قسط نمبر 14 - یزید کا کردار اور شخصیت .
حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی:
امیر یزید کا ولی عہد اور اس کے بعد خلیفہ منتحب ہونا پوری امت کی رضا مندی سے ہوا اور یہ رضا مندی ملت اسلامیہ کا تقاضا تھا نہ کے کسی خوف اور لالچ کی وجہ سے ان کا انتخاب کوئی اندرونی اختلال یا وقتی حادثہ نہ تھا بلکہ امن کے بہترین زمانے میں جبکہ جذبات میں کوئی ہیجان نہ تھا تمام صحابہ اکرام کی تائید سے ہوا تھا اور رسول الله کےساتھی اور اہل بیت اس پر قائم رہے .عالم اسلامی کے ہر ہر علاقہ سے لوگوں نے آ کر بیعت کی اور ہر جگہ کے وفود بیعت کے لئے امیر یزید کے پاس حاضر ہے.(صفحہ 80 جلد 8 البدایه و النہایه ).
شیطان:
امیر یزید کی ولی عہدی سے پہلے کبھی اس اہتمام سے بیعت نہیں لی گئی تھی.ملت اسلامیہ کے گوشہ گوشہ سے ہر علاقہ کے لوگوں نے اس قریشی نوجوان کی بیعت کی جو اپنی صلاحیتوں اور خدمات ملیہ کے کار ہاۓ نمایاں کی وجہ سے ملت کا محبوب تھا
ہم عصر حضرات کو جن میں کثیر تعداد صحابہ اکرام اور تابعین کی تھی امیر یزید کی شخصیت اور سیرت و کردار میں کوئی ایسی خامی نظر نہیں آتی تھی جس کی وجہ سے بیعت خلافت نا جائز ٹھہرے یا بیعت کے بعد ان کے خلاف خروج اور مخالفت کا کوئی جواز نکالا جا سکے.
رجب ہجری 60 میں جب امیر المومنین معاویہ کی وفات کی خبر مکہ شریف پہنچی تو حضرت حسین کے چچا حضرت عبدللہ بن عباس وہاں موجود تھے -
ابو الحسن احمد بن یحٰیی بن جابر بن داؤد البلازری:مورخ بلا زری نے المداینی کی سند سے حضرت عامر بن مسعود سے روایت کیا ہے کہ وفات کی خبر سن کر ہم حضرت ابن عباس کے پاس گئے اس وقت ان کے پاس کچھ لوگ بیٹھے تھے جب وفات کی خبر ان کو دی گئی تو وہ دیر تک خاموش رہے پھر دعا کی اور فرمایا خدا کی قسم وہ ان جیسے تو نہ تھے جو ان سے پہلے گزر چکے مگر ان کے بعد ان جیسا بھی آنے والا کوئی نہیں اور ان کے فرزند یزید اپنے خاندان کے نیکو کاروں میں سے ہیں تم لوگ اپنی جگہ خاموش رہنا اور اطاعت کرنا اور بیعت کرنا اسی وقت مکہ کے عامل کا قاصد آیا حضرت ابن عباس گئے اور بیعت کی .
(صفحہ 4 النساب و الاشراف بلا ذری .یروشلم.
ابن قتیبہ دینوری- الامامہ و السیاسہ صفحہ 213 پہلا اڈیشن 1937 )
حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی: تاریخ شاہد ہے کہ حضرت عبدللہ بن عباس بلا ناغہ ہر سال دمشق جاتے اور مہینوں وہاں قیام کرتے وہ امیر یزید کے حالات اور کردار سے بخوبی واقف تھے اور اپنی اس ذاتی واقفیت کی بنا پر انہوں نے امیر یزید کو صالح اور نیک و کار بتایا بلا تامل خود بھی بیعت کی اور دوسروں کو بھی بیعت کی ترغیب دی.
اس طرح حضرت علی کے صاحب زادے حضرت محمّد بن الحنفیہ نے جو اپنے علم و فضل میں شان امتیاز رکھتے تھے انہوں نے بھی امیر یزید کی نیک و کاری صوم و صلات کی پابندی اور سنت نبوی کی پیروی کرنے کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے کہ
میں امیر یزید کے پاس گیا اور ان کے پاس مقیم رہا .ان کو نماز کی پابندی کرنے والا ، نیک کاموں میں سر گرم ، مسائل فقہ پر گفتگو کرنے والا اور سنت نبوی کی پیروی کرنے والا پایا .(صفحہ 233 جلد 8 البدایه و النہایہ)
روایت احادیث .امیر یزید تابعین میں سے تھے اپنے والد کے علاوہ بہت بڑے بڑے صحابہ اکرام سے فیض حاصل کیا حضرت وجبه الکلبی سفیر رسول الله ، جن کی حقیقی بہن آپ کے نکاح میں تھیں نیز حضرت ابو الدردا اور حب رسول اسامہ بن زید اور دیگر صحابہ اکرام سے قران و حدیث کی تعلیم لی. اور آپ کئی ایک حدیثوں کے راوی بھی ہیں ،آپ نے اپنے والد اور حضرت ابو ایوب انصاری سے احادیث روایت کی ہیں.
ابو زر عہ دمشقی نے بیان کیا ہے کہ یزید سے احادیث مروی ہیں.(صفحہ 227 جلد 8 البدایه و النہایه )
حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی:
امیر یزید کا ولی عہد اور اس کے بعد خلیفہ منتحب ہونا پوری امت کی رضا مندی سے ہوا اور یہ رضا مندی ملت اسلامیہ کا تقاضا تھا نہ کے کسی خوف اور لالچ کی وجہ سے ان کا انتخاب کوئی اندرونی اختلال یا وقتی حادثہ نہ تھا بلکہ امن کے بہترین زمانے میں جبکہ جذبات میں کوئی ہیجان نہ تھا تمام صحابہ اکرام کی تائید سے ہوا تھا اور رسول الله کےساتھی اور اہل بیت اس پر قائم رہے .عالم اسلامی کے ہر ہر علاقہ سے لوگوں نے آ کر بیعت کی اور ہر جگہ کے وفود بیعت کے لئے امیر یزید کے پاس حاضر ہے.(صفحہ 80 جلد 8 البدایه و النہایه ).
شیطان:
امیر یزید کی ولی عہدی سے پہلے کبھی اس اہتمام سے بیعت نہیں لی گئی تھی.ملت اسلامیہ کے گوشہ گوشہ سے ہر علاقہ کے لوگوں نے اس قریشی نوجوان کی بیعت کی جو اپنی صلاحیتوں اور خدمات ملیہ کے کار ہاۓ نمایاں کی وجہ سے ملت کا محبوب تھا
ہم عصر حضرات کو جن میں کثیر تعداد صحابہ اکرام اور تابعین کی تھی امیر یزید کی شخصیت اور سیرت و کردار میں کوئی ایسی خامی نظر نہیں آتی تھی جس کی وجہ سے بیعت خلافت نا جائز ٹھہرے یا بیعت کے بعد ان کے خلاف خروج اور مخالفت کا کوئی جواز نکالا جا سکے.
رجب ہجری 60 میں جب امیر المومنین معاویہ کی وفات کی خبر مکہ شریف پہنچی تو حضرت حسین کے چچا حضرت عبدللہ بن عباس وہاں موجود تھے -
ابو الحسن احمد بن یحٰیی بن جابر بن داؤد البلازری:مورخ بلا زری نے المداینی کی سند سے حضرت عامر بن مسعود سے روایت کیا ہے کہ وفات کی خبر سن کر ہم حضرت ابن عباس کے پاس گئے اس وقت ان کے پاس کچھ لوگ بیٹھے تھے جب وفات کی خبر ان کو دی گئی تو وہ دیر تک خاموش رہے پھر دعا کی اور فرمایا خدا کی قسم وہ ان جیسے تو نہ تھے جو ان سے پہلے گزر چکے مگر ان کے بعد ان جیسا بھی آنے والا کوئی نہیں اور ان کے فرزند یزید اپنے خاندان کے نیکو کاروں میں سے ہیں تم لوگ اپنی جگہ خاموش رہنا اور اطاعت کرنا اور بیعت کرنا اسی وقت مکہ کے عامل کا قاصد آیا حضرت ابن عباس گئے اور بیعت کی .
(صفحہ 4 النساب و الاشراف بلا ذری .یروشلم.
ابن قتیبہ دینوری- الامامہ و السیاسہ صفحہ 213 پہلا اڈیشن 1937 )
حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی: تاریخ شاہد ہے کہ حضرت عبدللہ بن عباس بلا ناغہ ہر سال دمشق جاتے اور مہینوں وہاں قیام کرتے وہ امیر یزید کے حالات اور کردار سے بخوبی واقف تھے اور اپنی اس ذاتی واقفیت کی بنا پر انہوں نے امیر یزید کو صالح اور نیک و کار بتایا بلا تامل خود بھی بیعت کی اور دوسروں کو بھی بیعت کی ترغیب دی.
اس طرح حضرت علی کے صاحب زادے حضرت محمّد بن الحنفیہ نے جو اپنے علم و فضل میں شان امتیاز رکھتے تھے انہوں نے بھی امیر یزید کی نیک و کاری صوم و صلات کی پابندی اور سنت نبوی کی پیروی کرنے کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے کہ
میں امیر یزید کے پاس گیا اور ان کے پاس مقیم رہا .ان کو نماز کی پابندی کرنے والا ، نیک کاموں میں سر گرم ، مسائل فقہ پر گفتگو کرنے والا اور سنت نبوی کی پیروی کرنے والا پایا .(صفحہ 233 جلد 8 البدایه و النہایہ)
روایت احادیث .امیر یزید تابعین میں سے تھے اپنے والد کے علاوہ بہت بڑے بڑے صحابہ اکرام سے فیض حاصل کیا حضرت وجبه الکلبی سفیر رسول الله ، جن کی حقیقی بہن آپ کے نکاح میں تھیں نیز حضرت ابو الدردا اور حب رسول اسامہ بن زید اور دیگر صحابہ اکرام سے قران و حدیث کی تعلیم لی. اور آپ کئی ایک حدیثوں کے راوی بھی ہیں ،آپ نے اپنے والد اور حضرت ابو ایوب انصاری سے احادیث روایت کی ہیں.
ابو زر عہ دمشقی نے بیان کیا ہے کہ یزید سے احادیث مروی ہیں.(صفحہ 227 جلد 8 البدایه و النہایه )
یزید کے بیٹے
مراسیل ابو داود میں ان سے روایت ہے کہ امیر یزید سے ان کے بیٹوں معاویہ بن یزید ، عبد الرحمن بن یزید ، اور خالد بن یزید نے بھی حدیث کی روایت کی ہے ، محدثین نے یزید کے ان تینوں بیٹوں کو صالحین میں شمار کیا ہے (تہذیب جلد 6 صفحہ 300)ابن قتیبہ دینوری- الامامہ و السیاسہ
حضرت ابو زرعہ فرماتے ہیں کہ یہ تینوں فرنداں یزید امت کے صالحین میں سے تھے .
امیر یزید کی علمی فضیلت اور قرات قران ، حدیث اور فقہ سے اچھی واقفیت کا ذکر الامامہ والسیاسہ کے غالی مولف نے بھی کیا ہے جو ان کے والد کی تقریر میں ہے . (جلد 1 صفحہ 198 )
پھر اس مورخ نے یہ بھی لکھا ہے حضرت حسین نے جب اپنی تقریر میں یزید سے اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے اپنی ماں اور باپ اور اپنی ذاتی فضیلت کا ذکر چھیڑا تو حضرت معاویہ نے ان سے فرمایا کہ
" تمھاری والدہ تو رسول الله کی صاحب زادی تھیں یزید کی ماں کو ان سے کیا نسبت .ان کے مقام تک کوئی نہیں پہنچ سکتا ،البتہ تمارے والد اور یزید کے باپ کے معاملہ میں الله پاک نے یزید کے باپ کے حق میں فیصلہ کر دیا.اے حسین اپنی ذاتی فضیلت کا جو تم ذکر کرتے ہو قسم خدا کی امت محمدیہ کے معاملات اور مسائل حل کرنے میں یزید تم سے بہتر ہے" ۔ (جلد 1 صفہ 198)
امیر یزید نے نہ صرف جنگی اور جہادی مہموں میں نمایاں حصہ لیا بلکہ سالہا سال تک سیاسی معاملات اور کاروبار سلطنت و خلافت کا عملی تجربہ بھی حاصل کیا
امام شہاب الدین بہ ابن عبد ر بہ متوفی ہجری 327 اپنی مشور کتاب العقد العزیز جلد 2 صفہ 356 سے صفہ 415 میں رسول الله کے خطبہ حجتہ الوداع کے بعد حضرت ابو بکر حضرت عمر ، حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ کے خطبات درج کے ہیں ان ہی خطبات کے ساتھ امیر یزید کے چند خطبے شامل ہیں جو انہوں نے امیر المومنین ہونے کی حثیت سے جمعہ اور عید کی نمازوں میں دیے.اور ان کے مطالہ سے پتہ چلتا ہے کہ امیر یزید کس پاۓ کہ عالم اور مقرر تھے کلام الله سے آیتیں ہی نہیں پوری پوری سورتیں تلاوت کر کے سامعین کے قلوب کو گرماتے تھے.اس زمانے میں لوگ بہت خوش حال تھے اور مال و دولت کی فراوانی تھی اس لئے ضروری تھا کہ امیر المومین لوگوں کو عیش پرستی سے اجتناب پر نصحتیں کرتے .اگر ان خطبوں کو یہاں نقل کیا جاۓ تو ایک دفتر کھل جایگا ،صاحب العقد نے ایک خطبہ کے یہ الفاظ تقل کے ہیں.
خطبہ یزید بحثیت امیر المومنین .
سب تعریف الله کے لئے ہے اسی کی میں حمد کتا ہوں اور اسی سے مدد مانگتا ہوں اسی پر ایمان لایا ہوں اور اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور اپنے نفس کی شرارت اور برے اعمال سے پناہ مانگتا ہوں ، جسے الله گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں اور جسے ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ الله کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور تحقیق حضرت محمّد اس کے بندے اور رسول ہیں .اپنی وحی کے لئے الله نے ان کو منتخب کیا اور اپنی رسالت اور کتاب اور فضل سے نوازا انھیں معزز و مکرم کیا ان کی مدد کی اور ان کی حفاظت کی . اسی قران میں مثالیں بیان فرمائی ہیں ہلال و حرام کو وضح کیا ہے دین کے معاملات بیان کے ہیں آخرت کی جزا و سزا کو بیان کیا ہے تا کہ رسولوں کے بعد کوئی حجت نہ رہے. اور قوم عابدین تک یہ کتاب پہنچے .
اے لوگو میں تم کو خدا بزرگ و بر تر کی طرف سے تقوے کی وصیت کرتا ہوں جس نے اپنے امور کی ابتدا اپنے علم سے فرمائی اور اسی کی طرف ہم سب کو لوٹ کر جانا ہے ، میں تمہیں دنیا سے ڈراتا ہوں ، دنیا دیکھنے میں سر سبز اور مزے میں شیریں ہے اور خواہشوں سے بھری ہے تھوڑے پر قناعت نہیں کرتی فانی چیزوں سے انس رکھتی ہے اور جلد بازی سے محبت کرتی ہے اور یہ نعمتیں ہمیشہ رہنے والی نہیں اس کے حوادث سے امن نہیں ہے اور اس موزی فریب دینے والی کو ایک حال پر قرار نہیں ، دنیا سے محبت رکھنے والوں کے لئے دنیا باقی نہیں رہتی اور ان سے راضی رہتی ہے اور الله پاک نے فرمایا اے نبی ان لوگوں سے دنیوی زندگی کی حالت بیان فرما دیجے کہ وہ ایسی ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کے زریے سے زمین کی نباتات گنجان ہو گئیں پبر وہ ریزہ ریزہ ہو جاۓ اور اس کو ہوا اڑے لئے پھرتی ہو اور الله پاک ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہےہم اپنے رب سے التجا کرتے ہیں اور اپنے خالق سے زاری کرتے ہوے اپیل کرتے ہیں کہ اے الله ہمیں اس دن (قیامت) کے خوف سے امن دے . اے لوگو بہترین کتاب اور ا علا نصیحت الله کی کتاب ہے اور الله فرماتا ہے جب قران پڑھا جاۓ تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو تا کہ تم پر رحم کیا جاۓ پھر اس کے بعد سورہ انفال کے نوے سپارے کی آیات تلاوت کر کے تفسیر بیان کی اور سننے والوں کو نصیحتیں کیں .
شرح نہج البلاغہ
جلد 2 صفحہ 824 ، 825 ابن ابی الحدید میں لکھا ہے کہ یزید بن معاویہ خطیب اور شاعر تھا زبان اعرابی اور لہجہ بدوی تھا.
ابن حجر عسقلانی
تہذیب التہذیب میں ابن حجر نے امیر یزید کے فرزند عبد الرحمن کا ذکر حدیث کے مستند راویوں میں کیا ہے اور محدث ابن حبان نے ان کو ثقہ اور مستند راوی قرار دیا ہے .مراسیل ابو داود میں ان سے روایت ہے کہ امیر یزید سے ان کے بیٹوں معاویہ بن یزید ، عبد الرحمن بن یزید ، اور خالد بن یزید نے بھی حدیث کی روایت کی ہے ، محدثین نے یزید کے ان تینوں بیٹوں کو صالحین میں شمار کیا ہے (تہذیب جلد 6 صفحہ 300)ابن قتیبہ دینوری- الامامہ و السیاسہ
حضرت ابو زرعہ فرماتے ہیں کہ یہ تینوں فرنداں یزید امت کے صالحین میں سے تھے .
امیر یزید کی علمی فضیلت اور قرات قران ، حدیث اور فقہ سے اچھی واقفیت کا ذکر الامامہ والسیاسہ کے غالی مولف نے بھی کیا ہے جو ان کے والد کی تقریر میں ہے . (جلد 1 صفحہ 198 )
پھر اس مورخ نے یہ بھی لکھا ہے حضرت حسین نے جب اپنی تقریر میں یزید سے اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے اپنی ماں اور باپ اور اپنی ذاتی فضیلت کا ذکر چھیڑا تو حضرت معاویہ نے ان سے فرمایا کہ
" تمھاری والدہ تو رسول الله کی صاحب زادی تھیں یزید کی ماں کو ان سے کیا نسبت .ان کے مقام تک کوئی نہیں پہنچ سکتا ،البتہ تمارے والد اور یزید کے باپ کے معاملہ میں الله پاک نے یزید کے باپ کے حق میں فیصلہ کر دیا.اے حسین اپنی ذاتی فضیلت کا جو تم ذکر کرتے ہو قسم خدا کی امت محمدیہ کے معاملات اور مسائل حل کرنے میں یزید تم سے بہتر ہے" ۔ (جلد 1 صفہ 198)
امیر یزید نے نہ صرف جنگی اور جہادی مہموں میں نمایاں حصہ لیا بلکہ سالہا سال تک سیاسی معاملات اور کاروبار سلطنت و خلافت کا عملی تجربہ بھی حاصل کیا
امام شہاب الدین بہ ابن عبد ر بہ متوفی ہجری 327 اپنی مشور کتاب العقد العزیز جلد 2 صفہ 356 سے صفہ 415 میں رسول الله کے خطبہ حجتہ الوداع کے بعد حضرت ابو بکر حضرت عمر ، حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ کے خطبات درج کے ہیں ان ہی خطبات کے ساتھ امیر یزید کے چند خطبے شامل ہیں جو انہوں نے امیر المومنین ہونے کی حثیت سے جمعہ اور عید کی نمازوں میں دیے.اور ان کے مطالہ سے پتہ چلتا ہے کہ امیر یزید کس پاۓ کہ عالم اور مقرر تھے کلام الله سے آیتیں ہی نہیں پوری پوری سورتیں تلاوت کر کے سامعین کے قلوب کو گرماتے تھے.اس زمانے میں لوگ بہت خوش حال تھے اور مال و دولت کی فراوانی تھی اس لئے ضروری تھا کہ امیر المومین لوگوں کو عیش پرستی سے اجتناب پر نصحتیں کرتے .اگر ان خطبوں کو یہاں نقل کیا جاۓ تو ایک دفتر کھل جایگا ،صاحب العقد نے ایک خطبہ کے یہ الفاظ تقل کے ہیں.
خطبہ یزید بحثیت امیر المومنین .
سب تعریف الله کے لئے ہے اسی کی میں حمد کتا ہوں اور اسی سے مدد مانگتا ہوں اسی پر ایمان لایا ہوں اور اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور اپنے نفس کی شرارت اور برے اعمال سے پناہ مانگتا ہوں ، جسے الله گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں اور جسے ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ الله کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور تحقیق حضرت محمّد اس کے بندے اور رسول ہیں .اپنی وحی کے لئے الله نے ان کو منتخب کیا اور اپنی رسالت اور کتاب اور فضل سے نوازا انھیں معزز و مکرم کیا ان کی مدد کی اور ان کی حفاظت کی . اسی قران میں مثالیں بیان فرمائی ہیں ہلال و حرام کو وضح کیا ہے دین کے معاملات بیان کے ہیں آخرت کی جزا و سزا کو بیان کیا ہے تا کہ رسولوں کے بعد کوئی حجت نہ رہے. اور قوم عابدین تک یہ کتاب پہنچے .
اے لوگو میں تم کو خدا بزرگ و بر تر کی طرف سے تقوے کی وصیت کرتا ہوں جس نے اپنے امور کی ابتدا اپنے علم سے فرمائی اور اسی کی طرف ہم سب کو لوٹ کر جانا ہے ، میں تمہیں دنیا سے ڈراتا ہوں ، دنیا دیکھنے میں سر سبز اور مزے میں شیریں ہے اور خواہشوں سے بھری ہے تھوڑے پر قناعت نہیں کرتی فانی چیزوں سے انس رکھتی ہے اور جلد بازی سے محبت کرتی ہے اور یہ نعمتیں ہمیشہ رہنے والی نہیں اس کے حوادث سے امن نہیں ہے اور اس موزی فریب دینے والی کو ایک حال پر قرار نہیں ، دنیا سے محبت رکھنے والوں کے لئے دنیا باقی نہیں رہتی اور ان سے راضی رہتی ہے اور الله پاک نے فرمایا اے نبی ان لوگوں سے دنیوی زندگی کی حالت بیان فرما دیجے کہ وہ ایسی ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کے زریے سے زمین کی نباتات گنجان ہو گئیں پبر وہ ریزہ ریزہ ہو جاۓ اور اس کو ہوا اڑے لئے پھرتی ہو اور الله پاک ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہےہم اپنے رب سے التجا کرتے ہیں اور اپنے خالق سے زاری کرتے ہوے اپیل کرتے ہیں کہ اے الله ہمیں اس دن (قیامت) کے خوف سے امن دے . اے لوگو بہترین کتاب اور ا علا نصیحت الله کی کتاب ہے اور الله فرماتا ہے جب قران پڑھا جاۓ تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو تا کہ تم پر رحم کیا جاۓ پھر اس کے بعد سورہ انفال کے نوے سپارے کی آیات تلاوت کر کے تفسیر بیان کی اور سننے والوں کو نصیحتیں کیں .
الجاحظ، البيان والتبيين
امیر یزید خطباۓ قریش میں امتیازی شان رکھتے تھے کہ الخطیب الاشدق ان کا لقب پٹر گیا تھا یعنی بر جستہ اور زور کی تقریر کرنے والے . حضرت سعید المسیب سے دریافت کیا گیا قریش میں رسول الله کے بعد بڑا خطیب کون ہوا ہے تو آپ نے چار نام لئے اور ان میں معاویہ اور ان کے بیٹے یزید کا نام بھی شامل تھا(صفحہ 202 جلد 1 البیان و التبین )شرح نہج البلاغہ
جلد 2 صفحہ 824 ، 825 ابن ابی الحدید میں لکھا ہے کہ یزید بن معاویہ خطیب اور شاعر تھا زبان اعرابی اور لہجہ بدوی تھا.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں