نومبر 2016 کی بات ہے بڑی بیٹی ، سائرہ نے یہ خبر سنا کر پہلا دھماکہ کیا ، کہ وہ
وزیرستان اور دیگر ایجنسیوں میں یو این کے پلیٹ فارم سے کل جاکر آڈٹ شروع کرے گی ۔
اِس خبر نے پریشان تو کرنا تھا کیوں کہ آج تک وہاں کوئی خاتون آڈیٹر نہیں گئی اور
علاقے بھی شورش زدہ تھے ، بہر حال سب خیر ہوئی اور اُس نے ورلڈ فوڈ پروگرام کے
تمام آفسز کا کامیاب آڈٹ کیا ۔
جنوری 2017 کے پہلے ہفتے میں اُس نے خبر دی کہ وہ یو این کے پلیٹ فارم پر بہت
دور جائے گی ۔
کہاں جائے گی ؟ نہیں بتایا ۔
میں سمجھا شاید بلوچستان جانے کا ارادہ ہے ۔ کیوں کہ اسلام آباد سے بہت دور تو وہی بنتا ہے ۔
15جنوری کو اُس نے دوسرادھماکا کیا کہ اُس نے ایسٹ تِمور اور ساؤتھ افریقہ کے لئے "یواین فوڈ پروگرام "کے لئے والنٹیئر کیا تھا ۔اب اُس کا ارادہ دنیا دیکھنے کا ہے ۔ ایسٹ تِمُور سے اُس کی درخواست منظور ہو گئی ہے اور وہ 20 جنوری کو فلائی کر جائے گی اور 17 جنوری کو اُس کے ٹکٹ اور یو این کا لیٹر آگیا ، بڑھیا پریشان کہ چم چم کو چھوڑ کر وہ اتنی دور جا رہی ہے وہ اُس کے بغیر کیسے رہے گی ؟
20 جنوری کو جمعہ تھا ، ہم سب اُسے چھوڑنے ایرپورٹ گئے ، جب تک وہ چیک اِن نہ ہو ہمارا وہیں رہنے کا پروگرام تھا ، اُسے بورڈنگ کارڈ ملا، تو اُس نے کہا کہ ہم گھر چلے جائیں ، تو ہم گھر کی طرف روانہ ہوئے ۔ گھر سے ابھی کلومیٹر دور تھے تو اُس کا فون آیا کہ واپس آجائیں ، ایف آئی اے نے ایمبارکیشن کلیرنس نہیں دی ۔ کیوں ؟
بس اُن کی مرضی ، اُنہیں ڈر تھا کہ کہیں یہ خاتون وہاں جاکر خرگوش نہ ہوجائے ۔ کیوں کہ ایسٹ تِمُور کا ویزا نہیں ہوتا ، ٹورسٹ کو وہاں پہنچ کر دیا جاتا ہے ۔ اور یو این کے ملازمین کو بھی وہاں پہنچ کر انٹری ویزہ دیا جاتا ہے ۔
اُنہوں نے یہ جاننے کے باوجود کہ یو این کے ملازمین کے لئے ، " او کے ٹو بورڈ " کی مہر کی ضرورت نہیں ۔ اُسے کہا کہ " او کے ٹو بورڈ " کی مہر لگوا کر آئیں ۔ وہ اپنا سامان ٹرالی میں رکھ کر واپس ہوئی ، تو ایک خضر راہ نے اُسے پیش کش کی کہ وہ اُس کی مدد کر سکتا ہے ۔ وہ سمجھا کوئی عام خاتون ہے ۔ ٹکٹ ضائع ہونے اور ملازمت پر نہ جانے سے پریشان ہوگی ۔ چلو اِس سے کچھ دانہ دُنکا جھاڑ لیتے ہیں ۔ (پروٹیکٹر فیس نہ ہونے کی صورت میں 5 ہزار روپے اور " او کے ٹو بورڈ " کے لئے 2 ہزار روپے میں کام ہوجائے گا ) ۔ لیکن بیٹی نے معذرت کر لی اور ایک طرف ہو کر ، یو این پاکستان کے پروٹوکول آفیسر کو فون کیا جس نے یہ سارا انتظام کیا تھا ۔
پروٹوکول آفیسر نے ، ایف آئی اے کے کرتا دھرتا سے بات کی ، ایف آئی اے والے نے بیٹی سے پوچھا ،
"اِس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ واپس آجائے گی ؟"
تو اُس نے جواب دیا ،
" میرا تین ماہ تک واپس آنے کا کوئی ارادہ نہیں کیوں کہ وہ وہاں جاب پر جارہی ہوں۔"۔
ایف آئی اے کے آفیسر ، نے کہا ،
"آپ کے پاس پروٹیکٹر نہیں لگا ہوا "
بیٹی نے ، پھر پروٹوکول آفیسر کو فون کیا اُس نے بتایا ، کہ یو این ملازمین کے لئے پروٹیکٹر کی ضرورت نہیں ۔ جب ایف آئی اے کے آفیسر کو یہ قانون بتایا گیا ، تو موصوف نے کہا ،
"ہاں اُسے معلوم ہے ۔ لیکن " او کے ٹو بورڈ " کی مہر ضروری ہے ۔ آپ نہیں جا سکتیں "۔
خیر ہم بیٹی کو لے کر واپس ہوئے اور خوش کہ چلو اُسے ایک ہفتہ اور مل گیا ۔
ابھی اُسے گئے ہوئے دو ہفتے ہی گذرے تھے کہ بیٹی کی یاد ستانے لگی اور بیٹی ماں کو یاد کرے ، تو بیٹی کا چم چم کو اپنے پاس بلانے کا پروگرام بن گیا ، بابا ، خالہ اور پھوپی نے اپنی مصروفیات کی بنا پر انکار کر دیا ، چنانچہ قرعہ فال بوڑھے اور بڑھیا کے نام نکلا ، راستے کی طوالت ، طویل العمری ، ناسازی ءِ طبیعت جیسا کوئی بھی تنکا کام نہ آیا ۔
بڑھیا کو تو اسلام آباد سے 4 گھنٹے دُبئی او ر دُبئی سے آٹھ گھنٹے سنگا پور کا سفر ، سے ہی ہول اُٹھیں پھر ائرپورٹ پر دس گھنٹے گذارنے کے بعد اگلے دن پھر چار گھنٹے کا سفر ، ہم سب سے زیادہ خوشی چم چم کو ہو ئی۔
ایک اور ٹاسک بھی کہ وہاں رہنے والے پاکستانیوں کے لئے تحفے ، بیٹی کی خواہش کہ وہ ماں کے ہاتھ کے بنے ہوئے کھانے کھائے گی ، اُس کے لئے شان کے مصالحہ جات ، جس کا نتیجہ یہ ہوا ، کہ 30کلو فی نفر کے تین بیگ جن میں صرف مصالحے ، بیٹی اور چم چم کے لئے کپڑے ، بوڑھے اور بڑھیا کے تین تین جوڑے ، 7 کلو کے ہینڈ کیری میں بوڑھے، بڑھیا اور چم چم کے راستے کے لئےدو دو جوڑے ، بوڑھے کا لیپ ٹاپ اور چم چم کا بھالو ۔
اب تھا بڑھیا کی صحت کا ٹیسٹ، کہ کتنے گھنٹے سفر میں ایک جگہ بیٹھ کر گذارے جاسکتے ہیں ۔ بوڑھا 9 بجے گاڑی لے کر بڑھیا کے ساتھ اسلام آباد نکلتا ، 6 گھنٹے کی ڈرائیو برائے خریداری کر کے تین بجے گھر پہنچتا ، بڑھیا تو کھانا کھا کر لیٹ جاتی اور بوڑھا ساڑھے تین بجے گالف کھیلنے روانہ ہوجاتا ۔ 18 ہول کھیل کر مغرب کے بعد واپس آتا ۔ اورپھر کھانا کھا کر فیس بُک کے اکھاڑے میں کود جاتا ۔
کہاں جائے گی ؟ نہیں بتایا ۔
میں سمجھا شاید بلوچستان جانے کا ارادہ ہے ۔ کیوں کہ اسلام آباد سے بہت دور تو وہی بنتا ہے ۔
15جنوری کو اُس نے دوسرادھماکا کیا کہ اُس نے ایسٹ تِمور اور ساؤتھ افریقہ کے لئے "یواین فوڈ پروگرام "کے لئے والنٹیئر کیا تھا ۔اب اُس کا ارادہ دنیا دیکھنے کا ہے ۔ ایسٹ تِمُور سے اُس کی درخواست منظور ہو گئی ہے اور وہ 20 جنوری کو فلائی کر جائے گی اور 17 جنوری کو اُس کے ٹکٹ اور یو این کا لیٹر آگیا ، بڑھیا پریشان کہ چم چم کو چھوڑ کر وہ اتنی دور جا رہی ہے وہ اُس کے بغیر کیسے رہے گی ؟
20 جنوری کو جمعہ تھا ، ہم سب اُسے چھوڑنے ایرپورٹ گئے ، جب تک وہ چیک اِن نہ ہو ہمارا وہیں رہنے کا پروگرام تھا ، اُسے بورڈنگ کارڈ ملا، تو اُس نے کہا کہ ہم گھر چلے جائیں ، تو ہم گھر کی طرف روانہ ہوئے ۔ گھر سے ابھی کلومیٹر دور تھے تو اُس کا فون آیا کہ واپس آجائیں ، ایف آئی اے نے ایمبارکیشن کلیرنس نہیں دی ۔ کیوں ؟
بس اُن کی مرضی ، اُنہیں ڈر تھا کہ کہیں یہ خاتون وہاں جاکر خرگوش نہ ہوجائے ۔ کیوں کہ ایسٹ تِمُور کا ویزا نہیں ہوتا ، ٹورسٹ کو وہاں پہنچ کر دیا جاتا ہے ۔ اور یو این کے ملازمین کو بھی وہاں پہنچ کر انٹری ویزہ دیا جاتا ہے ۔
اُنہوں نے یہ جاننے کے باوجود کہ یو این کے ملازمین کے لئے ، " او کے ٹو بورڈ " کی مہر کی ضرورت نہیں ۔ اُسے کہا کہ " او کے ٹو بورڈ " کی مہر لگوا کر آئیں ۔ وہ اپنا سامان ٹرالی میں رکھ کر واپس ہوئی ، تو ایک خضر راہ نے اُسے پیش کش کی کہ وہ اُس کی مدد کر سکتا ہے ۔ وہ سمجھا کوئی عام خاتون ہے ۔ ٹکٹ ضائع ہونے اور ملازمت پر نہ جانے سے پریشان ہوگی ۔ چلو اِس سے کچھ دانہ دُنکا جھاڑ لیتے ہیں ۔ (پروٹیکٹر فیس نہ ہونے کی صورت میں 5 ہزار روپے اور " او کے ٹو بورڈ " کے لئے 2 ہزار روپے میں کام ہوجائے گا ) ۔ لیکن بیٹی نے معذرت کر لی اور ایک طرف ہو کر ، یو این پاکستان کے پروٹوکول آفیسر کو فون کیا جس نے یہ سارا انتظام کیا تھا ۔
پروٹوکول آفیسر نے ، ایف آئی اے کے کرتا دھرتا سے بات کی ، ایف آئی اے والے نے بیٹی سے پوچھا ،
"اِس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ واپس آجائے گی ؟"
تو اُس نے جواب دیا ،
" میرا تین ماہ تک واپس آنے کا کوئی ارادہ نہیں کیوں کہ وہ وہاں جاب پر جارہی ہوں۔"۔
ایف آئی اے کے آفیسر ، نے کہا ،
"آپ کے پاس پروٹیکٹر نہیں لگا ہوا "
بیٹی نے ، پھر پروٹوکول آفیسر کو فون کیا اُس نے بتایا ، کہ یو این ملازمین کے لئے پروٹیکٹر کی ضرورت نہیں ۔ جب ایف آئی اے کے آفیسر کو یہ قانون بتایا گیا ، تو موصوف نے کہا ،
"ہاں اُسے معلوم ہے ۔ لیکن " او کے ٹو بورڈ " کی مہر ضروری ہے ۔ آپ نہیں جا سکتیں "۔
خیر ہم بیٹی کو لے کر واپس ہوئے اور خوش کہ چلو اُسے ایک ہفتہ اور مل گیا ۔
بیٹی نے ہفتہ چم چم کے ساتھ گذارا ، " او کے ٹو بورڈ
" کی مہر لگوائی گئی اور 27 جنوری کو بالآخر وہ اسلام آباد
سے امارات ائر لائن پر دُبئی ، وہاں سے
سنگا پور اور سنگا پور سے سِلک ائر لائن پر
ایسٹ تِمور ، پہنچی ، وٹس ایپ پر
اپنی تمام تصاویر بھیج کر اپنی ماں کو صورتِ حال سے اَپ ڈیٹ کرتی رہی ۔
ہماری ڈیوٹی یہ تھی کہ چم چم کو ہر جمعہ اُس کے سکول سے لینا اور اپنے یہاں لے آنا اور
سوموار کی صبح سکول چھوڑنا اور اگلے جمعہ تک وہ بابا کے پاس رہتی جہاں ، دادا اور
دادو ، پھوپی اور چاچو کے ساتھ وقت
گذارتی اور ماما کو کبھی کپ کیک ، کبھی کیک اور کبھی تصاویر بنا کر وٹس ایپ کرتی ۔ ابھی اُسے گئے ہوئے دو ہفتے ہی گذرے تھے کہ بیٹی کی یاد ستانے لگی اور بیٹی ماں کو یاد کرے ، تو بیٹی کا چم چم کو اپنے پاس بلانے کا پروگرام بن گیا ، بابا ، خالہ اور پھوپی نے اپنی مصروفیات کی بنا پر انکار کر دیا ، چنانچہ قرعہ فال بوڑھے اور بڑھیا کے نام نکلا ، راستے کی طوالت ، طویل العمری ، ناسازی ءِ طبیعت جیسا کوئی بھی تنکا کام نہ آیا ۔
بڑھیا کو تو اسلام آباد سے 4 گھنٹے دُبئی او ر دُبئی سے آٹھ گھنٹے سنگا پور کا سفر ، سے ہی ہول اُٹھیں پھر ائرپورٹ پر دس گھنٹے گذارنے کے بعد اگلے دن پھر چار گھنٹے کا سفر ، ہم سب سے زیادہ خوشی چم چم کو ہو ئی۔
ایک اور ٹاسک بھی کہ وہاں رہنے والے پاکستانیوں کے لئے تحفے ، بیٹی کی خواہش کہ وہ ماں کے ہاتھ کے بنے ہوئے کھانے کھائے گی ، اُس کے لئے شان کے مصالحہ جات ، جس کا نتیجہ یہ ہوا ، کہ 30کلو فی نفر کے تین بیگ جن میں صرف مصالحے ، بیٹی اور چم چم کے لئے کپڑے ، بوڑھے اور بڑھیا کے تین تین جوڑے ، 7 کلو کے ہینڈ کیری میں بوڑھے، بڑھیا اور چم چم کے راستے کے لئےدو دو جوڑے ، بوڑھے کا لیپ ٹاپ اور چم چم کا بھالو ۔
اب تھا بڑھیا کی صحت کا ٹیسٹ، کہ کتنے گھنٹے سفر میں ایک جگہ بیٹھ کر گذارے جاسکتے ہیں ۔ بوڑھا 9 بجے گاڑی لے کر بڑھیا کے ساتھ اسلام آباد نکلتا ، 6 گھنٹے کی ڈرائیو برائے خریداری کر کے تین بجے گھر پہنچتا ، بڑھیا تو کھانا کھا کر لیٹ جاتی اور بوڑھا ساڑھے تین بجے گالف کھیلنے روانہ ہوجاتا ۔ 18 ہول کھیل کر مغرب کے بعد واپس آتا ۔ اورپھر کھانا کھا کر فیس بُک کے اکھاڑے میں کود جاتا ۔
13 مارچ صبح 7 بجے چم چم ، بڑھیا اور بوڑھا ، مشرقِ بعید کے سفر کے لئے ،
میٹرو رینٹ اے کار میں ، اسلام آباد سے لاہور کے لئے روانہ ہوئے ،
ابھی لاہور میں داخل نہ ہوئے تھے کہ بڑھیا کی طبیعت خراب ہونا شروع ہوئی ،
اُس نے
واویلا مچانا شروع کر دیا کہ ، سی ایم ایچ چلو ، گیریژن میس جہاں 9 بجے تک
سستانا تھا وہ اور سی ایم ایچ تھوڑے فاصلے ساتھ ہی
ہیں ،
1988 میں بوڑھا ،جب جوان تھا نوشہرہ سے گنری سٹاف کورس کر کے لاہور آیا تھا ۔ جہاں آرڈنینس ڈپو کے پاس باوانی ٹائپ گھر ملا تھا ۔ جو گیریژن میس اور سی ایم ایچ کے درمیان سمجھیں ۔ چنانچہ سامان کمرے میں اتارااور اُسی رینٹ اے کار میں سی ایم ایچ پہنچے ، جہاں ایک بجے ، بڑھیا کو آئی سی یو میں ایڈمٹ کروایا ۔اُسے ڈاکٹر نے ڈرپ لگا دیں ، بوڑھے نے اپنا اور بڑھیا کا موبائل بند کر کے اپنے پاس رکھ لیا ۔
1988 میں بوڑھا ،جب جوان تھا نوشہرہ سے گنری سٹاف کورس کر کے لاہور آیا تھا ۔ جہاں آرڈنینس ڈپو کے پاس باوانی ٹائپ گھر ملا تھا ۔ جو گیریژن میس اور سی ایم ایچ کے درمیان سمجھیں ۔ چنانچہ سامان کمرے میں اتارااور اُسی رینٹ اے کار میں سی ایم ایچ پہنچے ، جہاں ایک بجے ، بڑھیا کو آئی سی یو میں ایڈمٹ کروایا ۔اُسے ڈاکٹر نے ڈرپ لگا دیں ، بوڑھے نے اپنا اور بڑھیا کا موبائل بند کر کے اپنے پاس رکھ لیا ۔
بڑھیا سے پوچھا ، اُس نے واپس اسلام آباد جانے کا کہا ،
شام 4 بجے بڑھیا کی ڈرپس ختم ہوئیں
ڈاکٹر سے اجازت لے کر واپس رینٹ اے کار میں
گیریژن میس کی طرف روانہ ہوئے ، راست میں چم چم نے مال آف لاہور دیکھا تو برگر کھانے کے لئے مچل گئی ۔بڑھیا کے لئے میس
کو کھچڑی بنانے کا کہا اور خود چم چم کو لے کر مال آف لاہور کی طرف پیدل روانہ ہوا اور بڑھیا
کو بتایا کہ وہ شام 7 بجے تک سو جائے ، واپس آکر دیکھتے ہیں کہ ، کیا کیا جائے ۔
چم چم کے ساتھ ، مال آف لاہور پہنچا ، وہاں چم چم نے خوب دل بھر کر کھیلا ۔
سات بجے واپس کمرے میں پہنچے ، بڑھا سوئی ہوئی تھی
اُٹھی اور ہشاش بشاش ، بوڑھا کمر سیدھا
کرنے لیٹ گیا ، چائے منگوائی دونوں نے پی اور آٹھ بجے ، ائر پورٹ کے لئے روانہ
ہوئے ، موبائل آن کئے تو میسجز کا طوفان
آگیا ۔ چاروں بچے پریشان کہ۔
ماں باپ اور چم چم لاہور میں کہاں غائب ہوگئے ؟
ماں باپ اور چم چم لاہور میں کہاں غائب ہوگئے ؟
بتایا کہ تھکن کی وجہ سے آرام کے لئے موبائل بند کر دیئے تھے ، ابھی ائر پورٹ جا
رہے ہیں -
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں