Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 15 اپریل، 2023

پیسا کا ٹیڑھا مینار اور چم چم



The Leaning Tower of Pisa

It is a cathedral bell tower in the Italian city of Pisa, built in the Field of Miracles.
Let's get acquainted with the Leaning Tower of Pisa from a structural point of view:
Its construction began in 1173 AD and they began to establish the bases and then the walls, and after the building reached the third floor, it was noticed that there was a slope.
Can you imagine that a tower weighing 14,500 tons is built on foundations 3 m deep and installed on sand and silt?!!
After discovering the slope, the engineers built the rest of the floors (external walls) so that the height of the floor in the inclined direction is greater than its height in the other direction.
Which increased the inclination of the tower due to the sinking of the foundations in a greater proportion in the soil, due to the increase in the weight of the floors.
Among the reasons why the tower did not collapse:
The construction continued for 199 years, and the construction halt in it for a long time is one of the reasons that allowed the soil to compact, which reduced the rate of inclination, and thus the tower did not collapse completely.
The clay soil helped and the main reason for the tower's tendency not to collapse and its resilience in front of 4 earthquakes.
The engineers calculated the center of gravity of the tower, and it was concluded from the calculations that the tower collapsed completely upon reaching a slope of 5.44 degrees. The tower was closed in 1990 at a tilt of 5.5 degrees, yet the tower did not collapse.
Attempts made to stop the tilt of the tower and not collapse:
Digging deep holes in the ground at a depth of 40 m, and installing the tower with iron cables through the holes. Liquid nitrogen was pumped, which led to the freezing of water in the soil and its expansion and contraction again, which led to the subsidence of the soil and the subsidence of the foundations, and consequently the slope of the tower at the rate of its inclination throughout these years.
They dug 361 holes and injected the soil with 90 tons of cement, which led to the tower's tilt strongly.
And finally, Soil Extraction was used in 1990:
The soil was removed from the non-slanted side so that the tower tilts in that direction, then iron cables were used to fix the tower bases in the ground and the slope was reduced to 4 bikes, and this was what it was at the beginning.
The engineers could have made it vertical, but they didn't want to lose its fame and tourist value because of its tilt.
And after that was completed, the tower was opened.
And it was confirmed that the tower could endure without any collapse for 300 years.

Credit: Engineering Infinity


 

ہفتہ، 8 اپریل، 2023

نئی قسم ۔ برفی نیوزی ڈوارف

 

ایک ربیتانو ، اڈریان ڈی کُک نے اپنے بڑے سائز کی وجہ سے اِس کا قد چھوٹا کرنے کا بیڑا اٹھایا ۔

تو اُس نے نیدر لینڈ ڈوارف (500 گرام) اور فرنچ لاپ  (4500 گرام)کی مدد1949 میں   لی ۔ اور یوں ھالینڈ لاپ وجود میں آیا۔

جارج سکاٹ نے 1964-1975 کے دوران ۔1500 گرام ۔ھالینڈ لاپ تخلیق کرنے میں کامیاب ہو گیا اور دنیا کو،  ریبٹ بریڈر ایسوسی ایشن میں رجسٹر کرواکر ، یونائیٹڈ کنگڈم   اور امریکن  پلیٹ فارم سے متعارف کروایا ۔

گھومتا گھماتا ، پھرتا پھراتا نیدر لینڈ ؤارف کے بچوں کا  ایک جوڑا بوڑھے کے پاس پہنچا ۔ نیدر لینڈ ڈوارف میل جس کا نام بوڑھے نے شیرو رکھا جوان ہوا تو اُس کی کھانا کھلاتے وقت بدتمیزیوں سے بوڑھا پریشان ہو گیا اور اُسے آوارہ گردی کےلئے ، برفی لیبارٹری کے لان میں چھوڑ دیا جہاں تین دیسی میلز کا راج تھا ۔ پہلے تو جیرو نے سب کو آگے لگایا ۔دیسی میل کا سربراہ شیرو پہلے تو یرقا ۔ لیکن پھر خم ٹھونک کر میدان میں آیا ۔ جیرو کی شیرو کے اوپر چھلانگوں نے عجب سماں بندھا۔ شیروبھی حیران ہو کر اُس کی آنی جانیاں دیکھتا رہا پھر موقع پا کر جیرو کی کمر میں دانت گاڑھ دئیے۔جمناسٹ جیرو کی چینخیں گونجنے لگیں ۔ ایمپائر کو آواز دی ، بوڑھے نے جیرو کو چھڑایا ۔ اب جیرو آگے اور شیرو پیچھے ۔ دوڑ بھاگ کے بعد ، جیرو کیکر کے گول ٹکڑوں کے پیچھے چھپ گیا تو بوڑھے نے پکڑ کر  واپس پنجرے میں ڈالا۔کوئی ہفتے بعد ، یعنی 7 فروری2023  کو کھانا ڈالتے وقت ، جیرو نے پھر بوڑھے کے ہاتھوں پر پنجے مارے ۔ بوڑھے نے ایک اتھری نیوزی لینڈ وہائٹ جیرو کے پنجرے میں ڈال دی  اور خود  اور کام کرنے چلا گیا ۔ 

گھنٹے بعد بوڑھے نے نیوزی لینڈ وھائیٹ مادہ کو واپس اُس کے پنجرے میں ڈالا ۔ہفتے بعد یعنی 21 فروری 2023  کو بوڑھے نے نیوزی لینڈ وھائیٹ ، نیوزی لینڈ ریڑ سے بار آور کروانے کے لئے ، حافظ حمزہ ریاض کو دے کر ،حسین خان کے پاس بھجوائی تین دن بعد حسین خان نے کامیابی کی نوید کے بعد بوڑھے کو واپس بھجوادی ۔

ہفتے  بعد     حافظ حمزہ نے بتایا کہ3 نمبر فیمیل نیسٹنگ کر رہی ہے ۔ بوڑھا حیران ہوا کہ ابھی تو اُس کے صرف 7 یا 8 دن ہوئےہیں ، اُس جلدی کیا ہے ؟
خیر اگر 3 نمبر نیوزی لینڈ ھائیٹ نیسٹنگ کی پریکٹس کر رہی ہے تو کوئی بات نہیں ۔ 9 مارچ کو صبح جب بوڑھا اپنے خرگوش کی دیکھ بھال کے لئے گیا اور پانی چلا دیا تاکہ نیچے صفائی ہوجائے کہ بوڑھے پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے نیچے 6 رنگ برنگے بچے پڑے کلبلا رہے تھے ، جلدی سے اٹھایا ۔ خشک کےا ڈرائر سے اُنہیں سکھایا۔

یہ بچے کس کے ہیں؟

دو فیمیل نیدر لینڈ  ڈوارف اور دیسی چیکرڈ کے نیسٹنگ بکس پڑے تھے۔ اگلا نمبر 3 نمبر نیوزی لینڈ وھائیٹ کا تھا ، یہ تو اِس کے ہو نہیں سکتے ۔خیر بچوں کوچوزوں کے بروڈر میں ڈالا کہ اُن کے اوسان بحال ہوجائیں۔ 9 بجے حافظ حمزہ آیا ۔ اُس نے بتایا کہ 3 نمبر کے خون لگا ہوا ہے ۔چیک کیا جلدی سے اُسے ، گائینی روم    میں شفٹ کیا          ۔ جو 3 نمبر کے ہی  4 بچے  دسمبر میں سردی کی وجہ سے کوچ کر گئے ۔

تمام زچہ و بچہ کے لئے بنایا تھا ۔جہاں 1 نمبر نیوزی لینڈ وھائیٹ ، اپنے 8 کیلیفورنئین بچوں کے ساتھ  2 نمبر بیڈ پر قیام پذیر تھی۔

 بیڈ نمبر تین پر نیسٹنگ بکس  میں روئی رکھ  کر چھ بچوں کو شفٹ کیا اور بعد میں اُن کی ماں کو بھی ڈال دیا ۔کمرے کا درجہ حرارت 100 واٹ کے بلبوں سے باہر کے مقابلے میں 10 ڈگری کر دیا ۔ 

حسین خان سے پوچھا : نوجوان ، ریڈ نیوزی لینڈ کے بچے رنگ برنگے کیوں پیدا ہوئے ؟
سر ربّ کی مرضی ۔ایسا ہو جاتا ہے ۔
حسین خان نے جواب دیا ۔ 

تین دن بعد پہلا بچہ دار فانی سے کوچ کر گیا اُسے نکالا ۔ دیکھا وڈیو بنائی ۔

تو معاملہ سمجھ آیا ، جیرو  یعنی نیدر لینڈ ڈوارف اپنے چھوٹے قد کی وجہ سے  7 فروری2023  کو کام دکھا گیا ۔

یوں یک نئی نسل وجود میں آئی ۔

اب ریبیتانوز کہیں گے دیکھو ،  بوڑھے کا پاگل پن، کہ یوکے والے جارج سکاٹ نے کوشش کرکے ڈوارف کو لاپ میں تبدیل کرکے وزن کو 500 گرام کیا اب بوڑھا ڈوارف کو نیوزی لینڈ ڈوارف میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور نتیجے میں یہ دو پیارے پیارے برفی نیوزی  ڈوارف نے جنم لیا ۔ 

بوڑھے کے پاس نیدر لینڈ ڈوارف کا جوڑا  اور ھالینڈ لاپ کا میل ۔ ایک نیک دل ربیتانو  ، حسین خان کےتحفے  ہیں  ۔

اعلانِ خصوصی:۔

بوڑھے کی معلومات کے مطابق اب تک کسی نے پاکستان میں ، نیدر لینڈ ڈوارف اور نیوزی لینڈ وھائیٹ کے ملاپ سے نئی نسل یعنی نیوزی ڈوارف ، تحلیق نہیں کی جو احسن الخالقین کا تحفہ ہے ۔   

لہذا بوڑھے نے بروقت ، پاکستان ایسوسی ایشن آف ریبٹ انڈسٹری (پی اے آر اے ) کے عمائدین کو بذریعہ وٹس ایپ گروپ   اطلا ع دے دی ہے اور درخواست کی ہے ۔ کہ:۔،
 پاکستان   ریبٹ بریڈرایسوسی ایشن (پی آر بی اے) میں" برفی
نیوزی ڈوارف" نسل کو رجسٹر کروانے کی ضروری کاروائی کے متعلق آگاہ  اور مشتہر بذریع وٹس ایپ کیا جائے"۔

ملازم برفی ریبٹری ۔ میجر (ر) محمد نعیم الدین خالد ۔

        ٭٭٭٭٭٭٭جاری ٭٭٭٭٭٭

   مزید مضامین پڑھنے کے لئے جائیں ۔

 فہرست ۔ خرگوشیات  

 

 

جمعرات، 6 اپریل، 2023

عام آدمی کب انسان بنے گا ؟

 کوئی مانے یا نہ مانے‘ اس ملک میں سب سے بڑا جھوٹا‘ سب سے بڑا چور‘ عام آدمی ہے! یہ جو عام آدمی ہے‘ جمع جس کی عوام ہے اور واحد جس کی عام آدمی ہے‘ یہ عام آدمی انتہائی بے شرم‘ بے حیا‘ ڈھیٹ اور بد دیانت ہے! یہ عام آدمی سیاست میں ہے نہ اسٹیبلشمنٹ میں! یہ نہ بیورو کریٹ ہے‘ نہ جرنیل! مگر یہ سب سے بڑا فرعون ہے! یہ اپنے جیسے دوسرے عام لوگوں کا سب سے بڑا دشمن ہے!

یہ پھل بیچتا ہے تو جان بوجھ کر گندے پھل تھیلے میں ڈالتا ہے۔ یہ موٹر سائیکل چلاتا ہے تو پیدل چلنے والوں اور گاڑیاں چلانے والوں کے لیے خدا کا عذاب بنتا ہے۔ یہ ویگن اور بس چلاتا ہے تو ہلاکت کا پیامی بن کر چلاتا ہے‘ لوگ دور بھاگتے ہیں! یہ ٹریکٹر ٹرالی اور ڈمپر چلاتا ہے تو موت کا فرشتہ بن جاتا ہے۔ ٹریکٹر ٹرالیاں اور ڈمپر‘ بلامبالغہ سینکڑوں گاڑیوں اور ہزاروں انسانوں کو کچل چکے ہیں۔

یہ سرکاری دفتر میں کلرک بن کر بیٹھتا ہے تو سانپ کی طرح پھنکارتا ہے اور بچھو کی طرح ڈستا ہے۔ یہ دفتر سے نماز کے لیے جاتا ہے تو واپس نہیں آتا۔ سائل انتظار کر کر کے نامراد ہو کر واپس چلے جاتے ہیں۔ آپ ڈاکخانے جائیے‘ بورڈ لگا ہو گا ''ڈیڑھ بجے نماز کا وقفہ ہے‘‘۔ یہ وقفہ کب ختم ہو گا؟ کچھ معلوم نہیں!

یہ عام آدمی دکاندار ہے تو گاہکوں کو اپنا غلام اور خود کو ہامان سمجھتا ہے۔ صبح جوتے خرید کر شام کو واپس کرنے جائیے، نہیں لے گا۔ واپس کرنا تو دور کی بات ہے‘ تبدیل تک نہیں کرے گا! اس کا گاہک بھی عام آدمی ہے۔ وہ دکاندار سے بھی زیادہ فریبی ہے۔ چیز اچھی خاصی استعمال کرکے واپس یا تبدیل کرنے آئے گا۔

ہر شخص جانتا ہے کہ امریکہ وغیرہ میں یہ عام آدمی‘ جو ہم نے یہاں سے بر آمد کیا ہے‘ دھوکا دیتا ہے۔ مہمان آئیں تو وال مارٹ (وہاں کے سپر سٹور) سے نئے گدے (میٹریس) خریدتا ہے۔ مہمان چلے جائیں تو جا کر واپس کر آتا ہے (یہ شہادت ثقہ افراد نے دی ہے)۔ یہ عام آدمی انگلستان میں‘ گھر سے باہر نکلے تو وِیل چیئر پر ہوتا ہے۔ گھر کے اندر ہو تو چھلانگیں لگاتا ہے (اس کی بھی مضبوط شہادت ہے)۔

یہ عام آدمی گھر کا کوڑا گلی میں پھینکتا ہے۔ یہ دو کروڑ مکان کی تعمیر پر لگا دیتا ہے مگر پانچ ہزار کی بجری‘ گھر کے سامنے ٹوٹی ہوئی سڑک پر نہیں ڈلوا سکتا۔ یہ عام آدمی گھر بناتا ہے تو گلی کا کچھ حصہ گھر میں شامل کر لیتا ہے۔ دکان ڈالتا ہے تو نہ صرف فٹ پاتھ بلکہ آدھی سڑک پر اپنا سامان رکھتا ہے۔ یہ عام آدمی ناجائز تجاوزات کی شکل میں جو فائدہ اٹھا رہا ہے اس کا حساب لگائیے تو شریفوں اور زرداریوں کی مبینہ چوری سے ہزار گنا بڑی چوری ثابت ہو گی!

یہ عام آدمی گیس کے محکمے میں ملازم لگتا ہے تو رشوت لے کر ناجائز‘ چوری چھپے‘ گیس کنکشن دیتا ہے۔ بجلی کے محکمے میں جائے تو گھر بیٹھ کر میٹر ریڈنگ کرتا ہے۔ ٹیلی فون آپریٹر لگے تو فون ہی نہیں اٹھاتا۔ آزما لیجیے۔ آپ کے گردے فیل ہو جائیں گے مگر آپریٹر آپ کی کال نہیں اٹھائے گا۔

یہ عام آدمی ہی ہے جس نے سیاست دانوں کی عادتیں بگاڑی ہیں۔ یہ خوشی سے ان سیاست دانوں کی‘ ان کے بچوں کی‘ ان کے خاندانوں کی غلامی کرتا ہے۔ یہ ساری زندگی ان کے جلسوں میں دریاں بچھاتا ہے۔ نعرے لگاتا ہے۔ ان کی گاڑیوں کے ساتھ دوڑتا ہے۔ ان کی حمایت میں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے جھگڑتا ہے یہاں تک کہ تعلقات توڑ دیتا ہے مگر اپنی اور اپنے کنبے کی حالتِ زار پر رحم کرتا ہے نہ سیاست دانوں سے اپنے حقوق مانگتا ہے۔ آپ علی بلال عرف ظلِ شاہ کے عمر رسیدہ‘ بے بس ماں باپ کی حالت پر غور کیجیے۔ تصور کیجیے ان کی راتیں کیسے گزرتی ہوں گی! ان کی باقی ماندہ زندگی ان کے لیے سزا سے کم نہیں۔

ا یہ عام آدمی اپنے پسندیدہ سیاست کے جلسوں میں   دریاں بچھائے گا۔ اور اُن کے ساتھ تصور کھنچوا کر فخر محسوس کرے گا ۔

غربت نسل در نسل اس کے خاندان میں راج کرے گی مگر یہ فخر سے کہتا رہے گا کہ ہم اتنی نسلوں سےسیاست  کے لیے کام کر رہے ہیں۔ یہی عام آدمی ہے جو سیاست دانوں کے کبیرہ گناہوں کا جواز تراشتا ہے اور ان کی غلطیوں پر غضبناک ہونے کے بجائے ان کا دفاع کرتا ہے۔

یہ عام آدمی اپنے جیسے عام آدمیوں کو اذیت پہنچاتا ہے۔ بیٹے کی شادی کرے تو لڑکی والوں سے جہیز مانگتا ہے۔ بیٹی کی شادی کرے تو اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ نندوں اور ساس کو چلتا کرے یا ان کے اختیارات چھین لے۔

مسجد میں نماز پڑھنا شروع کرتا ہے تو مولوی صاحب کو اپنا ملازم سمجھتا ہے۔ تجارت کرتا ہے تو کم تولتا ہے۔کسی کے گھرمیں ملازم ہو تو مالک کے ساتھ مخلص نہیں۔ کسی کو اپنا ملازم رکھے تو اس کے کھانے پینے اور لباس کا خیال نہیں رکھتا۔ پیروں‘ فقیروں کے پیچھے بھاگ کر خوار و زبوں ہوتا ہے مگر گھر میں بیٹھے ماں باپ کی خدمت نہیں کرتا۔

یہ ہے وہ عام آدمی جو چاہتا ہے کہ مخالفین کے لیڈر‘ سب کے سب راتوں رات عمر بن عبد العزیزؒ بن جائیں ۔ رات دن ان پر تنقید کرتا ہے۔ اسے پورا یقین ہے کہ اس ملک میں اگر کوئی راہِ راست پر ہے تو صرف وہی ہے اور باقی سب کو اصلاح کی ضرورت ہے۔ اسے یہ بھی یقین ہے کہ سیاست پر‘ مذہب پر‘ ملکی نظام پر‘ امریکہ پر اس کا کہا حرفِ آخر ہے۔ وہی بلند ترین اتھارٹی ہے۔ وہ بہت خلوص سے کہتا اور سمجھتا ہے کہ اگر ملک کو اس کی تجاویز کے مطابق چلایا جائے تو دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی! 

وہ صدر پاکستان کی صدارت پر اعتراض کرتا ہے کہ اُسے صدارت کرنا نہیں آتی ۔ جبکہ وہ محلہ کیا گلی کی کمیٹی کا صدر بھی نہ رہا ہو ۔ 

جس دن یہ عام آدمی‘ آدمی سے انسان بن گیا تو اہلِ سیاست سے لے کر مقتدرہ تک‘ سب ٹھیک ہو جائیں گے۔ اور اس کے انسان بننے کی امید نہ ہونے کے برابر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


 
ایک دانشور کی "عام آدمی" پر سچی اور کھری تحریر ۔۔۔۔
(منقول)

منگل، 4 اپریل، 2023

بے ربط خیالات ۔ المیہ

 اصل میں دو طرح کی فوج ہے
ایک وہ جسے آپ نے ایلفا ‘براؤ‘ چارلی، یلغار یا عہد وفا میں دیکھ رکھا ہے۔
اور دوسری وہ جس میں ہم ہوتے  تھے ۔ 
افسری کی نوکری پیدل شروع کرتے ہیں۔

 چار چھ مہینے بعد سی ایس ڈی سے قسطوں پر موٹر سائیکل نکلواتے ہیں، چار پانچ سال نوکری کے بعد ابو کوئی پرانی کار دلوادیں تو ٹھیک ورنہ شادی فقط اس لیے لیٹ کرتے ہیں کہ کار کے لیے مال و متاع اکٹھا کر لیا جائے۔

یا آنے والی کے ابو بیٹی کو سُکھ پہنچانے کے لئے بے کار کو کار دے دیں ۔ 
آدھی جوانی کورسسز، پوسٹنگز اور غلطیوں پر ٹی بریک کراتے گزرتی ہے، ہر مہینے کی بیس تاریخ سے پہلے تنخواہ ختم اور ہر سال کے آخر میں رپورٹ ملنے پر نوکری میں دلچسپی اور شوق ختم۔
جب سے دنیا گلوبل ولیج ہوئی، انفارمیشن ایج آئی اور اسکرین شاٹس کا دور چلا ہے دل پشوری بھی ختم ہے۔

جس سے بات ہو، پہلے کورس، یونٹ اور پوسٹنگ پوچھتی ہے۔ باقی مارکیٹ فیس بک نے خراب کی ہوئی ہے
"گرل فرینڈ" تو دور کی بات ہے عمر کے جس حصے میں شادی ہوتی ہے اس میں بیوی بھی "گرل " نہیں عورت ملتی ہے۔
آدھی سے زیادہ نفری کی نوکری، کشمیر اور قبائلی علاقوں کے پہاڑوں پر گزررہی ہوتی ۔ نا اولاد کا بچپن ملتا ہے نا بیوی کی جوانی۔
پتا ہی نہیں چلتا کہ "جینٹل مین" کی بسم اللہ، سبحان اللہ اور الحمداللہ کب ہوئی۔
ایم ای ایس کے بنے ہوئے گھر، بغیر اے سی کے آفس، میس کا بل، بیوی کے روب نما دھکڑے اور سیکنڈ ان کمانڈ کے دئے ہوئے غم ختم نہیں ہوتے کہ ہر دو چار سال بعد پروموشن ایگزام اور بورڈ کی تلوار لٹک جاتی ہے۔
ملک کے طول و عرض پہ پھیلے اپنے اور بیوی کے رشتہ داروں، اپنے دوست اور بیوی کی سہیلیوں کے بچوں کے اے پی ایس میں داخلے،اور اگر بد قسمتی سے آپ علاقے کے واحد فوجی آفیسر ہیں تو رشتے داروں کی نوکریوں کے لئے فون  ،واپڈہ، تھانہ، کچہری کے کام کے ساتھ ساتھ  گاؤں کے فیصلے اور دوست احباب کے لیے مختلف اسٹیشنز پہ گیسٹ رومز کی بکنگ کا غم الگ۔

کر لو فوج میں آنے کی موجاں ۔


 

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔