Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 15 جنوری، 2015

عوامی میلہ یا میل

کہتے ہیں گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کا  رخ کرتا ہے۔نجانے اٖس وقت ہمارے ستارے گردش میں تھے یا علمِ نجوم کے مطابق زہرہ نے مریخ پر ستم ڈھایا ہوا تھا جب ہمارے سر پر پاکستان آرمی میں کمیشن لینے کا بھوت سوار ہوا .
پہلے تو کئی دن اس بھوت کا تنقیدانہ جائزہ لیتے رہے۔ ارسطو  اور افلاطون کے تجربات اور فلسفوں کی روشنی میں اسے پرکھا ِ ،
ارسطو اور افلاطون ہمارے دوستوں کا نام ہے جو ہم سے پہلے فوج میں جانے کی کئی کوششیں کر چکے تھے۔ لیکن ناکام ہوئے  ۔ اٖس کی وجہ ممتحن کا اُن کے ذوق کے مطابق نہ ہونا ہے۔  ارسطو تو آخری منزل  یعنی کوہاٹ سے لوٹ کر آنے والوں میں سے تھا ، اپنے تعارف میں خود کو " آر سی او " بتاتا ، مزید تفصیل پوچھنے پر ، "آر  کمیشن آفیسر "    بتاتا ،
یہ " آر " کِس کا مخفف ہے ؟" سوال ہوتا !
" جی رجیکٹڈ کا " ! مصومیت سے جواب دیتا

اور افلا طون کا مسئلہ یہ ہے کہ اُن کے سینے کی پیمائش وہاں ختم ہو جاتی ہے۔ جہاں سے فوج کے لئے  پیمائش شروع ہو تی ہے ۔
بلا کا حاضر جواب،جس کی وجہ سے  میڈیکل  آفیسر بھی بوکھلا گیا ۔

اُس نے پوچھا،”سگریٹ پیتے ہو؟“
افلاطون فوراً بولا، ”سر دھواں نکل رہا ہے“۔
 یہ اور بات کہ افلاطون کو بعد میں ائرفورس والوں نے اکاؤنٹ  کی اعلیٰ تعلیم کے بعد اکاونٹ آفیسر منتخب کر لیا ِ اور ارسطو الیکٹریکل انجنئیر بن گیا۔
  خیر تمام تر مشکلات کو دیکھنے کے باوجود ہم نے پورے غور و خوض کے ساتھ تمام دوستاں و دشمنان کے سامنے فوج میں جانے کا باضابطہ اعلان کر دیا ۔کچھ لوگ مارے حیرت کے گنگ رہ گئے اور اُنہوں نے دانتوں  تلے اپنی اگلیاں دبا لیں  ۔
 جو نکتہ چیں قسم کے تھے اُنہوں نے حسبِ عادت  و معمول ہماری قابلیت میں کیڑے نکالنے شروع کردئیے۔
"وزن زیادہ ہے ، انٹیلجنس ٹیسٹ میں رہ جاؤ گے ،  آبسٹیکل کرنا تمھارے بس کی بات نہیں ، مشکل ہے ، کیوں اپنا  تعلیمی سال ضائع کرتے ہو ؟ "
ارسطو و افلاطون کی ذہنی بلوغت  سے ہمارا مقابلہ کروا کر  ہمیں نامنتخب اور وقت کا ضیاع کرنے والا احمق قرار دے رہے تھے۔اور بعض اس میدان ِ جانگسل  میں ہماری ہمت بڑھانے لگے-
 َبہرحال ہمارا سر عقل سے خالی نہیں ہے  اِس لئے ہم نے تمام مشورہ جات و تنقیدات کو دماغ  کی گہرائی میں دفن کر دیا 
کیا خوشگوار دن تھا ، باد ل آسمان پر چھائے تھے ،  والدہ کے ہاتھ کا ترتراتا پراٹھا کھا کر والدہ کی دعاؤں کے ساتھ  ،پھر علیٰ صبح گھر سے روانہ ہوا ، اور    اپنے اکلوتے بہترین لباس پر ٹائی لگا کر ،ریکروٹنگ آفس   کے لئے روانہ ہوئے ،جہاں سے اخبار میں دئیے گئے، اشتہار کے مطابق مبلغ پانچ روپے کے پوسٹل آرڈر کو دکھا کر فارم  ملنا تھا۔ پوسٹل آرڈر ایک دن ہم نے پہلے خرید لیا تھا۔
 کیماڑی سے دس پیسے کا ٹکٹ لے کر براستہ ٹاور صدر پہنچے،  ریکروٹنگ آفس میں ایک ہجوم تھا ۔جو پھیلتا ہوا فٹ پاتھ سے آدھی سڑک سے دائیں اور بائیں طرف بڑھتا جا رہا تھا۔ سب کی نظریں  مین گیٹ کی طرف تھی۔ جہاں سے خوشی میں سرشار کوئی نہ کوئی  ہفتِ اقلیم    کا خزانہ لئے نکل رہا تھا۔ یقیناً یہ سب اُن مردِ میدان کا دیدار کرنے آئے تھے جو کمیشن کا بھوت سر کرنے نکلے تھے۔
ہم دروازے کی طرف بڑھے تو کئی ہاتھوں نے ہمیں ایسے پیچھے کھینچا جیسے سینما کی ٹکٹ لینے والوں کو پیچھے گھسیٹا جاتا ہے۔
”اَبے لائن میں کھڑا ہو ،لائن میں ،ہم کیا یہاں جھک مارنے آئے ہیں؟"
اور ہمیں لائن کے آخری سرے کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی۔  ہم پیچھے کو مڑے  تھے کہ انسانی سمندر کی ایک زبردست موج نے ہمیں  پیچھے کی طرف اچھالا ، جیسے اخبار والا ، اخبار اچھالتا ہے  اور ہم مین گیٹ کے چھوٹے دروازے سے لٹکے ہوئے تھے ،دوسری  موج  نے ہمیں بغلی درواز ے سے اندر پھینک دیا ،ہم کپڑے جھانکتے اُٹھے تو دو مضبوط ہاتھوں نے اندر بنی ہوئی لائن میں کھڑا کر دیا۔ مڑ کر دیکھا تو گیٹ کے بغلی دروازے کے سامنے دو چھ فٹ اونچے  پاک فوج کے جوان  سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے کھڑے تھے۔ لیکن یہ دیوار کبھی کبھی لڑکھڑا جاتی اور پانچ چھ مشتاقانِ کمیشن  فارم ، ہماری طرح لڑکھڑاتے اندر آ گرتے۔ لائن آگے بڑھتی رہی  اور ہم نے آخر وہ فارم حاصل کر لیا۔ جس کو  بھر کر مکمل کرنے کے بعد کمیشن آفیسر بننے کا پہلا مرحلہ مکمل ہو جاتا۔
فارم لے کر گھر پہنچے تو ،   ہماری حالتِ زار دیکھ کر سب تقریباً  پریشان ہو کر ہمارے ارد گرد جمع ہوئے۔
والدہ , ”ہائے اللہ! کیا ہوا میرے لعل کو“  کہتی ہوئی دوڑتی آئیں۔
 ”یہ کس نے حالت بنائی تیری؟
کیا جھگڑا ہوا ہے؟ کس نے مارا ہے؟“
 ہم نے کہا، ”ذرا سانس تو لینے دیں اور پانی پلوائیں“ 
اتنا کہنا تھا کہ ہمارے اردگرد پھیلے ہوئے مجمع میں بھگدڑ مچ گئی، ہر کوئی پانی لینے دوڑا۔ پانی پینے کے بعد ہم ذرا تجسس بڑھانے کے لئے خاموش رہے۔ چاروں طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی سب کے کان ہماری طرف لگے ہوئے تھے۔ والدہ صاحبہ کی آواز نے سکوت توڑا
”اے لڑکے! اب بتا آخر کیا ہوا؟ “
ہم نے گردن گھما کر سب کی طرف دیکھا  سب کا چہرہ سوالیا نشان بنا ہوا تھا۔ آخر کار ہم نے اپنی حالت پر غور کئے بغیر  اپنا  بائیاں ہاتھ کوٹ کی اندرونی جیب میں ڈالا  اور پھر  بلند کیا جس میں وہ قیمتی فارم تھا۔ جو ہم نے اپنا کوٹ  اور قمیص اُدھڑوانے کے بعد حاصل کیا تھا۔
 ”یہ کیا ہے؟“ سب چلائے۔
ہم نے گردن کو اکڑاتے ہوئے فاتحاہ انداز میں کہا،”کمیشن کا فارم“
یہ سننا تھا کہ سب کے چہرے خوشی سے گلنار ہوگئے، والدہ، خالہ اور دیگر خواتین ہم جیسے لائق فرزند کی بلائیں لینے لگیں۔
فارم لینے کے بعد دوسرا بڑا مرحلہ تصویر کھنچوانے کا تھا۔ بن ٹھن کر فوٹو گرافر کے پاس پہنچے، پہلے تو پوز بنانے  میں بڑی دقت پیش آئی، فوٹو گرافر ہمیں جس اندازمیں بٹھاتا،  اُس پوز کی  فوٹو ہم نے صرف تھانے کے بورڈ پر لگی دیکھیں تھیں لہذا ہم وہ پوز منسوخ کر دیتے۔
ہم نے پوچھا کہ”شیشہ ہے آپ کے پاس؟“۔
”ہاں ہے، وہ دیوار پر لگا ہے" اُس نے جواب دیا 
”اچھا ایسا ہے کہ ہم  بیٹھ کر پوز بناتے ہیں۔ جب ہم کہیں تو ہمارا منہ کیمرے کی طرف کر دینا“  ہم نے اُسے ہدایت دی۔
  دراصل ہمیں اِس قسم کا پوز چاہئیے تھا کہ جی ایچ کیو والے دیکھتے ہی پھڑک جائیں، کہ واہ اِس برخوردار کے چہرے سے کتنی ذھانت ٹپکتی ہے۔ ہم تیار ہوگئے تو فوٹو گرافر نے ہمیں پھرکی کی طرح گھما کر کیمرے کی آنکھ کے سامنے کیا اور فوٹو کھنچ لی،
”کل آکر لے لینا“ وہ بولا۔
 ہم رسید لے کر گھر واپس آگئے۔ دوسرے دن واپس آئے تو اُس ناہنجار نے رسید لے کر فوٹو دیتے پوچھا،
”کس فلم میں بچوں کو ڈرانے کا کردار ملا ہے“ 
ہم نے تصویر  دیکھی۔دوبارہ دیکھنے کا حوصلہ نہ تھا۔ فوٹو گرافر نے اپنی خباثت دکھائی یا پھر کرسی کے یک لخت گھمانے کے مکمل تاثرات ہمارے چہرے پر منجمد ہو چکے تھے ۔  یوں ہمیں تین روپے مزید خرچ کرکے تصویر کھنچوانی پڑی اور اُسے فارم پر چسپاں کرکے، فارم کو راولپنڈی روانہ کر دیا۔
مہینے بعدہمیں لیٹر ملا کہ دوسرے مرحلے کے، تحریری امتحان کے لئے، فلاں تاریخ کو کینٹ بورڈ سکول صدر کراچی پہنچ جائیں۔مطلوبہ تاریخ کو  اپنے دوست افتخار احمدقریشی  (محمود آباد) کے ساتھ  سکول پہنچ گئے، وہ  سکول کے پارک میں  بنچ پر بیٹھ گیا اور ہم کمرہ امتحان میں داخل ہو گئے۔ شاندار طریقے سے امتحان دیا اور امتحان کے بعد افتخارکے ساتھ اُس کے بڑے بھائی ، رفیق احمد قریشی ،  کے آفس پہنچے۔  جو کسی فرم میں چارٹرڈ اکاونٹنٹ تھے ،انہوں نے ، سموسے اور چائےمنگوائی  اور ہم سے پیپر لے کر دیکھا،
”مضمون کس پر لکھا؟“ اُنہوں نے پوچھا،
 ”بھائی! عوامی میل پر“۔ ہم نے سموسہ کھاتے کھاتے رک کر جواب دیا۔
 ”عوامی میل؟“ انہوں نے استسفار کیا
”یہاں عوامی میل تو نہیں عوامی میلہ لکھا ہے!“ وہ شک آمیز لہجے میں بولے،
”نہیں بھائی عوامی میل ہے“ ہم نے وثوق سے کہا۔
 انہوں نے پرچہ ہمیں دیتے ہوئے کہا،”چلو کوئی بات نہیں، اگلی دفعہ پرچہ غور سے پڑھنا“۔
ہم نے پرچہ دیکھا وہاں عوامی میل کے بجائے عوامی میلہ لکھا ہوا تھا۔
 ہم نے جھینپ مٹاتے ہوئے کہا،”بھائی اگر کوئی صاحب ذوق ہوا تو ہمیں بیس نہیں تو دس نمبر ضرور دے گا۔ کیوں کہ ہم نے کینٹ ریلوے سٹیشن سے راولپنڈی تک، عوامی میل کا ایسا سفر نامہ لکھا ہے۔ کہ یقیناً وہ پاکستانی انگریزی ادب کا حصہ بننے کے قابل شاہکار ہے“۔


1 تبصرہ:

  1. امیدوار محمد نعیم الدین خالد ۔برائے 54 لانگ کورس، امیدوار نمبر سی-6341 کا یہ پرچہ امتحان نکالنے کے لئے میں نے اپنے خزانے کو کیا کھولا ، کہ یادوں کا خزانہ کھل گیا ۔ جس پر وقت نے اپنی طوالت کی خاک ڈالی ہوئی تھی ۔ جو ایک جھونکے سے بکھر گئی ۔

    جواب دیںحذف کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔