اجماع امت کی اہمیت اور کوفیوں کی غداری کا احساس .
مورخین کے بیان سے واضح ہے کہ کوفہ کے قریب پہنچ کر جب حضرت حسین پر حقیقت کھل گئی کہ جو لوگ ان کی وفا داری کا دم بھرتے تھے ان کا پتہ بھی نہ چلا کہ کہاں گئے کہ جو لوگ ہزاروں خطور لکھ کر بھیجتے اور خروج پر آمادہ کرتے تھے کیسے (خارجی بنا کر) دھوکہ دے گئے تو آپ نے جان لیا کہ امیر یزید کی بیعت پر تمام امت متفق ہو چکی ہے اور پوری امت کے فیصلے کے خلاف چلنا اب ممکن نہیں ہے تو آپ نے دمشق جانے کے لئے باگ موڑ دی .
اس کے ساتھ مورخین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ آپ نے تین شرطیں گورنر عراق کے افسروں کے سامنے پیش کیں!
پہلی یہ کہ مدینہ منورہ واپس جانے دیا جاۓ-
اگر یہ منظور نہ ہو تو اسلامی ممالک کی سرحد پر جا کر مجھ سے جہاد کیا جاۓ -
اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو مجھے دمشق بھیج دیا جاۓ تا کہ یزید کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیں -
(اُس وقت اسلامی ملک کہاں تھے ؟ مُفتی)
طبری اور دوسری کتب تاریخ سے لے کر عام تاریخی کتب الخلفاء اور امام ابن حجر عسقلانی کی الاصحابۂ فی تمیز الصحابۂ تک یہی تین شرطیں موجود ہیں.
شیعہ مورخین و مولفین خاص طور پر ناسخ التواریخ وغیرہ نے بھی یہی شرطیں لکھی ہیں
اور امیر عسکر عمر بن سعد بن ابی وقاص کا خط بھی درج کیا ہے جس میں آخری شرط کے یہ الفاظ ہیں .
یعنی اور وہ (حضرت حسین ) امیر المومنین یزید کے پاس چلے جائیں تا کہ اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے دیں اور دیکھیں کے وہ کیا فرماتے ہیں اس میں امت کا فائدہ اور صلاح بھی ہے اور تمھاری خوشنودی بھی. (صفحہ 237 ناسخ التواریخ جلد 6 از کتاب دوئم مطبوعہ ایران)
آج کل کے مورخ یہ تیسری شرط ظاہر کرنے سے گریز کرتے ہیں لیکن پہلی دو شرطیں بیان کر دیتے ہیں اور بے وقوف یہ نہیں سوچتے کہ امیر یزید کی بیعت اور خلافت پر متفق ہونے اور حسین کا اپنے موقف سے رجوع کر لینے کا مسئلہ تو پہلی شرط میں ہی حل ہو جاتا ہے وہ اس طرح کہ ایک آدمی گھر سے نکلا ہے کہ لوگوں نے اسے بتایا اور ہزاروں خط لکھے کہ وہ فاسق و فاجر ہے .حضرت حسین اپنی اور اپنے بچوں کی قربانی اس لئے دینے کو تیار ہیں کہ یزید کی بیعت نہ کریں اور جام شہادت نوش کریں مگر ابھی تک سرکاری فوجوں نے گھیرا نہیں ڈالا ، صرف ایک ہراول دستہ سامنے نظر آیا ہے اور فرما رہے ہیں کہ مجھے واپس جانے دو ؟
.یہ مورخین آخر حسین کی ذات کو کیا بنانا چاہتے ہیں؟
حسین کو تو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ الله پاک نے ان کو جماعت سے خارج ہونے کے شر سے محفوظ فرما لیا اور آپ کو توفیق عطا فرمائی کہ آپ نے جماعت کی حرمت بر قرار رکھنے کا اعلان کر دیا !
اقدام خروج میں آپ نے غلطی کی تھی اور جب خروج پر ابھارنے والوں کی غداری عیاں ہو گئی تو آپ نے وہی کیا جو آپ کے بڑے بھائی حضرت حسن کے منشاء کے مطابق تھا اور جو قران و سنت کی روشی میں واجب بھی تھا.
بلفرض اگر یہ مان لیا جاۓ کہ حضرت حسین نے اپنے موقف سے رجوع نہیں کیا تب بھی دینی نقطۂ نظر سے یزید پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا .
ان سے پہلے کے جو واقعات آپ سن چکے ہیں کہ حضرت علی کی بیعت مکمل نہیں ہوئی تھی اور امت کی بڑی اکثریت ان کی بیعت میں داخل نہیں ہوئی تھی اور حضرت علی کے خلاف جو لوگ کھڑے ہوے تھے وہ بہت بڑی اکثریت میں تھے ان کے قبضے میں ملک تھے اور لاکھوں انسانوں کی حمایت ان کو حاصل تھی،
تو کیا حضرت علی نے اپنے مخالفوں کے خلاف تلوار نہیں اٹھائی تھی ؟
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ہمارے نبی کی زوجہ جو حجت دینی کے تحت میدان میں آئیں تھیں کیا ان کی اونٹنی اور خیمے پر تیر نہیں برسے گئے تھے؟
اور امیر یزید جو متفق علیہ خلیفہ تھے جن کا پرچم پورے عالم اسلام میں لہراتا تھا اور جن کی بیعت میں سینکڑوں صحابہ اکرام داخل تھے وہ اس چیز کے مجاز کیوں نہیں تھے کہ اپنے خلاف خروج کرنے والوں کا مقابلہ کریں؟
محض اس لئے کہ حضرت حسین حضرت علی کے فرزند اور رسول الله کے نواسہ تھے اور اپنی اس حیثت کی بنا پر خلافت کا دعویٰ کرتے تھے
اور باوجود اس کے ان کے خللاف کوئی ظالمانہ کروائی نہیں کی گئی حالانکہ آپ کے مطالبے کی کوئی سند نہ کتاب الله سے ملتی ہے نہ ہی سنت رسول سے.
حضرت حسین کا دعویٰ خلافت کہ چونکہ وہ نواسہ رسول ہیں اس لئے خلافت پر ان کا حق ہے اس کی مثال کتاب الله ، سنت رسول اور خلفا راشدین اور نہ اہل بیعت کے عزائم سے ہی کہیں ملتی ہے ،
یہی وجہ ہے کہ پوری امت نے حضرت حسین کی بات پر کان نہیں دھرے۔
حتیٰ کہ ان لوگوں نے بھی اسے قابل اعتنا نہیں سمجھا جو اپنی دانست میں خلافت کو رسول الله کی نسبی وراثت سمجتے تھے اور اس ورثہ کو ثابت کرنے کے لئے ازواج مطہرات کی موجودگی میں ورثہ کا حق دار بیٹی کو بنا دیتے ہیں، بلکہ داماد کو !
جو اسلامی قانون وراثت میں ہر گز درست نہیں اگرچہ یہ لوگ مختلف زمانوں میں خود تخت نشین رہے اور جائز حق داروں کو بھی محروم رکھا.
امیر یزید کو بھی حضرت حسین کے حادثہ کا بہت دکھ تھا تمام شیعہ راویوں خاص طور پر ابو محنف نے لکھا ہے کہ اس حادثہ کی خبر سن کر رنج و دکھ سے بے تاب ہو گئے اور آنکھوں میں آنسو بھر آئے مگر ذاتی رشتہ داری کے علاوہ حکومت اور پبلک امور پر نقطۂ چینی کی جاتی تھی.
کربلا کے حادثہ کے کچھ عرصۂ بعد حضرت محمّد بن علی (حسین کے بھائی.)ابن الحنیفہ دمشق تشریف لائے تو اظہار تعزیت کیا اور فرمایا
" حسین کی موت پر الله پاک مجھے اور آپ کو صبر عطا کرے بخدا حسین کا نقصان جتنا بھاری تمھارے لئے ہے اتنا ہی میرے لئے بھی ہے اگر ان کا معاملہ میرے سپرد ہوتا تو میں دیکھتا کہ ان کی موت کو اپنی انگلیاں کاٹ کر اور اپنی آنکھیں دے کر ٹال سکتا ہوں تو بلا مبالغہ دونوں ان کے لئے قربان کر دیتا ان کا میرے ساتھ خونی رشتہ تھا جو انہوں نے ٹھکرا دیا۔"
یہ سن کر ابن الحنیفہ نے کہا،
" خدا تمہارا بھلا کرے اور حسین پر رحم فرماۓ اور ان کے گناہ معاف فرماۓ یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ ہمارا نقصان اور محرومی تمہارا نقصان اور محرومی ہے . حسین اب اس دنیا میں نہیں ان کے بارے میں کوئی ایسی بات نہ کریں جو مجھے ناگوار ہو"،
تو یزید نے جواب دیا .
" اے میرے چچیرے بھائی میں حسین کے بارے میں کوئی ایسی بات نہ کہوں گا جس سے تمھارا دل دکھے(النساب الاشراف بلا زری جلد 3)
حسین کے اقدام خروج (خارجی بننے ) پر مخالفین نے تنقید کی اور موافقین نے انہیں معصوم عن الخطاء ہی قرار دیا۔
(بڑے آباء کی اولاد ہمیشہ ، معصوم عن الخطاء رہتی ہے۔ مُفتی)
مگر حسین کے بیٹے علی بن الحسین (زین العابدین ) کا اس بارے میں جو رویہ رہا اس سے بخوبی ثابت ہے کہ ان کے اہل خاندان اس واقعہ کو سیاسی اقدام ہی سمجتے تھے جو مناسب نہ تھا اس کی تفصیل آگے آتی ہے.
مورخین کے بیان سے واضح ہے کہ کوفہ کے قریب پہنچ کر جب حضرت حسین پر حقیقت کھل گئی کہ جو لوگ ان کی وفا داری کا دم بھرتے تھے ان کا پتہ بھی نہ چلا کہ کہاں گئے کہ جو لوگ ہزاروں خطور لکھ کر بھیجتے اور خروج پر آمادہ کرتے تھے کیسے (خارجی بنا کر) دھوکہ دے گئے تو آپ نے جان لیا کہ امیر یزید کی بیعت پر تمام امت متفق ہو چکی ہے اور پوری امت کے فیصلے کے خلاف چلنا اب ممکن نہیں ہے تو آپ نے دمشق جانے کے لئے باگ موڑ دی .
اس کے ساتھ مورخین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ آپ نے تین شرطیں گورنر عراق کے افسروں کے سامنے پیش کیں!
پہلی یہ کہ مدینہ منورہ واپس جانے دیا جاۓ-
اگر یہ منظور نہ ہو تو اسلامی ممالک کی سرحد پر جا کر مجھ سے جہاد کیا جاۓ -
اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو مجھے دمشق بھیج دیا جاۓ تا کہ یزید کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیں -
(اُس وقت اسلامی ملک کہاں تھے ؟ مُفتی)
طبری اور دوسری کتب تاریخ سے لے کر عام تاریخی کتب الخلفاء اور امام ابن حجر عسقلانی کی الاصحابۂ فی تمیز الصحابۂ تک یہی تین شرطیں موجود ہیں.
شیعہ مورخین و مولفین خاص طور پر ناسخ التواریخ وغیرہ نے بھی یہی شرطیں لکھی ہیں
اور امیر عسکر عمر بن سعد بن ابی وقاص کا خط بھی درج کیا ہے جس میں آخری شرط کے یہ الفاظ ہیں .
یعنی اور وہ (حضرت حسین ) امیر المومنین یزید کے پاس چلے جائیں تا کہ اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے دیں اور دیکھیں کے وہ کیا فرماتے ہیں اس میں امت کا فائدہ اور صلاح بھی ہے اور تمھاری خوشنودی بھی. (صفحہ 237 ناسخ التواریخ جلد 6 از کتاب دوئم مطبوعہ ایران)
آج کل کے مورخ یہ تیسری شرط ظاہر کرنے سے گریز کرتے ہیں لیکن پہلی دو شرطیں بیان کر دیتے ہیں اور بے وقوف یہ نہیں سوچتے کہ امیر یزید کی بیعت اور خلافت پر متفق ہونے اور حسین کا اپنے موقف سے رجوع کر لینے کا مسئلہ تو پہلی شرط میں ہی حل ہو جاتا ہے وہ اس طرح کہ ایک آدمی گھر سے نکلا ہے کہ لوگوں نے اسے بتایا اور ہزاروں خط لکھے کہ وہ فاسق و فاجر ہے .حضرت حسین اپنی اور اپنے بچوں کی قربانی اس لئے دینے کو تیار ہیں کہ یزید کی بیعت نہ کریں اور جام شہادت نوش کریں مگر ابھی تک سرکاری فوجوں نے گھیرا نہیں ڈالا ، صرف ایک ہراول دستہ سامنے نظر آیا ہے اور فرما رہے ہیں کہ مجھے واپس جانے دو ؟
.یہ مورخین آخر حسین کی ذات کو کیا بنانا چاہتے ہیں؟
حسین کو تو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ الله پاک نے ان کو جماعت سے خارج ہونے کے شر سے محفوظ فرما لیا اور آپ کو توفیق عطا فرمائی کہ آپ نے جماعت کی حرمت بر قرار رکھنے کا اعلان کر دیا !
اقدام خروج میں آپ نے غلطی کی تھی اور جب خروج پر ابھارنے والوں کی غداری عیاں ہو گئی تو آپ نے وہی کیا جو آپ کے بڑے بھائی حضرت حسن کے منشاء کے مطابق تھا اور جو قران و سنت کی روشی میں واجب بھی تھا.
بلفرض اگر یہ مان لیا جاۓ کہ حضرت حسین نے اپنے موقف سے رجوع نہیں کیا تب بھی دینی نقطۂ نظر سے یزید پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا .
ان سے پہلے کے جو واقعات آپ سن چکے ہیں کہ حضرت علی کی بیعت مکمل نہیں ہوئی تھی اور امت کی بڑی اکثریت ان کی بیعت میں داخل نہیں ہوئی تھی اور حضرت علی کے خلاف جو لوگ کھڑے ہوے تھے وہ بہت بڑی اکثریت میں تھے ان کے قبضے میں ملک تھے اور لاکھوں انسانوں کی حمایت ان کو حاصل تھی،
تو کیا حضرت علی نے اپنے مخالفوں کے خلاف تلوار نہیں اٹھائی تھی ؟
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ہمارے نبی کی زوجہ جو حجت دینی کے تحت میدان میں آئیں تھیں کیا ان کی اونٹنی اور خیمے پر تیر نہیں برسے گئے تھے؟
اور امیر یزید جو متفق علیہ خلیفہ تھے جن کا پرچم پورے عالم اسلام میں لہراتا تھا اور جن کی بیعت میں سینکڑوں صحابہ اکرام داخل تھے وہ اس چیز کے مجاز کیوں نہیں تھے کہ اپنے خلاف خروج کرنے والوں کا مقابلہ کریں؟
محض اس لئے کہ حضرت حسین حضرت علی کے فرزند اور رسول الله کے نواسہ تھے اور اپنی اس حیثت کی بنا پر خلافت کا دعویٰ کرتے تھے
اور باوجود اس کے ان کے خللاف کوئی ظالمانہ کروائی نہیں کی گئی حالانکہ آپ کے مطالبے کی کوئی سند نہ کتاب الله سے ملتی ہے نہ ہی سنت رسول سے.
حضرت حسین کا دعویٰ خلافت کہ چونکہ وہ نواسہ رسول ہیں اس لئے خلافت پر ان کا حق ہے اس کی مثال کتاب الله ، سنت رسول اور خلفا راشدین اور نہ اہل بیعت کے عزائم سے ہی کہیں ملتی ہے ،
یہی وجہ ہے کہ پوری امت نے حضرت حسین کی بات پر کان نہیں دھرے۔
حتیٰ کہ ان لوگوں نے بھی اسے قابل اعتنا نہیں سمجھا جو اپنی دانست میں خلافت کو رسول الله کی نسبی وراثت سمجتے تھے اور اس ورثہ کو ثابت کرنے کے لئے ازواج مطہرات کی موجودگی میں ورثہ کا حق دار بیٹی کو بنا دیتے ہیں، بلکہ داماد کو !
جو اسلامی قانون وراثت میں ہر گز درست نہیں اگرچہ یہ لوگ مختلف زمانوں میں خود تخت نشین رہے اور جائز حق داروں کو بھی محروم رکھا.
امیر یزید کو بھی حضرت حسین کے حادثہ کا بہت دکھ تھا تمام شیعہ راویوں خاص طور پر ابو محنف نے لکھا ہے کہ اس حادثہ کی خبر سن کر رنج و دکھ سے بے تاب ہو گئے اور آنکھوں میں آنسو بھر آئے مگر ذاتی رشتہ داری کے علاوہ حکومت اور پبلک امور پر نقطۂ چینی کی جاتی تھی.
کربلا کے حادثہ کے کچھ عرصۂ بعد حضرت محمّد بن علی (حسین کے بھائی.)ابن الحنیفہ دمشق تشریف لائے تو اظہار تعزیت کیا اور فرمایا
" حسین کی موت پر الله پاک مجھے اور آپ کو صبر عطا کرے بخدا حسین کا نقصان جتنا بھاری تمھارے لئے ہے اتنا ہی میرے لئے بھی ہے اگر ان کا معاملہ میرے سپرد ہوتا تو میں دیکھتا کہ ان کی موت کو اپنی انگلیاں کاٹ کر اور اپنی آنکھیں دے کر ٹال سکتا ہوں تو بلا مبالغہ دونوں ان کے لئے قربان کر دیتا ان کا میرے ساتھ خونی رشتہ تھا جو انہوں نے ٹھکرا دیا۔"
یہ سن کر ابن الحنیفہ نے کہا،
" خدا تمہارا بھلا کرے اور حسین پر رحم فرماۓ اور ان کے گناہ معاف فرماۓ یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ ہمارا نقصان اور محرومی تمہارا نقصان اور محرومی ہے . حسین اب اس دنیا میں نہیں ان کے بارے میں کوئی ایسی بات نہ کریں جو مجھے ناگوار ہو"،
تو یزید نے جواب دیا .
" اے میرے چچیرے بھائی میں حسین کے بارے میں کوئی ایسی بات نہ کہوں گا جس سے تمھارا دل دکھے(النساب الاشراف بلا زری جلد 3)
حسین کے اقدام خروج (خارجی بننے ) پر مخالفین نے تنقید کی اور موافقین نے انہیں معصوم عن الخطاء ہی قرار دیا۔
(بڑے آباء کی اولاد ہمیشہ ، معصوم عن الخطاء رہتی ہے۔ مُفتی)
مگر حسین کے بیٹے علی بن الحسین (زین العابدین ) کا اس بارے میں جو رویہ رہا اس سے بخوبی ثابت ہے کہ ان کے اہل خاندان اس واقعہ کو سیاسی اقدام ہی سمجتے تھے جو مناسب نہ تھا اس کی تفصیل آگے آتی ہے.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
٭٭٭واپس ۔شیطان نامہ ۔ فہرست ٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں