Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 2 جون، 2016

چار آنے میں شربت -

یہ 1971 کی مئی  کی  بات ہے ہم تین جگری دوست کراچی میں ہوتے تھے
ریگل سے فلم دیکھ کر نکلے ، ایرانی ہوٹل جانے کے لئے چوک میں پہنچے ، وہاں لیموں پانی والے سے ایک 4 آنے کا گلاس لیا ۔
افتخار نے پوچھا یہ بے چارہ کتنا کما لیتا ہو گا ۔
اسلم (مرحوم) بولا : معلوم نہیں ۔شاید 6 یا 4 روپے !

میں نے کہا، اِس بالٹی میں 20 لٹر پانی آتا ہے ، اگر ایک گلاس آدھے لٹر کا ہو تو 40 گلاس بنیں گے ۔ یعنی 80 گلاس ۔ گویا اِس نے 20 روپے کمائے ۔
آدھا کلو لیموں 2 روپے ، ایک کلو چینی 6 روپے ،
اِسے 12 روپے نقد بچے اور ماہانہ 360 روپے ۔
اور یہ ایک بالٹی تو بیچتا نہیں ہوگا !

ناممکن ، ناممکن ۔افتخار بولا ،ایک میٹرک پاس کلرک 200 روپے ماہانہ لیتا ہے اور یہ ایک بالٹی شربت سے 360 روپے کماتا ہے !
تمھاری کیلولیشن غلط ہے -نعیم بھائی  اسلم بولا
 
اُن دنوں ایرانی ہوٹل میں ایک آدمی بہترین کھانا 4 سے 5 روپے میں کھاتا تھا ۔

پھر اگلے اتوار ہم تینوں نے شربت بیچا ، کتنی ڈیڑھ بالٹی اور کمائی ہوئی 35 روپے ۔ اور جو خود پیا وہ منافع میں علیحدہ ۔  
گرمیوں کے دن تھے ایک پھیرا ، افتخار لگاتا ۔ ایک میں اور ایک اسلم۔ 
میری ہیر کٹ دیکھ کر پولیس والا شک میں پڑ گیا پوچھا ،
 
" استاد ڈیوٹی پر ہو "
"  مجھے سمجھ نہیں آیا بولا، ہاں "
  ایک روپیہ پولیس والے کو دینے سے بچت ہوئی  ، 3 روپے وہاں موجود ٹھاکر (بھتہ خور) کو دینے پڑے ۔20 روپے کی جست کی بالٹی کا ، 3 روپے دن کا کرایہ  اور باقی چینی اور لیموں کی قیمت نکال کر منافع ۔
اُس دن ہم نے بہت عیاشی کی ۔
،ایرانی ہوٹل میں کھانا کھاتے ہوئے افتخار بولا ،
نعیم یار ، تمھیں تو یہاں کوئی نہیں جانتا۔ 
فرض کر اگررفیق بھائی یا مسعود بھائی آجاتے اور ہمیں دیکھ لیتے ، تو جوتے مارتے مارتے گھر لے جاتے ، کہ پڑھنے کے بعد یہ کام کرنا تھا تو ابا کا پیسہ کیوں ضائع کروایا !
اور بھر ابا کے ڈنڈے بونس ہوتے ۔

اسلم بولا: نعیم بھائی ، کام میں منافع تو بہت ہے لیکن ، ذلّت بھی بہت ہے !

اور اُفق کے پار رہنے والو دوستو!
میں ایف اے کامرس کرنے کے بعد فوج میں آگیا۔  
افتخار ، ایف اے کامرس کرنے کے بعد اکاونٹنٹ بن گیا اور
اسلم ، نے ایف اے  کرنےاور مختلف نوکریاں کرنے کے بعد  گھر والوں کی پوری مخالفت کے باوجود، 1977 میں چنیسر ہالٹ کے پاس چھپّر ہوٹل کھول لیا ۔
 اور ہم تینوں میں سب سے پہلے کار خریدنے والا محمود آباد ۔ کے سی بلاک کا مرحوم اسلم تھا 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔