Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 8 مئی، 2016

بس ڈرائیور کا بیٹا !

معلوم نہیں کہ اِن الفاظ میں تضحیک ہے یا فخر کہ وہ ، لندن میں چلنے والی گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کے ایک بس ڈرائیور کے ہاں پیدا ہوا ، بس ڈرائیور کے ماں باپ ، ہندوستان سے ہجرت کر کے اپنے والدین کے ساتھ پاکستان آئے ۔ یہ وہ دیس تھا جس کو بنانے والے نے قوم کو یہ نعرہ دیا
" مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ " 
جہاں گورے کو کالے پر ، سندھی ، بلوچی ، پٹھان یا پنجابی کو
اردو ، مراٹھی ، میمنی ، کاٹھیاواڑی، مدراسی ، بنگالی اور بہاری پر فوقیت حاصل نہیں ہوگی 
لیکن پاکستان میں ، اُنہیں ہندوستانی ، مکّڑ ، مٹروے اور بھئیے کے نام سے پہچانا جانے لگا ۔وہ پنجابی ، پٹھان ، بلوچی اور سندھ میں رہ کر اجنبی ہی رہے ۔ اسلام نے یہاں کے رہنے والوں کے دلوں میں کوئی رخنہ نہیں ڈالا ، لہذا وہ تمام جن کو کلیم میں صرف مکان ملے تھے زمینیں نہیں وہ اونے پونے اپنے مکان بیچ کر کراچی کی طرف رٗخ کرنے لگے ۔
کیوں کہ کراچی کی مٹی میں وہ شخص دبا تھا جس کی آس و امید پر وہ اپنے پُرکھوں کا دیس چھوڑ کر صرف اُسے ووٹ دے کر مغربی پاکستان آئے ۔
کراچی نے انہیں ماں کی گود فراہم کی ، لیکن مہاجروں کے علاوہ یہاں پٹھان اور پنجابی بھی آنے لگے ، سندھی تو اسے اپنا شہر سمجھتے تھے ۔
بس ڈرائیور دیگر نوجوانوں کی طرح رزق کی تلاش میں انگلینڈ آگیا ۔ وہاں وہ بس ڈرائیور لگ گیا
 5 مئی 2016 کو پاکستانی اخبارات ،
پاکستانی بس ڈرائیور کا بیٹا ،
پاکستانی بس ڈرائیور کا بیٹا ،
پاکستانی بس ڈرائیور کا بیٹا،
لیبر پارٹی کی طرف سے زیک گولڈ سمتھ ، عمران خان کا سالا ، جمائما کا بھائی کے مقابلے میں لندن کے میئر کا انتخاب لڑ رہا ہے ۔
ایک طرف بڑے باپ کا بیٹا اور دوسری طرف بس ڈرائیور کا بیٹا 
پاکستانی سمجھ رہے تھے ، کہ یہ بھی کراچی طرز کا کوئی الیکشن ہے جہاں ، ہمدردی کے ووٹ لینے کے لئے ایک رکشے والے یا پان والے کو ایم پی اے کا پارٹی  ٹکٹ دے کر کامیاب کروایا جاتا ہے ۔
لیکن لندن پاکستان تو نہیں ، جہاں ایسا ہو ، کسی اخبار نے اطلاع دی کہ مہاجر ہے ،
بھئی مہاجر تو وہاں سب ہیں ، تو اِس نے کیا کمال کیا ، لندن ہجرت کر کے ، اگر آج ملکہ برطانیہ اجازت دے تو سارا پاکستان لندن ہجرت کرنے کو تیار ہے ۔
ارے نہیں بھئ ، اِس کا باپ ہندوستانی مہاجر تھا !
اوہ اچھا آ آ آ آ آ آ تو پھر قدیم لندن والے اسے تھوڑا جیتنے دیں گے ، شائد لیبر پارٹی والوں کے پاس فنڈ کی کی ہو اسی لئے فنڈ اکٹھا کرنے کے لئے ، بس ڈرائیور کے معمولی بیٹے کو ٹکٹ دیا ہو ۔
الیکشن ہوا ، 12 امیدواروں میں سے دو امید واروں نے سب سے زیادہ ووٹ لئے اور صادق خان پہلے نمبر پر رہا ۔
انگریز کو پیسے لٹانے کا بہت شوق ہوتا ہے ۔ پہلے نمبر پر آنے والے امیدوار نے 44 اعشاریہ 2 فیصد ووٹ لئے اور دوسرے نمبر پر آنے والے نے 35 فیصد ووٹ لئے یوں پہلا امیدوار 10 اعشاریہ 8 فیصد ووٹ لے کر جیت گیا ،
مگر شائد دھاندلی کی وجہ سے لیکن انگریز کہتے ہیں کہ 50 فیصد سے کم ووٹوں کو ہم مانتے ہی نہیں ، اب دوسرے 11 امیدواروں کو جو ووٹ پڑے ہیں وہ لوگ اب ان دونوں امید وار میں سے کسی ایک کو یا دونوں کو 50، 50 فیصد یا اس سے زیادہ ووٹ دیں ۔
چنانچہ ، اب باقی 20 اعشاریہ 8 فیصد ووٹ ڈالیں گے ، تو جناب ، اپنے سالے کو جتوانے کے لئے ، عمران خان نیازی بھاگم بھاگ لندن پہنچے ۔ اور جب نتیجہ نکلا تو :

بس ڈرائیور کے ہونہار لندن سے وکالت کی تعلیم حاصل کرنے والے بیٹے نے میئر لندن کا حلف اٹھا لیا ۔ بس ڈرائیور کا یہ بیٹا اپنی ہی ایک ہم عصر وکیل خاتون کا 1994 سے شوہر ہے  اور دو پیاری پیاری بیٹیوں کا باپ ہونے کے علاوہ ، انگریزوں کے ہاں سن آف سوائیل مانا جاتا ہے ۔ مہاجر نہیں !
ارے ہاں ، بس ڈرائیور کا یہ ہونہار اور قابلِ فخر سپوت ،وزیر اعظم  گورڈن براؤن کی وزارت میں اقلیتی امور کا منسٹر آف سٹیٹ تھا ، پھر منسٹر آف سٹیٹ ٹرانسپورٹ ہو گیا ۔ پھر وزیر اعظم  گورڈن براؤن کے ہٹنے کے بعد ، ملی بینڈ کی شیڈو کیبنٹ میں شیڈو سیکریٹری آف سٹیٹ برائے انصاف ، شیڈو لارڈ چانسلر اور شیڈو منسٹر فار لندن رہا ۔ 2013 میں اِس نے خواہش ظاہر کی کہ وہ ، لندن کے میئر کا انتخاب لڑے گا !




مہاجرزادہ بمقابلہ سن آف سوائل !  ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭  جاری ہے 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔