آپریشن بیدار 98
پاکستان کے ایٹمی دھماکوں سے پہلے پاکستانی ہوائی حدود کی مسلسل نگرانی کو آپریشن بیدار کا نام دیا گیا۔ جس میں چاروں جانب نگرانی کے لیے چار سیکٹرز تشکیل دئیے گئے جنہیں اسلام آباد پشاور سرگودھا کوئٹہ اور کراچی سے کنٹرول کیا جا رہا تھا۔
نمبر 6 سکواڈرن جو کہ سی 130 طیاروں سے لیس تھا جس کا کام سامان پہنچانا تھا اس نے اس مشن کے دوران 71 مختلف فلائٹس میں 12،66،615 پاؤنڈ سامان چاغی پہنچایا۔
نمبر 7 ٹیکٹیکل اٹیک سکواڈرن جو کہ میراج طیاروں سے لیس تھا اسے مسرور ائیر بیس کراچی سے شہباز ائیر بیس جیکب آباد بلوچستان منتقل کر دیا گیا تاکہ وہ چاغی کے ایریا میں چوبیس گھنٹے ائیر ڈیفنس ڈیوٹی دے سکے۔
نمبر 9 ملٹی رول سکواڈرن جو کہ ایف 16 طیاروں سے لیس تھا اسے سرگودھا سے ہٹا کر سمنگلی ائیر بیس کوئٹہ بھیج دیا گیا تاکہ بلوچستان کے ایریا کو کوور کیا جا سکے اور رات کو ان علاقوں میں پہرہ دیا جا سکے۔
نمبر 11 سکواڈرن جو کہ ایف 16 طیاروں سے لیس تھا اسے 24 مئی کو سرگودھا سے ہٹا کر جیکب آباد بلوچستان بھیج دیا گیا۔
نمبر 14 سکواڈرن کے ایف 7 طیاروں کو چکلالہ ائیر بیس بھیج کر کہوٹہ کے علاقے کی حفاظت کا مشن دیا گیا۔
نمبر 17 سکواڈرن کے ایف 6 طیاروں کو پاکستان کے بارڈرز کے ساتھ ساتھ ہوائی پہرے داری اور گشت لگانے کی ذمہ داری دی گئی۔
اسی کے ساتھ پاکستان ائیرفورس کے پاس موجود تمام ریڈار یونٹس کو اس طرح پھیلایا گیا کہ ایٹمی تنصیبات اور ایٹمی دھماکوں کی ٹیسٹ سائٹ کے آس پاس ایک مکمل گھیرا بن گیا۔
اس سارے مشن کے دوران دالبندین ائیر پورٹ نے بہت شہرت حاصل کی جو کہ چاغی سائٹ سے صرف 30 کلو میٹر دور تھا اور تمام سامان اسی چھوٹے سے ائیرپورٹ پر اتارا جاتا تھا
پاکستان کا ایٹم بم مختلف حصوں کی شکل میں دو سی 130 طیاروں کے ذریعے دالبندین پہنچا تھا۔ ان سی 130 طیاروں کو پاکستانی حدود کے اندر بھی پاکستان کے ایف 16 طیاروں نے اپنے حفاظتی حصار میں لے رکھا تھا جو فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائیلوں سے لیس تھے جبکہ اس دوران پاکستان انڈیا بارڈر کے ساتھ ساتھ ایف 7 طیارے میزائیلوں سے لیس چوبیس گھنٹے گشت لگاتے رہے تھے تاکہ کوئی بھی بیرونی طیارہ ہماری حدود میں داخل نہ ہونے پائے۔
یہ مشن اس قدر سیکرٹ تھا کہ یہ تک سوچا گیا کہ اگر ایٹم بم لے جانے والا طیارہ اغوا ہو گیا تو کیا ہو گا۔ جس پر ایف 16 کے پائلٹوں کو ایک خفیہ آرڈر جاری کیا گیا کہ اگر ایٹم بم والا سی 130 ہائی جیک ہو جائے یا پاکستانی حدود سے باہر جانے کی کوشش کرے تو بنا کچھ سوچے اسے ہوا میں ہی تباہ کر دیں۔ اور اس دوران ایف 16 طیاروں کے ریڈیو آف کروا دئیے گئے تاکہ مشن کے دوران انہیں کوئی بھی کسی بھی قسم کا حکم نہ دے سکے۔ پائلٹوں کو یہ بھی کہہ دیا گیا تھا کہ ان کے آرڈرز فائنل ہیں۔ اگر مشن کے دوران انہیں ائیر چیف بھی آرڈرز بدلنے کا حکم دے تو اسے انکار کر دیں۔
جب 30 مئی 1998 کو پاکستان کے چھٹے ایٹمی دھماکے سے زمین کانپی تو آپریشن بیدار 98 بھی کامیابی کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا۔
اس آپریشن کو کامیاب بنانے کے لیئے پاک فضائیہ کے شاہینوں نے اہم کردار ادا کیا جہاں ایک طرف انہوں نے سارا سازوسامان سائیٹ تک پہنچایا وہیں سرحدوں کی نگرانی میں بھی ہمہ وقت مصروف رہے۔
ایسے تمام لوگوں کو آج مل کر سلام کرتے ہیں جن کی بدولت آج ہمارا دفاع ناقابلِ تسخیر ہے۔۔۔
اللّه پاک ان تمام گمنام سپاہیوں کو خیر و عافیت دیں جنہوں نے امت مسلمہ کی آخری چٹان مملکت خداداد پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بنانے میں اپنا حصہ ڈالا بیشک وہ دنیا کے خوش نصیب ترین لوگ ہیں-
پاکستان کے ایٹمی دھماکوں سے پہلے پاکستانی ہوائی حدود کی مسلسل نگرانی کو آپریشن بیدار کا نام دیا گیا۔ جس میں چاروں جانب نگرانی کے لیے چار سیکٹرز تشکیل دئیے گئے جنہیں اسلام آباد پشاور سرگودھا کوئٹہ اور کراچی سے کنٹرول کیا جا رہا تھا۔
نمبر 6 سکواڈرن جو کہ سی 130 طیاروں سے لیس تھا جس کا کام سامان پہنچانا تھا اس نے اس مشن کے دوران 71 مختلف فلائٹس میں 12،66،615 پاؤنڈ سامان چاغی پہنچایا۔
نمبر 7 ٹیکٹیکل اٹیک سکواڈرن جو کہ میراج طیاروں سے لیس تھا اسے مسرور ائیر بیس کراچی سے شہباز ائیر بیس جیکب آباد بلوچستان منتقل کر دیا گیا تاکہ وہ چاغی کے ایریا میں چوبیس گھنٹے ائیر ڈیفنس ڈیوٹی دے سکے۔
نمبر 9 ملٹی رول سکواڈرن جو کہ ایف 16 طیاروں سے لیس تھا اسے سرگودھا سے ہٹا کر سمنگلی ائیر بیس کوئٹہ بھیج دیا گیا تاکہ بلوچستان کے ایریا کو کوور کیا جا سکے اور رات کو ان علاقوں میں پہرہ دیا جا سکے۔
نمبر 11 سکواڈرن جو کہ ایف 16 طیاروں سے لیس تھا اسے 24 مئی کو سرگودھا سے ہٹا کر جیکب آباد بلوچستان بھیج دیا گیا۔
نمبر 14 سکواڈرن کے ایف 7 طیاروں کو چکلالہ ائیر بیس بھیج کر کہوٹہ کے علاقے کی حفاظت کا مشن دیا گیا۔
نمبر 17 سکواڈرن کے ایف 6 طیاروں کو پاکستان کے بارڈرز کے ساتھ ساتھ ہوائی پہرے داری اور گشت لگانے کی ذمہ داری دی گئی۔
اسی کے ساتھ پاکستان ائیرفورس کے پاس موجود تمام ریڈار یونٹس کو اس طرح پھیلایا گیا کہ ایٹمی تنصیبات اور ایٹمی دھماکوں کی ٹیسٹ سائٹ کے آس پاس ایک مکمل گھیرا بن گیا۔
اس سارے مشن کے دوران دالبندین ائیر پورٹ نے بہت شہرت حاصل کی جو کہ چاغی سائٹ سے صرف 30 کلو میٹر دور تھا اور تمام سامان اسی چھوٹے سے ائیرپورٹ پر اتارا جاتا تھا
پاکستان کا ایٹم بم مختلف حصوں کی شکل میں دو سی 130 طیاروں کے ذریعے دالبندین پہنچا تھا۔ ان سی 130 طیاروں کو پاکستانی حدود کے اندر بھی پاکستان کے ایف 16 طیاروں نے اپنے حفاظتی حصار میں لے رکھا تھا جو فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائیلوں سے لیس تھے جبکہ اس دوران پاکستان انڈیا بارڈر کے ساتھ ساتھ ایف 7 طیارے میزائیلوں سے لیس چوبیس گھنٹے گشت لگاتے رہے تھے تاکہ کوئی بھی بیرونی طیارہ ہماری حدود میں داخل نہ ہونے پائے۔
یہ مشن اس قدر سیکرٹ تھا کہ یہ تک سوچا گیا کہ اگر ایٹم بم لے جانے والا طیارہ اغوا ہو گیا تو کیا ہو گا۔ جس پر ایف 16 کے پائلٹوں کو ایک خفیہ آرڈر جاری کیا گیا کہ اگر ایٹم بم والا سی 130 ہائی جیک ہو جائے یا پاکستانی حدود سے باہر جانے کی کوشش کرے تو بنا کچھ سوچے اسے ہوا میں ہی تباہ کر دیں۔ اور اس دوران ایف 16 طیاروں کے ریڈیو آف کروا دئیے گئے تاکہ مشن کے دوران انہیں کوئی بھی کسی بھی قسم کا حکم نہ دے سکے۔ پائلٹوں کو یہ بھی کہہ دیا گیا تھا کہ ان کے آرڈرز فائنل ہیں۔ اگر مشن کے دوران انہیں ائیر چیف بھی آرڈرز بدلنے کا حکم دے تو اسے انکار کر دیں۔
جب 30 مئی 1998 کو پاکستان کے چھٹے ایٹمی دھماکے سے زمین کانپی تو آپریشن بیدار 98 بھی کامیابی کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا۔
اس آپریشن کو کامیاب بنانے کے لیئے پاک فضائیہ کے شاہینوں نے اہم کردار ادا کیا جہاں ایک طرف انہوں نے سارا سازوسامان سائیٹ تک پہنچایا وہیں سرحدوں کی نگرانی میں بھی ہمہ وقت مصروف رہے۔
ایسے تمام لوگوں کو آج مل کر سلام کرتے ہیں جن کی بدولت آج ہمارا دفاع ناقابلِ تسخیر ہے۔۔۔
اللّه پاک ان تمام گمنام سپاہیوں کو خیر و عافیت دیں جنہوں نے امت مسلمہ کی آخری چٹان مملکت خداداد پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بنانے میں اپنا حصہ ڈالا بیشک وہ دنیا کے خوش نصیب ترین لوگ ہیں-
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں