پر پکّی مہر ہے ، جو الیکشن کمیشن کے لوگوں نے لگائی ۔
ووٹ الیکشن کمیشن کے سٹاف اور چاک و چوبند فوجی جوانوں کی موجودگی میں بیلٹ بکس سے نکال کر گنے جاتے ہیں اور پھر مہر بند تھیلوں میں بند کرکے فوجی نوجوانوں کے ذریعے الیکش کمیشن کے قابل اعتماد نمائیندے تک پہنچائے جاتے ہیں۔
جہاں کسی بھی امیدوار کے چیلنج کرنے پر ۔تھیلے کھول کر ووٹ دوبارہ گنے جاتے ہیں ۔
تو کون سی سائنسی ٹیکنالوجی ہے؟
جو یہ ثابت کر سکے کہ تھیلوں میں جعلی بیلٹ پیپربھی بھرے ہوئے ہیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں