اصل میں دو طرح کی فوج ہے
ایک وہ جسے آپ نے ایلفا ‘براؤ‘ چارلی، یلغار یا عہد وفا میں دیکھ رکھا ہے۔
اور دوسری وہ جس میں ہم ہوتے تھے ۔
افسری
کی نوکری پیدل شروع کرتے ہیں۔
چار چھ مہینے بعد سی ایس ڈی سے قسطوں پر موٹر سائیکل نکلواتے ہیں، چار پانچ سال نوکری کے بعد ابو کوئی پرانی کار دلوادیں تو ٹھیک ورنہ شادی فقط اس لیے لیٹ کرتے ہیں کہ کار کے لیے مال و متاع اکٹھا کر لیا جائے۔
یا آنے والی کے ابو بیٹی کو سُکھ پہنچانے کے لئے بے کار کو کار دے دیں ۔
آدھی جوانی کورسسز، پوسٹنگز اور غلطیوں
پر ٹی بریک کراتے گزرتی ہے، ہر مہینے کی بیس تاریخ سے پہلے تنخواہ ختم اور
ہر سال کے آخر میں رپورٹ ملنے پر نوکری میں دلچسپی اور شوق ختم۔
جب سے دنیا گلوبل ولیج ہوئی، انفارمیشن ایج آئی اور اسکرین شاٹس کا دور چلا ہے دل پشوری بھی ختم ہے۔
جس سے بات ہو، پہلے کورس، یونٹ اور پوسٹنگ پوچھتی ہے۔ باقی مارکیٹ فیس بک نے خراب کی ہوئی ہے
"گرل فرینڈ" تو دور کی بات ہے عمر کے جس حصے میں شادی ہوتی ہے اس میں بیوی بھی "گرل " نہیں عورت ملتی ہے۔
آدھی سے زیادہ نفری کی نوکری، کشمیر اور قبائلی علاقوں کے پہاڑوں پر گزررہی ہوتی ۔ نا اولاد کا بچپن ملتا ہے نا بیوی کی جوانی۔
پتا ہی نہیں چلتا کہ "جینٹل مین" کی بسم اللہ، سبحان اللہ اور الحمداللہ کب ہوئی۔
ایم
ای ایس کے بنے ہوئے گھر، بغیر اے سی کے آفس، میس کا بل، بیوی کے روب نما
دھکڑے اور سیکنڈ ان کمانڈ کے دئے ہوئے غم ختم نہیں ہوتے کہ ہر دو چار سال
بعد پروموشن ایگزام اور بورڈ کی تلوار لٹک جاتی ہے۔
ملک کے طول و
عرض پہ پھیلے اپنے اور بیوی کے رشتہ داروں، اپنے دوست اور بیوی کی سہیلیوں
کے بچوں کے اے پی ایس میں داخلے،اور اگر بد قسمتی سے آپ علاقے کے واحد فوجی
آفیسر ہیں تو رشتے داروں کی نوکریوں کے لئے فون ،واپڈہ، تھانہ، کچہری کے
کام کے ساتھ ساتھ گاؤں کے فیصلے اور دوست احباب کے لیے مختلف اسٹیشنز پہ
گیسٹ رومز کی بکنگ کا غم الگ۔
کر لو فوج میں آنے کی موجاں ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں