حضرت زین العابدین، فتنہ کے زمانے میں مدینہ کے باغیوں سے الگ رہے، بلکہ
انہوں نے جرات کے ساتھ بنو امیہ کے بزرگوں کی مدد اور اعانت بھی کی، مروان بن الحکم کی اہلیہ عائشہ بنت عثمان ذو
النورین کی، کہ ان گھر کا ساز و سامان اور ان کی اولاد کی اس طرح حفاظت کی کہ ان
سب کو اپنے گھر میں رکھا اور جب مدینے سے اپنی "جاگیر ینبووع" (کہاں سے آئی یہ جاگیر؟) چلے گئے
تو ان سب کو بھی ساتھ لے گئے.عائشہ بنت عثمان، جب طائف جانے لگیں تو اپنے صاحب
زادے عبدللہ کو جو، محمّد الباقر کے سگے بھائی تھے آپ کے ساتھ طائف بھیج دیا .
زین العابدین اگر ہوا کا رخ دیکھ کر بدلے والے ہوتے یا اگر کمزور طبیت کے ہوتے (جیسا یہ راوی باور کرانا چاہتے ہیں ) تو یہ سب حضرات، ابن زبیر سے بیعت کر لیتے اس طرح اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتے تھے مگر ان حضرات نے ایسا نہیں کیا،
اگر واقعہ کربلا میں کچھ بھی سچائی ہوتی تو بنی ہاشم کو بنی امیہ سے بدلا لینے کا اس سے بہتر اور کیا موقعہ ہو سکتا تھا ؟
آپ سب حضرات نے ابن زبیرکی بیعت کرنے پرسختیاں برداشت کیں لیکن امیر یزید کی بیعت نہیں توڑی . اور تو اور اس کے بعد مختار سقی نے جو سیاسی تحریک اٹھائی اس سے بھی یہ لوگ الگ رہے اور مروان بن الحكم بن أبي العاص بن أمية القرشي اور امیر المومنین عبد الملک وغیرہ کی بیعت میں داخل ہوئے۔
حضرت زین العابدین (38 ہجری تا 95 ہجری) نے امیر یزید کے زمانہ خلافت کے علاوہ چار خلفاء بنی امیہ کا زمانہ خلافت پایا - جن میں معاویہ بن یزید، مروان بن حکم ، ان کے فرزند عبدالملک بن مروان اور ان کے فرزند ولید بن عبدالملک شامل ہیں اور دیگر بنی ہاشم کی طرح وہ ان تمام خلفاءِ بنوامیہ کی بیعت میں نہ صرف داخل ہوئے بلکہ ان حضرات سے بڑی محبت خلوص اور رشتہ داری کا تعلق رکھا.
طبری جیسے شیعہ مورخ نے بھی لکھا ہے کہ مروان بن الحکم اور حضرت زین العابدین میں قدیم دوستی تھی اور رشتہ داری بھی تھی ، مروان کے دو بیٹے عبد الملک اور معاویہ بن مروان حضرت علی کے داماد تھے .
(جمہرہ الانساب ابن حزم صفحہ 80 .اور البدایه جلد 9
صفحہ 69 ) اور (علامہ ابن کثیر نے صفحہ 106 جلد 9 البدایه ) میں ان دونوں کی محبت
اور خلوص کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا ہے .
زین العابدین اگر ہوا کا رخ دیکھ کر بدلے والے ہوتے یا اگر کمزور طبیت کے ہوتے (جیسا یہ راوی باور کرانا چاہتے ہیں ) تو یہ سب حضرات، ابن زبیر سے بیعت کر لیتے اس طرح اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتے تھے مگر ان حضرات نے ایسا نہیں کیا،
اگر واقعہ کربلا میں کچھ بھی سچائی ہوتی تو بنی ہاشم کو بنی امیہ سے بدلا لینے کا اس سے بہتر اور کیا موقعہ ہو سکتا تھا ؟
آپ سب حضرات نے ابن زبیرکی بیعت کرنے پرسختیاں برداشت کیں لیکن امیر یزید کی بیعت نہیں توڑی . اور تو اور اس کے بعد مختار سقی نے جو سیاسی تحریک اٹھائی اس سے بھی یہ لوگ الگ رہے اور مروان بن الحكم بن أبي العاص بن أمية القرشي اور امیر المومنین عبد الملک وغیرہ کی بیعت میں داخل ہوئے۔
حضرت زین العابدین (38 ہجری تا 95 ہجری) نے امیر یزید کے زمانہ خلافت کے علاوہ چار خلفاء بنی امیہ کا زمانہ خلافت پایا - جن میں معاویہ بن یزید، مروان بن حکم ، ان کے فرزند عبدالملک بن مروان اور ان کے فرزند ولید بن عبدالملک شامل ہیں اور دیگر بنی ہاشم کی طرح وہ ان تمام خلفاءِ بنوامیہ کی بیعت میں نہ صرف داخل ہوئے بلکہ ان حضرات سے بڑی محبت خلوص اور رشتہ داری کا تعلق رکھا.
طبری جیسے شیعہ مورخ نے بھی لکھا ہے کہ مروان بن الحکم اور حضرت زین العابدین میں قدیم دوستی تھی اور رشتہ داری بھی تھی ، مروان کے دو بیٹے عبد الملک اور معاویہ بن مروان حضرت علی کے داماد تھے .
.امیر یزید کی طرح ان خلفا بنی امیہ کے بارے میں بھی ان
جھوٹے راویوں نے بہت واہی تباہی باتیں کیں ہیں ۔ مروان بن الحکم رسول الله کی وفات
کے وقت 11 برس کے تھے .چھوٹے صحابہ میں ان کا شمار ہوتا ہے اور حضرت زین العابدین
نے بھی ان سے حدیث کی روایت کی ہے . (صفحہ 257 جلد 8 البدایه )
مروان قریش کے سرداروں میں سے تھا۔ امیر معاویہ کے عہد
خلافت میں کئی بار مدینہ کے عامل رہے.حضرت جعفر (صادق ) بن محمّد الباقر اپنے والد
سے اور آپ اپنے والد زین العابدین سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسن اور حضرت حسین
حضرت مروان کے پیچھے مدینہ میں نمازیں ادا کیا کرتے تھے -(صفحہ 258 جلد 8
البدایه).
مختار سقی نے جب اپنے سیاسی مقاصد کے لئے (حسین کا انتقام لینے والو دوڑو) کا نعرہ لگایا اور زین
العابدین اور ان کے چچا محمّد بن علی (الحنیفہ) کو فریب دینا چاہا تو آپ لوگوں نے
اسے منہ بھی نہیں لگایا اور اس کی تحریک سے اپنی بیزاری کا اظہار کیا اور ایک لاکھ
کی رقم جو مختار سقی نے آپ کو بھیجی وہ لینے میں بھی تامل کیا اور امیر المومنین
عبد الملک کو خط لکھ کر اطلاع دی.(صفحہ 106 جلد 9 البدایه و النہایه ).
ان چند باتوں کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حضرت علی کی
خلافت کو ناکام بنانا اور حضرت حسین کو خروج پر آمادہ کر کے غداری کرنا اور میدان
کربلا میں شہید کرنا ان ہی سبائیوں کا کام تھا اور ثابت یہ کرنا چاہا کہ یہ امویوں
کی دین دشمنی کا نتیجہ تھا .اگر ایسا ہوتا تو امیر یزید کی وفات سے کچھ قبل یا کچھ
دیر بعد بنو ہاشم کے لئے تو میدان عمل کھل گیا تھا اگر وہ چاہتے تو دونوں چیزیں
حاصل کر سکتے تھے یعنی امویوں کی خلافت کا خاتمہ اور اہل بیعت کی خلافت کا قیام
،اگر وہ خود کمزور تھے تو ابن زبیر کے سر پر ہاتھ رکھتے اور اس کے ہاتھوں امویوں
کے استیصال کے بعد کیسا شاندار موقعہ تھا کہ تھکے ہوئے دشمن کو تازہ دم فوجوں سے
شکست دیتے جو ہاشمیوں کے لئے بہت آسان کام تھا .
مگر ہاشمی بزرگوں نے یہ الٹی بات کیوں کی کہ ابن زبیر کا ساتھ نہ دیا اور مختار سقی پر تبرا کیا .اور مروان اور عبد الملک کے بیعت میں داخل ہوے جس کے نتیجے میں ایک صدی تک تمام عالم اسلام امویوں کے زیر نگیں چلا گیا اور اس کا دائره روز بروز وسیح تر ہوتا گیا .
مگر ہاشمی بزرگوں نے یہ الٹی بات کیوں کی کہ ابن زبیر کا ساتھ نہ دیا اور مختار سقی پر تبرا کیا .اور مروان اور عبد الملک کے بیعت میں داخل ہوے جس کے نتیجے میں ایک صدی تک تمام عالم اسلام امویوں کے زیر نگیں چلا گیا اور اس کا دائره روز بروز وسیح تر ہوتا گیا .
حضرت زین العابدین اور ان کے بزرگوں اور اہل خاندان کا
موقف اس بات سے روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتا ہے کہ ہاشمیوں اور امویوں میں کوئی
خاندانی جنگ نہیں تھی اور نہ کوئی سیاسی چپقلش یا نسلی کشمکش .اور نہ کوئی دینی
اختلاف تھا وہ سب ایک ہی دین کے ماننے والے تھے اور ان سب کا ایک ہی نسب العین تھا
. اور خانہ جنگی میں مبتلا ہونے یا مبتلا کیے جانے کے باوجود بھی باہمی محبت ،
تعلقات ، اور رشتہ داری اور خاندانی تعلق استوار رکھا تھا .
اموی بادشاہت - 661 تا 750 (41 ہجری تا 133 ہجری)
12- یزید بن ولید، (126 ہجری) 744
13- ابراہیم بن ولید، (126 ہجری) 744
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں