پورے ملک میں خوف و ہراس کی فضا چھائی ہوئی ہے ۔ کہ انکم ٹیکس فائلر نہ بننے پر بزنس کرنے والوں پر قیامت ٹوٹ پڑے گی ۔
ایف بی آر نے رسیدوں پر شناختی کارڈ نمبر ، انکم ٹیکس نمبر اور سیلز ٹیکس رجسٹریشن نمبر لکھنے کا حکم دیا ہے ۔ جس کے مطابق 13 ، 15 ، یا 17 فیصد کی شرح کے مطابق خریدی جانے والی اشیا ء پر سیلز ٹیکس کاٹ کی اُسی مہینے ایف بی آر میں جمع کروانا ضروری ہے ۔
٭- انکم
ٹیکس اور جی ایس ٹی تو پاکستان کا ہر ملازم پیشہ شہری دیتا ہے ۔
٭- اِسی طرح بزنس کرنے
والے ، ہر خریدار سے سیلز ٹیکس کاٹتے ہیں ۔
لیکن یہ حکومت کے پاس جمع نہیں ہوتا ۔ کیوں ؟
اپنی پیچیدگیوں اور ٹیکس فائلر نہ بننے کی وجہ سے اِس کا ریکارڈ نہیں رکھا جاتا ۔
مہاجرزادہ : چونکہ ملازم پیشہ بھی رہا ہے ، دکاندار بھی ، فرم کا مالک بھی اور ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کا چیف ایگزیکٹو بھی اور اِن تمام کے بعد اب ایک پنشن یافتہ فرد ہے ۔
لہذا، انکم ٹیکس کی تمام پیچیدگیوں کو اچھی طرح جانتا ہے کہ کس طرح انکم ٹیکس فائل کرتے وقت ،اچھا بھلا انسان پریشانی میں پسینے سے شرابور ہو جاتا ہے ۔
جب پہلی دفعہ انکم ٹیکس وکیل کو اپنی تمام فائلیں دیں اور جب ڈرافٹ مہاجرزادہ نے دیکھا تو اُس کے بطور ٹریول ایجنسی کےچیف ایگزیکٹو ،پسینے چھوٹ گئی ۔
کیوں کہ انکم ٹیکس منافع سے کئی گنا ، زیادہ بن رہا تھا ۔ اور انکم ٹیکس کے کاغذات میں کیوں نہ بنے ، جب کہ کلائینٹ سے اکاونٹ اور کیش بُک میں آنے والی رقم کے تناسب سے اُنہوں نے بنایا تھا ۔
مہاجر زادہ نے ، کیسے انکم ٹیکس والوں کے سوالوں کے جواب دئیے؟
اور کیسے انکم ٹیکس کمشنر کو تمام ریکارڈ سے قائل کیا، کہ جرمانہ اور ٹیکس کو ویو آف کیا جائے ؟
یہ ایک نہایت جانگسل قصہ ہے ۔
لیکن بالآخر اُنہیں یہ بات سمجھ آگئی کہ ٹریول ایجنٹ ایک پوسٹ ماسٹر ہوتا ہے ، جس کے کمپنی اکاونٹ میں لاکھوں روپے آتے ہیں اور اُتنے ہی نکل جاتے ہیں ۔ جو باقی بچتا ہے وہ سروس چارجز ہوتے ہیں۔
جس میں دکان کا کرایہ،آفس ملازمین کی تنخواہیں ، مارکیٹنگ گروپ کا کمیشن ، یوٹیلٹی چارجز ، ٹیلیفون ، موبائل ، انٹرنیٹ اور اشتہار ت کے اخراجات کے علاوہ شامل ہوتے ہیں ۔تمام اخراجات کو منہا کرکے جو رقم بچتی ہے اُسے ، ٹریول ایجنٹ کا منافع کہا جاسکتا ہے ۔
لہذا، انکم ٹیکس کی تمام پیچیدگیوں کو اچھی طرح جانتا ہے کہ کس طرح انکم ٹیکس فائل کرتے وقت ،اچھا بھلا انسان پریشانی میں پسینے سے شرابور ہو جاتا ہے ۔
جب پہلی دفعہ انکم ٹیکس وکیل کو اپنی تمام فائلیں دیں اور جب ڈرافٹ مہاجرزادہ نے دیکھا تو اُس کے بطور ٹریول ایجنسی کےچیف ایگزیکٹو ،پسینے چھوٹ گئی ۔
کیوں کہ انکم ٹیکس منافع سے کئی گنا ، زیادہ بن رہا تھا ۔ اور انکم ٹیکس کے کاغذات میں کیوں نہ بنے ، جب کہ کلائینٹ سے اکاونٹ اور کیش بُک میں آنے والی رقم کے تناسب سے اُنہوں نے بنایا تھا ۔
مہاجر زادہ نے ، کیسے انکم ٹیکس والوں کے سوالوں کے جواب دئیے؟
اور کیسے انکم ٹیکس کمشنر کو تمام ریکارڈ سے قائل کیا، کہ جرمانہ اور ٹیکس کو ویو آف کیا جائے ؟
یہ ایک نہایت جانگسل قصہ ہے ۔
لیکن بالآخر اُنہیں یہ بات سمجھ آگئی کہ ٹریول ایجنٹ ایک پوسٹ ماسٹر ہوتا ہے ، جس کے کمپنی اکاونٹ میں لاکھوں روپے آتے ہیں اور اُتنے ہی نکل جاتے ہیں ۔ جو باقی بچتا ہے وہ سروس چارجز ہوتے ہیں۔
جس میں دکان کا کرایہ،آفس ملازمین کی تنخواہیں ، مارکیٹنگ گروپ کا کمیشن ، یوٹیلٹی چارجز ، ٹیلیفون ، موبائل ، انٹرنیٹ اور اشتہار ت کے اخراجات کے علاوہ شامل ہوتے ہیں ۔تمام اخراجات کو منہا کرکے جو رقم بچتی ہے اُسے ، ٹریول ایجنٹ کا منافع کہا جاسکتا ہے ۔
2000 ء میں ، بریگیڈئر عتیق انور (یونٹ آفیسر) سے نادرہ میں ملاقات کا شرف حاصل ہو ا، وہاں اُنہوں نے اپنے ادارے کی کارگذاری کے بارے میں بتایا ۔ کہ نیشنل رجسٹریشن کا اختیار اب اُن کے پاس آگیا ہے ۔
اُن دنو ں شناختی کارڈ نمبر ، اِس طرح ہوا کرتا تھا ۔
مہاجرزادہ نے تجویز دی ، کہ ملک کمپیوٹرائزیشن کی طرف جا رہا ہے ، کیوں نہ سال پیدائش کے بجائے دو ہندسوں کو حروف تہجی میں تبدیل کیا جائے۔
اور یہی شناختی نمبر ، ٹیکس ، پاسپورٹ ، ڈرائیونگ لائسنس اور بنک اکاونٹ نمبر قرار دے دیا جائے۔ جس سے کسی بھی پاکستانی کے ریکارڈ کو ، کمپیوٹر سے کھنگالنا نہایت آسان ہوجائے گا ۔
اُن دنوں کمپیوٹر چونکہ نیا نیا آیا تھا ، لہذا یہ تجویز ہنس کر اُڑا دی ، اور مہاجر زادہ کا علم ِ کمپیوٹرّیاضی کسی کام نہ آیا ۔
اب جب مہاجرزادہ ، اُفق کے پار ماضی میں جھانکتا ہے ۔ توسوچتا ہے کہ اگرماضی میں یہی تجویز مان لی جاتی تو ، پاکستان کے ہر فرد کی جنم کُنڈلی بنائی جا سکتی تھی ۔
اب جب مہاجرزادہ ، اُفق کے پار ماضی میں جھانکتا ہے ۔ توسوچتا ہے کہ اگرماضی میں یہی تجویز مان لی جاتی تو ، پاکستان کے ہر فرد کی جنم کُنڈلی بنائی جا سکتی تھی ۔
ٹیکس ریٹرن میں تبدیل کیا جاسکتا ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں