یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ انسان کو زندہ رہنے کے لئےخوراک ، پوشاک اور رہائش چاھئیے ، جس کو وہ آج کل کے دور میں رقم سے خریدتا ہے ۔
جس کا کم از کم حساب حکومت نے 14 ہزار روپیہ مہینہ رکھا ہے ۔
یوں سمجھیں کہ ایک فرد جس کی عمر 18 سال ہے اور وہ شادی شدہ نہیں تو اُس کا گذارہ حکومت کے مطابق 14 ہزار روپیہ مہینہ میں ہو جاتا ہے ۔ جس میں خوراک ، پوشاک اور رہائش شامل ہے ۔ حکومت کو اِس رقم کا حساب چاھئیے کہ اُس نے اِس رقم میں سے کتنا خرچ کیا ؟اور اُس کی بچت کتنی ہوئی ؟
تاکہ گورنمنٹ اُس پر ٹیکس لگا کر وصول کر سکے ۔
لیکن گورنمنٹ تو کم از کم ٹیکس کی حد 50 ہزار روپے ماھانہ سے کم کمانے والے پر نہیں رکھی ہے اور اگر تنخواہ 50،100 روپے ماہانہ ہو جائے تو ہر مہینہ اُس کی تنخواہ سے 5٪ ٹیکس کاٹا جائے گا یعنی 5 روپے ماہانہ ، گویا 60 روپے سالانہ ۔
ایف بی آر کے مطابق ، تنخواہ دینے والا ادارہ ، یہ 5 روپے ہر مہینہ ایف بی آر کو جمع کروائے گا ۔ اور میرے خیال میں ایسا ہی ہو رہا ہے !
اِس طرح وہ تمام ادارے جو اپنے ملازمین کو دینے والی تنخواہوں کو جن سے ٹیکس کاٹا جانا چاھئیے ، وہ ٹیکس کی کٹوتی ہر ماہ کرتے ہیں اور اِسے ایف بی آر میں جمع بھی کرواتے ہیں ۔
لیکن یہ رقوم ہر انفرادی ملازم کی ٹیکس شیٹ میں ایف بی آر کے پاس ظاہر نہیں ہوتیں ، جسے ریٹرن کہتے ہیں ، کیوں کہ ایف بی آر کے مطابق یہ جمع کروانا ،ہر تنخواہ دار ملازم کا فرض ہے !
بوڑھے ، کو باقی ملازمین کا تو معلوم نہیں لیکن اتنا ضرور معلوم ہے ، کہ فوج کے آفیسرز اور سردار صاحبان جو 50،100 روپے ماہانہ تنخواہ لے رہے ہیں ، اُن کے انکم ٹیکس نمبر ضرور ہیں ۔ لیکن اپنی انکم ٹیکس ریٹرنز جمع نہیں کرواتے ۔
" کیا وہ انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرواتا ہے ؟"
" سر ، تنخواہ سے انکم ٹیکس کٹ جاتا ہے ، ٹیکس ریٹرن بھی جمع ہوجاتی ہے " اُس نے جواب دیا ۔
" تو آپ کاٹیکس سٹیٹس ایف بی آر کے پاس ایکٹو ہو گا ؟" بوڑھے نے پوچھا ۔
" سر یقیناً ایسا ہی ہوگا ؟" وہ یقین سے بولا ۔
" اپنا شناختی کارڈ نمبر بتائیں " اُس نے بوڑھے کو اپنا شناختی نمبر بتایا ، بوڑھے نے اپنے موبائل پر
ATL6110100000001 لکھ کر 9966 پر ایس ایم ایس بھیجا ۔
جواب آیا :
یہ نوجوان کے لئے تو حیرانی کی بات تو یقیناً تھی ۔ لیکن سب سے بڑی حیرانی کی بات یہ ہے ۔ کہ کنٹرولر آف ملٹری اکاونٹ ، مکمل کمپیوٹرائزڈ ہے ۔ لیکن وہاں موجود سٹاف کمپیوٹرائزڈ نہیں ۔ انٹر نیٹ کی جدید دنیا میں FBR اور CMA(O) کے درمیان سُٹ پنجہ کا کوئی رشتہ نہیں ۔ کیوں ؟
کیا یہ حیرت کی بات نہیں ، کہ صرف ایس ایم ایس پر شناختی کارڈ نمبر بھجوانے پر ، نہ صرف ایف بی آر معلومات مہیا کرسکتی ہے ۔
بلکہ اُس کے پاس معلومات پوچھنے والے موبائل کا پورا فُٹ پرنٹ ریکارڈ کا حصہ بن جاتا ہے اور نہ صرف یہ بلکہ جس موبائل کمپنی سے 9966 پر ایس ایم ایس بھیجا گیا۔ اُس کے سروسر میں بھی یہ محفوظ ہو گیا ۔
اب لازمی بات ہے کہ اِس موبائل کی IMEI , SIMM ، جس کے نام سِم رجسٹر ہے اُس کا شناختی کارڈ نمبر ،نام ،موجودہ لوکیشن ، وقت ، سب فُٹ پرنٹ کا حصہ ہیں ۔
اب اگر ایف بی آر اپنے ٹیکس ریٹرن فارم 114(1) کو فوری بھروانا چاھتی ہے تو تنخواہ دار ملازم جن کی تنخواہ 50 ہزار روپے ماہانہ سے اوپر ہے ۔ وہ ایف بی آر میں ہر ماہ دو ایس ایم ایس بھیجیں ۔
ایف بی آر کے سسٹم میں موجود شناختی کارڈ کے نام پر فوراً ، ایک ٹیکس ریٹرن فارم جنریٹ ہو جائے جس میں شناختی کارڈ ہولڈر کا پورا ڈیٹا ،نادرہ بمع پاسپورٹ نمبر (اگر ہو ) سے لیا جائے ۔ جہاں ملازمت کرتا ہو وہاں کا ریکارڈ اور ملازم نمبر لنک ہو ۔ اگر اُس شناختی نمبر کے نام پر گھر ، جائداد ، گاڑی اور دیگر انویسٹمنٹ کی ہوں ۔
وہ تمام ادارے ایف بی آر میں ٹیکس ریٹرن فارم کے کوڈ کے مطابق بھیجنے کے پابند کئے جائیں ۔یہ معلومات خود بخود ایف بی آر کے مختلف کوڈز میں جمع ہوتی رہیں گی ۔
بنک اسٹیٹمنٹ ہر مہینے ، خود بخود بنکوں سے ایف بی آر میں شناختی کارڈ نمبر کے سامنے اٹیچمنٹ بن جائے ۔
ہر تین ماہ بعد اور مالی سال ختم ہونے پر ۔ شناختی نمبر کا مالک اپنی ٹیکس ریٹرن کو سمارٹ موبائل پر یا کمپیوٹر پر دیکھے ، جس خانے میں معلومات کا دیا جانا ضروری ہو وہاں سوالیہ نشان لگا ہو ۔ جسے وہ پُر کرے اور اپنے آن لائن فارم کو ٹھیک کرے اور
اگر ایف بی آر کا وصول شدہ ڈیٹا صحیح قبول کیا جاتا ہے تو ،یہ تصدیق ، سہ ماہی یا سالانہ ٹیکس ریٹرن بن جائے ۔
انکم ٹیکس آفیسر کے اگر کوئی نقاط ہوں ، تو وہ پوچھے جا سکتے ہیں۔
جس کا کم از کم حساب حکومت نے 14 ہزار روپیہ مہینہ رکھا ہے ۔
یوں سمجھیں کہ ایک فرد جس کی عمر 18 سال ہے اور وہ شادی شدہ نہیں تو اُس کا گذارہ حکومت کے مطابق 14 ہزار روپیہ مہینہ میں ہو جاتا ہے ۔ جس میں خوراک ، پوشاک اور رہائش شامل ہے ۔ حکومت کو اِس رقم کا حساب چاھئیے کہ اُس نے اِس رقم میں سے کتنا خرچ کیا ؟اور اُس کی بچت کتنی ہوئی ؟
تاکہ گورنمنٹ اُس پر ٹیکس لگا کر وصول کر سکے ۔
لیکن گورنمنٹ تو کم از کم ٹیکس کی حد 50 ہزار روپے ماھانہ سے کم کمانے والے پر نہیں رکھی ہے اور اگر تنخواہ 50،100 روپے ماہانہ ہو جائے تو ہر مہینہ اُس کی تنخواہ سے 5٪ ٹیکس کاٹا جائے گا یعنی 5 روپے ماہانہ ، گویا 60 روپے سالانہ ۔
ایف بی آر کے مطابق ، تنخواہ دینے والا ادارہ ، یہ 5 روپے ہر مہینہ ایف بی آر کو جمع کروائے گا ۔ اور میرے خیال میں ایسا ہی ہو رہا ہے !
اِس طرح وہ تمام ادارے جو اپنے ملازمین کو دینے والی تنخواہوں کو جن سے ٹیکس کاٹا جانا چاھئیے ، وہ ٹیکس کی کٹوتی ہر ماہ کرتے ہیں اور اِسے ایف بی آر میں جمع بھی کرواتے ہیں ۔
لیکن یہ رقوم ہر انفرادی ملازم کی ٹیکس شیٹ میں ایف بی آر کے پاس ظاہر نہیں ہوتیں ، جسے ریٹرن کہتے ہیں ، کیوں کہ ایف بی آر کے مطابق یہ جمع کروانا ،ہر تنخواہ دار ملازم کا فرض ہے !
بوڑھے ، کو باقی ملازمین کا تو معلوم نہیں لیکن اتنا ضرور معلوم ہے ، کہ فوج کے آفیسرز اور سردار صاحبان جو 50،100 روپے ماہانہ تنخواہ لے رہے ہیں ، اُن کے انکم ٹیکس نمبر ضرور ہیں ۔ لیکن اپنی انکم ٹیکس ریٹرنز جمع نہیں کرواتے ۔
بلکہ اُنہیں انکم ٹیکس فارم 116(2) بھرنا ہی نہیں آتا ۔
116(2) (Statement of Assets / Liabilities filed voluntarily)
جبکہ 114(1) بھرنا تو خام خیالی ہے ۔
114(1) (Return of Income filed voluntarily for complete year)
فوجی یونٹ کے ایک سیکنڈ اِن کمانڈ، سے بوڑھے نے پوچھا ،" کیا وہ انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرواتا ہے ؟"
" سر ، تنخواہ سے انکم ٹیکس کٹ جاتا ہے ، ٹیکس ریٹرن بھی جمع ہوجاتی ہے " اُس نے جواب دیا ۔
" تو آپ کاٹیکس سٹیٹس ایف بی آر کے پاس ایکٹو ہو گا ؟" بوڑھے نے پوچھا ۔
" سر یقیناً ایسا ہی ہوگا ؟" وہ یقین سے بولا ۔
" اپنا شناختی کارڈ نمبر بتائیں " اُس نے بوڑھے کو اپنا شناختی نمبر بتایا ، بوڑھے نے اپنے موبائل پر
ATL6110100000001 لکھ کر 9966 پر ایس ایم ایس بھیجا ۔
جواب آیا :
یہ نوجوان کے لئے تو حیرانی کی بات تو یقیناً تھی ۔ لیکن سب سے بڑی حیرانی کی بات یہ ہے ۔ کہ کنٹرولر آف ملٹری اکاونٹ ، مکمل کمپیوٹرائزڈ ہے ۔ لیکن وہاں موجود سٹاف کمپیوٹرائزڈ نہیں ۔ انٹر نیٹ کی جدید دنیا میں FBR اور CMA(O) کے درمیان سُٹ پنجہ کا کوئی رشتہ نہیں ۔ کیوں ؟
کیا یہ حیرت کی بات نہیں ، کہ صرف ایس ایم ایس پر شناختی کارڈ نمبر بھجوانے پر ، نہ صرف ایف بی آر معلومات مہیا کرسکتی ہے ۔
بلکہ اُس کے پاس معلومات پوچھنے والے موبائل کا پورا فُٹ پرنٹ ریکارڈ کا حصہ بن جاتا ہے اور نہ صرف یہ بلکہ جس موبائل کمپنی سے 9966 پر ایس ایم ایس بھیجا گیا۔ اُس کے سروسر میں بھی یہ محفوظ ہو گیا ۔
اب لازمی بات ہے کہ اِس موبائل کی IMEI , SIMM ، جس کے نام سِم رجسٹر ہے اُس کا شناختی کارڈ نمبر ،نام ،موجودہ لوکیشن ، وقت ، سب فُٹ پرنٹ کا حصہ ہیں ۔
اب اگر ایف بی آر اپنے ٹیکس ریٹرن فارم 114(1) کو فوری بھروانا چاھتی ہے تو تنخواہ دار ملازم جن کی تنخواہ 50 ہزار روپے ماہانہ سے اوپر ہے ۔ وہ ایف بی آر میں ہر ماہ دو ایس ایم ایس بھیجیں ۔
ایف بی آر کے سسٹم میں موجود شناختی کارڈ کے نام پر فوراً ، ایک ٹیکس ریٹرن فارم جنریٹ ہو جائے جس میں شناختی کارڈ ہولڈر کا پورا ڈیٹا ،نادرہ بمع پاسپورٹ نمبر (اگر ہو ) سے لیا جائے ۔ جہاں ملازمت کرتا ہو وہاں کا ریکارڈ اور ملازم نمبر لنک ہو ۔ اگر اُس شناختی نمبر کے نام پر گھر ، جائداد ، گاڑی اور دیگر انویسٹمنٹ کی ہوں ۔
وہ تمام ادارے ایف بی آر میں ٹیکس ریٹرن فارم کے کوڈ کے مطابق بھیجنے کے پابند کئے جائیں ۔یہ معلومات خود بخود ایف بی آر کے مختلف کوڈز میں جمع ہوتی رہیں گی ۔
بنک اسٹیٹمنٹ ہر مہینے ، خود بخود بنکوں سے ایف بی آر میں شناختی کارڈ نمبر کے سامنے اٹیچمنٹ بن جائے ۔
ہر تین ماہ بعد اور مالی سال ختم ہونے پر ۔ شناختی نمبر کا مالک اپنی ٹیکس ریٹرن کو سمارٹ موبائل پر یا کمپیوٹر پر دیکھے ، جس خانے میں معلومات کا دیا جانا ضروری ہو وہاں سوالیہ نشان لگا ہو ۔ جسے وہ پُر کرے اور اپنے آن لائن فارم کو ٹھیک کرے اور
اگر ایف بی آر کا وصول شدہ ڈیٹا صحیح قبول کیا جاتا ہے تو ،یہ تصدیق ، سہ ماہی یا سالانہ ٹیکس ریٹرن بن جائے ۔
انکم ٹیکس آفیسر کے اگر کوئی نقاط ہوں ، تو وہ پوچھے جا سکتے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں