٭٭٭٭٭٭٭٭٭
صبح چھ بجے آنکھ کھل گئی ۔ 8 بج کر 25 منٹ پر چیک اِن ہونا تھا ، تیار ہو کر بوڑھے نے چائے
بنائی ، بڑھیا نے بسکٹ نکالے ، چم چم کو
جگایا ۔ اُس نے پھر کپ کیک کھانے کی فرمائش کی ۔ چنانچہ پونے سات بجے ہوٹل سے چیک آؤٹ کیا ۔
اور پھر
میکڈونلڈ والے فلور پر پہنچے ، چم چم نے اپنے لئے ، ہیپی میل پسند کیا ، وہ لے کر
انڈین ریسٹورینٹ پہنچے ، بوڑھے نے لچھے
دار دو عدد پراٹھوں کا آرڈر دیا ، ساتھ دال ملی ۔ مزے سے کھایا ، چائے پی اور
بورڈنگ پاس لینے کے لئے کاونٹر پر پہنچے ۔
جو ہمارے ہوٹل کے نیچے اور ڈرائینگ بنانے
کے سامنے تھا ۔
چم چم ،بوڑھا اور بڑھیا کاونٹر کے سامنے
جاکر کھڑے ہوگئے ۔ کاونٹر اونچا تھا ، چم چم کو
ٹکٹ دینے والی ملائی لڑکی نظر
نہیں آرہی تھی بوڑھے نے چم چم کو اوپر اُٹھایا -
چم چم نے کہا ، "ہم نے ایسٹ تیمور جانا ہے ، مجھے ونڈو سیٹ چاھئیے "
" اوہ ینگ گرل مجھے دیکھنے دو کہ سیٹ
بُک تو نہیں ہوئی " ملائی لڑکی مسکراتی ہوئی بولی ۔
" اوہ ، میں نے تمھیں ونڈو سیٹ
دے دی اب خوش ہو "
" شکریہ میڈم " چم چم نے کہا اور میری گود سے نیچے اُتر گئی ۔
بڑھیا اور چم چم پیچھے رکھے ہوئے صوفوں پر
جا بیٹھیں ، " ملائی لڑکی نے بورڈنگ کارڈ اور ٹکٹ ہمیں واپس کئے ۔
اب ہم دوگھنٹے تک گھومنے پھرنے کے لئے آزاد تھے ۔ لیکن ہمیں گیٹ نمبر 52 کے اردگرد رہنا
تھا ۔
لیکن چم چم کا جھولا جھولنے کا پروگرام تھا۔چم چم ٹرالی پر بیٹھ گئے اور ہم جھولوں کی طرف چل پڑے ۔
چم
چم نے ہر جھولا جھولا ، رنگوں سے سکیچ بنائے ، اپنے دکھتے پیروں کا مساج
کیا ، گھنٹے بعد ہم گیٹ نمبر 52 کے پاس آئے تو چم چم نےچلنے والی پٹی
پر دوڑنے کی خواہش ظاہر کی ۔ چنانچہ
، گیٹ کے سامنے سامان رکھ کر بڑھیا کو بٹھا دیا ، چم چم نے
پیدل چلنے والوں کے لئے چلنے والی سٹرپ پر ایک طرف سے جانا اور دوسری طرف
سے واپس آنے کا کھیل شروع کر دیا ، جب تھک گئی تو بڑھیا کی کرسی کے پیچھے سٹرپ پر کھڑی ہو گئی اور سٹرپ چلتی رہی اور وہ
جاگنگ مل کی طرح ایکسرسائز کرتی رہی ،
کہتے ہیں کہ بچوں میں جن حلول کئے ہوتا ہے ۔ گھنٹہ دھماچوکڑی مچانے کے
باودوجود بھی جب جہاز کے لئے لاونج میں آنے کا اعلان ہوا تو وہ ، ایک بار کا کہہ
کر پوری 100 میٹر کے لگ بھگ سٹرپ پر جاکر دوسری سٹرپ سے دوڑتے ہوئے واپس آئی ۔
گیٹ پر سِلک ائرا ور امیگریشن کا عملہ کھڑا تھا ۔لیپ ٹاپ کو اُس کے بیگ سے
نکالا ، پرس ، موبائل اور تمام ، میٹیلک
اشیاء بشمول عینک ، لیپ ٹاپ کے بیگ میں ڈالیں ، بڑھیا نے اپنے بیگ میں ،
ڈالیں ۔ جوتے اتار کر ٹرے میں رکھے ، اور ہینڈ کیری سامان سمیت
سکیننگ مشین کے حوالے کر دیا ، اور
خود میٹل ڈیٹیکٹر گیٹ سے گذر کر دوسری طرف
آئے ۔ امیگریشن سٹاف کی خاتون نے بڑھیا کے
بیگ سے پانی کی بوتل برآمد کی اور بے اعتنائی سے ڈسٹ بن میں ڈال دی جو اُس نے چم
چم کے لئے رکھی تھی ۔ مرد نے بوڑھے کو بیگ
کھولنے کا کہا ، دو کوک ٹن ، ایک سیون اپ اور ایک سیون اپ ڈائیٹ کا ٹن بر آمد کئے ۔
" یہ آپ نہیں لے جاسکتے " مرد نے کہا
" یہ ہم پاکستان سے نہیں لائے چانگی سے خریدے ہیں " بوڑھے نے کہا
" لیکن اِس کی جہاز پر اجازت نہیں !
" وہ بولا
" کیا ہم اِسے پی سکتے ہیں ؟ "
بوڑھے نے پوچھا
لاونج میں بیٹھ کر پینے سے بہتر ہے کہ یہاں پی لیا جائے ،
بوڑھے نے سوچا ، چنانچہ چم چم کو کوک دی ، بوڑھے نے سیون اَپ لی لیکن بڑھیا نے
ڈائیٹ لینے سے انکار کر دی ۔
" نہیں ، نہیں یہ نہیں پھینکیں " بڑھیا کی اونچی آواز سنائی دی "
یہ سالگرہ کا تحفہ ہے "
بوڑھے نے کوک پیتے ہوئے دیکھا ، مرد کے
ہاتھ میں وہ پرفیوم تھا جو بڑھیا نے بوڑھے کو اُس کی 63 ویں سالگرہ پر 16 ستمبر کو
دیا تھا ،
" پلیز اِسے مت پھینکنا " بڑھیا
گھگیائی " یہ پر فیوم ہے اِسے سونگھ
کر دیکھو "
مرد نے سونگھ کر دیکھا ، بوتل کو غور سے دیکھا ،
" لیکن یہ 200 ملی لٹر سے زیادہ ہے
" وہ بولا " میم اِس کو جہاز
میں لے جانے کی اجازت نہیں "
جیمز بانڈ اور امریکی فلموں میں 200 ملی
لٹر پرفیوم کی مدد سے جہاز اغواء کرنے والے سین نے امیگریشن سٹاف کو زیادہ تعلیم
یافتہ بنا دیا ہے ۔
" سر یقیناً جب یہ خریدہ تھا تو 200 ملی لٹر سے زیادہ تھا
" بوڑھا بولا " لیکن اب یہ تو صرف
آدھا رہ گیا ہے "
ادھیڑ عمر نصف گنجے سر والے امیگریشن
پہلوان نے بوتل کو غور سے دیکھا ،
" ٹھیک ہے یہ کم ہے اورواپس بوتل کو سوٹ بیگ میں ڈال دیا ۔ اتنے میں بوڑھا
اپنی سیون اپ ختم کر چکا تھا ، لیکن چم چم نے ابھی دو تین گھونٹ ہی لئے تھے ،
بوڑھے نے اپنا خالی ٹِن اُس کے حوالے کیا
اور چم چم کی کوک کو اُسے دکھاتے ہوئے کہا ۔
" آفیسر میرا خیال ہے کہ ، اِس کوک کے ٹِن میں آتش گیر سیال اب ون ہنڈریڈ
ایٹی سکس لٹر رہ گیا ہے ، اب 200
سے کم ہے ۔ کیا اِسے لے جاسکتے ہیں ؟"
امیگریشن آفیسر نے بوڑھے کی طرف دیکھا ،
اور قہقہہ لگایا ،
" بائی آل مین سر " وہ بولا
" لیکن جہاز میں بیٹھنے سے پہلے ، اِسے ڈسٹ بن میں ڈال دینا "
" یقیناً : بوڑھا بولا " شکریہ سر ۔ آپ مہربان ہیں " اور آگے بڑھ
گئے ۔اور جاکر کرسیوں پر بیٹھ گئے ۔
" لیکن آوا ، آپ نے جھوٹ کیوں بولا " چم چم نے پوچھا
" میں نے ! کب ؟ " بوڑھے نے
حیرانگی سے پوچھا ۔
" آپ نے اُس ڈرایا تھا نا ؟ " چم چم بولی " کہ اِس میں آتش گیر سیال ہے ، لیکن اِس میں تو کوک ہے
"
" ارے نہیں ، میں نے اُس سے مذاق کیا تھا " بوڑھا بولا
چم چم وسیع و عریض ، کھڑکی کے پاس کھڑی ہوگئی جس سے دو سوفٹ
دور سِلک ائر کا جہاز کھڑا تھا جس میں ہم نے اپنے سفر کے آخری حصے کے لئے
سوار ہونا تھا ۔ رن وے پر ایک کے بعد ایک جہاز اُڑ رہا تھا اور دور والے رن وے پر
اتر رہا تھا ۔ چم چم اپنی سکریپ بُک میں جہازوں کے نام لکھ رہی تھی ۔ پندرہ منٹ
بعد واپس آئی ، جو کوک اُس نے چھوڑی تھی وہ پی کر ، نانو کی گود میں سر رکھ کر بیٹھ
گئی ۔
جہاز میں بیٹھنے کا اعلان ہوا ، بوڑھے نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کوک اُس کو دی ۔
" چم چم ، یہ ختم کر کے ٹِن ڈسٹ بِن میں ڈال دو " بوڑھے نے کہا ۔
" نہیں آوا " چم چم بولی ،
چنانچہ بوڑھے نے وہ کوک ختم کی اورٹِن چم
چم کو دیا اُس نے وہ ڈسٹ بِن میں ڈال دیا ، چم چم نے ہاتھ میں
پاسپورٹ اور بورڈنگ کارڈ لئے ، بوڑھے نے ،
چم چم کا بیگ ، اپنالیپ ٹاپ ، کیمرہ اور ہم تینوں کے سفری سامان کا سوٹ بیگ لیا
اور کھڑے ہوئے ۔ گیٹ پر کھڑے ہوئے ۔ سٹاف نے ہماری طرف آگے بڑھنے کا اشارہ کیا ۔
میں نے دائیں بائیں دیکھا پورے جہاز کے
مسافروں میں ، وہ اشارہ ہم تینوں کے لئے
کیا تھا ، خوشی ہوئی کہ ہمیں یعنی
اکانومی کلاس کے مسافروں کو وی وی آئی پی
کا پروٹوکول دیا جارہا ہے ، یوں سَلک ائر
وے کی جہاز میں داخل ہونے والے ہم پہلے مسافر تھے ۔ بڑھیا بھی حیران بولی ۔
" اِنہوں نے ہمیں سب سے پہلے کیوں سوار
کیا ؟ "
" عالی کی وجہ سے " بوڑھے نے جواب دیا ، " کیوں کہ تمام مسافروں
میں صرف
عالی ہی، وی وی آئی پی مسافر ہے "
" حیرت ہے کہ یہ بچوں کو اتنی فوقیت دیتے ہیں ! " بڑھیا حیرانی سے
بولی " ہمارے ہاں تو ایسا نہیں ہوتا
"
" ہم انسان نہیں" ،بوڑھا بولا ،
"پاکستانی ہیں "
چم چم ، کھڑکی کے نزدیک بیٹھ گئی ،
پھر بڑھیا اور آخر میں بوڑھا ۔ چم چم نے
اپنا آئی پیڈ نکالا اور گیم کھیلنے لگی
۔ سب مسافروں کے بیٹھنے کے بعد ائر
ہوسٹس چم چم کے پاس آئی اور پوچھا، "ینگ گرل، آپ کیا پیئں گی
"؟
" ایپل جوس اور چاکلیٹ بسکٹ "
چم چم بولی ۔
ائر ہوسٹس نے چم چم کو ایپل جوس
اور چاکلیٹ بسکٹ لا کر دئیے ۔ دوسری
ائر ہوسٹس سب کو ایک چھوٹا سا پیکٹ
لا کر دے رہی تھی ۔ ہمیں بھی تین پیکٹ دئے ، بڑھیا نے ایک کھولا اُس میں خوشبو ملے پانی میں تر ٹشو رومال تھا
۔ بڑھیا نے سونگھا ، بوڑھے کو
دیا کہ آپ نے ہاتھ صاف کرنے ہیں ، بوڑھے
نے انکار کیا تو باقی دو رومال بڑھیا کی زنبیل میں چلے گئے ۔
ابھی اسلام آباد میں یہ داستان لکھتے ہوئے بوڑھے نے سامنے صوفے پر
لیٹ کر تسبیح گھماتی ہوئی بڑھیا سے پوچھا ،
" بیگم ، یہ بتاؤ ! سلک ائر میں ملنے
والے ، وہ ٹشو رومال کہاں ہیں ؟ "
" کیوں خیریت ؟ "
بڑھیا نے آدھا اٹھ کر پوچھا ،" دو مہینے بعد وہ کیوں یاد آئے ؟"
" ویسے ہی پوچھ لیا " بوڑھے نے کہا
" پڑے ہیں میرے پاس " بڑھیا نے واپس لیٹتے ہوئے کہا " سفر کی یادگار کے طور پر "
بڑھیا کا ایک مکمل بکس ایسی یاد گاروں سے
بھرا ہوا ہے ۔ جس میں اُس کے لئے سب سے اہم ، ایک سال خوردہ کاغذ میں ،ایمفورا
تمباکو کے چند خشک پتے ہیں ، جو 1977 سے اُس کے پاس ہیں ۔
ایک ائر ہوسٹ نے ، پانی ، سافٹ ڈرنکس اور ڈرنکس دینا شروع کئے ،
جب سب نے پی لئے تو ، ایک بڑے سے شاپر
میں ہوسٹ اور ہوسٹس نے خالی بوتلیں اور
خالی ڈبے جمع کرنے شروع کئے ، اتنے میں
جہاز نے سنگا پور کے وقت کے مطابق 9 بج کر 25 منٹ پر چلنا شروع کیا اور پھر اُڑان
بھری ، سنگا پور کی بلند دو بالا بلڈنگز کے اوپر سے گذرتا ہوا ، حدِ نظر
کھڑے ہوئے سمندر میں کھڑے ہوئے بحری جہازوں سے سلامی لیتا
ہوا بادلوں میں داخل ہوتے ہوئے نیلگوں آسمان
میں اُڑنے لگا ، بادلوں کے بھی عجیب رنگ تھے ، برف کی طرح
سفید سے قرمزی اور سیاہ کالے ۔ سفید بادلوں کو دیکھ کر خوشی محسوس ہوتی ہے اور سیاہ بادلوں سے خوف ، کہ اِن کے پیچھے کتنے مہیب طوفان چھپے ہیں !
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭