Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 21 جولائی، 2018

نو ہزار کلوگرام ایفی ڈرین کا کوٹہ !

 2010 اور 2011 میں ملتان کی ایک فارماسوٹیکل کمپنی برلیک اور اسلام آباد کی دواساز کمپنی ڈاناس فارما نے سیکرٹری صحت سے رابطہ کیا۔
 سیکرٹری کو عراق کی ایک کمپنی کا آرڈر دکھایا گیا اور اس آرڈر کی بنیاد پر وزارت صحت سے درخواست کی ’’ہم نے بھاری مقدار میں ایفی ڈرین گولیاں بنا کر عراق ایکسپورٹ کرنی ہیں۔ اس ایکسپورٹ سے ملک کو اتنے ملین ڈالر کا فائدہ ہوگا، چنانچہ ہمیں ۱۰ ہزار کلوگرام ایفی ڈرین کا کوٹہ الاٹ کیا جائے۔
مخدوم شہاب الدین اور مخدوم موسیٰ گیلانی نے 9000 کلوگرام ایفی ڈرین کا کوٹہ کچھ کمپنیوں کو لے کر دیا۔
حنیف عباسی  نے بھی اپنی کمپنی گریس فارما کے لئے ایفی ڈرین کا 500  سو کلو گرام کا کوٹہ الاٹ کروا لیا -

 32لاکھ روپے مالیت کے ایفی ڈرین کوٹہ میں حنیف عباسی کی کمپنی گریس فارما سوٹیکل کی بزنس پارٹنر’’ڈی واٹسن‘‘ کے مالک زاہد بختاوری (احمدی) کی اہلیہ مسماة رضیہ بختاوری تھی اس کی  جانب سے ادا شدہ 16لاکھ روپے مالیت کے پے آرڈر، کے ثبوت عدالت کو پیش بھی کئے گئے۔
نامزد ملزمان :
 ایفی ڈرین کیس میں گریس فارما کے مالک حنیف عباسی ،ان کے بھائی وحماس فارما کے مالک باسط عباسی ،چچا زاد بھائی وفیکٹری منیجر سراج احمد عباسی،برادر نسبتی ومارکیٹنگ منیجررانا محسن خورشید،پروڈکشن منیجرغضنفر علی، کوالٹی کنٹرول منیجر ناصر خان ،اے بی فارماسیوٹیکل کے مالک احمد بلال اور نزاکت خان اس کیس میں  نامزد ملزم تھے اس کیس میں حنیف عباسی کو عمر قید ہوچکی ہے جبکہ ان کے بھائی سمیت ان کی کمپنی کے دوسرے افراد کو شک کا فائدہ دے کر بری کر دیا گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

دہشت گردی کے خلاف جنگ کا غلغلا بلند ہونے سے پہلے امریکہ اور یورپ کے ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ منشیات کا تھا۔
90ءکی دہائی میں امریکہ پاکستان پر الزام لگاتا تھاکہ یہاں سے ہیروئن اور دوسری منشیات امریکہ اور یورپ میں سمگل ہوتی ہے۔
امریکی دفتر خارجہ نے 90 ءکی دہائی میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں الزام لگایاتھاکہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں منشیات کے بعض سمگلر موجود ہیں۔ اس سے قبل 80ءکی دہائی میں تو بعض اعلیٰ اور حساس عہدوں پر فائز سرکاری اہلکاروں پر بھی منشیات کی سمگلنگ میں ملوث ہونے کے الزام لگائے جاتے رہے ہیں. لیکن ان الزامات کو تقویت تب ملی جب
آسٹریلیا میں ممنوعہ ادویات فروخت کرنے والا ایک ریکٹ پکڑا گیا اس ریکٹ سے بھاری مقدار میں ایفی ڈرین برآمد ہوئی۔
 تحقیقات ہوئیں تو پتا چلا یہ ایفی ڈرین پاکستان سے سمگل ہو کر آسٹریلیا آئی تھی۔
آسٹریلیا نے پاکستان کو تحریر طور پر مطلع کردیا۔
یہ فائل پاکستان کے دفتری نظام میں چلنا شروع ہوگئی اور چلتے چلتے اینٹی نارکوٹکس کے پاس پہنچ گئی۔
 اے این ایف نے روٹین کے مطابق کارروائی شروع کردی۔ کارروائی کے دوران جب تفتیش ہوئی تو پتا چلااینٹی نارکوٹکس نے وزارت صحت کی طرف سے بڑے پیمانے پرایفی ڈرین کے کوٹے جاری کئے گئے
  اس ڈرگ کے استعمال کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ مخدوم شہاب الدین اور مخدوم موسیٰ گیلانی نے 9000 کلوگرام ایفی ڈرین کا کوٹہ کچھ کمپنیوں کو لے کر دیا۔
اے این ایف کی تحقیقات کے مطابق اس کوٹہ سے ادویات بہت محدود پیمانے پر بنائی گئی ہیں البتہ ہزاروں کلوگرام اس کوٹہ کو بیرون ملک سمگل کیا گیا ہے یا پھر اسے نشہ آور اشیاءاور جنسی قوت میں اضافہ کرنے کیلئے ادویات میں استعمال کے لئے دیا گیا ہے اور اس طرح اربوں روپے کمائے گئے ہیں۔ ایفی ڈرین سے ایک اور نشہ آور کیپسول Ecastacy یعنی ”لذت“ بھی تیار ہوتا ہے.

۔ ایفی ڈرین  ایک ایسا کیمیکل ہے جو مختلف ادویات میں استعمال ہوتا ہے۔ قدیم زمانے میں ایفیڈرین مختلف پودوں سے اخذ کیا جاتا ہے۔ کیمیا دانوں کے مطابق قدیم زمانے میں ایفی ڈرین چینی جڑی بوٹی ایفی ڈرینکا سے اخذ کیا جاتا تھا۔ یہ کیمیکل عمل سے مصنوعی طور پر بھی بنایا جاسکتا ہے۔ پرانے دور میں ایفی ڈرین پودوں سے حاصل کیا جاتا تھا لیکن جدید دور میں ایفیڈرین کو کیمیائی عمل Synthetic طریقے سے بنایا جاتا ہے۔ ایفی ڈرین کو وزن کم کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ یہ چربی کو کم کرتا ہے۔ یہ کیمیکل دمہ کے مریض بھی استعمال کرتے ہیں، اسے نشہ آور ادویات میں بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔  یہ عموماً کھانسی کے شربت میں استعمال ہوتا ہے لیکن اس کیمیکل کو اگر ہیروئن میں ملا دیا جائے تو اس کے اثرات میں ۱۰ گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ ایفی ڈرین سے ایسی گولیاں بھی بنائی جاتی ہیں جنھیں نوجوان لڑکے لڑکیاں پارٹیوں کے دوران استعمال کرتے ہیں۔ یہ گولیاں انہیں ’’ایکٹو‘‘ کردیتی اور یہ تھکے بغیر گھنٹوں ناچتے رہتے ہیں۔ یہ گولیاں ’’موڈایلی ویٹر‘‘ بھی کہلاتی ہیں۔ یہ نوجوانوں کا موڈ خوشگوار بنا دیتی ہیں
 اور یہ وقتی لحاظ سے دنیا جہاں کے دکھوں سے آزاد ہوجاتے ہیں لیکن اس خوشگوار اثر کے ساتھ ساتھ یہ گولیاں ’’لت‘‘ بھی ہیں۔ آپ اگر انہیں ایک دو مرتبہ استعمال کرلیں تو آپ ان کے مستقل عادی ہو جاتے ہیں چنانچہ یورپ، امریکا اور مشرق بعید سمیت دنیا کے 90 فیصد ممالک میں ان گولیوں کی تیاری اور فروخت پر پابندی ہے۔ ان گولیوں کا بنیادی مرکب ایفی ڈرین ہے لہٰذا پوری دنیا میں ایفی ڈرین کی کھلی تیاری اور فروخت پر پابندی ہے اور یہ صرف حکومتی لائسنس کے ذریعے محدود پیمانے پر حاصل کی جاسکتی ہے
پاکستان میں وزارتِ صحت ادویات ساز کمپنیوں کو ایفی ڈرین کا کوٹہ جاری کرتی ہے۔ اس کوٹے کی حد 500 کلوگرام ہے۔
اب اگر کوٹے کی حد 500 کلو گرام ہے تو 9 ہزار کلو گرام کا کوٹہ کیسے دیا گیا یہ راکٹ سائنس سمجھانے کے لیے میں اپ کو آٹھ سال پیچھے پیپلزپارٹی کی حکومت میں لیکر چلتی ہوں
 ۲۰۱۰ء اور ۲۰۱۱ء میں ملتان کی ایک فارماسوٹیکل کمپنی برلیک اور اسلام آباد کی دواساز کمپنی ڈاناس فارما نے سیکرٹری صحت سے رابطہ کیا۔
 سیکرٹری کو عراق کی ایک کمپنی کا آرڈر دکھایا گیا اور اس آرڈر کی بنیاد پر وزارت صحت سے درخواست کی ’’ہم نے بھاری مقدار میں ایفی ڈرین گولیاں بنا کر عراق ایکسپورٹ کرنی ہیں۔ اس ایکسپورٹ سے ملک کو اتنے ملین ڈالر کا فائدہ ہوگا، چنانچہ ہمیں ۱۰ ہزار کلوگرام ایفی ڈرین کا کوٹہ الاٹ کیا جائے۔

اس درخواست کے ساتھ ہی توقیرعلی خان نام کا ایک شخص سیکرٹری صحت (اس وقت) خوشنودلاشاری کے پاس پہنچ گیا۔ توقیر علی خان بعدازاں وزیراعظم کے صاحبزادے علی موسیٰ گیلانی کا سیکرٹری نکلا۔ توقیر علی خان نے سیکرٹری صحت پر دبائو ڈالا۔
خوشنوصاحب وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری بننا چاہتے تھے۔ یہ توقیر علی خان کے دبائو میں آگئے اور انہوں نے ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹررشیدجمعہ کو لائسنس جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ رشیدجمعہ کا کنٹریکٹ ختم ہورہا تھا، یہ کنٹریکٹ میں توسیع چاہتے تھے۔ انہیں توسیع کا لالچ دے دیا گیا۔
 یہ لالچ میں آگئے اور انہوں نے دونوں کمپنیز کو 9 ہزارکلوگرام ایفی ڈرین کا کوٹہ دے دیا۔ یہ پوری لوکل مارکیٹ کی ضرورت سے کہیں زیادہ تھا۔

یہ کوٹہ ملتے ہی دونوں کمپنیوں نے وزارت سے دوبارہ رابطہ کیا اور وزارت کو اطلاع دی کہ عراق کی کمپنی نے آرڈر منسوخ کر دیے ہیں۔ ہم اب گولیاں ایکسپورٹ نہیں کر سکتے چنانچہ ہمیں یہ لوکل مارکیٹ میں استعمال کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ یہ قانون کی دوسری خلاف ورزی تھی لیکن کیونکہ موسیٰ گیلانی کا سیکرٹری فائل کے ساتھ ساتھ تھا چنانچہ ڈی جی ہیلتھ اور سیکرٹری ہیلتھ نے دونوں کمپنیوں کو یہ کوٹہ ملک میں استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ کمپنیوں نے چند ہفتے بعد وزارت کو اطلاع دی ہم نے ۹؍ہزار کلوگرام ایفی ڈرین کی گولیاں بنا کر مارکیٹ میں فروخت کردی ہیں۔ وزارت نے کمپنیوں کا یہ سرٹیفکیٹ قبول کرلیا۔
 اس دوران کسی نے ان کمپنیوں سے نہیں پوچھا ملک میں ہر سال ایفی ڈرین کی صرف 10 ہزار گولیاں بنتی ہیں لیکن تم نے ڈیڑھ دو ارب گولیاں بنا کر مارکیٹ میں فروخت کردیں، یہ کیسے ممکن ہے؟ اور یہ گولیاں کہاں استعمال ہوئیں لیکن کیونکہ فائل کے پیچھے موسیٰ گیلانی کا سیکرٹری تھا، لہذا کون ہوچھ سکتا تھا
ایک نیوز رپورٹ کے مطابق
ایف آئی آے نے جب ان دو کمپنیز کی تحقیقات کی تو
ملتان کی  برلیک کمپنی   نے ستر اسی کروڑ گولیاں بنانے کا دعویٰ کیا تھا اس کا اس ماہ کا بجلی کا بل صرف 14 ہزار روپے تھا۔ اس کا مطلب تھا اس کارخانے میں سرے سے کوئی کام ہی نہیں ہوا۔ اسلام آباد کی کمپنی ڈاناس فارما  کی حالت بھی ایسی ہی تھی۔

اے این ایف نے تحقیقات کا دائرہ بڑھایا تو یہ بہت جلد توقیرعلی خان، خوشنودلاشاری ڈاکٹر رشید جمعہ اور موسیٰ گیلانی تک پہنچ گئی۔
 خوشنودلاشاری اس وقت تک وزیراعظم گیلانی کے پرنسپل سیکرٹری بن چکے تھے۔
تحقیقات کے دوران وزارت کے کچھ افسروں نے تمام دستاویزات اور ثبوت اے این ایف کے حوالے کردیے اور کیس کھل گیا۔
اس دوران وزیراعظم پرنسپل سیکرٹری اور موسیٰ گیلانی کو معاملے کی سنگینی کا اندازہ ہوگیا۔ لیکن اس اندازے سے قبل اینٹی نارکوٹکس کے سیکرٹری سہیل احمد نے اے این ایف کو موسیٰ گیلانی اور خوشنودلاشاری کو نوٹس جاری کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ وزیراعظم گیلانی نے فوری طور پر سہیل احمد کا تبادلہ کردیا۔
چودھری برادران اس نازک وقت میں وزیراعظم کی مدد کے لیے آگے بڑھے۔ ان کے کزن چودھری تجمل حسین کے داماد ظفرعباس لک  21  ویں گریڈکے افسر تھے۔
چودھری برادران نے ان کی خدمات وزیراعظم کو پیش کر دیں۔ وزیراعظم نے انہیں اینٹی نارکوٹکس کی وزارت کا قائم مقام انچارج بنادیا۔ وزیراعظم نے اینٹی نارکوٹکس ایکٹ میں تبدیلی کرکے اے این ایف کے تمام اختیارات سیکرٹری کو سونپ دیے۔
 وزیراعظم گیلانی اور انچارج سیکرٹری نے اے این ایف کے ڈی جی میجر جنرل شکیل حسین اور تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ بریگیڈیئر فہیم کی خدمات فوج کو واپس کردیں یوں یہ معاملہ اور تمام اختیارات ظفر عباس لک کے پاس آگئے۔
 ۔ایف آئی اے کے افسر نے دونوں سے دو دو کروڑ روپے لیے اور ان کے حق میں فیصلہ دے دیا لیکن اے این ایف کی تحقیقات میں یہ کمپنیاں اور دیگر لوگ ملزم ثابت ہوگئے۔ چنانچہ اے این ایف نے ملزموں کے خلاف کارروائی کا حکم جاری کردیا۔ ملزم اس حکم کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ چلے گئے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس دوبارہ وزارت کے پاس بھجوایا۔ وزارت اس وقت تک ظفرعباس لک کے ہاتھ میں آچکی تھی چنانچہ سیکرٹری نے اس کیس کو بے بنیاد اور جھوٹا قرار دے دیا۔ اے این ایف کے ڈی جی میجرجنرل شکیل حسین اپنے سیکرٹری کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں چلے گئے اور یوں یہ کیس سپریم کورٹ پہنچ گیا اور وہاں پہنچ کر ساری کہانی کھل گئی۔
 حکومت نے اس دوران ڈی جی اے این ایف میجر جنرل شکیل اور تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ بریگیڈیئر فہیم کو عہدوں سے ہٹا دیا لیکن سپریم کورٹ نے 10 اپریل کو موسیٰ گیلانی اور خوشنودلاشاری کو نوٹس جاری کرنے اور تحقیقاتی ٹیم اور بریگیڈیئرفہیم کو واپس بحال کرنے کا حکم دے دیا اور یوں ایک بار پھر سپریم کورٹ اور وزیراعظم آمنے سامنے کھڑے ہوگئے۔
April 21, 2017
ایفی ڈرین کوٹہ کیس میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی موسی گیلانی سمیت گیارہ ملزمان پر فرد جرم عائد کردی گئی یہ لوگ ضمانتوں پر ہیں جبکہ باقی جعلی کمپنیز کے نام پر کوٹہ لینے والے بھی اس وقت شکنجے میں ہیں
موسی گیلانی اور مخدوم شہاب الدین پہ ناجائز کوٹے کا کیس ہے
مخدوم شہاب الدین کو ایفیڈرین کیس اس وقت لے بیٹھا جب وہ  وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو گھر بھیجے جانے کے بعد وزارت عظمیٰ کے لئے پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کے امیدوار نامزد ہو چکے تھے اور اپنے دوستوں اورعزیزوں سے مبارکبادیں بھی وصول کرچکے تھے کہ اے این ایف نے ایفی ڈرین کیس میں ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیئے۔ ادھر مخدوم صاحب وزارت عظمیٰ کے منصب کے لئے نامزد ہوئے اور ادھر ٹی وی چینلز نے یہ خبر بریک کر دی اے این ایف نے عدالت سے مخدوم شہاب الدین کے وارنٹ گرفتاری جاری کرا دیئے ہیں، جس کے بعد صدر زرداری اور ان کے ساتھیوں نے فوری طور پر مخدوم صاحب کو پیچھے کرکے راجہ پرویز اشرف کو وزارت عظمیٰ کے لئے نامزد کر دیا تھا
یہ انتہائی نوعیت کا کیس ہے جس میں 7 سے 21 ارب روپے کی کرپشن ہوئی۔  اس سے ٹنوں کے حساب سے ہیروئن بھی بنی تھی اور اربوں کی تعداد میں نشہ آور گولیاں بھی اور یہ سارا مواد آسٹریلیا اور یورپ میں فروخت ہوا
اب آتے ہیں کے اس کیس  میں حنیف عباسی کیسے داخل ہوا
سیکرٹری ہیلتھ نے جب یہ کوٹہ جاری کیا تو راولپنڈی سے پاکستان مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے ایک ایم این اے سیکرٹری خوشنودلاشاری کے پاس گئے۔ انہیں لائسنس کی کاپی دکھائی اور دھمکی دی کہ میں یہ مسئلہ میڈیا میں اٹھائوں گا۔   شنودلاشاری گھبرا گئے چنانچہ انہوں نے اس ایم این اے کو بھی ایفی ڈرین کا کوٹہ دے دیا۔
اس ایم این اے یعنی حنیف عباسی کی انڈسٹریل ایریا روات میں واقع ’’گریس فارما سیوٹیکل ‘‘ کمپنی تھی چنانچہ اس نے دھمکا کے  ایفی ڈرین کا 500  سو کلو گرام کا کوٹہ الاٹ کروا لیا اس  کا ناجائز استعمال کیا بعد ازاں مطلوبہ دوا تیار کرنے کی بجائے صرف نمونے (سیمپل)بنائے اور جعلی سیل ریکارڈ تیار کیا اور ایفی ڈرین کی باقی مقدار منشیات سمگلروں کو فروخت کر دیی اور ناجائز دولت اکھٹی کرنے کا ذریعہ بنایا جبکہ وزارت صحت کی ہدایات کے مطابق کمپنی انتظامیہ ایفی ڈرین کوٹہ کے استعمال ، خریدوفروخت اور دوا سازی میں استعمال کا مکمل ریکارڈ رکھنے کی پابند ہے تاہم کمپنی انتظامیہ اس حوالے سے تسلی بخش جواب نہ دے سکی
اس 32لاکھ روپے مالیت کے ایفی ڈرین کوٹہ میں حنیف عباسی کی کمپنی گریس فارما سوٹیکل کی بزنس پارٹنر و ’’ڈی واٹسن‘‘ کے مالک زاہد بختاوری کی اہلیہ مسماة رضیہ بختاوری تھی اس کی  جانب سے ادا شدہ 16لاکھ روپے مالیت کے پے آرڈر، کے ثبوت عدالت کو پیش بھی کئیے گئے
 ایفی ڈرین کیس میں گریس فارما کے مالک حنیف عباسی ،ان کے بھائی وحماس فارما کے مالک باسط عباسی ،چچا زاد بھائی وفیکٹری منیجر سراج احمد عباسی،برادر نسبتی ومارکیٹنگ منیجررانا محسن خورشید،پروڈکشن منیجرغضنفر علی، کوالٹی کنٹرول منیجر ناصر خان ،اے بی فارماسیوٹیکل کے مالک احمد بلال اور نزاکت خان اس کیس میں  نامزد ملزم تھے اس کیس میں حنیف عباسی کو عمر قید ہوچکی ہے جبکہ ان کے بھائی سمیت ان کی کمپنی کے دوسرے افراد کو شک کا فائدہ دے کر بری کر دیا گیا

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Alhamdolillah today Special Judge Anti Narcotics Rawalpindi sentenced Hanif Abbasi for life. Judge took time to decide whether death sentence or life. This being the first case of its nature death sentence was not awarded. However appeal court may decide to sentence him to death. Musa Gilani's case is even worse. He's involved in 8600 kg ephedrine which has not been accounted for fully. (Mian Zulqarnain Aamir)

COMMENTS:
Navees Ahmad Sir please update the case of two main culprits Makhdoom Shahab Ud Din and Ali Mousa Gillani?
I think they both also contesting the elections of Member National Assembly....
This is a fundamental judiciary rule that main case and appeals decide first and latter on part case and appeals decided but in said case only small culprit case decided whereas major culprits freely contest elections...
secondly in said case top and major culprits are Secretary health and DG health but their case is still pending and hopefully nothing will be done in both cases...


Mian Zulqarnain Aamir These are two separate cases. True that the main consignment which was intercepted by Australians belonged to musa Gilani's party in which minister secretary DG health additional DG health musa Gilani and other influential and rich people were involved. Abbasi only took advantage of their case and blackmailed the secretary to allot him too. It was musa case which was very high profile and in which all kinds of shenanigans. People suffered at all levels who stood loyal to the state. As usual toadies and sycophants thrived. However brig fahim was firm and made perfect investigations. He interrogated all and sundry. Wherever the judge wants to decide or is ordered by the high court to decide the accused will get similar or more severe punishment. As I said earlier ANF does meticulous work hence it attains conviction rate of more than 90%. Accused has only one recourse... delay.

  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔