حسین ابنِ علی کا خروج۔
حضرت حسین کا اقدام اور صحابہ کی نصحتیں.
حضرت حسین کا اقدام اور صحابہ کی نصحتیں.
طبری:
رسول الله کے ارشادات اور احکام شریعت کی تصریحات سے صاف ظاہر ہے کہ امیر یزید کے خلاف حضرت حسین کا اقدام اور خروج کا کوئی جواز نہ تھا جیسا کہ خود آپ نے بعد میں رجوح کر کے ثابت کر دیا . صحابہ اکرام جو ان سے ملتے تھے طرح طرح سے سمجاتے رہے اور اس غلط اقدام سے باز رکھنے کی کوشش کی . حضرت عبدللہ بن عمر نے دونوں کو سمجھایا .(حضرت حسین اور ابن زبیر کو)
تم دونوں الله سے ڈرو اور مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ مت ڈالو.(طبری جلد 2 صفحہ 191 )
حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی:حضرت ابن عمر نے یہ نصیحت ان دونوں افراد کو اس وقت کی جب سے بیعت سے گریز کر کے مدینہ سے مکہ آ رہے تھے ابن زبیر نے تو مکہ آ کر اپنے کو بیت الله میں پناہ گزین کر لیا اور حضرت حسین مکہ آ کر حضرت عباس بن عبد المطلب کے مکان میں اترے (جلد 8 صفحہ 162 البدایه و النہایه)
حضرت حسین کے چچا عبدللہ بن عباس اس وقت مکہ میں موجود تھے ان ہی پاس مقیم ہوئے ، امیر یزید کو جب اطلاع ہوئی کہ عراق کے لوگ حضرت حسین کو خلافت کے حصول پر آمادہ کر رہے ہیں تو انہوں نے حضرت ابن عباس کو جو اس وقت خاندان بنو ہاشم کے بزرگ اور سردار تھے تحریر بھیجی کہ حسین کو تفرقہ ڈالنے کی کروائی سے روکیں . (جلد 8 صفحہ 164 البدایه و النہایه)
حضرت ابن عباس نے جواب میں تحریر کیا کہ
مجھے امید ہے کہ حسین ایسا کوئی اقدام نہ کریں گے جو برائی کا موجب ہو اور میں انہیں اس بات کی نصیحت کرنے میں کوتاہی نہ کروں گا جس سے الفت قائم رہے- (جلد 8 صفحہ 164 البدایه و النہایه)
دیگر مورخین کے علاوہ ناسخ التواریخ کے غالی مولف مرزا محمّد تقی سپہر کاشانی نے جو مکتوب امیر یزید سے منسوب کیا ہے (ذکر نگارش نامہ یزید بعبد الله ابن عباس در امر حسین بن علی ) اس میں بھی حضرت حسین کے مکہ سے مدینہ چلے جانے کا ذکر کرتے ہوے وہی عبارت لکھی ہے جو علامہ ابن کثیر وغیرہ نے لکھی ہے.کہ
حسین کے بارے میں میں آپ حضرات سے یہ شکوہ کرتا ہوں کہ مجھ کو یہ اطلاعات پہنچی ہیں کہ عراقیوں میں سے ان کے طرف داروں سے خط و کتابت کا سلسلہ جاری ہے اور وہ ان کو حصول خلافت پر آمادہ کر رہے ہیں اور حسین بھی ان کو بشارت دے رہے ہیں- آپ جانتے ہیں کہ آپ اور ہم میں صلہ رحم اور رشتہ کی عظیم حرمت ہے اور حسین اس حرمت کو توڑ رہے ہیں اور آپ اس خاندان کے بزرگ اور سردار ہیں آپ ان سے مل کر ان کو اس امت میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش سے باز رکھیے.( جلد دوئم از کتاب دوئم صفحہ 71 )
ابن عباس کا جواب بھی ان الفاظ میں درج ہے.
تم نے جو چاہا میں اسے پورا کرنے کے لئے حسین سے گفتگو کروں گا اور انہیں نصیحت کروں گا جس سے اختلاف رفح ہو جائے گا اور امت کے لوگوں کا خون نہ بہے گا .(از کتاب دوئم جلد دوئم صفحہ 172)
( کیا ابنِ عباس کو پورا یقین تھا کہ حسین ابنَ علی کے رویہءِ بغاوت سے خون بہنے کا امکان ہے ؟ یا تاریخ دانو نے اپنی طرف سے اضافہ کیا ہے ۔ مُفتی )
عراقی سبائیوں کی ریشہ دوانیاں جو انہوں نے حضرت حسین کو حصول خلافت پر آمادہ کرنے کے لئے شروع کیں اور یہ خطوط جو شیعہ مورخین نے درج کیے اس بات کے ثبوت کے لئے کافی ہیں کہ حضرت حسین کا اقدام سیاسی اقتدار کے حصول کے لئے تھا.حضرت حسین کے بزرگوں ، عزیزوں ، اور ہمدردوں کے علاوہ جو صحابہ اور تابعین کے زمرہ میں شامل تھے اور خود امیر یزید نے حتی الامکان کوشش کی کہ حضرت حسین کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس کے نتیجھ میں اتحاد کی بجاۓ امت میں تفرقہ پڑے.صحابی رسول حضرت ابو سعید خذری نے فرمایا کہ
حسین نے مجھ کو خروج کرنے کے لئے زور دیا تو میں نے کہا کہ خدا سے ڈرو اور اپنے گھر بیٹھے رہو اور اپنے خلیفہ کے خلاف خروج نہ کرو.(صفحہ 163 جلد 8 البدایه و النہایه)
( کیا خروج کا مطلب خارجی بنانا نہیں ہے ؟ مُفتی )
صحابی رسول حضرت ابو واقد نے ان کو راستے میں جا کر روکا اور فرمایا کہ.
میں نے ان کو الله کا واسطہ دیا کہ خروج نہ کریں کیونکہ جو بلا وجہ خروج کرتا ہے وہ اپنی جان کھوتا ہے(صفحہ 163 جلد 8 البدایه و النہایه )
صحابی رسول حضرت جابر بن عبدللہ فرماتے ہیں کہ
میں نے حسین سے گفتگو کی اور کہا کہ خدا سے ڈرو اور آدمیوں کو آدمیوں سے نہ مرواؤ (صفحہ 163 جلد 8 البدایه و النہایه)
خود حضرت حسین کے سوتیلے بھائی محمّد بن علی (ابن الخنیفہ) اور ان کے بہنوئی حضرت عبدللہ بن جعفر بن ابی طالب نے اس اقدامِ خروج کی شدید مخالفت کی .
یمن کا ایک سرکاری قافلہ امیر المومنین کی خدمت میں یمن کا محاصل لے کر جا رھا تھا حضرت حسین نے اسے گرفتار کر لیا ۔حضرت ابن جعفر نے گورنر مکہ سے تحریر لکھوا کر اپنے دو بیٹوں کو روانہ کیا کہ ۔ آگے نہ بڑھیں اور واپس لوٹ آئیں گورنر مکہ نے اپنے بھائی کو بھی مزید اطمینان دلانے کی غرض سے ساتھ بھیجا تھا اور یقین دلایا تھا کہ ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی مگر حضرت حسین نے واپسی سےانکار کر دیا ادھر سے اصرار اور ادھر سے انکار ھوتا رہا اور حضرت حسین آگے بڑھ گئے ان لوگوں نے بھی بلآخر یہی کہا جو صحابہ اکرام اور ان کے دوسرے عزیز اور ھمدرد ان سے کہتے رہے
اے حسین کیا تم خدا سے نھیں ڈرتے تم جماعت سے خارج ھو رھے ھو اور امت میں تفرقہ ڈال رھے ھو حالانکہ سب ایک بات پر متفق ھو چکے ھیں۔ (جلد 8 صفھ 166 البدایہ والنھایہ)
بیان کیا جاتا ھے کہ حضرت حسین نے جواب دیا کہ میرے لیے میرا عمل اور تمارے لیے تمارا تم میرے عمل سے بری اور میں تمارے عمل سے۔ (ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء ۔ و البدایہ۔)
رسول الله کے ارشادات اور احکام شریعت کی تصریحات سے صاف ظاہر ہے کہ امیر یزید کے خلاف حضرت حسین کا اقدام اور خروج کا کوئی جواز نہ تھا جیسا کہ خود آپ نے بعد میں رجوح کر کے ثابت کر دیا . صحابہ اکرام جو ان سے ملتے تھے طرح طرح سے سمجاتے رہے اور اس غلط اقدام سے باز رکھنے کی کوشش کی . حضرت عبدللہ بن عمر نے دونوں کو سمجھایا .(حضرت حسین اور ابن زبیر کو)
تم دونوں الله سے ڈرو اور مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ مت ڈالو.(طبری جلد 2 صفحہ 191 )
حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی:حضرت ابن عمر نے یہ نصیحت ان دونوں افراد کو اس وقت کی جب سے بیعت سے گریز کر کے مدینہ سے مکہ آ رہے تھے ابن زبیر نے تو مکہ آ کر اپنے کو بیت الله میں پناہ گزین کر لیا اور حضرت حسین مکہ آ کر حضرت عباس بن عبد المطلب کے مکان میں اترے (جلد 8 صفحہ 162 البدایه و النہایه)
حضرت حسین کے چچا عبدللہ بن عباس اس وقت مکہ میں موجود تھے ان ہی پاس مقیم ہوئے ، امیر یزید کو جب اطلاع ہوئی کہ عراق کے لوگ حضرت حسین کو خلافت کے حصول پر آمادہ کر رہے ہیں تو انہوں نے حضرت ابن عباس کو جو اس وقت خاندان بنو ہاشم کے بزرگ اور سردار تھے تحریر بھیجی کہ حسین کو تفرقہ ڈالنے کی کروائی سے روکیں . (جلد 8 صفحہ 164 البدایه و النہایه)
حضرت ابن عباس نے جواب میں تحریر کیا کہ
مجھے امید ہے کہ حسین ایسا کوئی اقدام نہ کریں گے جو برائی کا موجب ہو اور میں انہیں اس بات کی نصیحت کرنے میں کوتاہی نہ کروں گا جس سے الفت قائم رہے- (جلد 8 صفحہ 164 البدایه و النہایه)
دیگر مورخین کے علاوہ ناسخ التواریخ کے غالی مولف مرزا محمّد تقی سپہر کاشانی نے جو مکتوب امیر یزید سے منسوب کیا ہے (ذکر نگارش نامہ یزید بعبد الله ابن عباس در امر حسین بن علی ) اس میں بھی حضرت حسین کے مکہ سے مدینہ چلے جانے کا ذکر کرتے ہوے وہی عبارت لکھی ہے جو علامہ ابن کثیر وغیرہ نے لکھی ہے.کہ
حسین کے بارے میں میں آپ حضرات سے یہ شکوہ کرتا ہوں کہ مجھ کو یہ اطلاعات پہنچی ہیں کہ عراقیوں میں سے ان کے طرف داروں سے خط و کتابت کا سلسلہ جاری ہے اور وہ ان کو حصول خلافت پر آمادہ کر رہے ہیں اور حسین بھی ان کو بشارت دے رہے ہیں- آپ جانتے ہیں کہ آپ اور ہم میں صلہ رحم اور رشتہ کی عظیم حرمت ہے اور حسین اس حرمت کو توڑ رہے ہیں اور آپ اس خاندان کے بزرگ اور سردار ہیں آپ ان سے مل کر ان کو اس امت میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش سے باز رکھیے.( جلد دوئم از کتاب دوئم صفحہ 71 )
ابن عباس کا جواب بھی ان الفاظ میں درج ہے.
تم نے جو چاہا میں اسے پورا کرنے کے لئے حسین سے گفتگو کروں گا اور انہیں نصیحت کروں گا جس سے اختلاف رفح ہو جائے گا اور امت کے لوگوں کا خون نہ بہے گا .(از کتاب دوئم جلد دوئم صفحہ 172)
( کیا ابنِ عباس کو پورا یقین تھا کہ حسین ابنَ علی کے رویہءِ بغاوت سے خون بہنے کا امکان ہے ؟ یا تاریخ دانو نے اپنی طرف سے اضافہ کیا ہے ۔ مُفتی )
عراقی سبائیوں کی ریشہ دوانیاں جو انہوں نے حضرت حسین کو حصول خلافت پر آمادہ کرنے کے لئے شروع کیں اور یہ خطوط جو شیعہ مورخین نے درج کیے اس بات کے ثبوت کے لئے کافی ہیں کہ حضرت حسین کا اقدام سیاسی اقتدار کے حصول کے لئے تھا.حضرت حسین کے بزرگوں ، عزیزوں ، اور ہمدردوں کے علاوہ جو صحابہ اور تابعین کے زمرہ میں شامل تھے اور خود امیر یزید نے حتی الامکان کوشش کی کہ حضرت حسین کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس کے نتیجھ میں اتحاد کی بجاۓ امت میں تفرقہ پڑے.صحابی رسول حضرت ابو سعید خذری نے فرمایا کہ
حسین نے مجھ کو خروج کرنے کے لئے زور دیا تو میں نے کہا کہ خدا سے ڈرو اور اپنے گھر بیٹھے رہو اور اپنے خلیفہ کے خلاف خروج نہ کرو.(صفحہ 163 جلد 8 البدایه و النہایه)
( کیا خروج کا مطلب خارجی بنانا نہیں ہے ؟ مُفتی )
صحابی رسول حضرت ابو واقد نے ان کو راستے میں جا کر روکا اور فرمایا کہ.
میں نے ان کو الله کا واسطہ دیا کہ خروج نہ کریں کیونکہ جو بلا وجہ خروج کرتا ہے وہ اپنی جان کھوتا ہے(صفحہ 163 جلد 8 البدایه و النہایه )
صحابی رسول حضرت جابر بن عبدللہ فرماتے ہیں کہ
میں نے حسین سے گفتگو کی اور کہا کہ خدا سے ڈرو اور آدمیوں کو آدمیوں سے نہ مرواؤ (صفحہ 163 جلد 8 البدایه و النہایه)
خود حضرت حسین کے سوتیلے بھائی محمّد بن علی (ابن الخنیفہ) اور ان کے بہنوئی حضرت عبدللہ بن جعفر بن ابی طالب نے اس اقدامِ خروج کی شدید مخالفت کی .
یمن کا ایک سرکاری قافلہ امیر المومنین کی خدمت میں یمن کا محاصل لے کر جا رھا تھا حضرت حسین نے اسے گرفتار کر لیا ۔حضرت ابن جعفر نے گورنر مکہ سے تحریر لکھوا کر اپنے دو بیٹوں کو روانہ کیا کہ ۔ آگے نہ بڑھیں اور واپس لوٹ آئیں گورنر مکہ نے اپنے بھائی کو بھی مزید اطمینان دلانے کی غرض سے ساتھ بھیجا تھا اور یقین دلایا تھا کہ ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی مگر حضرت حسین نے واپسی سےانکار کر دیا ادھر سے اصرار اور ادھر سے انکار ھوتا رہا اور حضرت حسین آگے بڑھ گئے ان لوگوں نے بھی بلآخر یہی کہا جو صحابہ اکرام اور ان کے دوسرے عزیز اور ھمدرد ان سے کہتے رہے
اے حسین کیا تم خدا سے نھیں ڈرتے تم جماعت سے خارج ھو رھے ھو اور امت میں تفرقہ ڈال رھے ھو حالانکہ سب ایک بات پر متفق ھو چکے ھیں۔ (جلد 8 صفھ 166 البدایہ والنھایہ)
بیان کیا جاتا ھے کہ حضرت حسین نے جواب دیا کہ میرے لیے میرا عمل اور تمارے لیے تمارا تم میرے عمل سے بری اور میں تمارے عمل سے۔ (ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء ۔ و البدایہ۔)
٭٭٭واپس ۔شیطان نامہ ۔ فہرست ٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں