٭٭٭٭٭٭٭
چم
چم کی تاریخ پیدائش 14 مارچ ہے ، لیکن اُس کی دستیابی کی صورت میں ،
سالگرہ 10 مارچ سے ہی شروع ہوجاتی ہے، ویسے میں گھر میں جب بھی کیک آتا ،
اُسے چم چم اپنی سالگرہ کا کیک سمجھ کر کاٹتی ، نانا نانی ، ماما بابا ،
خالی ، پھوپی ، چچاؤں ، دونوں ماموں کے کیک کی تو کوئی بات نہیں لیکن جب
اُس نے لڈؤ اور برفی کے کیک پر حق جمانا شروع کیا تو اُسے بتایا کہ ،
سالگرہ سال میں صرف ایک ہوتی ہے ۔ لیکن اب بھی ، کوئی پانچ چھ کیک تو اُس
کی سالگرہ کے ہوتے ہیں، جو مختلف دنوں میں سالگرہ مِس کرنے والے کاٹتے ہیں
اب آخری کیک ، اسلام آباد میں دادا کے گھر کاٹا جائے گا ،
گو
کہ 14 مارچ کو یہاں پہنچتے ہی اُس کی ماما نے سالگرہ کا انتظام کیا تھا ،
جس میں تین فیلیز شامل تھیں، پھر اعلان کیا کہ 18 مارچ کو بروز ہفتہ
سالگرہ ہوگی اور تمام پاکستانی مدعو ہیں ، اُس کے لئے وٹس ایپ بر دعوت دے
ڈالی ، مگر 20 مارچ کو الیکشن کی غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے یہ آج 26
مارچ کو ملتوی کرنا پڑی ۔
چم چم کی ماما کا خیال تھا کہ کرسٹو رے ، کے دامن میں بیچ کا علاقہ اِس کے لئے نہایت موزوں ہے ، سب نے کہا کہ ، ریسٹورانٹ سے نہیں بلکہ گھریلو چیزیں بنوائی جائیں گی ۔
چم چم کی ماما کا خیال تھا کہ کرسٹو رے ، کے دامن میں بیچ کا علاقہ اِس کے لئے نہایت موزوں ہے ، سب نے کہا کہ ، ریسٹورانٹ سے نہیں بلکہ گھریلو چیزیں بنوائی جائیں گی ۔
صبح دس بھے میزبانوں کا قافلہ روانہ ہوا ، یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ 3 کلومیٹر بیچ کھچا کھچ بھری ہوئی تھی،
سب
سے آخر میں جہاں ہم نے جگہ منتخب کی تھی ، جہاں ابھی تک کافی جگہ خالی تھی
، چٹائیاں اور چادریں بچا کر ، جگہ پر قبضہ کیا ، دوسرا مرحلہ ہیپی برتھ
ڈے کے غبارے اور جھنڈیاں ٹانکنے کا تھا ۔ جھنڈیاں ٹانکتے وقت ، غبارے
پھلانے کی ذمہ داری تین نوجوانوں کو دی ۔
چم چم نے سمندر دیکھا تو مچل گئی ، وہ پانی کی طرف دوڑی تو اُس کی ماما نے چلا کر واپس بلایا تو اُس نے کہا ،
" ماما بیچ پر پارٹی کیوں رکھی ؟"
" ماما بیچ پر پارٹی کیوں رکھی ؟"
بات تو اُس کی درست تھی ۔ لیکن سب تو کیک کاٹنے کے بعد ہونا تھا ،
آہستہ آہستہ مہمان آنا شروع ہو گئے ، وعدہ تو قریباً 37 افراد اور 20 بچوں کے آنے کا تھا ، جن میں پاکستانی اور یواین کی 5 فیملیز بھی تھیں جن میں سے تین فیملیز آئیں ، جن کی 5 بچیاں چم چم کی ہم عمر تو نہیں لیکن کھیل میں ماہر تھیں ، اُنہیں بھی پانی میں جانے سے روکا ،
11 بجے ، جب آخری پاکستانی فیملی آئی تو کیک کاٹا گیا ،
آہستہ آہستہ مہمان آنا شروع ہو گئے ، وعدہ تو قریباً 37 افراد اور 20 بچوں کے آنے کا تھا ، جن میں پاکستانی اور یواین کی 5 فیملیز بھی تھیں جن میں سے تین فیملیز آئیں ، جن کی 5 بچیاں چم چم کی ہم عمر تو نہیں لیکن کھیل میں ماہر تھیں ، اُنہیں بھی پانی میں جانے سے روکا ،
11 بجے ، جب آخری پاکستانی فیملی آئی تو کیک کاٹا گیا ،
چم چم اور بچیاں تو کیک کاٹتے ہی پانی کی طرف دوڑیں ،
بوڑھے نے بڑھیا سے گلہ کیا ،
" خواہ مخواہ ، مجھے پینٹ اور قمیض پہنا دی "
" آرام سے بیٹیں اور مہمانوں کو دیکھیں " اب بوڑھا چم چم تو نہیں ، کہ بات منوا کر چھوڑے۔
بوڑھے نے بڑھیا سے گلہ کیا ،
" خواہ مخواہ ، مجھے پینٹ اور قمیض پہنا دی "
" آرام سے بیٹیں اور مہمانوں کو دیکھیں " اب بوڑھا چم چم تو نہیں ، کہ بات منوا کر چھوڑے۔
کھانے
کے بعد سب کو بیٹی اور بڑھیا نے اکٹھا کیا اور غبارے پُھلانے کا مقابلہ
شروع کروا دیا ،مقامی لوگ دیوار پر آکر بیٹھ گئے ، غیر ملکی دور سے خوش ہو
رہے تھے ۔
اُس کے بعد ، " جیوے جیوے پاکستان " سب نے مل کر گایا ،
سوہنی دھرتی اللہ رکھے ، سے لوگوں کے دل میں جذبہءِ پاکستان گرمایا ۔
پاکستان کا قومی ترانہ مل کر پڑھا ۔
پھر بیت بازی کا مقابلہ شروع ہوا ، جب شعر ختم ہوتے ہیں تو پھر صحیح مقابلہ شروع ہوتا ہے ، شعر و شاعری کا یہ مقابلہ ، محمد ارشاد نے بلا مبالغہ اپنی دو نظمیں سنا کر جیت لیا جو اُس نے میٹرک میں کہیں تھیں۔
پاکستان کا قومی ترانہ مل کر پڑھا ۔
پھر بیت بازی کا مقابلہ شروع ہوا ، جب شعر ختم ہوتے ہیں تو پھر صحیح مقابلہ شروع ہوتا ہے ، شعر و شاعری کا یہ مقابلہ ، محمد ارشاد نے بلا مبالغہ اپنی دو نظمیں سنا کر جیت لیا جو اُس نے میٹرک میں کہیں تھیں۔
یوں ایسٹ تِمُور میں بزمِ ادب کی بنیاد پڑھ گئی ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں