Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 26 مارچ، 2017

مشرقِ بعید-ٹِمور لِسٹے (ایسٹ تِمور)

 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 چم چم ، بڑھیا اور بوڑھا ،سِلک ائر میں سمندروں اور جزیروں کے اوپر ہے پرواز کرتے ہوئے ، ایسٹ تِمور  کے کیپیٹل ڈِیلی  کی فضاء میں اترنے کے لئے سمندر کے اوپر چکر کاٹ رہے تھے ،" وہ دیکھو  ائرپورٹ "بوڑھے نے ایک پتلی سے لینڈنگ سٹرپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔" اتنی چھوٹی ، اور آگے سمندر کیا پائلٹ اِسے آرام سے اتار لے گا ؟" بڑھیا نے جملہءِ شکیّہ میں پوچھا ۔
" نانو، میں نے پڑھا تھا کہ ایک دفعہ جہاز پانی میں اُتر گیا ، تو لوگوں کو بوٹس سے نکالا تھا " چم چم بولی ۔
" عالی چُپ کرو ، بُری باتیں نہیں کرتے " بڑھیا بولی
" سچ نانو !  لوگوں کو اتنا مزہ آیا وڈیو میں کئی لوگ سمندر میں سوئمنگ کر رہے تھے "چم چم خوشی سے بولی ۔" آوا ، آپ اور میں دونوں سوئمنگ کریں گے اور نانو بوٹ میں جائیں گی" ۔ 
بڑھیا نے تسبیح گھمانی شروع کردی اور پائلٹ  نے جہاز  گھمایا اور  رن وے پر آرام سے اتار لیا ۔ 


مشرقی تِمُور انڈونیشیا کے ساتھ چھوٹا سا ملک ہے جس کا دارلحکومت ڈیلی ہے۔
1975؁ میں سلطنتِ پرتگال نے تِمور  کو آزاد کِیا تو انڈونیشیا نے فورا جزیرہءِ تِمُور پر قبضہ کر لیا اور آزادی پسند فرقوں کو جبراً اپنے ماتحت کرنے کی کوشش کی ـ مغربی طاقتوں نے انڈونیشیا کی حمایت کی اس ڈر سے کہ مشرقی تِمُور چین کی مدد حاصل کرتے ہوئے کامیونسٹ بن جائے گاـ
1999 میں انڈونیشیا ریفرینڈم پر رضامند ہو گیا جس ٘میں مشرقی تِمُور کے باشندے مقامی خود ٘مختاری اور آزادی کے درمیان فیصلہ کریں گےـ جب نتیجہ آزادی کے حق میں آیا تو وہ تِمُوری جو انڈونیشیا کے حق میں تھے سڑکوں میں تشدد اور قتلِ عام کرنے لگے ـ سینکڑوں ہلاک ہوئےـ



چم چم کی ماما نے ایسٹ تیمور میں 14 مارچ کو آتے ہی چم چم کی سالگرہ منائی ، اور چم چم کو دو پہیوں والی سائیکل کا تحفہ دیا ، چم چم کو ملنے والی یہ تیسری سائیکل ہے جو اِسے برتھ ڈے پر ملی ، ایک سائیکل دادو کے گھر پر ہے ، دوسری نانو کے گھر پر اور تیسری یہاں ماما کے گھر پر ۔
لیکن چم چم کو تین پہیوں والی سائیکل کا مزہ زیادہ آتا ۔
اب چم چم کی ماما نے بوڑھے کو ٹاسک دیا کہ اِسے سائیکل سکھانی ہے اور وہ بھی دو پہوں والی ۔
15 تاریخ کو بوڑھے نے ناشتے کے بعد چم چم کو کمپاونڈ کے صحن میں دو چکر تین وہیل کے لگوائے ،
پھر پانے کی مدد سے دونوں پہیوں کو آدھا انچ اوپر کیا ۔
دو گھنٹے بعد پھر کل ایک انچ اوپر کیا اور چم  چم سائیکل چلاتی رہی ۔
اگلے دن یعنی 16 مارچ کو جب چم چم ڈگمگاتی سائیکل چلانے کی ماہر ہو گئی ، تو بوڑھے نے اُس کی اجازت سے ، اِس شرط پر دونوں چھوٹے وہیل ہٹا دئیے کہ وہ جب سائیکل چلائے گی تو اُسے پکڑے رہے گا اور ساتھ ساتھ دوڑے گا ،
بوڑھا ، سمجھ گیا کہ اب چم چم دو ہیل پر سائیکل چلانے کے لئے مکمل تیار ہے ۔
چنانچہ دوستو !
بوڑھے نے دونوں پہیئے اتارے ، چم چم کو گھر سے گیٹ تک پکڑ کر سائیکل چلوائی اور گیٹ سے  جونہی چم چم نے سائیکل کو پیڈل مارا ، بوڑھے نے ، چم چم کو چھوڑ دیا ۔
چم چم شور مچاتی پیڈل مارتی گھر کے دروازے تک پہنچی ۔ بڑھیا گھبرا کر باہر نکلی ۔ اور وہ خوشی کا لمحہ تھا جب چم چم کی خوف اور مسرت کی ملی جلی چینخیں ، بوڑھے کا ساتھ دوڑنا ، گیٹ پر کھڑے تمُری چوکیداروں کا تالیاں بجانا اور کام کرنے والیوں کا ہنسنا ۔
بوڑھے ، کی سوچ 1988 اپریل میں چھلانگ مار گئیں ، جب چم چم کی ماما نے 7 سال اور 5 ماہ کی عمر میں لاہور میں اِسی طرح سائیکل چلائی تھے ۔
جب بوڑھے باپ ، ارے نہیں جوان باپ نے ،گھر کے سامنے کے میدان میں اُسے سائیکل پر بٹھا کر پیڈل مارنے کے بعد چھوڑ دیا ، پہلے تو وہ خوف سے چینخی ،
" پپا ، گر جاؤں گی "
" پس پیڈل مارتی رہو ۔ نہیں گرو گی " بوڑھا بولا
وہ خوف اور مسرت میں بھرپور شور مچاتی ، دو چکر لگانے کے بعد گھاس پر گر گئی ، اور وہاں سے دوڑتی گھر میں گئی اور ماما کو کھینچتی لائی ، اور ماما کو اپنی مہارت دکھائی ۔
چم چم نے دس بجے تک مہارت حاصل کر لی اور بار بار پوچھے ماما کتنے بجے آئیں گی ،
خیر بڑھیا نے ، اُسے کھانا کھا کر سلا دیا ، ساڑھے چار بجے اُٹھی اور ماما کا انتظار کرنے لگی ۔
جونہی 5:10 پر ماما آئی ، تو ماما کو سائیکل چلا کر حیران کر دیا ۔



بیٹی کے ہاتھ کے پکے ہوئے تموری چاول ۔

 
جہاں بیٹی نے رہائش رکھی وہاں  کے  چینی اونر مسٹر کانگ کی بیٹی میلانی کی دوستی چم چ سے ہوگئی - وہ سکول سے آتے ہی عالی عالی کی آوازیں دیتی ہمارے ہاں آدھمکتی وہ اُس کا  بھائی اور چم چم تینوں سائیکل چلاتے ۔


تِمُور لسٹے (ایسٹ ) میں نیٹ ورک کی رفتار اتنی آہستہ ہے ، کہ ایک پکچر اپ لوڈ کریں اور پاس کے کمانک (جنرل سٹور) سے جاکر ڈبل روٹی اور انڈے لے آئیں ، تو تصویر اَپ لوڈ ہونے کے آخری مراحل میں ہوتی ہے ۔

 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔