یہ 1971 کی مئی کی بات ہے ہم تین جگری دوست کراچی میں ہوتے تھے
ریگل سے فلم دیکھ کر نکلے ، ایرانی ہوٹل جانے کے لئے چوک میں پہنچے ، وہاں لیموں پانی والے سے ایک 4 آنے کا گلاس لیا ۔
افتخار نے پوچھا یہ بے چارہ کتنا کما لیتا ہو گا ۔
اسلم (مرحوم) بولا : معلوم نہیں ۔شاید 6 یا 4 روپے !
میں نے کہا، اِس بالٹی میں 20 لٹر پانی آتا ہے ، اگر ایک گلاس آدھے لٹر کا ہو تو 40 گلاس بنیں گے ۔ یعنی 80 گلاس ۔ گویا اِس نے 20 روپے کمائے ۔
آدھا کلو لیموں 2 روپے ، ایک کلو چینی 6 روپے ،
اِسے 12 روپے نقد بچے اور ماہانہ 360 روپے ۔
اور یہ ایک بالٹی تو بیچتا نہیں ہوگا !
ناممکن ، ناممکن ۔افتخار بولا ،ایک میٹرک پاس کلرک 200 روپے ماہانہ لیتا ہے اور یہ ایک بالٹی شربت سے 360 روپے کماتا ہے !
تمھاری کیلولیشن غلط ہے -نعیم بھائی اسلم بولا
اُن دنوں ایرانی ہوٹل میں ایک آدمی بہترین کھانا 4 سے 5 روپے میں کھاتا تھا ۔
پھر اگلے اتوار ہم تینوں نے شربت بیچا ، کتنی ڈیڑھ بالٹی اور کمائی ہوئی 35 روپے ۔ اور جو خود پیا وہ منافع میں علیحدہ ۔
گرمیوں کے دن تھے ایک پھیرا ، افتخار لگاتا ۔ ایک میں اور ایک اسلم۔
میری ہیر کٹ دیکھ کر پولیس والا شک میں پڑ گیا پوچھا ،
" استاد ڈیوٹی پر ہو "
" مجھے سمجھ نہیں آیا بولا، ہاں "
ایک روپیہ پولیس والے کو دینے سے بچت ہوئی ، 3 روپے وہاں موجود ٹھاکر (بھتہ خور) کو دینے پڑے ۔20 روپے کی جست کی بالٹی کا ، 3 روپے دن کا کرایہ اور باقی چینی اور لیموں کی قیمت نکال کر منافع ۔
اُس دن ہم نے بہت عیاشی کی ۔
،ایرانی ہوٹل میں کھانا کھاتے ہوئے افتخار بولا ،
نعیم یار ، تمھیں تو یہاں کوئی نہیں جانتا۔
فرض کر اگررفیق بھائی یا مسعود بھائی آجاتے اور ہمیں دیکھ لیتے ، تو جوتے مارتے مارتے گھر لے جاتے ، کہ پڑھنے کے بعد یہ کام کرنا تھا تو ابا کا پیسہ کیوں ضائع کروایا !
اور بھر ابا کے ڈنڈے بونس ہوتے ۔
اسلم بولا: نعیم بھائی ، کام میں منافع تو بہت ہے لیکن ، ذلّت بھی بہت ہے !
اور اُفق کے پار رہنے والو دوستو!
میں ایف اے کامرس کرنے کے بعد فوج میں آگیا۔
افتخار ، ایف اے کامرس کرنے کے بعد اکاونٹنٹ بن گیا اور
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں