نادرہ الرٹ۔
نئے شناختی کارڈ بنوانے کے لئے نادرا نے نئی پالیسی جاری کر دی ، فی الفور نافذ العمل ہو گی ، اہم نکات درج ذیل ہیں :
(1) ۔نئے شناختی کارڈ بنوانے کے لئے ، میٹرک کی سند، پاسپورٹ ، ڈومیسائل اور والدین کے شناختی کارڈ کا ہونا ضروری ہے ۔
(2) ۔اب تصدیق کی ضرورت نہیں :
نادرا نے سابق اور آئندہ کے کونسلر اور چیئرمینوں کے پاس موجود تصدیق کا اختیار ختم کردیا۔
(3) ۔نئے شناختی کارڈ بنوانے کے لئے کسی ،گزیٹڈ افسر کے پاس نہیں جانا ہوگا:
کارڈ ہولڈر والد یا بھائی یا فیملی ممبر ازخود فارم تصدیق کر سکے گا۔
(4) ۔ نئے شناختی کارڈ یا فارم ب کے لئے برتھ سرٹیفکیٹ کی شرط ختم:
میٹرک کی سند، پاسپورٹ یا ڈومیسائل پہ کارڈ بن جائے گا والد والدہ کے کارڈ کے ساتھ تاریخ پیدائش لکھ کر دیں ب فارم بن جائیگا۔
(5) ۔ شادی شدہ ، خاتون : کو کارڈ میں تبدیلی کے لئے نکاح نامے کی ضرورت نہیں۔
شوہر کے کارڈ پر بیوی کا نیا کارڈ بنے گا صرف 20 کا اسٹامپ پیپر لگانا ہوگا۔
(6) ۔ فاٹا کے رہائشی: کسی بھی شہر سے شناختی کارڈ بنوا سکیں گے ۔
(7) ۔کارڈ گم ہونے پر : ایف آئی آر کی ضرورت نہیں اسٹامپ پیپر بیان حلفی گمشدگی دے کے نیا کارڈ پرنٹ مل جائیگا۔
(8) ۔کارڈ وصولی کے لئے: اصل ٹوکن کے ساتھ خود دفتر جانا ہوگا اگر کوئی رشتہ دار جائے تو اتھارٹی لیٹر اس سے لے کے جائے اور کارڈ مل جائیگا۔
(9) ۔نام تبدیلی کیلئے : اخبارات میں اشتہار نہیں دینا ہو گا۔ نئے کارڈ کے لیئے نادرا افسر انٹرویو کرے گا اور کمنٹس دے گا۔
اس کے شناخت کے خودکار نظام سے واقف ہوں گے!
1- صوبہ خیبر پختون خواہ ۔ 2-فاٹا۔ 3-پنجاب ۔ 4-سندھ ۔ 5-بلوچستان۔ 6-اسلام آباد اور
7-گلگت بلتستان کے رہائشیوں کو ظاہر کرتا ہے ۔
تیسرے نمبر پر آنے والا ہندسہ 1 متعلقہ ضلع کی نشاندہی کرتا ہے ۔
چوتھے نمبر پر آنے والا ہندسہ 0 ، متعلقہ تحصیل کی نشاندہی کرتا ہے ۔
پانچویں نمبر پر آنے والا ہندسہ 3 ، متعلقہ یونیئن کونسل کی نشاندہی کرتا ہے ۔
خاندان کا سربراہ اپنے تمام خونی رشتہ داروں ، بیٹے اور بیٹیوں کا فیمی ٹری سرٹیفکیٹ لے سکتا ہے ۔
2016 کے لگ بھگ ، اخبار میں خبر آئی کہ ، کئی افغانیوں کو 1973 کے بعد پاکستانیوں کے فارم ب میں داخل کیا گیا اور پھر اُن کے شناختی کارڈ بنوائے گئے ۔ لہذا تمام پاکستانیوں کو ہدایت کی جاتی ہے ،قومی شناختی کارڈ کے اداروں سے اپنے فارم "ب" نکلوائیں اور چیک کریں کہ آپ کے فارم "ب" میں کسی غیر متعلقہ مرد یا عورت کا اندراج نہیں ہوا ہو !
مہاجر زادےکے والد فوت ہو چکے تھے ، نادرا نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ابمہاجر زادہ قانونی طور پر اپنے والد کے خاندان کا سربراہ ہے ، لیکن نادرہ فیملی ٹری کارڈ ایشو کرنے سے انکار کر دیا ۔ اور لمبی داستان سنائی ۔
خیر مہاجرزادہ نے جنو ں کی مدد لی اور کمپیوٹر مانیٹر پر اپنے والد کے خاندان کے 6 افراد کے نام دیکھے تو تسلی ہوئی ، کہ کسی افغانی نے گھسنے کی کوشش نہیں کی ، لیکن مہاجرزادہ کی والدہ "یوسف زئی " تھیں ۔ اب معلوم نہیں کہ، قومی شناختی کارڈ کے حرام کھانے والے نمائیندوں نے ، اُن کے کتنے افغانی بھائی اور بہن بنائے ؟
مرد ۔ 3،1، 5، 7 اور 9۔ عورت ، 2، 4، 6، 8 کو ظاہر کرتا ہے ۔
اِس طرح نادرا کے خودکار نظام کے تحت ، ہم سب پاکستانیوں کا قومی شناختی کارڈ نمبر وجود میں آتا ہے ..!!
پاکستان میں 1947 سے پہلے شہریوں کی رجسٹریشن کا کوئی قانون نہ تھا ، البتہ پاسپورٹ جاری کرتے وقت ، جو پاسپورٹ کا نمبر دیا جاتا تھا ،وہ غیر ممالک میں پاکستانی کی شناخت کا نمر ہوتا تھا ، لیکن اگر یہ پاسپورٹ گُم ہو جائے تو جب دوسرا پاسپورٹ ملتا تھا تو اُس کا نمبر مختلف ہوتا تھا ۔
صوبائی قومی شناختی کارڈ کے ادارے کی ، الیکشن کے لئے جعلی شناختی کارڈ بنانے اور پنکچر لگانے نے اتنی شہرت پائی ، تو 2000 میںآئین کے مطابق ، نیشنل رجسٹریشن اتھارٹی کا قیام وجود میں آیا ۔ جس نے قومی شناختی کارڈ کو فول پروف بنانے کے لئے ، بائیو میٹرک ٹیکنیک کو متعارف کروایا ۔ جو اپنے ابتدائی مراحل سے گذرتا ، جعلی اور ڈپلیکیٹ شناختی کارڈ کی سیاسی خاردار تاروں کو پھلانگتا بالاخر مشین ریڈ ایبل شناختی کارڈ(ڈیٹا چِپ ) کے اجراء تک آپہنچا۔ شناختی نمبر ایک پاکستانی کی حقیقی پہچان بن گیا ۔
جب ایک پاکستانی اپنا نیا شناختی کارڈ بنوانے جاتا ہے تو اُس کی تصویر اور انگلیوں کے نشانات ، نادرہ کے ڈیٹا بیس میں موجود تمام تصاویروں اور انگلیوں کے نشانات کو کھنگالتے ، آخری حد پر آ کر رک جاتے ہیں ۔
شناختی کارڈ جاری کر دیا جاتا ہے یا مزید معلومات کے لئے آنے کا کہا جاتا ہے ۔
اب یہ تو ممکن ہی نہیں کہ ایک انسان کی انگلیوں کے نشانات دنیا میں کسی دوسرے انسان کے مماثل ہوں!
نئے شناختی کارڈ بنوانے کے لئے نادرا نے نئی پالیسی جاری کر دی ، فی الفور نافذ العمل ہو گی ، اہم نکات درج ذیل ہیں :
(1) ۔نئے شناختی کارڈ بنوانے کے لئے ، میٹرک کی سند، پاسپورٹ ، ڈومیسائل اور والدین کے شناختی کارڈ کا ہونا ضروری ہے ۔
(2) ۔اب تصدیق کی ضرورت نہیں :
نادرا نے سابق اور آئندہ کے کونسلر اور چیئرمینوں کے پاس موجود تصدیق کا اختیار ختم کردیا۔
(3) ۔نئے شناختی کارڈ بنوانے کے لئے کسی ،گزیٹڈ افسر کے پاس نہیں جانا ہوگا:
کارڈ ہولڈر والد یا بھائی یا فیملی ممبر ازخود فارم تصدیق کر سکے گا۔
(4) ۔ نئے شناختی کارڈ یا فارم ب کے لئے برتھ سرٹیفکیٹ کی شرط ختم:
میٹرک کی سند، پاسپورٹ یا ڈومیسائل پہ کارڈ بن جائے گا والد والدہ کے کارڈ کے ساتھ تاریخ پیدائش لکھ کر دیں ب فارم بن جائیگا۔
(5) ۔ شادی شدہ ، خاتون : کو کارڈ میں تبدیلی کے لئے نکاح نامے کی ضرورت نہیں۔
شوہر کے کارڈ پر بیوی کا نیا کارڈ بنے گا صرف 20 کا اسٹامپ پیپر لگانا ہوگا۔
(6) ۔ فاٹا کے رہائشی: کسی بھی شہر سے شناختی کارڈ بنوا سکیں گے ۔
(7) ۔کارڈ گم ہونے پر : ایف آئی آر کی ضرورت نہیں اسٹامپ پیپر بیان حلفی گمشدگی دے کے نیا کارڈ پرنٹ مل جائیگا۔
(8) ۔کارڈ وصولی کے لئے: اصل ٹوکن کے ساتھ خود دفتر جانا ہوگا اگر کوئی رشتہ دار جائے تو اتھارٹی لیٹر اس سے لے کے جائے اور کارڈ مل جائیگا۔
(9) ۔نام تبدیلی کیلئے : اخبارات میں اشتہار نہیں دینا ہو گا۔ نئے کارڈ کے لیئے نادرا افسر انٹرویو کرے گا اور کمنٹس دے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قومی شناختی کارڈ ہر پاکستانی کی پہچان ہے، مگر بہت ہی کم لوگ شناختی کارڈ نمبر کی ٹیکنالوجی اوراس کے شناخت کے خودکار نظام سے واقف ہوں گے!
44103-2848555-1
اگرچہ ، آپ سب لوگ تقریبا روز اپنا شناختی کارڈ دیکھتے ہوں گے اور کئی لوگوں کو اپنے یہ 13 ہندسی نمبربھی یاد ہوں گے ۔ لیکن یہ نمبر مخصوص کوڈ پر مشتمل ہیں ۔ آئیں دیکھتے ہیں !
44103-2848555-1
پہلا نمبر صوبے کو ظاہر کرتا ہے ۔1- صوبہ خیبر پختون خواہ ۔ 2-فاٹا۔ 3-پنجاب ۔ 4-سندھ ۔ 5-بلوچستان۔ 6-اسلام آباد اور
7-گلگت بلتستان کے رہائشیوں کو ظاہر کرتا ہے ۔
44103 -2848555-1
دوسرے نمبر پر آنے والا ہندسہ 4، آپ کے ڈویژن کو ظاہر کرتاہے۔ جیسے 4سندھ اور 4 میرپورخاص ڈویژن ۔ تیسرے نمبر پر آنے والا ہندسہ 1 متعلقہ ضلع کی نشاندہی کرتا ہے ۔
چوتھے نمبر پر آنے والا ہندسہ 0 ، متعلقہ تحصیل کی نشاندہی کرتا ہے ۔
پانچویں نمبر پر آنے والا ہندسہ 3 ، متعلقہ یونیئن کونسل کی نشاندہی کرتا ہے ۔
44103-2848555-1
اُس کے بعد 7 ہندسوں پر مشتمل نمبر کارڈ ہولڈ ر کا خاندانی کوڈنمبر ہے جو خاندان کے تمام خونی رشتہ داروں کے نمبروں سے منسلک ہوتا ہے ۔اسی کوڈ کے ذریعے کمپیوٹرائزڈ شجره یعنی Family Tree تشکیل پاتا ہے۔ خاندان کا سربراہ اپنے تمام خونی رشتہ داروں ، بیٹے اور بیٹیوں کا فیمی ٹری سرٹیفکیٹ لے سکتا ہے ۔
2016 کے لگ بھگ ، اخبار میں خبر آئی کہ ، کئی افغانیوں کو 1973 کے بعد پاکستانیوں کے فارم ب میں داخل کیا گیا اور پھر اُن کے شناختی کارڈ بنوائے گئے ۔ لہذا تمام پاکستانیوں کو ہدایت کی جاتی ہے ،قومی شناختی کارڈ کے اداروں سے اپنے فارم "ب" نکلوائیں اور چیک کریں کہ آپ کے فارم "ب" میں کسی غیر متعلقہ مرد یا عورت کا اندراج نہیں ہوا ہو !
مہاجر زادےکے والد فوت ہو چکے تھے ، نادرا نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ابمہاجر زادہ قانونی طور پر اپنے والد کے خاندان کا سربراہ ہے ، لیکن نادرہ فیملی ٹری کارڈ ایشو کرنے سے انکار کر دیا ۔ اور لمبی داستان سنائی ۔
خیر مہاجرزادہ نے جنو ں کی مدد لی اور کمپیوٹر مانیٹر پر اپنے والد کے خاندان کے 6 افراد کے نام دیکھے تو تسلی ہوئی ، کہ کسی افغانی نے گھسنے کی کوشش نہیں کی ، لیکن مہاجرزادہ کی والدہ "یوسف زئی " تھیں ۔ اب معلوم نہیں کہ، قومی شناختی کارڈ کے حرام کھانے والے نمائیندوں نے ، اُن کے کتنے افغانی بھائی اور بہن بنائے ؟
44103-2848555-1
بہرحال آگے چلتے ہیں ، شناختی نمبر کا آخری ہندسہ ، مرد اور عورت کے بارے میں معلومات دیتا ہے ۔مرد ۔ 3،1، 5، 7 اور 9۔ عورت ، 2، 4، 6، 8 کو ظاہر کرتا ہے ۔
اِس طرح نادرا کے خودکار نظام کے تحت ، ہم سب پاکستانیوں کا قومی شناختی کارڈ نمبر وجود میں آتا ہے ..!!
٭٭٭٭٭٭٭٭
پاکستان کا پہلا شناختی کارڈ 7 جولائی 1973 میں پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹّو کا جاری کیا گیا ۔ پاکستان میں 1947 سے پہلے شہریوں کی رجسٹریشن کا کوئی قانون نہ تھا ، البتہ پاسپورٹ جاری کرتے وقت ، جو پاسپورٹ کا نمبر دیا جاتا تھا ،وہ غیر ممالک میں پاکستانی کی شناخت کا نمر ہوتا تھا ، لیکن اگر یہ پاسپورٹ گُم ہو جائے تو جب دوسرا پاسپورٹ ملتا تھا تو اُس کا نمبر مختلف ہوتا تھا ۔
صوبائی قومی شناختی کارڈ کے ادارے کی ، الیکشن کے لئے جعلی شناختی کارڈ بنانے اور پنکچر لگانے نے اتنی شہرت پائی ، تو 2000 میںآئین کے مطابق ، نیشنل رجسٹریشن اتھارٹی کا قیام وجود میں آیا ۔ جس نے قومی شناختی کارڈ کو فول پروف بنانے کے لئے ، بائیو میٹرک ٹیکنیک کو متعارف کروایا ۔ جو اپنے ابتدائی مراحل سے گذرتا ، جعلی اور ڈپلیکیٹ شناختی کارڈ کی سیاسی خاردار تاروں کو پھلانگتا بالاخر مشین ریڈ ایبل شناختی کارڈ(ڈیٹا چِپ ) کے اجراء تک آپہنچا۔ شناختی نمبر ایک پاکستانی کی حقیقی پہچان بن گیا ۔
جب ایک پاکستانی اپنا نیا شناختی کارڈ بنوانے جاتا ہے تو اُس کی تصویر اور انگلیوں کے نشانات ، نادرہ کے ڈیٹا بیس میں موجود تمام تصاویروں اور انگلیوں کے نشانات کو کھنگالتے ، آخری حد پر آ کر رک جاتے ہیں ۔
شناختی کارڈ جاری کر دیا جاتا ہے یا مزید معلومات کے لئے آنے کا کہا جاتا ہے ۔
اب یہ تو ممکن ہی نہیں کہ ایک انسان کی انگلیوں کے نشانات دنیا میں کسی دوسرے انسان کے مماثل ہوں!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں