مسلمانوں کی ھزار سال سے زیادہ کی کوششیں بھی دارالحرب ھندوستان کو
دارالاسلام بنانے میں کیوں کامیاب نہ ھوسکیں؟
ایک غیر مسلم ھندوستانی کا نقطہ نظر ۔ ایک دلچسپ جائزہ ۔
بقول مصنف، نبی پاک ﷺ کی وفات کے صرف سو سال کے اندر ھی اسلام آندھی کی طرح جہاد کے ذریعے عرب، شام ایران شمالی افریقہ، حتیٰ کہ یورپ تک پہنچا دیا گیا۔ لیکن توقع کے برعکس ھندوستان جیسا ملک جو ذات پات ،اندرونی اختلافات اور مذھب کے روائتی معنوں سے لاتعلق تھا، وہاں اسلام کی تلوار کُند ثابت ہوئی۔
مسلمان حملہ آوروں کے ساتھ مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر آمد ، مسلمان مبلغ، اولیا اللہ، حکمرانوں اور عام مسلمانوں کی زیادہ شادیاں اور زیادہ بچوں کی پیدائش بھی، مسلمانوں کی تعداد کو ہندووں سے نہ بڑھا سکی۔
مصنف نے بہت تفصیل سے مختلف وجوہات لکھی ہیں، یہاں صرف چند کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ جس میں شاید ہمارے لئے باعثِ غور و فکر ہو ۔ بقول البیرونی،
ا- ھندو ،آپس میں مذھبی معاملات میں زیادہ سے زیادہ لفظی لڑائی کرتے ہیں، کبھی اپنی جان مال اور روح کو مذھبی تنازعات کی نظر نہیں کرتے، وہ تمام غیرملکیوں کو ملیچھ ( ناپاک ، چھونے کے قابل نہیں ) سمجھتے ہیں اور ان سے کسی بھی قسم کا تعلق پسند نہیں کرتے، بقول مصنف ھندووں کا عدم تشدد کا کلچر، مذھب کی جبری تبدیلی سے زیادہ کامیاب ثابت ھوا۔
ب ۔ عیسائیت کا فروغ : ھندوستان میں انگریزوں اور پرتگالی لوگوں کی آمد ، ساحلی علاقوں پر ، انگریزوں ، ولندیزیوں اور پرتگالیوں کا قبضہ جن میں زیادہ تر مشرقی ساحل کے ساتھ تھے ۔ عیسائی مشنریوں کا نچلی ذات کے لوگوں پراثر رسوخ ۔ اینگلو انڈین کلچر کا فروغ ۔ جن کے لباس و رسومات بعینہی وہی رہنے دئیے جو صدیوں سے اُن میں مروّج تھے سوائے کلیسائی عبادت کے ۔ عیسائی مذہب اور کلچر کا آپس میں کوئی تصادم نہیں تھا ، اِس کے برعکس ، ہندو اور اسلامی کلچر میں مشرق و مغرب کا فرق تھا۔ پردہ ہندو عورتوں میں زیادہ سختی سے مروّج تھا جو گھونگھٹ کی صورت میں تھا ۔
ج - مسلمانوں کا باھمی پرتشدد رویہ(،یہ وجہ ھے اس پوسٹ کو شیر کرنے کی ) بقول مصنف، جارحیت اور تشددمذہب اسلام کی ایسی قدرتی خصلت ھے، جو وقت کے ساتھ اِس کے ماننے والوں میں بڑھتی جاتی ہے اور جس کا رخ غیر مسلموں سے زیادہ اپنے مسلمان بھائیوں کی طرف بھی رھا۔
( پاکستان کا جانی نقصان، ھندو کافروں سے متعدد جنگوں میں اتنا نہیں ھوا جس قدر ھمارے مسلمان طالبان بھائیوں کے ھاتھوں ھوا اور ابھی جاری ھے )۔
DR Afzal ch.
ایک غیر مسلم ھندوستانی کا نقطہ نظر ۔ ایک دلچسپ جائزہ ۔
بقول مصنف، نبی پاک ﷺ کی وفات کے صرف سو سال کے اندر ھی اسلام آندھی کی طرح جہاد کے ذریعے عرب، شام ایران شمالی افریقہ، حتیٰ کہ یورپ تک پہنچا دیا گیا۔ لیکن توقع کے برعکس ھندوستان جیسا ملک جو ذات پات ،اندرونی اختلافات اور مذھب کے روائتی معنوں سے لاتعلق تھا، وہاں اسلام کی تلوار کُند ثابت ہوئی۔
مسلمان حملہ آوروں کے ساتھ مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر آمد ، مسلمان مبلغ، اولیا اللہ، حکمرانوں اور عام مسلمانوں کی زیادہ شادیاں اور زیادہ بچوں کی پیدائش بھی، مسلمانوں کی تعداد کو ہندووں سے نہ بڑھا سکی۔
مصنف نے بہت تفصیل سے مختلف وجوہات لکھی ہیں، یہاں صرف چند کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ جس میں شاید ہمارے لئے باعثِ غور و فکر ہو ۔ بقول البیرونی،
ا- ھندو ،آپس میں مذھبی معاملات میں زیادہ سے زیادہ لفظی لڑائی کرتے ہیں، کبھی اپنی جان مال اور روح کو مذھبی تنازعات کی نظر نہیں کرتے، وہ تمام غیرملکیوں کو ملیچھ ( ناپاک ، چھونے کے قابل نہیں ) سمجھتے ہیں اور ان سے کسی بھی قسم کا تعلق پسند نہیں کرتے، بقول مصنف ھندووں کا عدم تشدد کا کلچر، مذھب کی جبری تبدیلی سے زیادہ کامیاب ثابت ھوا۔
ب ۔ عیسائیت کا فروغ : ھندوستان میں انگریزوں اور پرتگالی لوگوں کی آمد ، ساحلی علاقوں پر ، انگریزوں ، ولندیزیوں اور پرتگالیوں کا قبضہ جن میں زیادہ تر مشرقی ساحل کے ساتھ تھے ۔ عیسائی مشنریوں کا نچلی ذات کے لوگوں پراثر رسوخ ۔ اینگلو انڈین کلچر کا فروغ ۔ جن کے لباس و رسومات بعینہی وہی رہنے دئیے جو صدیوں سے اُن میں مروّج تھے سوائے کلیسائی عبادت کے ۔ عیسائی مذہب اور کلچر کا آپس میں کوئی تصادم نہیں تھا ، اِس کے برعکس ، ہندو اور اسلامی کلچر میں مشرق و مغرب کا فرق تھا۔ پردہ ہندو عورتوں میں زیادہ سختی سے مروّج تھا جو گھونگھٹ کی صورت میں تھا ۔
ج - مسلمانوں کا باھمی پرتشدد رویہ(،یہ وجہ ھے اس پوسٹ کو شیر کرنے کی ) بقول مصنف، جارحیت اور تشددمذہب اسلام کی ایسی قدرتی خصلت ھے، جو وقت کے ساتھ اِس کے ماننے والوں میں بڑھتی جاتی ہے اور جس کا رخ غیر مسلموں سے زیادہ اپنے مسلمان بھائیوں کی طرف بھی رھا۔
"فرناؤ نیونز" (1535-1537پرتگالی ، سیاح اور گھوڑوں کاتاجر ) لکھتا ہے ،
" مورز (مسلمانوں ) کو آپس میں کم ھی اعتماد ہوتا ھے، وہ ایک دوسرے کو پاگل کتے کی طرح کاٹتے ہیں، اور ایک دوسرے کو برباد کر کے خوش ہوتے ہیں ۔ مغل شہزادے آپس میں بھی اور والدین کے ساتھ بغاوت کرتے رھے (ان لڑائیوں میں لاتعداد مسلمانوں کا خون بہا)،شاہجہان ،اورنگزیب، اپنے رشتہ داروں اور بھائیوں کا خون بہا کر بادشاہ بنے اور اس دوران بے شمار مسلمانوں کی زندگی گئی، شاہ عالم اعظم تارا کے درمیان صرف ایک جنگ میں ایک لاکھ اور اسی ھزار صرف گھڑ سوار مرے، پیدل فوج کا نقصان علاوہ، باھمی لڑائیوں میں، انہوں نے سکھوں، جاٹوں، اور مراٹھوں کو بھی شامل کرلیا جس دوران لاتعداد مسلمان خون بہا، نادر شاہ اوراحمد شاہ ابدالی (1722 تا 1771 ) نے بھی اپنے ھم مذھبوں پر کوئی رحم نہیں کیا ،
اِس اسلامی قتل و غارت میں افغانیوں نے بھی حصہ ڈالا ، جن کی حکومت گو دریائے سندھ کے مغربی کنارے تک تھی ، مگر ہندوستان میں موجود دولت اُنہیں جہاد پر اُکساتی ۔
" مورز (مسلمانوں ) کو آپس میں کم ھی اعتماد ہوتا ھے، وہ ایک دوسرے کو پاگل کتے کی طرح کاٹتے ہیں، اور ایک دوسرے کو برباد کر کے خوش ہوتے ہیں ۔ مغل شہزادے آپس میں بھی اور والدین کے ساتھ بغاوت کرتے رھے (ان لڑائیوں میں لاتعداد مسلمانوں کا خون بہا)،شاہجہان ،اورنگزیب، اپنے رشتہ داروں اور بھائیوں کا خون بہا کر بادشاہ بنے اور اس دوران بے شمار مسلمانوں کی زندگی گئی، شاہ عالم اعظم تارا کے درمیان صرف ایک جنگ میں ایک لاکھ اور اسی ھزار صرف گھڑ سوار مرے، پیدل فوج کا نقصان علاوہ، باھمی لڑائیوں میں، انہوں نے سکھوں، جاٹوں، اور مراٹھوں کو بھی شامل کرلیا جس دوران لاتعداد مسلمان خون بہا، نادر شاہ اوراحمد شاہ ابدالی (1722 تا 1771 ) نے بھی اپنے ھم مذھبوں پر کوئی رحم نہیں کیا ،
اِس اسلامی قتل و غارت میں افغانیوں نے بھی حصہ ڈالا ، جن کی حکومت گو دریائے سندھ کے مغربی کنارے تک تھی ، مگر ہندوستان میں موجود دولت اُنہیں جہاد پر اُکساتی ۔
W. Francklinنے شمالی ھندوستان
کا 1793اور 1796کے دوران احوال لکھا ھے، بقول اس کے نادر شاہ کے حملے کے
بعد دھلی کی آبادی بہت کم ھوچکی ھے۔احمد شاہ ابدالی کے حملوں سے پنجاب کے
شہر ویران ہوگئے۔
( پاکستان کا جانی نقصان، ھندو کافروں سے متعدد جنگوں میں اتنا نہیں ھوا جس قدر ھمارے مسلمان طالبان بھائیوں کے ھاتھوں ھوا اور ابھی جاری ھے )۔
DR Afzal ch.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں