وہ روزانہ آتی تھی میرے کلینک پہ سب سے آخری سیٹ پر بیٹھ جاتی۔۔۔۔۔
اور اپنی باری کا انتظار کرتی رہتی۔۔۔۔۔
اپنے سے بعد میں آنے والوں کو بھی پہلے چیک اپ کرانے کے لیے اپنی جگہ دے دیتی اور کھسکتی ہوئی وہیں آخری سیٹ پر پہنچ جاتی عورتیں اپنی بیماریاں بتاتی تو وہ غور سے سُن رہی ہوتی، اور ان سے سوال جواب بھی کرتی۔۔۔۔
عمر کوئی پینتیس چالیس کے لگ بھگ ہو گی۔۔۔
کپڑے قیمتی نہیں مگر صاف ستھرے ہوتے تھے۔
میں ملک کا مشہور ڈاکٹر رحمان شاہ ہوں۔۔۔۔۔۔دن میں سرکاری اسپتال میں ہوتا ہوں، اور شام میں اپنے پرائیویٹ کلینک پر ۔۔۔۔رات گئے تک بیٹھتا ہوں، میری پریکٹس خوب چلتی ہے ۔۔۔ لوگ کہتے ہیں ،،اللہ نے میرے ہاتھ میں شفا رکھی ہے ۔ میری فیس عام آدمی کی پہنچ سے دور ہے-
میرا گھر میں انتظار کرنے والا کوئی نہیں ہے.اس لئے میرا زیادہ وقت کلینک پر ہی گزرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
بیوی دو سال پہلے فوت ہو چکی ہے۔۔۔۔۔
جبکہ بیٹیوں کے فرائض میں ادا کر چکا ہوں،دونوں اپنے گھروں میں آباد ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں تو وہ عورت ، بلا ناغہ تقریباً ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ کلینک پر بیٹھتی اور پھر چلی جاتی، بغیر چیک اپ کراۓ۔۔۔۔۔
اور دوا لیے آج میں نے ارادہ کیا کہ اُسے پوچھوں گا کہ وہ کیا کرنے آتی ہے؟؟؟؟
" بی بی۔۔۔آپ آئیں" میں نے اپنی مریضہ کو دوسری طرف بٹھا کر اُسے اشارہ کیا۔۔۔۔
وہ ہونق سی میری طرف دیکھنے لگی۔۔۔۔۔
"جی! میں آپ کو ہی بُلا رہا ہوں۔۔۔۔آئیں اب آپ کی باری ہے"
وہ اُٹھی اور تقریباً گھسٹتے ہوۓ قدموں سے میرے پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔۔۔۔
"بیٹھیں"!
وہ نہ چاہتے ہوۓ بیٹھ گئی
"جی بتائیں ۔۔۔کیا مسئلہ ہے؟"
اس نے گلا صاف کیا اور نپے تلے لہجے میں بولی،
" ڈاکٹر جی، آپ بہت بڑے ڈاکٹر ہیں۔۔۔۔۔میں غریب عورت آپکی فیس نہیں دے سکتی، اور میں یہاں اپنا علاج کرانے نہیں آئی۔ "
"تو پھر یہاں کیا کرنے آتی ہیں؟ " میں نے پوچھا
" ڈاکٹر صاحب میں پیراں گوٹھ میں رہتی ہوں ۔۔۔۔۔۔وہاں کوئی ڈاکٹر نہیں ہے۔۔۔۔ ایک حکیم تھا ۔۔۔وہ بھی مر گیا۔۔۔۔۔پچھلے دنوں بستی میں ہیضہ پھوٹ پڑا۔۔۔۔ کئی ماؤں کی گود اُجڑ گئی۔۔۔۔ کیونکہ ہمارے گوٹھ میں کوئی ڈاکٹر نہیں ، میری شانو بھی مر گئی، اسی بیماری کی وجہ سے ۔۔۔۔۔۔"
وہ رونے لگی۔۔۔۔۔
مجھے لگا وہ مجھے بستی کے لوگوں کے علاج کے لیے اصرار کرے گی ،مگر میرے پاس نہ تو وقت تھا اور نہ ہی جذبہ۔۔۔
میں کیسے اپنا چلتا ہوا کلینک چھوڑ کے اُسکے ساتھ اسکی بستی کے لوگوں کا علاج کرنے چلا جاتا؟؟؟؟
اسی خدشے کے پیش نظر میں نے پہلے ہی صاف جواب دینا مناسب سمجھا۔۔۔
" دیکھو بی بی ! اس میں میرا کوئی قصور نہیں اگر وہاں کوئی ڈاکٹر نہیں یہ میری نہیں حکومت کی ذمہ داری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔اور میں اس سلسلے میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا،براۓ مہربانی میرا وقت ضائع نہ کریں۔۔۔۔"
میرا غرور اور تکبر میرے لہجے سے چھلک رہا تھا، اس جہانِ کے فانی ہونے کا ادراک تمام مخلو قات میں سے صرف نوحِ انسان کو ہے۔
مگر پھر بھی اسکی بھوک، بے قابو ہے.
چاہے وہ دولت کی ہو یا کسی اور ۔۔۔۔۔۔چیز کی،
میرے مریض میرا انتظار کر رہے تھے ،
میں نے جان چھڑانے کی غرض سے ذرا غصیلے لہجے میں کہا،
" بی بی !جب کوئی بیماری نہیں ۔۔۔
کوئی کام نہیں تو یہاں کیا کرنے آتی ہو؟
میرا کتنا ٹائم ضائع ہو گیا تمہاری وجہ سے؟"
اس نے چند ثانیے میرے چہرے کو دیکھا، اسکے چہرے پہ حیرانی صاف پڑھی جا رہی تھی، شائد اسے مجھ جیسے اعلٰی درجے کے ڈاکٹر سے ایسے گھٹیا پن کی اُمید نہیں تھی، وہ گویا ہوئی،
" ڈاکٹر جی۔۔۔۔آپکے پاس جو مریض آتے ہیں میں اُن سے باتوں باتوں میں اُن کی بیماری کے متعلق پوچھتی ہوں۔۔۔۔ جو دوائی آپ ان کو تجویز کرتے ہیں اُسکا نام بھی پوچھ لیتی ہوں۔۔۔۔۔۔ اسطرح روز ایک دو مریض سے میری بات ہو جاتی ہے۔
گھر جا کے میں بیماری اور دوائی کا نام کاپی میں لکھ لیتی ہوں ۔۔۔۔۔پوری پانچ جماعتیں پاس ہوں ۔۔۔۔۔۔ پھر اگر بستی میں کوئی بیمار ہو جاتا ہے تو میں بیماری کے حساب سے آپکی بتائی ہوئی دوائی انہیں لا دیتی ہوں ۔۔۔۔۔میری شانو تو مر گئی مگر میں کسی اور کی شانو کو مرنے نہیں دوں گی"
یہ کہہ کر وہ تو کلینک سے چلی گئی۔۔۔۔
مگر میری اعلٰی تعلیم اسکی پانچ جماعتوں کے سامنے ہیچ ہو گئی تھی۔۔۔۔
میری بھوک مر گئی !
اور اپنی باری کا انتظار کرتی رہتی۔۔۔۔۔
اپنے سے بعد میں آنے والوں کو بھی پہلے چیک اپ کرانے کے لیے اپنی جگہ دے دیتی اور کھسکتی ہوئی وہیں آخری سیٹ پر پہنچ جاتی عورتیں اپنی بیماریاں بتاتی تو وہ غور سے سُن رہی ہوتی، اور ان سے سوال جواب بھی کرتی۔۔۔۔
عمر کوئی پینتیس چالیس کے لگ بھگ ہو گی۔۔۔
کپڑے قیمتی نہیں مگر صاف ستھرے ہوتے تھے۔
میں ملک کا مشہور ڈاکٹر رحمان شاہ ہوں۔۔۔۔۔۔دن میں سرکاری اسپتال میں ہوتا ہوں، اور شام میں اپنے پرائیویٹ کلینک پر ۔۔۔۔رات گئے تک بیٹھتا ہوں، میری پریکٹس خوب چلتی ہے ۔۔۔ لوگ کہتے ہیں ،،اللہ نے میرے ہاتھ میں شفا رکھی ہے ۔ میری فیس عام آدمی کی پہنچ سے دور ہے-
میرا گھر میں انتظار کرنے والا کوئی نہیں ہے.اس لئے میرا زیادہ وقت کلینک پر ہی گزرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
بیوی دو سال پہلے فوت ہو چکی ہے۔۔۔۔۔
جبکہ بیٹیوں کے فرائض میں ادا کر چکا ہوں،دونوں اپنے گھروں میں آباد ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں تو وہ عورت ، بلا ناغہ تقریباً ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ کلینک پر بیٹھتی اور پھر چلی جاتی، بغیر چیک اپ کراۓ۔۔۔۔۔
اور دوا لیے آج میں نے ارادہ کیا کہ اُسے پوچھوں گا کہ وہ کیا کرنے آتی ہے؟؟؟؟
" بی بی۔۔۔آپ آئیں" میں نے اپنی مریضہ کو دوسری طرف بٹھا کر اُسے اشارہ کیا۔۔۔۔
وہ ہونق سی میری طرف دیکھنے لگی۔۔۔۔۔
"جی! میں آپ کو ہی بُلا رہا ہوں۔۔۔۔آئیں اب آپ کی باری ہے"
وہ اُٹھی اور تقریباً گھسٹتے ہوۓ قدموں سے میرے پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔۔۔۔
"بیٹھیں"!
وہ نہ چاہتے ہوۓ بیٹھ گئی
"جی بتائیں ۔۔۔کیا مسئلہ ہے؟"
اس نے گلا صاف کیا اور نپے تلے لہجے میں بولی،
" ڈاکٹر جی، آپ بہت بڑے ڈاکٹر ہیں۔۔۔۔۔میں غریب عورت آپکی فیس نہیں دے سکتی، اور میں یہاں اپنا علاج کرانے نہیں آئی۔ "
"تو پھر یہاں کیا کرنے آتی ہیں؟ " میں نے پوچھا
" ڈاکٹر صاحب میں پیراں گوٹھ میں رہتی ہوں ۔۔۔۔۔۔وہاں کوئی ڈاکٹر نہیں ہے۔۔۔۔ ایک حکیم تھا ۔۔۔وہ بھی مر گیا۔۔۔۔۔پچھلے دنوں بستی میں ہیضہ پھوٹ پڑا۔۔۔۔ کئی ماؤں کی گود اُجڑ گئی۔۔۔۔ کیونکہ ہمارے گوٹھ میں کوئی ڈاکٹر نہیں ، میری شانو بھی مر گئی، اسی بیماری کی وجہ سے ۔۔۔۔۔۔"
وہ رونے لگی۔۔۔۔۔
مجھے لگا وہ مجھے بستی کے لوگوں کے علاج کے لیے اصرار کرے گی ،مگر میرے پاس نہ تو وقت تھا اور نہ ہی جذبہ۔۔۔
میں کیسے اپنا چلتا ہوا کلینک چھوڑ کے اُسکے ساتھ اسکی بستی کے لوگوں کا علاج کرنے چلا جاتا؟؟؟؟
اسی خدشے کے پیش نظر میں نے پہلے ہی صاف جواب دینا مناسب سمجھا۔۔۔
" دیکھو بی بی ! اس میں میرا کوئی قصور نہیں اگر وہاں کوئی ڈاکٹر نہیں یہ میری نہیں حکومت کی ذمہ داری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔اور میں اس سلسلے میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا،براۓ مہربانی میرا وقت ضائع نہ کریں۔۔۔۔"
میرا غرور اور تکبر میرے لہجے سے چھلک رہا تھا، اس جہانِ کے فانی ہونے کا ادراک تمام مخلو قات میں سے صرف نوحِ انسان کو ہے۔
مگر پھر بھی اسکی بھوک، بے قابو ہے.
چاہے وہ دولت کی ہو یا کسی اور ۔۔۔۔۔۔چیز کی،
میرے مریض میرا انتظار کر رہے تھے ،
میں نے جان چھڑانے کی غرض سے ذرا غصیلے لہجے میں کہا،
" بی بی !جب کوئی بیماری نہیں ۔۔۔
کوئی کام نہیں تو یہاں کیا کرنے آتی ہو؟
میرا کتنا ٹائم ضائع ہو گیا تمہاری وجہ سے؟"
اس نے چند ثانیے میرے چہرے کو دیکھا، اسکے چہرے پہ حیرانی صاف پڑھی جا رہی تھی، شائد اسے مجھ جیسے اعلٰی درجے کے ڈاکٹر سے ایسے گھٹیا پن کی اُمید نہیں تھی، وہ گویا ہوئی،
" ڈاکٹر جی۔۔۔۔آپکے پاس جو مریض آتے ہیں میں اُن سے باتوں باتوں میں اُن کی بیماری کے متعلق پوچھتی ہوں۔۔۔۔ جو دوائی آپ ان کو تجویز کرتے ہیں اُسکا نام بھی پوچھ لیتی ہوں۔۔۔۔۔۔ اسطرح روز ایک دو مریض سے میری بات ہو جاتی ہے۔
گھر جا کے میں بیماری اور دوائی کا نام کاپی میں لکھ لیتی ہوں ۔۔۔۔۔پوری پانچ جماعتیں پاس ہوں ۔۔۔۔۔۔ پھر اگر بستی میں کوئی بیمار ہو جاتا ہے تو میں بیماری کے حساب سے آپکی بتائی ہوئی دوائی انہیں لا دیتی ہوں ۔۔۔۔۔میری شانو تو مر گئی مگر میں کسی اور کی شانو کو مرنے نہیں دوں گی"
یہ کہہ کر وہ تو کلینک سے چلی گئی۔۔۔۔
مگر میری اعلٰی تعلیم اسکی پانچ جماعتوں کے سامنے ہیچ ہو گئی تھی۔۔۔۔
میری بھوک مر گئی !
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں