Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 5 مارچ، 2017

غزوہءِ ھند - بیس

غزوہءِ ھند - کے سلسلے کی بیسویں کڑی ،فرغانہ کے   ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر جوڑی تھی۔
 مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک طویل المدتی سلطنت تھی۔
ظہیر الدین محمد بابر (پیدائش: 1483ء - وفات: 1530ء) ہندوستان میں مغل سلطنت کا بانی تھا۔ انہیں ماں پیار سے بابر (شیر) کہتی تھی۔ اس کاباپ عمر شیخ مرزا فرغانہ (ترکستان) کا حاکم تھا۔ باپ کی طرف سے تیمور (تیمور ایک ترک قبیلے برلاس سے تعلق رکھتا تھا ۔ تیمور کے باپ کو منگولوں کی مفتوحہ زمینوں سے حصہ ملا اور اس کے والدین معمولی درجے کے زمیندار تھے)  اور ماں قتلغ نگار خانم  وادئ فرغانہ کے حاکم عمر شیخ مرزا کی پہلی بیوی تھی۔ وہ خانیت چغتائی میں پیدا ہوئی اور اس کے والد کا نام یونس خان تھا۔ بابر بارہ برس کا تھا کہ باپ کا انتقال ہوگیا۔ چچا اور ماموں‌ نے شورش برپا کردی جس کی وجہ سے گیارہ برس تک پریشان رہا۔ کبھی تخت پر قابض ہوتا اور کبھی بھاگ کر جنگلوں میں روپوش ہوجاتا۔ بالآخر 1504ء میں بلخ اور کابل کا حاکم بن گیا۔
مغلوں میں جانشینی کا کوئی قانون نہیں تھا ایک بادشاہ کے مرنے کے بعد اس کے بیٹوں اور رشتہ داروں کے درمیان جنگ چھڑ جاتی جو شہزادہ اپنے حریفوں کو شکست دے دیتا وہ تخت مغلیہ کا وارث بن جاتابابر کو اپنے ماموں اور چچا سے لڑنا پڑ ااس کا بھائی جہا نگیر مرزابھی اس کے لئے دردر سر بن گیا ۔بابر کی موت کے بعد اس کا بیٹا ہمایوں بادشاہ بنا اسے اپنے بھائیوں کی دشمنی اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔انہوں نے ہر محاذپر اس کے ساتھ دشمنی کی ہمایوں کو افغان سرداروں کی مخالفت کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑامگر اس کے بھائی اسے شکست دے کر تخت دہلی حاصل کرنا چاہتے تھے انہوں نے قدم قدم پر اسے پریشان کیا افغان سردار شیر خان سوری نے اسے شکست دے کر دہلی چھوڑنے پر مجبور کیا ہمایوں دہلی چھوڑ کر لاہور پہنچا، افغان فوج نے اسے لاہور سے بھی بھگا دیا، ہمایوں مرزا شکست کھا کر ملتان جاپہنچا ۔کامران مرزا نے ملتان میں قیام کے دوران اس کی خواب گاہ کو توپ سے اڑانے کی کوشش کی۔مگر ہمایوں محفوظ رہا بالآخر وہ سندھ کے راستے ایران جاکر پناہ گزین ہوا۔ پندرہ سال بعد 1555ء میں اس نے ایک بار پھر مغل سلطنت حاصل کی مگر ایک سال سے کم عرصہ میں اس کا انتقال ہوگیا ہمایوں کے بعد اکبر بادشاہ بنا۔ کسی نے اکبر کی مخالفت نہیں کی صرف اس کا سوتیلا بھائی مرزا عبدالحکیم سازشی امراء کے بھڑکانے پر فوج لے کر لاہورپر حملہ آور ہو امگر اکبری فوج نے اسے شکست دے کر گرفتار کرلیا اس نے تمام عمر قید میں گذاری۔
اکبر کے بعد اس کا بیٹا جہانگیر تخت نشین ہو ا،اس کے بیٹے خسرو نے جہانگیر کے خلاف بغاوت کردی ۔جہانگیر نے باغی فوج کو شکست دے کر باغیوں کو سرعام پھانسی دی اور شہزادہ خسرو کو اندھاکروادیا اس نے تمام عمر قید میں گذاری۔جہانگیرکے بعد شہزادہ خرم شاہجہان کے لقب سے تخت نشین ہوا اس کی مخالفت اس کے بھائی شہزادہ شہر یار اور شہزادہ داور بخش نے کی مگر شاہجہان کے وفاداروں نے انہیں شکست دے کر گرفتار کر لیا ۔شہزادے شہریار کو اندھا کردیا گیا جبکہ شہزادہ داور بخش مارا گیا ۔
عالمگیر کے بارے میں مشہور تھا کہ اس نے کوئ نماز نہیں چھوڑی اورکوئی بھائی نہیں چھوڑا ۔۔۔۔روٹی کے ٹکڑے پر دکن کی ریاست لینے والا یہ مغل زادہ اگر کسی کی شہرت اور شخصیت سے خائف تھا تو وہ تھا دارالشکوہ ۔۔۔۔۔ولی عہد ۔۔۔۔باپ کی آنکھوں کا تارا ۔۔۔اکابرین سلطنت کا پیارا ۔۔عوام جس کے نام کا کلمہ پڑھتی تھی ۔۔اور خواص جسکے گن گاتے تھے ۔۔عالمگیر کی تمام تر شاطر دماغی بھی لوگوں کے دلوں سے دارالشکوہ کی محبت اور لگاو کو کم نہ کر سکی ۔۔۔اس کے سارے داؤ ایک کے بعد ایک خالی پلٹتے رہے۔۔۔۔عالمگیر اور تخت کے درمیان دار الشکوہ کا وجود سیسہ پلائ دیوار تھا جس پر کوئی حربہ کارگر نہ ہوتا تب عالمگیر نے اپنا اکا کھیلنے کا فیصلہ کیا ۔۔۔بہت آہستہ منظم طریقےسے چھوٹی چھوٹی باتوں ۔۔۔دارا کے نیک نیتی سے دوسرے مذاہب اور عقائد کے حق میں کئے جانے والے اقدامات کو اسی کے خلاف استعمال کیا جانے لگا ہندوستان میں رہ کر ایک ولی عہد کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ تمام عوام کو ایک نظر سے نہ دیکھے دارا کا باطن کسی ذات یامذہب سے بالاتر ہو کر انصاف کے تقاضوں کی ادائیگی پر ہقین رکھتا تھا یہی اس کی سب سے بڑی طاقت تھی اور عالمگیر کا ترپ کا یہی پتہ تھا جس نے دارا کی طاقت کو اس کی کمزوری بنا دیا ۔۔۔ یوں کہ اگلے چند سالوں میں دارا کو جان بچانا بھی مشکل ہو گیا عالمگیر کےپروپیگنڈا کےدھیرے دھیرے پھیلتے ہوئے جال میں دارا جکڑتا گیا یہاں تک کہ جانی دوست جانی دشمن بن گئے ۔۔۔اس کے حکم پر خون بہانے والے خون کے پیاسے ہو گئے ۔۔۔اور عالگیر کی اقتدار کی پیاسی تلوار دارا کے لہو سے سیراب ہوئ
کیا آپ جانتے ہیں عالمگیر نے دارا کےخلاف جو پروپیگنڈا کیا تھا اس کا لب لباب کیا تھا ؟؟؟؟
اس نے عوام کے ذہنوں میں صرف ایک بیج بویا تھا جس نے تناوردرخت بن کر ان کے محبوب ولی عہد کو رانداہ درگاہ بنا دیا
وہ بیج کیا تھا؟؟؟
تاریخ کے مطالعے سے پتاچلتا ہے عالمگیر کی پوری پرروپیگنڈا مہم صرف ایک نکتے کے گردھومتی تھی اورنکتہ تھا
" دارا ایک لبرل ، سیکولر ، ملحد ہے "
ترپ کا یہ پتہ مغلیہ سلطنت کے سب سےطاقتور ۔۔۔ہر دل عزیز اور شجاع ولی عہد کی جان لے گیا ۔۔۔۔۔


1658ء میں شاہجہان کی زندگی میں ہی اس کے بیٹوں (داراشکوہ،اورنگ زیب ،شجاع اور مراد )کے درمیان تخت کے حصول کے لئے خونریز جنگیں ہوئیں جس میں اورنگ زیب کو فتح نصیب ہوئی جب کہ تمام شہزادے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اورنگ زیب نے اپنے باپ شاہجہان کو لال قلعے میں نظر بند کردیا اور اپنی بادشاہت کا اعلان کردیا۔

اورنگ زیب جو تاریخ میں خدا ترسی ، ٹوپیاں بننے اور قرآن اپنے ہاتھ سے لکھنے میں مشہور ہے اُس نے اپنے نو بھائیوں میں سے آٹھ کو قتل کر دیا ، آٹھویں بھائی مراد ، جس کی آنکھیں اپنی ماں سے ملتی تھیں ، اُسے اپنے باپ شاہجہاں کی دروخواس پر زندہ چھوڑ کر ایک ایسی نیکی کمائی جو تاریخ کے صفحات میں لازوال بن چکی ہے ، لیکن بغاوت کے الزام میں اُس کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروا کر اُسے ، عمر بھر کے لئے دیکھنے سے محروم کر دیا تاکہ اُس کے خلاف وہ کسی عملی بغاوت میں حصہ نہ لے سکے ،
حجاج بن یوسف کی طرح ، جس نے اپنی سفاکی کے باوجود ، سنا ہے کہ قران کی کتابت کروائی اور اُس میں اعراب لگوائے ، کیوں کہ شائد اُس کے خیال میں ، اعراب کے بغیر حفاظ کو تلاوت کرنے میں مشکل پیش آتی تھی ،
بعینہی اورنگزیب نے ، اپنے جد و امجد اکبر کی طرح دین اکبری کو فروغ دینے کے لئے، مختلف فتاوؤں کی ایک کتاب لکھوائی جسے ۔" فتاویٰ عالمگیری" کا نام دے کر شہرت پائی، جس کا " باب الحیل" پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
1707ء میں اورنگ زیب کے انتقال کے بعد ایک بار پھر جانشینی کی جنگ چھڑ گئی `جس میں شہزادہ اعظم ،معظم اور کام بخش نے حصہ لیا شہزادہ معظم کامیاب رہا جبکہ دوسرے شہزادے جنگوں میں مارے گئے۔
اورنگ زیب کی وفات کے دس سال بعد کے عرصہ میں سات خون ریز جنگیں ہوئیں جس میں مغل حکومت کا بہت بڑا نقصان ہوا۔لاتعداد جرنیل،سپاہی اور جنگی فنون کے ماہرین مارے گئے ۔ جس کی وجہ سے مغل یہ سلطنت کمزور ہوگئی ۔

یادرہے یہ تاج و تخت کی یہ جنگ مسلمان سرداروں کے درمیان ہوتی رہی ، جسے جیتنے والے کے قلمکار اور خطیب جہاد سے تعبیر کرتے اور ہارنے والوں کو دوزخ کے ایندھن سے تعبیردی جاتی ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔