Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 28 دسمبر، 2020

قائدِ اعظم کی حیات ایک نظر میں

  قائدِ اعظم کی حیات ایک نظر میں

پردادا: میگھ جی
دادا: پونجا بھائی
والد: جناح پونجا
والدہ: مٹھی/شیریں بائی
پیدائش: 25 دسمبر 1876 اتوار
جائے پیدائش: کراچی (کھارادر)
تعداد بہن بھائی: 4بہنیں +2بھائی(محمد علی سب سے بڑے)
عقیقہ: پانیلی درگاہ پہ 5 ماہ کی عمر میں کیا
میٹرک: 1892سندھ مدرسۃ لاسلام(16سال کی عمر میں)
بیرسٹر: 1896لندن(20 سال کی عمر میں)
پاسپورٹ کا اجراء: 4 جولائی1936
پاسپورٹ نمبر: 400878
 ازدواجی زندگی
پارسی مذہب کے امیر ماں باپ کی بیٹی سے ہوئی
مریم کی پیدائش: 20 فروری 1900
قبولِ اسلام: 18 اپریل 1918 جمعرات
(رتی قبولِ اسلام کر کے خاندان اور ساری جائیداد جناح کی خاطر در کر دی)
شادی: 19 اپریل 1918 جمعہ
(رتی مریم سے مریم جناح ہوئیں)
نکاح خوان: مولانا نظام احمد نقشبندی
نکاح نامہ: فارسی زبان میں لکھا
نکاح رجسٹرار: مولانا حسن نجفی
مقامِ نکاح: ساؤتھ کورٹ ماؤنٹ بمبئ
حق مہر: 1000 روپے
گفٹ: 125000 روپے
گواہ مریم: حاجی شیخ ابو القاسم نجفی
گواہ جناح: راجہ محمد علی خان
انگوٹھی برائے مریم جناح: راجہ محمد علی خان نے ہیرے کی انگوٹھی تحفے میں دی
گھریلو ملازم جناح: وسن
بیٹی کی پیدائش: 14 اگست 1919
بیٹی کا نام: دینا جناح
وفات مریم جناح: 20 فروری 1929 (بوجہ کینسر)
تدفین: 22 فروری 1929
قبرستان: آرام باغ بمبئ
کانگرس میں شمولیت: 1906
مسلم لیگ میں شمولیت: 1913
کانگرس سے علیحدگی: 1920
مسلم لیگ کا نعرہ:
"مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ"
1938 سے محمد علی جناح بیمار رہنے لگے
سب سے پہلے مولانا مظہرالدین نے جناح کو قائدِ اعظم کا لقب دیا
1940 کو قراردادِ پاکستان منظور ہوئی اس میں قائدِ اعظم نے 1 گھنٹہ 40 منٹ خطاب کیا
لاکھوں قربانیوں کے بعد قائدِاعظم اور دیگر رہنماؤں کی ان تھک محنت کے نتیجے میں 27 رمضان بمطابق 14 اگست 1947 براز جمعہ پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا
جھنڈا سلائی: امیر الدین قدوائی
اسبلی میں منظوری: 11 اگست 1947
پہلی پرچم کشائی:14-13 اگست کی درمیانی شب 12 بجے
گورنر جنرل: 15 اگست 1947
حلف برداری: چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ
قرانِ مجید انگلش ترجمہ زیرِ مطالعہ رکھتے سورۃ الفیل کثرت سے مطالعہ کرتے
بیماری کی وجوہات:
1-وقت پہ کھانا نہ کھانا
2-کثرتِ سیگریٹ نوشی
3-جلسے جلوس کی کثرت
ڈاکٹرز:
1-کرنل الٰہی بخش
2-ڈاکٹر ریاض علی شاہ
3-ڈاکٹر ایس-ایس عالم
بیماری کی تشخیص: پیلوریسی
قد: 5 فٹ 10.5 انچ
وزن: صرف 70 پاؤنڈ رِہ گیا تھا
حلوہ پوری نہایت پسند تھی
سیگریٹ: سُگار+ کارواں
قائد اعظم کے آخری الفاظ:
آئین.... میں اسے جلدی.... مکمل کروں گا.... مہاجرین.... انہیں ممکن.... امداد دیجئے.... پالستان....
(پھر فاطمہ جناح کو اشارہ کر کے اپنے پاس بلایا اور کہا)
فاطی.... خدا حافظ.... لاالٰہ الاللّٰہ محمدالرسولاللّٰہ
وفات: 11 ستمبر 1948 ہفتہ رات 10:25 کراچی
جنازہ: 12 ستمبر 1948 اتوار دوپہر 2:30
جنازہ و تدفین: پرانی نمائش گاہ
قبر کی کھدائی: یوسف ہارون اور ساتھی
نمازِ جنازہ: مولانا شبیر احمد عثمانی
کل عمر: 71 سال 8 ماہ 4 دن
پاکستان بننے کے بعد 1 سال 27 دن زندہ رہے
جنازے میں شرکاء: 5 لاکھ سے زائد.

ہو اگر خود نگرو خود گرو خود گیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے

بشکریہ :۔رفیق وسان ۔میرپورخاص 

٭٭٭٭٭٭٭٭

 حوالہ کتاب:
رہبرِ ملت: قائد اعظم محمد علی جناح
مصنف:
پروفیسر ڈاکٹر ایم اے صوفی

٭٭٭٭٭٭٭٭

٭۔ پاکستان کے بنیادی نعرے ۔

٭- قائد اعظم کی پیدائش 25 یا 26 دسمبر


قائد اعظم کی تاریخ پیدائش 25 یا 26 دسمبر

   وٹس ایپ پر وصول ہونے والی ایک پکچر  پوسٹ ۔

یہ 1953 میں شائع ہنے والے کسی گورنمنٹ صفحے کا عکس ہے ۔ جس کے مطابق قائد اعظم کی تاریخِ پیدائش 26 دسمبر لکھی گئی ہے ۔

گویا 26 دسمبر کو 1293 ھجری    10 ذی الحج،  کا مبارک ترین دن تھا۔

مہاجر زادہ  نے کمنٹ لکھا :

پہلے دو چھٹیاں مملکتِ خدادا کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوا کرتی تھیں ۔
٭-اُس وقت پاکستان پر  گورنر جنرل غلام محمد(چارٹرڈ اکاونٹنٹ۔ انڈین سول سروس )  کی حکومت(1951 تا 1953) تھی جو علامہ اقبال کی بیٹی کے سسر اور یوسف صلاح الدین کے دادا تھے ۔

٭- وزیر اعظم کی حیثیت  سے ۔خواجہ ناظم الدین   کی حکومت(1951 تا 1953) تھی۔

٭٭٭٭٭

پیر، 21 دسمبر، 2020

یونیورسٹیوں کی درجہ بندی ۔ دھوکا اور فراڈ

اچھی شہرت‘کی حامل، یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کرنے والے ایسے نصف درجن سے زائد عالمی ادارے موجود ہیں جو سالانہ ایک فہرست جاری کرتے ہیں۔

اس فہرست میں بتایا جاتا ہے کہ دنیا کی کون سی یونیورسٹی یا یونیورسٹی کا ڈیپارٹمنٹ نہ صرف اپنے ملک کی

یونیورسٹیوں کے مقابلے پر بلکہ عالمی سطح پر بہتر ہے۔ آپ اس زہر کو امرت سمجھ کر پینا چاہتے ہیں تو نفع نقصان کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے۔ یہ عیار لوگ البتہ سادہ لوح لوگوں کو خوب بیوقوف بناتے ہیں۔ ان کی بنائی ہوئی فہرستوں بارے یہی کہا جا سکتا ہے کہ عام طور پر یہ انتہائی متنازعہ ہوتی ہیں۔ عمومی طور پر یہ فہرستیں حماقت کا نمونہ اور جھوٹے اعداد و شمار کا پلندہ ہوتی ہیں۔

ذرا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیے: شنگھائی اکیڈیمک رینکنگ آف ورلڈ یونیورسٹیز ہر سال دنیا بھر کی ہزاروں یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کرتی ہے۔ 2017ء میں اس ادارے کی ویب سائٹ پر قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ مکینیکل انجینئرنگ کو 76 تا 100 کے خانے میں رکھا گیا۔ اس درجہ بندی میں یہ ڈیپارٹمنٹ ٹوکیو یونیورسٹی سے تھوڑا نیچے مگر مانچسٹر یونیورسٹی سے اوپر تھا۔
اس کے بعد تو کمال ہی ہو گیا۔
ہر سال قائد اعظم یونیورسٹی کی درجہ بندی بہتر ہوتی گئی تا آنکہ سال 2020ء میں یہ یونیورسٹی 51 تا 75 والے زمرے میں آ گئی۔ اس درجہ بندی کے لحاظ سے اب قائد اعظم یونیورسٹی میک گل یونیورسٹی سے تھوڑا نیچے مگر آکسفورڈ یونیورسٹی سے بہتر مقام پر فائز تھی۔ قارئین چاہئیں تو گوگل کی مدد سے ایسی دیگر حیران کن نتائج پر مبنی معلومات تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔
آکسفورڈ سے بھی بہتر؟ میں نے زندگی کا بیشتر حصہ قائد اعظم یونیورسٹی میں پڑھاتے ہوئے گزارا ہے۔ مجھے تو خوشی سے ناچنا چاہئے تھا مگر افسوس اس بات کاہے کہ قائد اعظم یونیورسٹی میں مکینیکل انجینئرنگ کا شعبہ ہی نہیں ہے۔
مکینیکل انجینئرنگ ایک طرف رہی، قائد اعظم یونیورسٹی میں سرے سے انجینئرنگ پڑھائی ہی نہیں جاتی نہ ہی انجینئرنگ کی درس و تدریس کا کوئی منصوبہ زیر ِغور ہے۔
ایک آدھ بار اس طرح کی غلطی تو سمجھ میں آ سکتی ہے۔ اسے کسی کلرک کی غلطی سمجھ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے مگر ایسا کون سا سافٹ ویئر تھا جو سالہا سال قائد اعظم کے اُس شعبہ مکینیکل انجینئرنگ کی درجہ بندی کرتا رہا جس کا کوئی وجود ہی نہیں؟

آپ کو ہنسی تو آ رہی ہو گی مگر اس سے بھی بڑا لطیفہ ابھی باقی ہے:۔

 ٹائمز ہائر ایجوکیشن نے عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کو پاکستان کی سب سے بہترین یونیورسٹی قرار دے ڈالا۔
یہ یونیورسٹی نہ تو تحقیق کے لئے مشہور ہے نہ درس و تدریس کے لئے۔ اگر کسی کام میں عبدالولی خان یونیورسٹی مردان نمبر ون ہے تو وہ ہے پرُ تشدد عدم برداشت۔ اپریل 2017ء میں عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے 23 سالہ طالب علم مشال خان کو توہین مذہب کے الزام میں لاٹھیوں، اینٹوں اور آخر میں گولیوں کی بوچھاڑ کر کے ہلاک کر دیا گیا۔ ننگ دھڑنگ مشال خان کو پورے کیمپس میں گھسیٹا گیا۔ تماشہ دیکھنے والے سینکڑوں طالب علم تالیاں پیٹ رہے تھے، اس واقعہ کی سمارٹ فونز پر ویڈیو بنا رہے تھے اور بعد میں یہ ویڈیوز فیس بک پر پوسٹ کی گئیں۔
ٹھیک ایک ہفتے بعد کیو ایس کی فہرست سامنے آ گئی۔ اس فہرست میں اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) کو پاکستان کی سب سے اچھی یونیورسٹی قرار دے دیا گیا اور عبدالولی خان یونیورسٹی مردان پس منظر میں چلی گئی۔
ایسی من گھڑت درجے بندیوں کی عجیب و غریب داستانیں جا بجا ملیں گی۔ درجہ بندی کرنے والے یہ تجارتی ادارے اپنی فہرستوں کی تیاری کے لئے معائنہ کرنے کے لئے متعلقہ یونیورسٹیوں میں اپنے کوئی انسپکٹر نہیں بھیجتے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کو فارم بھیج دئیے جاتے ہیں۔ انتظامیہ جو جی میں آئے لکھ کر فارم واپس بھیج دیتے ہیں۔ درجہ بندی کے لئے ایسے معیار قائم کئے جاتے ہیں جس سے گاہک خوش ہو جائے۔ یوں سب فائدے میں رہتے ہیں۔ ماسوائے طلبہ کے۔
رینکنگ کرنے والے دنیا بھر کے اداروں بارے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ان کے طریقہ کار میں تسلسل نہیں ہے، درجہ بندی کا معیار بدلتا رہتا ہے جبکہ اہم نوعیت کی معلومات کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ 

چالباز پروفیسر حضرات بھی اس کھیل کو سمجھتے ہیں اور انہیں پتہ ہے کہ یہ کھیل کیسے کھیلنا ہے۔ یوں ان کی ترقی جلدی جلدی ہونے لگتی ہے اور ترقی کا مطلب ہے مالی فائدہ۔ ایسے ممالک جہاں اکیڈیمک اخلاقیات کا خیال رکھا جاتا ہے۔ وہاں تو ایسی درجے بندیوں سے کوئی خاص فائدہ نہیں اٹھایا جاتا ۔

مگر پاکستان میں جہاں 2002ء کے بعد سے اکیڈیمک اخلاقیات پستی میں گرتی جا رہی ہیں، یونیورسٹی رینکنگ کے نام پر خوب فائدہ اٹھایا گیا ہے۔
ذرا ملاحظہ کیجئے:

 تین ہفتے پہلے ملک بھر کے اخبارات میں یہ اچھی خبر نمایاں کی گئی کہ دنیا بھر کے 159,683 سائنس دانوں میں سے 81 پاکستانی سائنس دانوں کو ان کی پبلی کیشنز اور حوالہ جات کی وجہ سے منتخب کیا گیا ہے۔ خبروں کے مطابق سٹینفورڈ یونیورسٹی نے ان 81 شخصیات کو دنیا کے ٹاپ 2 فیصد سائنس دانوں میں شامل کیا ہے۔
یہ سراسر جھوٹ ہے۔ سٹینفورڈ یونیورسٹی نے ایسی کسی فہرست کی توثیق نہیں کی۔ اس فہرست کے چار میں سے ایک مدوّن، جان پی اے آئیونیڈس، کا تعلق سٹینفورڈ یونیورسٹی سے ہے۔ وہ میڈیکل سٹیٹسٹکس کے پروفیسر ہیں جبکہ باقی تین کا تعلق نجی شعبے سے ہے۔ ان کی تیار کی گئی فہرست اس بنیاد پر بنائی گئی ہے کہ ایک ڈیٹا بیس میں موجود شائع شدہ مقالوں کی تعداد کو کمپیوٹر میں ڈال کر فہرست تیار کر دی جائے۔
یہ فہرست پاکستان کی حد تک تو بے معنی ہے۔ کسی شائع شدہ مقالے کا تحقیقی معیار یا سائنسی معیار کیا تھا، اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ بغیر تحقیق کئے اور بغیر سائنس کی شُد بد کے، سائنسی مقالے لکھنانہ صرف پاکستان بلکہ پاکستان سے باہر بھی دھوکے باز پروفیسروں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
اشاعت کے بعد دوسرا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ مقالوں کو شائع کس طرح کرانا ہے۔ چالاک پروفیسر حضرات کے پاس اس کام کے لئے بھی درجنوں گُر موجود ہیں۔
تیسرا اور ذرا مشکل مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ ان مقالوں کو دیگر محقیقین اپنے مقالوں میں بطور حوالہ استعمال کریں تا کہ حوالہ جات کی مد میں بھی کوئی کمی نہ رہ جائے۔ اس مرحلے میں دھوکے باز پروفیسر اپنے دھوکے باز دوستوں کا سہارا لیتے ہیں۔ انڈیا، چین، جنوبی افریقہ اور بعض دیگر ممالک میں ایسے دوست وافر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔
تعلقات پر مبنی اس نیٹ ورک کو حوالہ جات مافیا (Citation Cartel) کہا جاتا ہے۔ یہ مافیا ہر سال بے شمار مقالے شائع کرتا ہے مگر ان کی شائع کی ہوئی مطبوعات پر مبنی بے معنی ڈھیر اصل سائنس دانوں کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا۔

پاکستان میں البتہ اس کام سے کئی فائدے اٹھائے جاتے ہیں۔ آپ چیئرمین سے ہوتے ہوئے ڈین، وائس چانسلر یا ایک با اثر کل پرزہ بن جاتے ہیں۔ یہ لوگ پھر کسی حقیقی اکیڈیمک کا کام بھی سامنے نہیں آنے دیتے تاکہ ان کا اپنا پول نہ کھل جائے۔
’سٹینفورڈ فہرست‘ میں جگہ پانے والے چند سائنس دانوں کو تو میں جانتا ہوں۔ ان سائنس دانوں کی حالت یہ ہے کہ سٹینفورڈ یونیورسٹی جیسی کسی ڈھنگ کی یونیورسٹی میں بطور انڈر گریجویٹ داخلے کے لئے اس یونیورسٹی کا داخلہ ٹیسٹ بھی پاس نہ کر سکیں۔ باقیوں بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ہو سکتا ہے وہ واقعی اچھے سائنس دان ہوں۔ سپیشلائزیشن کے اس دور میں ایک سائنس دان یہ کیسے طے کرے کہ مختلف شعبوں میں مہارت رکھنے والے دیگر سائنس دانوں کے کام کا معیار کیا ہے؟
پاکستان میں حقیقی پروفیسروں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے اس لئے یہ کام اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ یونیورسٹیوں کے جو موجودہ مہتمم ہیں، ان سے تو کوئی توقع نہ رکھی جائے کیونکہ ان کا تو دھندا ہی فراڈ کی مدد سے چل رہا ہے۔
ہزار میں سے سو حقیقی پروفیسر تلاش کرنا بھی مشکل ہو گا۔ پاکستان میں یونیورسٹی کا نظام شائد اس مرحلے پر پہنچ چکا ہے جہاں بہتری کی گنجائش باقی نہیں رہ چکی۔

 فرض کیجئے آپ اس قدر مایوسی کا شکار نہیں ہیں۔ ایسے میں اچھے بُرے کی تمیز کیسے کی جائے؟
آسان سا حل ہے: ہر یونیورسٹی اور ہائر ایجوکشن کمیشن یہ شرط رکھ دے کہ،  جو اکیڈیمک بھی سائنسی مقالے پیش کرنے کا دعویٰ کرے، اُسے کہا جائے کہ وہ ماہرین کے سامنے اپنا مقالہ پیش کرے۔ یہ ماہرین اس سے سوال جواب کریں۔ اچھی ساکھ رکھنے والے غیر ملکی ماہرین کو بھی شامل کیا جائے۔ ٹیکنالوجی (زوم، سکائپ، ایبیکس وغیرہ) کے ہوتے ہوئے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس سارے عمل کی ویڈیو بھی بنائی جائے تا کہ آئندہ بھی لوگ اس عمل کو دیکھ سکیں۔ مقالہ نگار سے پوچھا جائے کہ متعلقہ مقالے نے ہمارے علم میں کیا اضافہ کیا ہے؟۔
یہ عمل بھی بہت جامع عمل نہیں ہے۔ شفافیت ہر مرض کا علاج نہیں۔ 

پھر بھی اس عمل کے نتیجے میں سٹینفورڈ کی تیار کردہ فہرست میں 80 سے100 فیصد تک کمی آ سکتی ہے۔

 خود نمائی اور سرکاری پالیسیوں نے، جن کی وجہ سے بد دیانتی کا کلچر فروغ پاتا ہے، پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ جب تک سخت اقدامات نہیں کئے جاتے، اس زوال پذیری کو روکنا ممکن نہیں۔ ہمیں اب اس کام کا آغاز کر دینا چاہئے۔

(تحریر: ڈاکٹر امیر علی ہود بھائی)
 دسمبر 14۔2020 

٭٭٭٭٭٭

 (نوٹ: یہ تحریر محض علمی مقاصد کیلئے شیئر کی گئی ہے۔)



جمعرات، 17 دسمبر، 2020

اصول پرست کامیاب - بے اصول ناکام


اللہ کے کلمہ کُن سے کتاب اللہ (کائینات) میں تخلیق ہو کر بننے والی ایک آیت ، جس کی  تصریف  نہ معلوم کتنی ہوں گی ، شائد ارب یا اِس سے بھی زیادہ ۔ 
لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ تصویر میں نظر آنے والی یہ مزدور  چیونٹیاں ہو بہو ایک دوسرے کی اصل ہیں ؟۔اِسی طرح اِن کے خاندان  میں ملکہ ، بادشاہ ، شہزادے ، شہزادیاں ، خادمائیں ،  حاکم ، اور محافظ و لڑاکا  سپاہی سات صفات  کی چیونٹیوں پر مشتمل گرو ہ ہیں ۔

یہ بالکل اپنے فرائض ایسے انجام دیتے ہیں جیسا کہ اِن کے خالق ، اللہ نے اِنہیں علم دیا ۔ یہ اَن پڑھ نہیں ۔اِن کی جبلّت اِن کو ارد گرد کے حالات کے مطابق اِنہیں ، اِن کے حواس کے مطابق  علم سے روشناس کرتی ہے ۔اِن میں بھی وہی خمسہ حواس ہیں جو انسانوں میں پائے جاتے ہیں ۔ 

اب میں وہ بات بتانا چاھتا ہوں جو اِس پوسٹ کے بھیجنے والے نے لکھی ہے ۔

A drop of water on a tree leaf gathered by 12 ants to drink
 ... the unusual thing in the picture is that the ants have divided themselves into four groups.  This is to maintain the balance of the water drop from tilting and then falling to the ground.
 It is the knowledge of ants to cooperate and divide the share of water equally among them and give everyone his right!
  

  یقیناً ، درخت کے پتے پر گرنے یا محقق کی طرف سے ڈالے جانے والے اِس قطرے کے بارے میں اطلاع، مزدور چیونٹی نے سونگھ کر اپنی آواز میں نشر کی ہو گی اور اُنہیں مکمل معلومات دی ہوں گی ۔ جس کی بنیاد پر 11 اور چیونٹیاں پودے یا درخت کا تنا چڑھ کر خطیب کے پاس پہنچی ہوں گی ، نہ صرف خطیب بلکہ باقی 11 چیونٹیوں نے، اپنے اِن بلٹ اصولِ  تدبّر (فکر ، عقل اور ذکر )     کو  اپنایا اور کسی ایک نے بھی اصولِ توازن  کے  میزان میں خسارا نہیں ڈالا ۔

کیا آپ کو یاد ہے ، کہ چیونٹیوں نے اپنے ننھے سے دماغ میں موجود اللہ کی اِس پر طوعاً عمل کیا ۔ 

[55:9] وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ

 

٭٭٭٭٭٭

اب میں آتا ہوں ایک اور  پوسٹ پر جو ، وٹس ایپ پر گردش کر رہی ہے ۔آپ بھی پڑھیئے 

 اُس نے کرسچن ہیگن کی ایجاد کردہ گھڑی کو دیکھا ۔ نماز کا وقت قریب تھا   وہ اٹھا اور ایڈی بوئر کی ایجاد کردہ جیکٹ پہنی ، ڈیملر اور میبچ کا ایجاد کردہ موٹر سائیکل نکالا اور مسجد کی جانب روانہ ہو گیا ۔ 

وہاں پہنچ کر ہالسے ٹیلر کے ایجاد کردہ واٹر کولر سے فلٹر شدہ صاف پانی پیا اور کلارکس والوں کے جوتے اتار کر وضو کرنے لگا ۔ بینجامن موغن کے ایجاد کردہ گیزر کی وجہ سے گرم پانی آ رہا تھا اور اسے کوئی مشکل پیش نہیں آ رہی تھی ۔ اس کے بعد وہ مسجد کے اندرونی گیٹ کی طرف گیا اور رابرٹ ہاومن کا ایجاد کردہ شیشے کا دروازہ کھولا ۔

 ایڈیسن کا ایجاد کردہ بلب آن کیا ۔ بینجامن فریکلن کی ایجاد کردہ بجلی کی مدد سے بلب روشن ہو گیا اور مسجد میں ایسے روشنی ہو گئی جیسے سورج کی وجہ سے باہر تھی ۔ مسجد میں جا بجا فلپ ڈائل کے ایجاد کردہ پنکھے لگے تھے مگر سردی کی وجہ سے انھیں آن نہیں کیا گیا ۔ سامنے ولس کیریر کا ایجاد کردہ اے سی بھی لگا ہوا تھا مگر اس نے چارلس بیکر کا ایجاد کردہ ہیٹر آن کیا اور جیمز ویسٹ کے ایجاد کردہ مائیکروفون پہ اذان دینے لگا ۔ ایڈورڈ کیلگ اور چیسٹر رائس کے ایجاد کردہ لاوڈ سپیکر کی وجہ سے آواز دور دور تک سب مسلمانوں تک پہنچ رہی تھی۔ اس نے میڈ اِن چائنہ جائے نماز پہ نماز پڑھی اور دعا کےلیے ہاتھ اٹھائے:۔

"یا اللہ کافروں کو نیست و نابود کر اور مسلمانوں کو ان پہ غلبہ عطا فرما  "

مہاجرزادہ نے کمنٹ لکھا :۔

مگر اللہ نے تو یہ اصول بنا دیا ہے :۔

وَلاَ تَهِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ [3:139]

اب اِن کو کیسے سمجھایا جائے؟ کہ کا مطلب وہ نہیں جو مُلّا نے برصغیر کے نوجوانوں یا قبر میں پیر لٹکائے گرگ ظالموں کے ذہنوں میں ٹھونس دیا ہے ۔   

 ٭٭٭٭٭٭

 


بدھ، 9 دسمبر، 2020

یادیں - شاہین کرکٹ کلب جونیئر میرپورخاص

ستمبر میں ذاکر کا فون آیا ، نعیم بھائی  نومبر  کے آخری ہفتے میں بیٹے کی شادی ہے۔ سارے پرانے دوست آئیں گے ۔  ضرور آنا ۔
وعدہ ہو گیا ، راجہ امجد حسین سے بات ہوئی اُس نے بھی ساتھ جانے کی حامی بھری 
بڑھیا نے پوچھا ،" کہاں جارہے ہو ؟"
نومبر میں ذاکر کے بیٹے کی شادی ہے ، وہاں میرا اور امجد کا جانے کا پروگرام ہے ۔ " میں نے جواب دیا ۔
 ذاکر بھائی وہی ، جو رائے ونڈ سے اپنے سارے بچوں کے ساتھ آئے تھے ؟ بڑھیا نے پوچھا ۔
   ہاں وہی -" میں نے جوابدیا
  میں بھی چلوں گی - بڑھیا بولی 
  بہتر ہے ۔ بوڑھے نے جواب دیا
"  چار نومبر کو سلیم آزاد کا فون آیا ۔" سنا ہے تم میرپورخاص آرہے ہو ؟
 - ویسے کس نے بتائی  کمال ہے ، یہ خبر  بھی اخبار میں لگ گئی-  میں نے پوچھا
جس نے بتائی ، اُس سے بات کرو ۔ اور آزاد نے فون ذاکر کے ہاتھ میں تھما دیا ۔
" ہاں نعیم بھائی ، تیاری ہے ، ذاکر نے پوچھا -
ذاکر بھائی بالکل تیاری ہے ۔ کیا تاریخ رکھی ہے؟
۔ 28 نومبر ۔ تو پھر آؤ گے ؟
یار 7 نومبر رکھتے تو میں اور بڑھیا بھی آتے مگر اب امجد کے ساتھ آؤں گا ۔ میں نے کہا ۔
۔7 نومبر میں کیا خاص بات ہے ، بتاؤ تو وہ رکھ دیتے ہیں ۔ذاکر نے ہنستے ہوئے کہا
وہ میرے شادی کا دن ہے ، میں نے جواب دیا ۔ 
تو پہلے بتاتے ! ذاکر بولا ۔ 
امجد کو بتایا کہ ذاکر نے 28 نومبر بیٹے کی شادی رکھی ہے ، کیا پروگرام ہے ؟
امجد نے کہا کہ 5 نومبر کو اُس کے چھوٹے بیٹے کی شادی ہے ۔
یہ تو گڑ بڑ ہو گئی ، پلان میں یہ تو نہیں تھا ؟" میں نے کہا ، "میں اور بڑھیا جارہے ہیں اب جلدی واپس آناپڑے گا۔ 
تو میرپور خاص ، ہفتہ پہلے چلے جاؤ ۔ امجد بولا ۔
۔14 نومبر کو چم چم اور اُس کی ماما عدیس ابابا کے لئے روانہ ہو گئیں ۔ 
ہم دونوں نے 21 نومبر کوکراچی پہنچنا تھا ۔ بشیر بھائی کو بتا دیا تھا ، کہ اُن کے پاس 25 نومبر کو   حیدر آباد پہنچیں گے  اور وہاں سے میرپورخاص شادی پر جائیں گے ۔
پورا پروگرام فکس ہو گیا ۔کہ نومبر کےتیسرے ہفتے کے شروع میں کرونا کا غلغلہ مچ گیا ۔ اور اوپر تلے تین جاننےوالوں کی وفات ہوئی ، سی ایم ایچ کا کرونا وارڈ مکمل بھر گیا ، رفاع میڈیکل ہسپتال میں جہاں چھوٹی بہو ، ایم فِل کر رہی ہے وہاں سک کو حکم ملا کہ کرونا ٹیسٹ کروائیں ۔ جی ایچ کیو   میں بھی متاثرین کو کرونا ٹیسٹ کروانے کا حکم ملا ۔بڑی بیٹی جو عدیس ابابا میں یو این او میں ہے ، اُس نے حکم صادر کر دیا ، کہ ماما اور پپا ،آپ کو کراچی جانے کی ضرورت نہیں گھر پر رہیں ۔ چھوٹی بیٹی جو فوج میں میجر ہے ، اُس نے بھی گھیراؤ کردیا ، بوڑھا اور بڑھیا ، جولائی میں عدیس ابا باسے واپس آنے کے بعدمیجر بیٹے اورڈاکٹر بہو کے ساتھ رہ رہے تھے ۔ کہ اِس کرونائی ماحول میں گھر سے باہر نکلنے کی کیا ضرورت ۔ 
لہذا ، 23 نومبر کو ذاکر بھائی کو فون کیا ، مجبوری بتائی اور شادی پر نہ آنے کی معذرت کی ، اُس نے بھی بتایا کہ کرونا کی وجہ سے وہ بھی اپنے مہمانوں کی تعداد مختصر کر رہا ہے ۔
امجد کو فون کیا اور کرونا کی مجبوری بتائی ، یوں بوڑھا اور بڑھیا ایک بار پھر پنڈی میں محصور ہو گئے ۔ 
ذاکر کی کال 6 دسمبر کو آئی ۔کہ وہ امجد کے بیٹے کی شادی سے واپس پنڈی آرہا ہے ساتھ ایک میرپورخاص کا دوست بھی ہے ۔ پنڈی پہنچ کر آپ سے ملنے کا پروگرام بناتے ہیں ۔
چنانچہ 7 نومبر کی شام ، شاہین کرکٹ کلب جونیئر میرپورخاص کی ٹیم کے تین کھلاڑی ، بمع ایک پشاوری دوست میرے گھر پہنچے ۔ 
ذاکر کا بڑا بھائی مصطفیٰ میرا  میٹرک کا کلاس فیلو تھا لیکن وہ آرٹس کا سٹوڈنٹ تھا۔ ذاکر آٹھویں میں پڑھتا تھا- اُس کے ساتھ  سلیم اور سلیم کا چھوٹا بھائی نعیم بھی تھا ۔
اے دوست کسی ھمدم دیرینہ کا ملنا۔۔ بہتر ھے ملاقات مسیحا و خضر سے۔۔
تو یہ 68 سالہ بوڑھا عمررفتہ کی دیواروں پر سے چھلانگ مار کرلڑکپن میں چلا گیا اور تحت الشعور  میں دفن یادوں کے ذخیروں کی کڑیاں جُڑیں اور شعور میں سیلاب کی طرح اُمڈ اُمڈ کر آنے لگیں باتوں باتوں میں سلیم نے بتایا کہ آپ کے سسر اور ہمارے نانا  کے گھروں کی دیوار والکرٹ لمیٹڈ کاٹن جنگ فیکٹری کی کالونی میں ساتھ جڑی ہوئی تھی ۔1964 میں ہم سیٹلائیٹ ٹاؤن آگئے تھے ۔
بڑھیا چونکہ مہمانوں کے لئے بریانی بنانے میں مصروف تھی- لہذا اُسے میں نے صرف یہ معلومات دی کہ سلیم اور نعیم کے نانا ، خالو کے پڑوسی تھے ۔
وہ کہنے لگی، اُن کی بہن کا  نام معلوم ہو تو میں شاید پہچان جاؤں ۔ویسے بھی میں اُس وقت 6 سال کی تھی ۔ 
اتنے میں برفی کے پاپا۔ آفس سے آگئے ۔ تھوڑی دیر بیٹھا اور کپڑے تبدیل کرنے چلا گیا ، اور  جاتے جاتے، ماں کو کہا کہ نہ مہمانوں نے ماسک پہنے ہیں اور نہ ہی پپا نے ۔ 
خیر رات 10 بجے وہ چلے گئے ۔ میں نے میرپورخاص وٹس ایپ گروپ پر تصویر ڈالی اور لکھا بوجھو تو جانیں ؟
اگلے دن میں نے بڑھیا کی سلیم سے بات کروائی اور کہا ، کہ اِنہیں والکرٹ کے محلے دار خواتین کا بتاؤ ، شائد یاداشت واپس آجائے ، اور یہی ہوا سلیم نے سب محلے والوں کے نام  گھروں کے حساب سے ترتیب وار  اور ہم عمر لڑکیوں کے نام بتائے ، جو آج کل اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو کھلا رہی ہیں ۔ تو بڑھیا نے قبولا کہ سلیم بھائی کی یاداشت ماشاء اللہ بہت تیز ہے- اور پھر جب سلیم نے بتایا ، کہ آپ کے گھر بہت بڑا سانپ نکلا تھا جسے ہمارے تایا نے مارا تھا ، تو بڑھیا حیران رہ گئی کہ، سلیم بھائی ۔ آپ کو یہ بھی یاد ہے ؟
آج  9 دسمبر کو مہاجر زادہ ، مغرب کے بعدنعیم  راجپوت کے گیسٹ ھاؤس گیا تاکہ ماضی کی مزید باتیں دھرائی جائیں ۔ باتوں باتوں میں  میرے کراچی کے عزیز دوست ، افتخار احمد قریشی کا ذکر نکلا ۔ تو معلوم ہوا  کہ افتخار کی سب سے چھوٹی بھانجی  راشدہ    ، کی بیٹی کی شادی ذاکر کے بیٹے سے ہوئی ہے ۔
افتخار کے بہنوئی اقتدار خان ۔ ذاکر کے بلاک   میں رہتے تھے   ۔ افتخار کی دو  بھانجیوں کی شادیاں میرپو رخاص میں ہوئیں اور دو کی کراچی ۔ سب سے چھوٹی بھانجی ذاکر کی سمدھن کی شادی ناظم آبا د ایل بلاک  میں رہنے والے ، اپنے ماموں رفیق احمد قریشی کے بیٹے سے ہوئی تھی  ۔رفیق بھائی کراچی کی ایک فرم میں چارٹرڈ اکاونٹنٹ تھے ۔اُس وقت اُن کے تین بچے تھے دو بیٹے اور ایک بیٹی ۔ افتخار سے میری آخری   ملاقات  ،2005 میں  محمود آباد میں ہوئی تھی-  جب میں میرپورخاص گیا تھا ۔افتخار ڈی ایچ اے میں اکاونٹنٹ تھا ۔اُن کے منجھلے بھائی مسعود  کراچی میں رہتے تھے- افتخار کے والد اور والدہ مجھ سے بہت پیار کرتے تھے ۔  اُس کی امی کہتیں کہ نعیم اِسے پڑھنے کا کہو ، افتخار کی بہن نفو (نفیسہ ) باجی اور میرے کہنے سے،افتخار نے ایف کام کی شام کی کلاسز میں میرے ساتھ  داخلہ لے لیا ۔لیکن پھر چھوڑ دیا کہ پرائیویٹ امتحان دوں گا ۔بعد میں معلوم ہو کہ وہ گھریلو حالات کی وجہ سے فیس نہیں ادا کرسکتا۔میں نے اُس کے ا  متحان  کے لئے رجسٹریشن  اور فیس بھجوائی ، خیرہم دونوں نے ساتھ امتحان دیا۔ سنٹر اسلامیہ کالج بنا ۔ ہم دونوں پاس ہوئے اور میں نے فوج کا رُخ کیا اور افتخار ملازمتیں چھاننے لگا ۔
افتخار اداکار محمد علی سے اور بوڑھا وحید مراد سے انسپائر تھا ، اُس کا لہجہ ، کندھے جھکا کر چلنے کا انداز مکمل اپنے اندر سمولئے تھی اور اِس بوڑھے نے وحید مراد کے بالوں کے سٹائل کو اپنا لیا ، اگر وحید مراد اور محمد علی کی فلمیں چل رہی ہوتیں تو ٹاس سے فیصلہ ہوتا کہ کون سے پہلی دیکھی جائے گی اور اگر دونوں ایک ساتھ فل میں ہوتے تو کوئی مسئلہ نہ ہوتا۔ ہر اتوار کا میٹنی شو ہم کسی نہ کسی سینما میں گذارتے ۔
   
  پھر اور دوستوں کا ذکر ہو ا، پھر ذاکر کا پروگرام بنا کہ بچوں کے لئے کچھ لیا جائے ، ہم تینوں امتیاز سپر سٹور پر پہنچے رات کے 9 بجنے والے تھے وہ اند داخل ہونے کا شٹر بند کرنے والے تھے ، ہم تینوں بوڑھوں کو اندر جانے کی اجازت دے دی ، ذاکر اور نعیم نے شاپنگ کی ، پھر رات 10 بجے اُنہیں چکلالہ سکیم 1 میں اتار کر یہ بوڑھا گھر واپس ہوا۔
    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
افتخار کے ساتھ پرانی یادیں :
     

بدھ، 2 دسمبر، 2020

إِلْحَادٍ صرف اللہ کا حق ہے

اللہ کا حتمی اورناقابلِ تبدیل حکم ،کہ إِلْحَادٍ اُس کے سواء کوئی نہیں کر سکتا۔

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ ۚ وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ  (22:25) 

صرف وہ لوگ جو کفرکرتے ہیں - اور   سَبِيلِ اللَّـهِ اورالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ   میں رُکاوٹ بنتے رہتے  ہیں ۔ اُس  (اللَّـهِ)نے انسانوں کے لئے اُس   (سَبِيلِ اللَّـهِ اورالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ) میںالْعَاكِفُ  اور الْبَادِ قرار دیاہے ۔ اور جو اِس  (آیت ) میں   إِلْحَادٍ کے ساتھ ،ظلم کے ساتھ  کی خواہش رکھتا ہے، ہم اُسےعَذَابٍ أَلِيمٍ میں  ذائقہ دیں گے۔

إِلْحَادٍ الکتاب کی آیات میں تبدیلی ،صرف اللہ کا حق ہے ۔جو اب ممکن نہیں؛ کتاب اللہ (کائینات) میں اللہ اپنی آیات کو بہترین بنا رہاہے ۔

 وَلَبِثُوا فِي كَهْفِهِمْ ثَلَاثَ مِائَةٍ سِنِينَ وَازْدَادُوا تِسْعًا  (18:25)

اور وہ ( أَصْحَابَ الْكَهْفِ ) اپنےكَهْف میں تین سو برس ٹھہرے رہے اور نو اور بڑھا دیئے گئے -

 قُلِ اللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوا ۖ لَهُ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ أَبْصِرْ بِهِ وَأَسْمِعْ ۚ مَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا  (18:26)

کہہ : اﷲ جانتا ہے کہ وہ کتنا ٹہرے اُس کے لئے ، غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ  ہے ۔وہ اِس (غیب) کے ساتھ باصر اور سامع ہوتا ہے ۔ اُس کے لئے کوئی دوسرا  وَلِيٍّ نہیں اور نہ کوئی شرک کرنے والا ہو سکتا ہے اُس کے کسی ایک بھی حکم میں۔

 وَاتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن كِتَابِ رَبِّكَ ۖ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَلَن تَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا (18:27)

 اور اُن کے لئے تلاوت کر ( یہ حکمِ قطعی ) جو تیرے ربّ کی طرف سے کتاب (قرآن نہیں) میں وحی کیا گیا ہے ۔اُس کے کلمات کا کوئی (انسانی کلمہ ) بدل ہو نہیں سکتا ۔اور تو ہرگز اُس کے علاوہ کوئی لحد ( إِلْحَادٍ -الفاظ تبدیل کرنے والا) نہیں پا سکتا ۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 مشرکوں نے کیسے إِلْحَادٍ کرتے ہوئے اللہ کی کلمات تبدیل کرنے کے بعد أَصْحَابَ الْكَهْفِ پر کتابوں کی کتابیں لکھ ماریں ؟

لحد ٍ - ( اللہ کے الفاظ لحد میں ڈال کر اپنے الفاظ نشر کرنے والا ) - 

 بإلحاد [22:25] - ملتحدا [18:27] - يُلْحِدُونَ [41:40]

  إِنَّ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي آيَاتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا ۗ أَفَمَن يُلْقَىٰ فِي النَّارِ خَيْرٌ أَم مَّن يَأْتِي آمِنًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ ۖ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ [41:40]

 ( کیا يُلْحِد(الحاد) اپنے فہم کو بہتر بنانے کے لئے کیا یا کسی دوسرے کے سر پر زبردستی تھوپنے کے لئے یا کسی اُمّی پر اپنے علم کی دھاک بٹھانے کے لئے )۔ تو انہوں نے الکتاب سے اُن کے پاس آنے والے الذِّكْرِ سے كَفَرُ کیا :

 إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَاءَهُمْ ۖ وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ [41:41]  

 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 اور اللہ کا یہ حتمی حکم :

 وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً [17:85

وہ ( ملحد و مشرک ) تجھ (محمد ) سے الرُّوحِ  میں سوال کرتے ہیں ! کہہ الرُّوحِمیرے ربّ کی طرف سے امر ہے ۔ اور (محمد) تجھے جوالْعِلْمِ میں سے عطا کیا جاچکا ہے (وحی کے ذریعے ) قلیل ہے ۔

 ملحدوں نے کئی سو صفحات کی کتابیں " روح کیا ہے ؟ " پر لکھی ہیں ۔

روح اور الروح کے بارے میں، انسانوں  کے لئے ،  تفصیلاً العلم صرف الکتاب میں ہے ۔

٭٭٭٭٭

 

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔