Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 11 مارچ، 2017

نان سٹیٹ ایکٹرز ۔ پاکستان پر خود کش حملے !



 پاکستان کی تاریخ میں سب سے پہلا خودکش حملہ :
انیس نومبر 1995میں اسلام آباد میں قائم مصر کے سفارتخانے میں ہوا۔ مصری حملہ آور نے بارود سے بھرا ٹرک سفارتخانے کے احاطے میں اڑا دیا جس کے نتیجے میں چودہ افراد ہلاک ہوئے۔کہا جاتا ہے کہ اِس میں غیر ملکی نان سٹیٹ ایکٹرز ملوّث تھے ۔ کیوں کہ جب کوئی ملک حملے کی ذمہ داروی قبول نہیں کرتا تو الزامات نان سٹیٹ ایکٹرز پرڈال دیئے جاتے ہیں ۔
 پاکستان میں دوسرا خودکش حملہ،   8 مئی 2002 کو کراچی کے شیرٹن ہوٹل کے باہر ہوا جس میں فرانسیسی انجینیرز کو نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے میں گیارہ فرانسیسیوں سمیت چودہ افراد ہلاک ہوئے۔ یہ حملہ اس لئے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان میں یہ پہلا خودکش حملہ تھا جس میں ، نان سٹیٹ ایجنٹس ملوّث تھے  اور  خودکش حملہ آورایک  پاکستانی تھا ۔
 اس حملے کے بعد سن 2002میں ایک اور خودکش حملہ چودہ جون کو کراچی ہی میں ہوا۔ اس حملے میں بارود سے بھرا ٹرک امریکی سفارتخانے کے سامنے دھماکے سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں بارہ افراد ہلاک ہوئے۔ سن 2003 میں صرف ایک خودکش حملہ ہوا۔ یہ حملہ پچیس دسمبر کو راولپنڈی میں ہوا اور حملے میں ہدف صدر جنرل پرویز مشرف تھے۔ اس واقع میں پانچ افراد ہلاک ہوئے۔ سن 2005 میں پانچ خودکش حملے ہوئے جن میں ستاون افراد ہلاک ہوئے۔ ان حملوں میں سے چار حملے فرقہ وارانہ تھے جبکہ ایک حملہ وزیر اعظم پر اٹک میں ہوا۔
 سنہ دو ہزار پانچ میں خودکش حملوں میں کمی آئی اور صرف دو حملے ہوئے۔ یہ دونوں حملے فرقہ وارانہ تھے جن میں اکتیس افراد ہلاک ہوئے۔
 اگلے سال یعنی 2006میں ایک بار پھر خودکش حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ اس سال چھ حملوں میں لگ بھگ ایک سو چالیس افراد ہلاک ہوئے۔ ان حملوں میں صرف دو حملے فرقہ وارانہ تھے جن میں چالیس افراد ہلاک ہوئے۔ان دو حملوں کے علاوہ ایک حملہ امریکی سفارتخانے کے سامنے ہوا جب کہ باقی تین سکیورٹی اہلکاروں کے خلاف ہوئے تھے۔ 
مبصرین کا کہنا ہے کہ اتنی تعداد میں محفوظ علاقوں میں خودکش حملوں سے صاف ظاہر ہے کہ امن و امان کی صورتحال حکومت کے ہاتھوں سے نکل گئی ہے۔ ایمرجنسی لگانے سے اگر یہ فدائی حملے رک سکتے تو یہ قدم گذشتہ سال اپریل یا مئی ہی میں اُٹھا لینا چاہئے تھا۔
 پاکستان میں صرف گذشتہ سال 2007 میں ہونے والے خودکش حملوں کی تعداد سینتالیس ہو گئی ہے۔ جبکہ ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد تقریباً چھ سو ہوگئی ہے۔ اس میں بے نظیر بھٹو کی شہادت سمیت لیاقت باغ کا خود کش حملہ بھی شامل ہے۔ 
ان تمام حملوں کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کُل آٹھ فرقہ وارانہ حملے ہوئے اور اس نوعیت کا آخری حملہ آٹھ نومبر دو ہزار چھ کو ہوا جس میں علامہ حسن ترابی شہید ہوئے۔ اس کے علاوہ سات حملوں میں سیاسی شخصیات کو نشانہ بنایا گیا۔جن میں  جنرل پرویز مشرف پر خودکش حملہ۔ دو ہزار چار میں وزیر اعظم شوکت عزیز پر اٹک میں جلسے کے بعد حملہ۔ دو ہزار سات میں وزیر داخلہ آفتاب احمد شیرپاؤ پر چارسدہ کے جلسے میں حملہ اور بینظیر بھٹو کے قافلے پر دو حملے۔ ان حملوں میں سیاسی شخصیات تو بال بال بچ گئے لیکن ایک سو ستتر لوگ مارے گئے۔
 البتہ دسمبر 2007 میں بےنظیر بھٹو خودکش حملے کا شکار ہوگئی۔ سنہ دو ہزار دو سے اب تک کراچی میں نو حملے ہوئے۔ ان حملوں میں دو سو تیس افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں سے ایک سو پینتیس بینظیر کی ریلی میں اور سینتالیس دو ہزار چھ کی سنی تحریک کے مجمع میں حملوں میں جاں بحق ہوئے۔ باقی اڑتالیس لوگ فرقہ وارانہ حملوں میں ہلاک ہوئے۔
 پنجاب میں بارہ خودکش حملے ہوئے جن میں نوے افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں سے چھتیس افراد تین حملوں میں فرقہ واریت کی بھینٹ چڑہے۔ جبکہ باقی حملے سیکورٹی اہلکاروں پر ہوئے۔ ان بارہ حملوں میں سے سے پانچ حملے راولپنڈی میں ہوئے۔ جبکہ ان پانچ حملوں میں سے چار حملے فوجی ہیڈ کوارٹر کے بہت قریب تھے۔ 
بلوچستان میں صرف دو خودکش حملے ہوئے جس میں سینتالیس افراد ہلاک ہوئے۔ یہ دونوں حملے دو ہزار سات میں ہوئے۔ ایک حملہ کوئٹہ کی عدالت میں ہوا اور دوسرا حملہ چینی قافلے پر ہوا جس میں تیس افراد ہلاک ہوئے۔
 کے پی کے میں اب تک پینتیس خودکش حملے ہو چکے ہیں۔ ان حملوں میں تقریباً تین سو ستر افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں سے صرف ایک فرقہ وارانہ خودکش حملہ تھا جن میں انتالیس افراد مارے گئے۔ باقی بیشتر حملوں میں سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔ 
اسلام آباد میں پانچ خودکش حملوں میں اکسٹھ افراد ہلاک ہوئے۔ ان حملوں میں سے ایک حملہ فرقہ وارانہ نوعیت کا تھا جس میں پچیس افراد ہلاک ہوئے۔ باقی حملوں میں میریٹ ہوٹل، ائرپورٹ اور سیکورٹی اہلکاروں پر حملے شامل ہیں۔ ان 63 حملوں میں سے چھیالیس خودکش حملے بندوبستی علاقوں میں ہوئے جن میں سات سو سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔ صرف سولہ حملے علاقہ غیر میں ہوئے جن میں نوے افراد ہلاک ہوئے۔  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔